دلاور فگار کی مشہور پیروڈیاں
بہ زمین : بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے (غالب)
میں شہر کراچی سے کہاں بہر سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مر جاؤں
اس شہر نگاراں کو جو چھوڑوں تو کدھر جاؤں
صحرا مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
بہ زمین : ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی (اقبال)
مئی اور جون کے موسم کا اندازہ وہاں کیا ہو
دسمبر میں جہاں گرمی قیامت خیز ہے ساقی
وہاں رفتار پیداوار کو بھی تیز کرنا ہے
جہاں رفتار پیدائش کی بےحد تیز ہے ساقی
بہ زمین : تو خیال ہے کسی اور کا تجھے سوچتا کوئی اور ہے (سلیم کوثر)
جو سجائی جاتی ہے رات کو ، وہ ہماری بزمِ خیال ہے
جو سڑک پہ ہوتا ہے رات دن ، وہ مشاعرہ کوئی اور ہے
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا مگر اس کا باپ سے کیا گلہ
مری والدہ تو یہ کہتی ہے تری والدہ کوئی اور ہے
بہ زمین : رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ (احمد فراز)
تنہا نہ مرا عرس منانے کے لئے آ
دو چار مجاور تو ٹھکانے کے لئے لا
تو وصل کی شب چار بجے تک نہیں آیا
اب صبح ہے اب جھینپ مٹانے کے لئے آ
بہ زمین : سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا (آتش)
میرا کلام سن کے اک استاد نے کہا
بیٹے غزل یہ تو نے کہی والدانہ کیا
باذوق سامعین تو گھر جا کے سو چکے
میری غزل سنے گا فقط شامیانہ کیا
شکوہ اور جوابِ شکوہ (اقبال)
کے،ڈی،اے سے شکوہ
کیوں گنہ گار بنوں فرض فراموش رہوں
کیوں نہ اک فرض ادا کر کے سبکدوش رہوں
شہر میں شور سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
"کے ڈی اے" میں کوئی بدھو ہوں کہ خاموش رہوں
مستقل نزلہ ہے ، بیماری ہے ، بیکاری ہے
کیا ترے شہر میں رہنے کے عوض خواری ہے
جوابِ شکوہ
آئی آواز شر انگیز ہے افسانہ ترا
بادہ تلخ سے لبریز ہے پیمانہ ترا
بجھ گئی شمع تری مر گیا پروانہ ترا
اپنے آپے میں نہیں ہے دل دیوانہ ترا
بہر تنقید یہ اک نظم جو لکھ ڈالی ہے
تو نے اغیار سے رشوت تو نہیں کھائی ہے
اخبارات و رسائل کی پیش گوئیوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی ماہ ستمبر میں سگائی ہوگی
ایک اچھائی کے ساتھ ایک برائی ہوگی
بہ زمین : بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے (غالب)
میں شہر کراچی سے کہاں بہر سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مر جاؤں
اس شہر نگاراں کو جو چھوڑوں تو کدھر جاؤں
صحرا مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
بہ زمین : ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی (اقبال)
مئی اور جون کے موسم کا اندازہ وہاں کیا ہو
دسمبر میں جہاں گرمی قیامت خیز ہے ساقی
وہاں رفتار پیداوار کو بھی تیز کرنا ہے
جہاں رفتار پیدائش کی بےحد تیز ہے ساقی
بہ زمین : تو خیال ہے کسی اور کا تجھے سوچتا کوئی اور ہے (سلیم کوثر)
جو سجائی جاتی ہے رات کو ، وہ ہماری بزمِ خیال ہے
جو سڑک پہ ہوتا ہے رات دن ، وہ مشاعرہ کوئی اور ہے
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا مگر اس کا باپ سے کیا گلہ
مری والدہ تو یہ کہتی ہے تری والدہ کوئی اور ہے
بہ زمین : رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ (احمد فراز)
تنہا نہ مرا عرس منانے کے لئے آ
دو چار مجاور تو ٹھکانے کے لئے لا
تو وصل کی شب چار بجے تک نہیں آیا
اب صبح ہے اب جھینپ مٹانے کے لئے آ
بہ زمین : سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا (آتش)
میرا کلام سن کے اک استاد نے کہا
بیٹے غزل یہ تو نے کہی والدانہ کیا
باذوق سامعین تو گھر جا کے سو چکے
میری غزل سنے گا فقط شامیانہ کیا
شکوہ اور جوابِ شکوہ (اقبال)
کے،ڈی،اے سے شکوہ
کیوں گنہ گار بنوں فرض فراموش رہوں
کیوں نہ اک فرض ادا کر کے سبکدوش رہوں
شہر میں شور سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
"کے ڈی اے" میں کوئی بدھو ہوں کہ خاموش رہوں
مستقل نزلہ ہے ، بیماری ہے ، بیکاری ہے
کیا ترے شہر میں رہنے کے عوض خواری ہے
جوابِ شکوہ
آئی آواز شر انگیز ہے افسانہ ترا
بادہ تلخ سے لبریز ہے پیمانہ ترا
بجھ گئی شمع تری مر گیا پروانہ ترا
اپنے آپے میں نہیں ہے دل دیوانہ ترا
بہر تنقید یہ اک نظم جو لکھ ڈالی ہے
تو نے اغیار سے رشوت تو نہیں کھائی ہے
اخبارات و رسائل کی پیش گوئیوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی ماہ ستمبر میں سگائی ہوگی
ایک اچھائی کے ساتھ ایک برائی ہوگی