فارقلیط رحمانی
لائبریرین
امت مسلمہ ایک عظیم محدث اور عالم دین سے محروم
دیوبند آن لائن ۲۹؍ اپریل ۲۰۱۳ء
مشہور محدث ومعروف عالم دین حضرت مولانا زین العابدین اعظمی کا ۲۸؍ اپریل ۲۰۱۳ء اتوار کو ان کے وطنِ مالوف پورہ معروف ضلع مئو میں اِنتقال ہوگیا۔ مولانا کی عمر پچاسی سال تھی۔ آپ ایک عرصہ سے جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور ادارہ کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے ذمہ دار تھے۔
حضرت مولانا مرحوم پورہ معروف ضلع اعظم گڈھ (حال مؤ) میں ۱۳۵۱ھ (۱۹۳۲ء) میں پیدا ہوئے اور ۱۳۷۲ھ (۱۹۵۳ء) میں دارالعلوم دیوبند سے امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ۔ آپ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے انتہائی ذی علم تلامذہ میں سے تھے ۔
حضرت مولاناعلم حدیث کے مشہور عالم تھے، ملک اور بیرون ملک میں کچھ ہی ایسے گنے چنے لوگوں میں تھے جن کو اس فن پر عبور حاصل تھا۔ اسی صلاحیت کے مدنظر معروف تعلیمی دینی درس گاہ مظاہر علوم سہارن پو رکے شعبہ تخصص فی الحدیث کے صدر بنائے گئے تھے۔ اصول حدیث ، اسمائے رجال اور حدیث کے علوم میں ان کو بڑا کمال اور عبور حاصل تھا ، اس پر ان کی مختلف علوم وفنون کی کتابیں شاہد ہیں۔علامہ طاہر پٹنی ؒ کی کتاب ’’المغنی ‘‘، امام ذہبی کے اسمائے رجال پر مبنی کتابوں پر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل، الاعلام المحدثین کے علاوہ دلا ئل امور الستۃ، نخب من اسماء الرجال الصحاح ، رحمن علی کی فارسی کتاب تذکرہ علماء ہند کا اردو ترجمہ اور عقائد کی مشہور کتاب شرح عقائد کی شرح التعلیقات السنیہ اور عقائد ہی کے موضوع پر ’’عقیدہ نما‘‘ ، علمی احتساب ‘‘ جیسی کتابیں بھی مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کی شہادت دیتی ہیں ۔ایک بڑا کام مولانا کی نگرانی میں جمع الفوائد کی تحقیق کے ساتھ اشاعت کام بھی ہے ، اس کتاب کی آٹھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ساتھ ہی مولانا مرحوم بخاری کی شرح امدادالباری ( شیخ عبدالجبار اعظمی ؒ ) کی تکمیل کا کام بھی کررہے تھے ۔ آپ بیتی پر مشتمل تقریبا ڈیرھ سو صفحات اپنی سوانح تحریر کرچکے تھے ۔ ان علمی خدمات کے سبب وہ تلامذہ اور اہل علم میں بہت مقبول اور بنظر توقیر دیکھے جاتے تھے ۔ مولانا مرحوم امام بخاری ؒ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘کا بہت علمی مطالعہ پیش کررہے تھے ، اگر وہ پورا ہوجاتا تو اہل علم کے لیے بہت مفید ہوتا ۔مولانا مرحوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔وہ منصفانہ اور دیانت دارانہ رائے پیش کرنے میں کسی رو رعایت کے قائل نہیں تھے۔
حضرت مولانا زین العابدین اعظمی(رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً ) کے سانحہ ارتحال سے بڑا علمی خلا پیدا ہو گیا ہے ۔ اللہ رب العزت امت مسلمہ کو مولانا کا نعم البدل عطا فرمائے اور پس ماندگان و متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطافرما ئیں۔ آمین!
دیوبند آن لائن ۲۹؍ اپریل ۲۰۱۳ء
مشہور محدث ومعروف عالم دین حضرت مولانا زین العابدین اعظمی کا ۲۸؍ اپریل ۲۰۱۳ء اتوار کو ان کے وطنِ مالوف پورہ معروف ضلع مئو میں اِنتقال ہوگیا۔ مولانا کی عمر پچاسی سال تھی۔ آپ ایک عرصہ سے جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور ادارہ کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے ذمہ دار تھے۔
حضرت مولانا مرحوم پورہ معروف ضلع اعظم گڈھ (حال مؤ) میں ۱۳۵۱ھ (۱۹۳۲ء) میں پیدا ہوئے اور ۱۳۷۲ھ (۱۹۵۳ء) میں دارالعلوم دیوبند سے امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ۔ آپ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے انتہائی ذی علم تلامذہ میں سے تھے ۔
حضرت مولاناعلم حدیث کے مشہور عالم تھے، ملک اور بیرون ملک میں کچھ ہی ایسے گنے چنے لوگوں میں تھے جن کو اس فن پر عبور حاصل تھا۔ اسی صلاحیت کے مدنظر معروف تعلیمی دینی درس گاہ مظاہر علوم سہارن پو رکے شعبہ تخصص فی الحدیث کے صدر بنائے گئے تھے۔ اصول حدیث ، اسمائے رجال اور حدیث کے علوم میں ان کو بڑا کمال اور عبور حاصل تھا ، اس پر ان کی مختلف علوم وفنون کی کتابیں شاہد ہیں۔علامہ طاہر پٹنی ؒ کی کتاب ’’المغنی ‘‘، امام ذہبی کے اسمائے رجال پر مبنی کتابوں پر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل، الاعلام المحدثین کے علاوہ دلا ئل امور الستۃ، نخب من اسماء الرجال الصحاح ، رحمن علی کی فارسی کتاب تذکرہ علماء ہند کا اردو ترجمہ اور عقائد کی مشہور کتاب شرح عقائد کی شرح التعلیقات السنیہ اور عقائد ہی کے موضوع پر ’’عقیدہ نما‘‘ ، علمی احتساب ‘‘ جیسی کتابیں بھی مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کی شہادت دیتی ہیں ۔ایک بڑا کام مولانا کی نگرانی میں جمع الفوائد کی تحقیق کے ساتھ اشاعت کام بھی ہے ، اس کتاب کی آٹھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ساتھ ہی مولانا مرحوم بخاری کی شرح امدادالباری ( شیخ عبدالجبار اعظمی ؒ ) کی تکمیل کا کام بھی کررہے تھے ۔ آپ بیتی پر مشتمل تقریبا ڈیرھ سو صفحات اپنی سوانح تحریر کرچکے تھے ۔ ان علمی خدمات کے سبب وہ تلامذہ اور اہل علم میں بہت مقبول اور بنظر توقیر دیکھے جاتے تھے ۔ مولانا مرحوم امام بخاری ؒ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘کا بہت علمی مطالعہ پیش کررہے تھے ، اگر وہ پورا ہوجاتا تو اہل علم کے لیے بہت مفید ہوتا ۔مولانا مرحوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔وہ منصفانہ اور دیانت دارانہ رائے پیش کرنے میں کسی رو رعایت کے قائل نہیں تھے۔
حضرت مولانا زین العابدین اعظمی(رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً ) کے سانحہ ارتحال سے بڑا علمی خلا پیدا ہو گیا ہے ۔ اللہ رب العزت امت مسلمہ کو مولانا کا نعم البدل عطا فرمائے اور پس ماندگان و متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطافرما ئیں۔ آمین!