کعنان
محفلین
مشہور پاکستانی شخصیات کے مشکوک قتل
05 نومبر 2016 تحریر : راحیلہ خالد
دنیا بھر میں نامور اور سیاسی شخصیات کا قتل ہمیشہ سے پس پردہ کہانیوں کے ساتھ مشہور رہے ہیں۔ آج تک شاید ہی کسی ایک شخصیت کے قتل کے حقیقی محرکات عام ہوئے ہوں۔
چاہے وہ امریکی صدور ابراہیم لنکن ہوں یا جان ایف کینیڈی یا مارٹن لوتھرکنگ،
انڈیا کے مہاتما گاندھی ہوں، اندا گاندھی ہوں یا راجیو گاندھی،
بنگلہ دیش کے شیخ مجیب ہوں، یا
سعودی عرب کے شاہ فیصل، یا لبنان کے رفیق ہرارے۔
دنیا میں بھر مشہور سیاسی اور حکمران شخصیات کے قتل ہوتے آئے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر کے قتل کی وجوہات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
پاکستان میں بھی مشہور شخصیات قتل ہوتی ہیں اور ان کے قتل کی وجوہات نہیں بتائی جاتیں تاہم مشکوک قاتل پکڑ لئے جاتے ہیں۔ ویسے پاکستان مین زیادہ تر قتل ذاتی، خاندانی اور سیاسی عداوت و دشمنی کے نتیجے میں کئے جاتے ہیں انہی وجواہات کے باعث پاکستان میں ہر سال 13 ہزار سے زائد قتل ہوتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں بعض قتل ایسے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑ دیتے اور انصاف اور تفتیش کی آنکھوں پر اسرار کے پردے کھینچ دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی زندگی میں بھی بارہا ایسے لمحات آئے جب نامور سیاسی شخصیات کو ذاتی و سیاسی وجوہات کی بناء پہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اور ان کی مشکوک اموات کے پسِ پردہ عناصر کا پتہ نہیں چلایا جا سکا اور نہ ہی ان کے قاتلوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جا سکی ہے۔ حالانکہ ان کے قتل کی تحقیقات کیلئے بیرون ممالک کی پولیس سے بھی مدد لی گئی لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جن شخصیات کا قتل ہوا، انکی حیثیت کیا تھی اور انکے بعد پاکستان میں سیاسی تنزل اور عدم مساوات کی کتنی سنگین غلطیاں سرزد ہوتی رہیں۔ ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان:
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلی سیاسی شخصیت جس کا سیاسی قتل ہوا وہ نوابزادہ لیاقت علی خان کی ہے۔ آپ 1 اکتوبر 1895ء کو انڈیا کے مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے جدوجہدِ پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آپ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے پاکستانی وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور کامن ویلتھ اور کشمیر افئیرز کے بھی وزیر تھے۔ آپکا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ آپ علیگڑھ اور آکسفورڈ جیسے اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو مسلم لیگ کے کمپنی باغ راولپنڈی میں ہونے والے ایک جلسے میں آپ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کے وقت آپکی عمر 56 سال تھی۔ قاتل کا نام سید اکبر ببرک تھا۔ وہ ایک افغانی تھا جس کا تعلق پشتون قبیلے ”زردان“ سے تھا۔ پولیس نے قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ آپ کے قتل کے پیچھے جو محرکات تھے ان کا آج تک صحیح پتہ نہیں لگایا جا سکا۔ لوگوں نے صرف اندازے ہی لگائے۔ کچھ کے مطابق نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل میں افغانی اور امریکی حکومتیں ملوث تھیں۔ لیکن اس دعوے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں مل سکے۔ آپکی شہادت کے بعد آپکو ” شہیدِ ملّت“ کا لقب دیا گیا۔ اور کمپنی باغ راولپنڈی کا نام ” لیاقت باغ“ رکھ دیا گیا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کو مزارِ قائد کے احاطے میں دفنایا گیا جو کراچی میں ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح:
محترمہ فاطمہ جناح ، بانی پاکستان ، قائداعظم محمد علی جناح کی لاڈلی چھوٹی ہمشیرہ تھیں۔ وہ 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ انہوں نے جدوجہدِ قیامِ پاکستان میں ہر قدم پر اپنے بڑے بھائی محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ ایک پڑھی لکھی، باوقار شخصیت کی مالک تھیں۔ اور پیشے کے لحاظ سے ڈینٹل سرجن تھیں۔ اپنے بھائی کی وفات کے بعد آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی۔ آپکی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ” مادرِ ملّت“ اور ” خاتونِ پاکستان “ جیسے القابات سے نوازا گیا۔ آپ نے 1965ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ اور با لآخر 9 جولائی 1967ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی اچانک وفات سے بہت سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ حالانکہ سرکاری طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ وہ حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئی ہیں جبکہ وہ تا حیات کسی قسم کی دل کی بیماری میں مبتلا نہیں تھیں اور نہ ہی انہیں کوئی اورایسا مرض لاحق تھا جو انکی اچانک وفات کا سبب بنتا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل حیدرآباد دکن کے سابق وزیراعظم میر لائق علی کی بیٹی کی شادی کی دعوت ِ ولیمہ میں بھی شرکت کی۔ وہ معمول کے مطابق اپنی خوابگاہ میں سونے کیلئے گئیں لیکن صبح ان کے کمرے کا دورازہ نہ کھلا تو ان کے ملازمین میں تشویش کی لہر دوڑی۔ انہوں نے لیڈی ہدایت اللہ کو اطلاع دی جن کے آنے کے بعد فاطمہ جناح کے کمرے کا دروازہ ڈپلیکیٹ چابی سے کھولا گیا تو محترمہ فاطمہ جناح اپنے بستر پر مردہ حالت میں پائی گئیں۔ اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ ان کی غسالاؤں کے بقول ان کے جسم پر زخموں کے واضح نشانات تھے اور ان کی گردن پر بھی چار انچ زائد لمبا زخم تھا جس پر ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ ان کا پورا جسم سوجا ہوا تھا۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے ان کی وفات بارے اپنے شک و شبہے کا اظہار کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں چپ کروا دیا گیا۔ بعد ازاں 2003ء میں ان کے بھتیجے اکبر پیر بھائی نے بھی ان کے قتل کی سازش کو دوبارہ موضوعِ بحث لانا چاہا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ان کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ قوم کی اس ماں کے ساتھ کس نے گھناؤنا کھیل کھیلا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو کراچی میں مزارِ قائد کے احاطے میں دفنایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو:
ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں وزیراعظم تھے وہ ایک ایسے مقبول و معروف اور قابل سیاستدان تھے جن کا عدالتی قتل کیا گیا۔ انہوں نے 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نمایاں کارناموں میں پاکستان میں نیوکلئیر پروگرام کی ابتداء کے ساتھ ساتھ 1973ء کا آئین بنانا اور شملہ معاہدہ بھی شامل ہیں۔ 1977ء میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے اس وقت کے ایک سیاستدان احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کو بنیاد بنا کر اس وقت کے آئینی وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا۔ اور بعد ازاں ان پر قتل کا جھوٹا مقدمہ چلایا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس وقت کے عدالتی نظام کو اپنے ماتحت کر کے ، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف من مرضی کا عدالتی فیصلہ کروایا۔ حالانکہ عدالت میں ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد اور گواہان پیش نہیں کئے جا سکے۔ تمام اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے ، جھوٹے گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر لاہور ہائیکورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ ان کی پھانسی کے خلاف ان کے بچوں بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو نے بین الاقوامی طور پر تحریک چلائی لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ لیبیا کے کرنل قذافی نے جنرل ضیا ءالحق کو ذوالفقار علی بھٹو کو لیبیا کو دینے کی آفر بھی کی اور ان کا جہاز ایک ہفتے تک اسلام آباد ائیر پورٹ پر کھڑا رہا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق نے یہ آفر مسترد کر دی۔ اور با لآخر 14 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو سنٹرل جیل راولپنڈی میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔ ان کے اس عدالتی قتل کے بعد انہیں ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ بہت سے بین الاقوامی صحافیوں نے بھی بھٹو کے اس عدالتی قتل کی بھرپور مذمت کی۔ ان کے بعد ان کی دختر بینظیر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔
میر مرتضیٰ بھٹو:
میر مرتضیٰ بھٹو ، پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے تھے۔ انہیں ان کے ساتھیوں کے ہمراہ 20 ستمبر 1996ء کو 42 سال کی عمر میں ان کے گھر واقع 70 کلفٹن کے باہر پولیس والوں نے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا انہیں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ انہوں نے 1981ء میں چوہدری ظہور الٰہی کے قتل اور پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے ایک جہاز کو ہائی جیک کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ جس کے نتیجے میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو جیل سے آزاد کروایا۔ اور اس ہائی جیک کے دوران مرتضیٰ بھٹو نے لیفٹننٹ طارق رحیم کے قتل کی بھی ذمہ داری قبول کی۔ افغانستان میں جلا وطنی کے دوران ان کی غیر حاضری میں ہی پاکستان کی فوجی عدالتوں کی طرف سے انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ 1993ء میں وہ واپس پاکستان آئے۔ اور انہیں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو، جو ان کی ہمشیرہ بھی تھیں، کے حکم پر دہشتگردی کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ اور انہوں نے سندھ اسمبلی کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے ” الذوالفقار“ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ان کے قتل بارے سندھ حکومت اور ان کی پارٹی کی الگ الگ آراء سامنے آئیں۔ حکومتِ سندھ کے مطابق مرتضیٰ بھٹو کی کار کی تلاشی کے دوران، پولیس پر حملے میں پہل مرتضیٰ بھٹو کے گارڈز کی طرف سے ہوئی جس کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس نے جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں مرتضیٰ بھٹو اور ان کے ساتھی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جبکہ مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھیوں کے بقول مرتضیٰ بھٹو پولیس افسران سے بات کرنے کیلئے گاڑی سے باہر نکلے ہی تھے کہ پولیس والوں نے فائر کھول دئیے۔ جس کے نتیجے میں مرتضیٰ بھٹو ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ مرتضیٰ بھٹو کو بھی اپنے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش میں دفن کیا گیا ۔ ان کی بیٹی فاطمہ بھٹو کے بقول ان کے والد پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد تھے اور انہیں پھنسایا گیا تھا۔
بینظیر بھٹو:
بینظیر بھٹو کو پاکستان کی گیارہوں وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم ریاست کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ 21 جون 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی تعلیم آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسے نامور اداروں سے حاصل کی۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن کا منصب سنبھالا اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ہی الیکشن لڑتے ہوئے وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کو مہرہ بنا کر اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ بینظیر بھٹو نے آٹھ سال جلا وطنی میں گزارے اور با لآخر اکتوبر 2007ء میں وطن واپس آ گئیں۔ ان کی واپسی پہ ان کے قافلے پہ بم حملہ کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئیں جبکہ ان کے درجنوں کارکن جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے بعد بھی بینظیر بھٹو نے اپنے آپ کو گھر تک محدود نہیں کیا۔ اور حکومت وقت سے اپنی سیکیورٹی کا انتظام کرنے کی درخواست کی لیکن انہیں خاطر خواہ سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ اور تمام خدشات و دھمکیوں کے باوجود انہوں نے 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں پارٹی جلسہ کیا۔ اسی جلسے سے واپسی پر محترمہ بینظیر بھٹو کو گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا گیا۔ انہیں فوری طور پر راولپنڈی کے جنرل اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ انہیں ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش میں ان کے آبائی قبرستان میں اپنے والد کے پہلو میں دفنایا گیا ۔ القائدہ کے کمانڈر مصطفیٰ الیزید نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ ان کے قتل کی تحقیقات کیلئے کئی کمیٹیاں بنائی گئیں، یہاں تک کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی ان کے قتل کی تحقیقات کیں لیکن تا وقت ِ تحریر ان کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی ان کے قتل کے پیچھے محرکات کا صحیح اندازہ لگایا جا سکا ہے۔
حکیم محمد سعید:
حکیم محمد سعید ، پاکستان کے صوبہ سندھ کے گورنر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مشہور طبی ماہر، صوفی اور سکالر تھے۔ وہ 20 جنوری 1920ء کو نیو دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ دہلی یونیورسٹی اور قاہرہ کی انقرہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ 1948ء میں انہوں نے ہمدرد لیبارٹریز نامی ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ جو آج پاکستان میں یونانی ادویات بنانے والا واحد بڑا ادراہ ہے۔ حکیم محمد سعید نے طب ، فلاسفی ، سائنس ، صحت ، مذہب ، قدرتی علاج اور ادب جیسے موضوعات پر تقریباً 200 کتب تحریر کیں۔ 17 اکتوبر 1998ء کو، جب وہ ہمدرد لیبارٹریز میں منعقدہ ایک طبی تجربے میں شرکت کرنے جا رہے تھے تو ایک مسلح گروہ نے انہیں راستے ہی میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ان کے قاتلوں کو ڈی آئی جی فاروق امین قریشی نے گرفتار کیا جو اس وقت سی سی پی او کراچی تھے۔ 26 اپریل 2014ء کو انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی۔ ملزمان کی جانب سے اپیل دائر کی گئی، جس پر سندھ حکومت نے حکیم محمد سعید کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو بری کر دیا ۔ جن کی تعداد 9 تھی۔ اور ان کا تعلق پاکستان کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے بتایا جاتا ہے۔ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی ملزمان کی بریت کے سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
یہ چند ایسی نامور شخصیات ہیں جن کے قتل کی تحقیقات کو ابھی تک منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا اور نہ ہی ان کے قاتلوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جا سکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو مؤثر بنایا جائے۔ جس میں عدالتیں نہ صرف انصاف کی بنیاد پر فیصلے کریں بلکہ ان ان کے قتل کے محرکات کو بھی سامنے لائیں۔
ح