یونس عارف
محفلین
مشہد ایک چھوٹے گاؤں سے ایران کےدوسرے بڑے شہر ہونے تک
بارہ سو برس قبل مشہد ایک چھوٹا سا گاؤں تھا خراسان کے صوبے میں اس کے نزدیک ،20 کلومٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا جس کا نام طوس تھااب طوس اور مشہد تقریبا ایک ہی شہر بن چکے ہیں۔
تاریخی حوالے سے خراسان ایران کا ایک اہم اور قدیم صوبہ تھا۔ اس میں وہ پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور ، مرو ، ہرات اور بلخ اس صوبے کے دارالحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حدود میں شامل ہے۔
نیشابور ، ایران کا ایک قدیم شہر صوبہ خراسان کا پہلے صدر مقام بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے جس میں خیام رہ رہے تھے ۔
سناباد یا نوغان اس گاؤں کا نام ہے جو اب مشہد بن گیا ہے اور مشہد کے ایک محلے کا نام بھی ہے بڑے ہوتے ہوئے اس میں کئی ایک گاؤں شامل ہوگئے ۔
عباسی دور مین صوبہ خراسان کے اس گاؤں میں امام علی رضا (ع) کی شہادت ہوئی۔ اسی شہادت کی مناسبت سے طوس کا یہ علاقہ مشہد کے نام سے مشہور ہوگیا۔ مشہد کا مطلب ہے جائے مدفن شہید اور اسی مناسبت سے اسے مشہد الرضا کہا جاتا ہے۔
لیکن حضرت امام رضا(ع) خراسان کیوں آگئے ؟ اس بات کی وضاحت کے لیے تاریخ میں ایسا لکھا گیا ہے کہ شیعوں کا آٹھویں امام حضرت امام رضا (ع) اپنے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم(ع)کی بغداد کے زندان میں شھادت کے بعد سن 183 ھ ق میں امامت پر فائض ہوئے ۔
آنحضرت اپنے دور امامت میں اٹھارہ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھے اور اس دوران ھارون رشید اور اسکے دو بیٹوں امین اور مامون کی غاصبانہ خلافت کے بھی شاھد رہے اور سن 200 ھ ق کو مامون نے امام کو خراسان (ایران) آکر اسکی حکومت میں شریک ہونے کی دعوت دی ۔
جس طرح مامون عباسی سے نقل کیا جارہا ہے کہ اس نے نذر کی تھی کہ اگر اپنے بھائی امین کے ساتھ جنگ میں کامیاب ہوکر خلافت کو پہنچا تو حکومت ان کے حقدار کو یعنی آل ابیطالب (ع) کے افضل ترین شخص کے تحویل میں دے گا ۔(1)
جب سن 198 ھ ق کو اپنے بھائی پر غالب آیا اور بغداد کو فتح کر کے عالم اسلام پر حاکم ہوا تو اس نے چاہا اپنے نذر کا وفا کرے اور اس ضمن میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کو آل ابی طالب (ع) میں سے افضل ترجانا ۔ وہ کہتا تھا کہ: ما اعلم احدا افضل من ھذا الرّجل علي وجہ الارض؛ میں روی زمین پر اس شخص (امام علی بن موسی الرضا (ع) سے بڑ کر کسی کو بہتر اور با فضیلت نہیں جانتا۔(2)
اس طرح اس نے اپنے سرداروں میں سے " رجاء بن ابی ضحاک " نامی سردار کو عیسی جلودی کے ساتھ مدینہ روانہ کیا تاکہ امام رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کا دعوت دیں ۔(3)
امام رضا علیہ السلام چونکہ بنی عباسی خلیفوں کی مکر و فریب سے بخوبی واقف تھے اس لئے دعوت قبول کرنے سے اجتناب کیااور "مرو " ( مامون کا دار الخلافہ) جانے سے مدینہ میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔
مگر مامون کے اصرار کے سامنے کچھ نہ چلی اور ناچار دعوت کو قبول کیا ۔ آنحضرت نے اپنے جد رسول خدا(ص) اور جنت البقیع میں اپنے بزگوں کی قبروں خاص کر والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کو الوداع کیا اور اپنے چھوٹے فرزند حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دے کر مامون کے کارندوں اور اپنے چند دوستوں اور علویوں کے ھمراہ خراسان کی طرف روانہ ہوے ۔
جب امام رضا علیہ السلام " مرو " پہنچے تو لوگوں کی طرف سے از جملہ فقھا ۔ دانشمندوں ، شاعروں ۔ درباریوں اور خود مامون کی طرف سے بے نظیر اور والہانہ استقبال ہوا ۔
مامون نےاستقبال اور خاطر داری کے بعد امام رضا علیہ السلام سے کہا : میں خلافت سے کنار ہوکے خلافت کو آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ اس کو قبول کر لیں گے ؟
امام رضا علیہ السلام نے انکار کیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ کہتا ہے عملا ایسا کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس طرح امام کو آزمامانا چاہتا تھا اور اگر حکومت کو امام (ع) کے حوالے کر بھی لیتا کچھ مدت بعد ان کو حکومت سے برکنار کرلیتا اور خود دوبارہ حکومت کو ہاتھ میں لے کر اپنی غاصب حکومت کو جائز بنادیتا ۔اور دوسری طرف علوی اور غیر علویوں کی طرف سے جہان اسلام میں جو بغاوت کی لہر دوڑ رہی تھی ، اسکو خاموش کرانے کیلئے امام رضا علیہ السلام کاسہارا لینا اس کیلئے ناگزیر تھاتاکہ انہیں عباسی خلافت کو قبول کروالے زیر کے سکے ۔
امام رضا علیہ السلام چونکہ اسکی اصلی نیت سے با خبر تھے اس لئے کسی بھی صورت میں خلافت کو قبول نہیں کیا ۔ مامون نے پھر ایک بار ولی عھدی قبول کرنے کی دعوت دی لیکن امام (ع) نے قبول نہیں کیا ۔ مگر اس بار مامون نے امام رضا(ع) کا استنکاف قبول نہیں کیا اور کہا کہ ولی عھدی قبول کرنا زبردستی اور حتمی ہے اس سے راہ فرار نہیں ہے ۔ آخر کار امام رضا علیہ السلام کیلئے ولی عھدی کو قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا ۔ آنحضرت نے حکومت میں شریک نہ رہنے کیلئے عوام سے اپنے لئے بیعت حاصل کی ۔ اسکے بعد عباسیوں کے کالے کپڑے سبزرنگ میں جوکہ علویوں کا رنگ ہے تبدیل ہوگیا ۔ عباسیوں کے کالے رنگ کے جھنڈے علوی سبز رنگ میں تبدیل ہوگئے۔ آنحضرت کے نام کا سکہ جاری ہوا اور خطبوں میں انکی تجلیل اور تکریم ہونے لگی ۔
لیکن جو حکومت کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کروایا کیا رسول خدا(ص) کے نواسے کو حکومت دیتا ہے
وہ آخر امام(ع) کی جان لینے کے درپے ہوگیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین علیہ السّلام کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام علیہ السّلام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 71صفر 302ھ میں حضرت علیہ السّلام نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت علیہ السّلام کا روضہ ہے وہیں اپنے وقت کا بزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔
مشہدِ مقدس اور قُم ایران کے دو ایسے شہر ہیں جنہیں دنیائے شیعت میں مکّہ، مدینہ، نجفِ اشرف اور کربلا کے بعد اہم ترین زیارات تصور کیا جاتا ہے اور یہاں صدیوں سے سال بھر ساری دنیا سے آنے والے زائرین کا ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ایک سرکاری اندازے کے مطابق سال بھر میں دو کروڑ سے زیادہ زائرین مشہدِ مقدس میں آتے ہیں۔
ایران میں آنی والی حکومتیں طاہریاں، صفاریاں ،سامانیاں ،سلجوقی سلطنت اور خوارزمشاہیاں کے دور میں رفتہ رفتہ مشہد الرضا کی اہمیت بڑھنے لگی خاص طور پر سلجوقی دور میں
سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے ۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
خوارزمشاہیاں کے دور میں چنگیز خان کے یلغار شروع ہوا چنگیز خان نے اپنے آپ کو منگول سلطنت کاحاکم ایلان کیا۔
اورخراسان حملہ کیا انسانی تاریخ میں اتنی وسیع تباہی اورخرابی کوئی دوسری نہیں ملتی۔
چنگیز خان اور ہلاکو خان کے یلغار کے بعد خراسان کے شہروں میں ویرانی بری طرح پھیل گئی
ہلاکو خان کی اولاد جا ایران اور عراق پر حکمران رہی مسلمان ہو گئے۔
سنہ 737 ہجری قمری کو ایران کے خراسان میں منگول حکمرانوں کے خلاف سربداران تحریک کامیاب ہوئی اور اسی نام سے پہلی بار ایران میں ایک شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی گئی ۔سربداران ایک گروہ تھا جس نے منگولوں کے ظلم و ستم کے خلاف تحریک شروع کی ۔ان افراد کی قیادت شیخ خلیفہ ، شیخ حسن جوری اور عبدالرزاق جیسے مجاہد علماء نے کی ۔تحریک چلانے والوں کا نعرہ یہ تھا کہ یا ظالم کو ختم کردیں گے یا دار پر چڑھ جائیں گے ذلت قبول نہیں کریں گے اسی بنا پر ان کا نام سربداران پڑگیا ۔
سربداران نے تقریبا" نصف صدی تک ایران کے شمال مشرقی علاقوں پر حکومت کی ۔ اس عرصے مشہد اور سبزوار مین رونق آگئی
آخر کار تیمور گورگانی نے سنہ 788 ہجری قمری میں ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ تیمور نے سربداروں کو فنا کیا۔ 85۔ 1384ء میں ستر ہزار انسانوں کے قتل کے بعد اس مہم کا خاتمہ ہوا۔
تیموریاں کے بعد صفوی سلطنت وجود میں آگئی ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد جو سب سے بڑی حکومت قائم ہوئی وہ 1501ء سے 1722ء تک قائم رہنے والی صفوی سلطنت تھی۔ جس نے تیموریوں کے بعد ایران میں عروج حاصل کیا. اس حکومت کا بانی شاہ اسماعیل ایک بزرگ شیخ اسحاق صفی الدین (متوفی 1334ء) کی اولاد میں سے تھا چنانچہ انہی بزرگ کی نسبت سے یہ خاندان صفوی کہلاتا ہے ۔
شاہ اسماعیل نے شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور عباس اعظم نے ایران کے وسط میں اصفہان کو دارالسلطنت بنایا۔عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو "اصفہان نصف جہان" کہنے لگے۔ اس زمانے میں اصفہان کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی جو قسطنطنیہ اور قاہرہ کو چھوڑ کر اس زمانے کے کسی شہر میں نہیں تھیں۔ اس دور میں مشہد بڑی تیزی سے پھلنے پھولنے لگا
مشہد میں امامِ رضا کے روضےکی صدیوں پرانی اور طویل تاریخ ہے۔ کوئی ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جس کی توسیع اور آرائش کا کام ہر دور حکومت میں ہوتا رہا اور جو اب بھی جاری ہے۔
مشہد کی آبادی 2500000 تک پہنچ گئی ہے تہران سے روزانہ کوئی پندرہ کے قریب پروازیں مشہد جاتی ہیں
پروازوں میں کاروباری لوگوں کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد اُن زائرین کی ہوتی ہے۔
مشہد میں اور بھی بہت سے تاریخی اور تفریحی مقامات ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔ ان میں چند مشہور مقامات درج ذیل ہیں ۔
مسجد جامع گوهرشاد، گنبد خشتی، پير پالان دوز، گنبد سبز، امامزاده ناصر،گنبد هارونیه ،موزه نادر شاه
کلات نادري
مسجد هفتاد و دو تن
مدرسه عباسقلي خان
مصلي مشهد
رباط طرق
بقعه تاريخي امام زاده يحيي
روستاي تاريخي پاژ
ميل اخنگان
رباط فخر داود
گنبد خشتي
1- الارشاد (شيخ مفيد)، ص 602
2- الارشاد (شيخ مفيد)، ص 602
3- تاريخ اليعقوبي، ج2، ص 449؛ الارشاد، ص 600؛ وقايع الايام (شيخ عباس قمي)، ص 24
بارہ سو برس قبل مشہد ایک چھوٹا سا گاؤں تھا خراسان کے صوبے میں اس کے نزدیک ،20 کلومٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا جس کا نام طوس تھااب طوس اور مشہد تقریبا ایک ہی شہر بن چکے ہیں۔
تاریخی حوالے سے خراسان ایران کا ایک اہم اور قدیم صوبہ تھا۔ اس میں وہ پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور ، مرو ، ہرات اور بلخ اس صوبے کے دارالحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حدود میں شامل ہے۔
نیشابور ، ایران کا ایک قدیم شہر صوبہ خراسان کا پہلے صدر مقام بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے جس میں خیام رہ رہے تھے ۔
سناباد یا نوغان اس گاؤں کا نام ہے جو اب مشہد بن گیا ہے اور مشہد کے ایک محلے کا نام بھی ہے بڑے ہوتے ہوئے اس میں کئی ایک گاؤں شامل ہوگئے ۔
عباسی دور مین صوبہ خراسان کے اس گاؤں میں امام علی رضا (ع) کی شہادت ہوئی۔ اسی شہادت کی مناسبت سے طوس کا یہ علاقہ مشہد کے نام سے مشہور ہوگیا۔ مشہد کا مطلب ہے جائے مدفن شہید اور اسی مناسبت سے اسے مشہد الرضا کہا جاتا ہے۔
لیکن حضرت امام رضا(ع) خراسان کیوں آگئے ؟ اس بات کی وضاحت کے لیے تاریخ میں ایسا لکھا گیا ہے کہ شیعوں کا آٹھویں امام حضرت امام رضا (ع) اپنے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم(ع)کی بغداد کے زندان میں شھادت کے بعد سن 183 ھ ق میں امامت پر فائض ہوئے ۔
آنحضرت اپنے دور امامت میں اٹھارہ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھے اور اس دوران ھارون رشید اور اسکے دو بیٹوں امین اور مامون کی غاصبانہ خلافت کے بھی شاھد رہے اور سن 200 ھ ق کو مامون نے امام کو خراسان (ایران) آکر اسکی حکومت میں شریک ہونے کی دعوت دی ۔
جس طرح مامون عباسی سے نقل کیا جارہا ہے کہ اس نے نذر کی تھی کہ اگر اپنے بھائی امین کے ساتھ جنگ میں کامیاب ہوکر خلافت کو پہنچا تو حکومت ان کے حقدار کو یعنی آل ابیطالب (ع) کے افضل ترین شخص کے تحویل میں دے گا ۔(1)
جب سن 198 ھ ق کو اپنے بھائی پر غالب آیا اور بغداد کو فتح کر کے عالم اسلام پر حاکم ہوا تو اس نے چاہا اپنے نذر کا وفا کرے اور اس ضمن میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کو آل ابی طالب (ع) میں سے افضل ترجانا ۔ وہ کہتا تھا کہ: ما اعلم احدا افضل من ھذا الرّجل علي وجہ الارض؛ میں روی زمین پر اس شخص (امام علی بن موسی الرضا (ع) سے بڑ کر کسی کو بہتر اور با فضیلت نہیں جانتا۔(2)
اس طرح اس نے اپنے سرداروں میں سے " رجاء بن ابی ضحاک " نامی سردار کو عیسی جلودی کے ساتھ مدینہ روانہ کیا تاکہ امام رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کا دعوت دیں ۔(3)
امام رضا علیہ السلام چونکہ بنی عباسی خلیفوں کی مکر و فریب سے بخوبی واقف تھے اس لئے دعوت قبول کرنے سے اجتناب کیااور "مرو " ( مامون کا دار الخلافہ) جانے سے مدینہ میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔
مگر مامون کے اصرار کے سامنے کچھ نہ چلی اور ناچار دعوت کو قبول کیا ۔ آنحضرت نے اپنے جد رسول خدا(ص) اور جنت البقیع میں اپنے بزگوں کی قبروں خاص کر والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کو الوداع کیا اور اپنے چھوٹے فرزند حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دے کر مامون کے کارندوں اور اپنے چند دوستوں اور علویوں کے ھمراہ خراسان کی طرف روانہ ہوے ۔
جب امام رضا علیہ السلام " مرو " پہنچے تو لوگوں کی طرف سے از جملہ فقھا ۔ دانشمندوں ، شاعروں ۔ درباریوں اور خود مامون کی طرف سے بے نظیر اور والہانہ استقبال ہوا ۔
مامون نےاستقبال اور خاطر داری کے بعد امام رضا علیہ السلام سے کہا : میں خلافت سے کنار ہوکے خلافت کو آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ اس کو قبول کر لیں گے ؟
امام رضا علیہ السلام نے انکار کیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ کہتا ہے عملا ایسا کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس طرح امام کو آزمامانا چاہتا تھا اور اگر حکومت کو امام (ع) کے حوالے کر بھی لیتا کچھ مدت بعد ان کو حکومت سے برکنار کرلیتا اور خود دوبارہ حکومت کو ہاتھ میں لے کر اپنی غاصب حکومت کو جائز بنادیتا ۔اور دوسری طرف علوی اور غیر علویوں کی طرف سے جہان اسلام میں جو بغاوت کی لہر دوڑ رہی تھی ، اسکو خاموش کرانے کیلئے امام رضا علیہ السلام کاسہارا لینا اس کیلئے ناگزیر تھاتاکہ انہیں عباسی خلافت کو قبول کروالے زیر کے سکے ۔
امام رضا علیہ السلام چونکہ اسکی اصلی نیت سے با خبر تھے اس لئے کسی بھی صورت میں خلافت کو قبول نہیں کیا ۔ مامون نے پھر ایک بار ولی عھدی قبول کرنے کی دعوت دی لیکن امام (ع) نے قبول نہیں کیا ۔ مگر اس بار مامون نے امام رضا(ع) کا استنکاف قبول نہیں کیا اور کہا کہ ولی عھدی قبول کرنا زبردستی اور حتمی ہے اس سے راہ فرار نہیں ہے ۔ آخر کار امام رضا علیہ السلام کیلئے ولی عھدی کو قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا ۔ آنحضرت نے حکومت میں شریک نہ رہنے کیلئے عوام سے اپنے لئے بیعت حاصل کی ۔ اسکے بعد عباسیوں کے کالے کپڑے سبزرنگ میں جوکہ علویوں کا رنگ ہے تبدیل ہوگیا ۔ عباسیوں کے کالے رنگ کے جھنڈے علوی سبز رنگ میں تبدیل ہوگئے۔ آنحضرت کے نام کا سکہ جاری ہوا اور خطبوں میں انکی تجلیل اور تکریم ہونے لگی ۔
لیکن جو حکومت کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کروایا کیا رسول خدا(ص) کے نواسے کو حکومت دیتا ہے
وہ آخر امام(ع) کی جان لینے کے درپے ہوگیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین علیہ السّلام کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام علیہ السّلام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 71صفر 302ھ میں حضرت علیہ السّلام نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت علیہ السّلام کا روضہ ہے وہیں اپنے وقت کا بزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔
مشہدِ مقدس اور قُم ایران کے دو ایسے شہر ہیں جنہیں دنیائے شیعت میں مکّہ، مدینہ، نجفِ اشرف اور کربلا کے بعد اہم ترین زیارات تصور کیا جاتا ہے اور یہاں صدیوں سے سال بھر ساری دنیا سے آنے والے زائرین کا ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ایک سرکاری اندازے کے مطابق سال بھر میں دو کروڑ سے زیادہ زائرین مشہدِ مقدس میں آتے ہیں۔
ایران میں آنی والی حکومتیں طاہریاں، صفاریاں ،سامانیاں ،سلجوقی سلطنت اور خوارزمشاہیاں کے دور میں رفتہ رفتہ مشہد الرضا کی اہمیت بڑھنے لگی خاص طور پر سلجوقی دور میں
سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے ۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
خوارزمشاہیاں کے دور میں چنگیز خان کے یلغار شروع ہوا چنگیز خان نے اپنے آپ کو منگول سلطنت کاحاکم ایلان کیا۔
اورخراسان حملہ کیا انسانی تاریخ میں اتنی وسیع تباہی اورخرابی کوئی دوسری نہیں ملتی۔
چنگیز خان اور ہلاکو خان کے یلغار کے بعد خراسان کے شہروں میں ویرانی بری طرح پھیل گئی
ہلاکو خان کی اولاد جا ایران اور عراق پر حکمران رہی مسلمان ہو گئے۔
سنہ 737 ہجری قمری کو ایران کے خراسان میں منگول حکمرانوں کے خلاف سربداران تحریک کامیاب ہوئی اور اسی نام سے پہلی بار ایران میں ایک شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی گئی ۔سربداران ایک گروہ تھا جس نے منگولوں کے ظلم و ستم کے خلاف تحریک شروع کی ۔ان افراد کی قیادت شیخ خلیفہ ، شیخ حسن جوری اور عبدالرزاق جیسے مجاہد علماء نے کی ۔تحریک چلانے والوں کا نعرہ یہ تھا کہ یا ظالم کو ختم کردیں گے یا دار پر چڑھ جائیں گے ذلت قبول نہیں کریں گے اسی بنا پر ان کا نام سربداران پڑگیا ۔
سربداران نے تقریبا" نصف صدی تک ایران کے شمال مشرقی علاقوں پر حکومت کی ۔ اس عرصے مشہد اور سبزوار مین رونق آگئی
آخر کار تیمور گورگانی نے سنہ 788 ہجری قمری میں ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ تیمور نے سربداروں کو فنا کیا۔ 85۔ 1384ء میں ستر ہزار انسانوں کے قتل کے بعد اس مہم کا خاتمہ ہوا۔
تیموریاں کے بعد صفوی سلطنت وجود میں آگئی ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد جو سب سے بڑی حکومت قائم ہوئی وہ 1501ء سے 1722ء تک قائم رہنے والی صفوی سلطنت تھی۔ جس نے تیموریوں کے بعد ایران میں عروج حاصل کیا. اس حکومت کا بانی شاہ اسماعیل ایک بزرگ شیخ اسحاق صفی الدین (متوفی 1334ء) کی اولاد میں سے تھا چنانچہ انہی بزرگ کی نسبت سے یہ خاندان صفوی کہلاتا ہے ۔
شاہ اسماعیل نے شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور عباس اعظم نے ایران کے وسط میں اصفہان کو دارالسلطنت بنایا۔عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو "اصفہان نصف جہان" کہنے لگے۔ اس زمانے میں اصفہان کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی جو قسطنطنیہ اور قاہرہ کو چھوڑ کر اس زمانے کے کسی شہر میں نہیں تھیں۔ اس دور میں مشہد بڑی تیزی سے پھلنے پھولنے لگا
مشہد میں امامِ رضا کے روضےکی صدیوں پرانی اور طویل تاریخ ہے۔ کوئی ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جس کی توسیع اور آرائش کا کام ہر دور حکومت میں ہوتا رہا اور جو اب بھی جاری ہے۔
مشہد کی آبادی 2500000 تک پہنچ گئی ہے تہران سے روزانہ کوئی پندرہ کے قریب پروازیں مشہد جاتی ہیں
پروازوں میں کاروباری لوگوں کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد اُن زائرین کی ہوتی ہے۔
مشہد میں اور بھی بہت سے تاریخی اور تفریحی مقامات ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔ ان میں چند مشہور مقامات درج ذیل ہیں ۔
مسجد جامع گوهرشاد، گنبد خشتی، پير پالان دوز، گنبد سبز، امامزاده ناصر،گنبد هارونیه ،موزه نادر شاه
کلات نادري
مسجد هفتاد و دو تن
مدرسه عباسقلي خان
مصلي مشهد
رباط طرق
بقعه تاريخي امام زاده يحيي
روستاي تاريخي پاژ
ميل اخنگان
رباط فخر داود
گنبد خشتي
1- الارشاد (شيخ مفيد)، ص 602
2- الارشاد (شيخ مفيد)، ص 602
3- تاريخ اليعقوبي، ج2، ص 449؛ الارشاد، ص 600؛ وقايع الايام (شيخ عباس قمي)، ص 24