مصائب سے مت گھبرائیے

سید عمران

محفلین
اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ درحقیقت یہی خواہش پریشانیوں کوجنم دیتی ہے۔ کیا ایسا ہوسکتاہے کہ آپ کسی راستے سے گزریں اور اس میں گڑھے، موڑ، اسپیڈ بریکر نہ آئیں؟ جب ذرا سے راستے میں آپ اتنا کچھ برداشت کرسکتے ہیں تو زندگی میں پیش آنے والی خلافِ مزاج باتوں سے کیوں گھبرا جاتے ہیں؟

اب دیکھتے ہیں کہ کیا مصیبتیں ہمیں صرف پریشان کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا ان کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہِ خَیْرًا یُصِبْ مِنْہُ الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلائیں ، پریشانیاں اور مصائب یونہی بے سبب نہیں بھیجتے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عقل مند لوگوں ان مصائب سے کس کس طرح کے فائدے اٹھاکر دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹ گئے۔

ابن اثیر کی ’’جامع الاصول‘‘ اور ’’النہایہ‘‘ جیسی شاہ کار کتابوں کی وجہ تصنیف یہ بنی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے، لیکن قسمت کا رونا رونے کے بجائے انہوں ہمت و محنت سے کام لیا اور ان عظیم کتابوں کی تصنیف کے کام میں جُت گئے۔امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کو حاکم وقت نے ناراض ہوکر ایک کنوئیں میں بند کراودیا۔ انہوں نے اس فرصت کو غنیمت جانا اور سر پر ہاتھ رکھ کر رونے دھونے کے بجائے فقہی مسائل کی بے نظیر کتاب ’’المبسوط‘‘کی پندرہ جلدیں اپنے ان شاگروں کو زبانی لکھوا دیں جو کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر لکھتے جاتے تھے۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاوی قید و بند کی حالت میں لکھے۔

پس ثابت ہوا کہ اہل بصیرت حضرات دکھ درد اور مصائب میں مبتلا ہونے پر انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔لہٰذا تمام مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ آپ ان میں گھرکر خود کو پریشان نہ کریں بلکہ انہیں دور کرنے یا ان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے ان تدابیر پرعمل کریں:

۱) سب سے پہلے پیش آنے والے مسئلہ کوسمجھیں۔ عقل مند افراد مصائب کے سامنے ہمت نہیں ہارتے بلکہ ٹھنڈے دل ودماغ سے ان کامشاہد ہ کرتے ہیں۔ گہری نظر سے ان کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد انہیں حل کرنے کا مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوسکتا ہے۔

۲) اکثر مسائل اپنے اندر ہی اپنا حل رکھتے ہیں، لہٰذا کسی بھی مسئلہ پر بجائے بوکھلانے کے اس کو حل کرنے کے لیے صبر اورسکون کے ساتھ کمر بستہ ہوجائیں۔اللہ نے انسان کو وہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ہر مسئلے کا حل تلاش کرسکتا ہے،بس تھوڑی سی کوشش کرنی پڑتی ہے پھر مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

۳) اگر آپ پریشانی پر پریشان ہوگئے تو آپ پرگھبراہٹ طاری ہوجائے گی، یہ کچھ حد تک تو فطری ہوتی ہے لیکن اگر آپ نے اس کو اپنے حواس پر طاری کرلیا تو یہ آپ کو بدحواسی کی طرف لے جائے گی، ایسی صورت میں حالات آپ کو بد سے بدتر لگنے لگیں گے۔لہٰذا کسی بھی پریشانی کواپنے اوپر طاری نہ ہونے دیں۔مسئلہ کا حل سوچنے کے بجائے بدحواسی کے آگے ہتھیارڈالنے کا مطلب اپنا دشمن آپ بننا ہے۔

۴) دماغ سے صحیح حل اسی وقت نکلتا ہے جب دماغ کی مجموعی حالت پُر سکون ہو،دماغ کو پُرسکون رکھنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔بس بے جا بھاگ دوڑ، چیخ و پکار یا رونے دھونے سے پرہیز کریں، تھوڑا تحمل اور بردباری سے کام لیں ۔تحمل سے کام لینا اس طرح ممکن ہوگا کہ اپنی مشکل کو بڑا نہ سمجھیں۔ آپ کو اپنی مشکل اس وقت چھوٹی لگنے لگے گی جب آپ دنیا کے ان لوگوں کو دیکھیں گے جو آپ سے سو گنا زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، تب آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان مشکلات میں گھرے لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔

۵) اگر مسئلہ آپ سے کسی طرح حل نہ ہو رہا ہو تو کسی ایسے فرد سے رابطہ کریں جو سمجھدار، تجربہ کار اور آپ کا مخلص ہو،جو آپ کی پریشانیوں پر ہرطرح سے غور کرے اور آپ کو مفید مشورہ دے۔لیکن کسی بھی مشورہ پرعمل کرنے سے پہلے اسے اپنے ذاتی فیصلے کے ساتھ اچھی طرح پرکھیں،کیوں کہ آپ کے لیے کیاصحیح ہے اور کیا غلط یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

۶) اپنی ذات پر اعتماد آپ کی اصل کامیابی ہے۔اس اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ کہہ کر اپنی کمر خود ٹھونکیں کہ ہاں میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ یہ اعتماد مشکلات کے حل کے لیے ایسے ہی کام کرتا ہے جیسے گاڑی کوچلانے کے لیے پیٹرول۔اگر آپ نے اپنے اندر اس اعتماد کو پروان چڑھا لیا تو کوئی پریشانی آپ کوپریشان نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ اب آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔

۷) کسی بھی پریشانی کے حل کو التوا میں نہ ڈالیں۔بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں تو اسے التوا میں ڈال دیتے ہیں، یہ نہایت غلط سوچ ہے۔ یقین جانیے مسئلہ چاہے کتنا ہی بڑا اور مشکل کیوں نہ ہو آپ کی صلاحیتوں کے سامنے ہیچ ہے۔لیکن اسے کل پر ٹالنے یا نظریں چرانے سے اس کا حل نہیں نکلے گا۔خود اعتمادی سے یہ کہہ کر اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں کہ ہاں میں تم سے نمٹ سکتا ہوں۔ پھر ناممکن ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکیں۔

ان سب باتوں سے ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ مشکلات و مصائب انسان کو توڑنے کے لیے نہیں، اسے مضبوط و خود اعتماد بنانے اور ایک نئی زندگی پہلے سے بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ یہ مشکلات انسان کی شخصیت کی تعمیر و تربیت کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں، کیوں کہ آزمائش کی ان بھٹیوں سے گزرنے کے بعد اس کا اصل جوہر نکھر کر سامنے آتا ہے،اور اس کی وہ صلاحیتیں جو اب تک چھپی ہوئی ہوتی ہیں اس طرح ظاہر ہوتی ہیں کہ وہ خود بھی حیران رہ جاتا ہے۔

ہر مضبوط اور کامیاب شخصیت کے پیچھے مصائب ،تکالیف اور رنج و الم کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ غم اور مشکلات آپ کو وقتی طور پر تو پریشان کردیتے ہیں، آپ کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں، آپ کی ہمت جواب دیتی نظر آتی ہے اور آپ کو اپنی زندگی لاحاصل لگنے لگتی ہے۔ لیکن درحقیقت آپ کی آج کی مشکل آپ کا کل محفوظ بناتی ہے، یہ اندر ہی اندر آپ کی تربیت کرتی ہے اور آپ کا مستقبل تاب ناک بنانے کے لیے آپ کو تیار کرتی ہے۔

اگر آپ نے آج کی پریشانی کو اپنے ذہن پر سوار کرلیا تو آپ کا آج اور کل دونوں تاریک ہوجائیں گے۔اس لیے بہادر بنیے، مصائب سے سبق تو سیکھیئے لیکن ان کو اپنے دل کا روگ نہ بنائیے۔ہمت سے کام لیجئے اور تازہ اُمنگ سے ایک نئی زندگی جینے کا ارادہ کیجیے۔

ایک نئی اور خوشگوار زندگی آپ کا استقبال کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے!!!
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
جزاک اللہ عمران بھائی اور بہت بہت شکریہ! کیا ہی خوب تحریر ہے :) اب یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہئے۔ کم از کم ہفتے میں ایک تحریر تو محفل پر پوسٹ کریں :)

اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ درحقیقت یہی خواہش پریشانیوں کوجنم دیتی ہے۔ کیا ایسا ہوسکتاہے کہ آپ کسی راستے سے گزریں اور اس میں گڑھے، موڑ، اسپیڈ بریکر نہ آئیں؟ جب ذرا سے راستے میں آپ اتنا کچھ برداشت کرسکتے ہیں تو زندگی میں پیش آنے والی خلافِ مزاج باتوں سے کیوں گھبرا جاتے ہیں؟

اب دیکھتے ہیں کہ کیا مصیبتیں ہمیں صرف پریشان کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا ان کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہِ خَیْرًا یُصِبْ مِنْہُ الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

شروعات ہی بہت جاندار ہے اور خاص طور پر حدیثِ مبارک میرے لئے ہائےلائیٹ ہے۔

میرے ساتھ تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کسی سے اپنی پریشانی کا ذکر کروں زیادہ تر ہر کوئی مجھَے کہتا ہے کہ گناہوں کی سزا ہوگی۔ میں بہت گناہگار ہوں اور مجھے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا کوئی شوق نہیں ہے پر کبھی کبھی بڑا برا محسوس ہوتا ہے۔ اب تو ساری زندگی کے لئے کان پکڑ لئے ہیں آئندہ جو کبھی اپنی پریشانی کسی کو بتاوَں :)

کبھی کبھی میرے دماغ میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا خدا رب العزت کبھی امتحان کے طور پر بھی ہم گناہگاروں پر پریشانیاں ڈالتا ہوگا یا نہیں؟؟ یا پھر انسان پر صرف اس کے گناہوں کے سبب ہی مشکلات آتی ہیں؟؟ مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے جواب ملا ہے۔ ایک بار پھر جزاک اللہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ عمران بھائی!

اچھی تحریر ہے۔

۷) کسی بھی پریشانی کے حل کو التوا میں نہ ڈالیں۔بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں تو اسے التوا میں ڈال دیتے ہیں، یہ نہایت غلط سوچ ہے۔ یقین جانیے مسئلہ چاہے کتنا ہی بڑا اور مشکل کیوں نہ ہو آپ کی صلاحیتوں کے سامنے ہیچ ہے۔لیکن اسے کل پر ٹالنے یا نظریں چرانے سے اس کا حل نہیں نکلے گا۔خود اعتمادی سے یہ کہہ کر اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں کہ ہاں میں تم سے نمٹ سکتا ہوں۔ پھر ناممکن ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکیں۔

میرے جیسے لوگوں کے لئے یہ بڑی اہم بات ہے۔ :)

تحریر کو ایک بار پھر سے پروف ریڈ کر لیجے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے ساتھ تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کسی سے اپنی پریشانی کا ذکر کروں زیادہ تر ہر کوئی مجھَے کہتا ہے کہ گناہوں کی سزا ہوگی۔ میں بہت گناہگار ہوں اور مجھے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا کوئی شوق نہیں ہے پر کبھی کبھی بڑا برا محسوس ہوتا ہے۔ اب تو ساری زندگی کے لئے کان پکڑ لئے ہیں آئندہ جو کبھی اپنی پریشانی کسی کو بتاوَں :)

یہ بات اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کے لئے نہیں! :)

یعنی جب میرے ساتھ کچھ معاملات گڑ بڑ ہوتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ میں نے ایسا کیا کیا جو یہ سب کچھ ہو رہاہے اور اکثر اوقات کوئی نہ کوئی راہ سوجھ ہی جاتی ہے ۔ :)
 

سین خے

محفلین
یہ بات اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کے لئے نہیں! :)

یعنی جب میرے ساتھ کچھ معاملات گڑ بڑ ہوتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ میں نے ایسا کیا کیا جو یہ سب کچھ ہو رہاہے اور اکثر اوقات کوئی نہ کوئی راہ سوجھ ہی جاتی ہے ۔ :)

بجا فرمایا محمداحمد بھائی :) ہمارے معاشرے میں کسی دوسرے کو اپنے سے نیچا دکھانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو سب سے بہترین مسلمان مان کر اور سامنے والے کو جہنمی ثابت کر کے ہی کچھ لوگ تسکین حاصل کرتے ہیں۔ خدا ہم سب پر رحم فرمائے آمین
 

م حمزہ

محفلین
اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ درحقیقت یہی خواہش پریشانیوں کوجنم دیتی ہے۔ کیا ایسا ہوسکتاہے کہ آپ کسی راستے سے گزریں اور اس میں گڑھے، موڑ، اسپیڈ بریکر نہ آئیں؟ جب ذرا سے راستے میں آپ اتنا کچھ برداشت کرسکتے ہیں تو زندگی میں پیش آنے والی خلافِ مزاج باتوں سے کیوں گھبرا جاتے ہیں؟

اب دیکھتے ہیں کہ کیا مصیبتیں ہمیں صرف پریشان کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا ان کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہِ خَیْرًا یُصِبْ مِنْہُ الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلائیں ، پریشانیاں اور مصائب یونہی بے سبب نہیں بھیجتے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عقل مند لوگوں ان مصائب سے کس کس طرح کے فائدے اٹھاکر دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹ گئے۔

ابن اثیر کی ’’جامع الاصول‘‘ اور ’’النہایہ‘‘ جیسی شاہ کار کتابوں کی وجہ تصنیف یہ بنی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے، لیکن قسمت کا رونا رونے کے بجائے انہوں ہمت و محنت سے کام لیا اور ان عظیم کتابوں کی تصنیف کے کام میں جُت گئے۔امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کو حاکم وقت نے ناراض ہوکر ایک کنوئیں میں بند کراودیا۔ انہوں نے اس فرصت کو غنیمت جانا اور سر پر ہاتھ رکھ کر رونے دھونے کے بجائے فقہی مسائل کی بے نظیر کتاب ’’المبسوط‘‘کی پندرہ جلدیں اپنے ان شاگروں کو زبانی لکھوا دیں جو کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر لکھتے جاتے تھے۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاوی قید و بند کی حالت میں لکھے۔

پس ثابت ہوا کہ اہل بصیرت حضرات دکھ درد اور مصائب میں مبتلا ہونے پر انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔لہٰذا تمام مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ آپ ان میں گھرکر خود کو پریشان نہ کریں بلکہ انہیں دور کرنے یا ان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے ان تدابیر پرعمل کریں:

۱) سب سے پہلے پیش آنے والے مسئلہ کوسمجھیں۔ عقل مند افراد مصائب کے سامنے ہمت نہیں ہارتے بلکہ ٹھنڈے دل ودماغ سے ان کامشاہد ہ کرتے ہیں۔ گہری نظر سے ان کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد انہیں حل کرنے کا مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوسکتا ہے۔

۲) اکثر مسائل اپنے اندر ہی اپنا حل رکھتے ہیں، لہٰذا کسی بھی مسئلہ پر بجائے بوکھلانے کے اس کو حل کرنے کے لیے صبر اورسکون کے ساتھ کمر بستہ ہوجائیں۔اللہ نے انسان کو وہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ہر مسئلے کا حل تلاش کرسکتا ہے،بس تھوڑی سی کوشش کرنی پڑتی ہے پھر مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

۳) اگر آپ پریشانی پر پریشان ہوگئے تو آپ پرگھبراہٹ طاری ہوجائے گی، یہ کچھ حد تک تو فطری ہوتی ہے لیکن اگر آپ نے اس کو اپنے حواس پر طاری کرلیا تو یہ آپ کو بدحواسی کی طرف لے جائے گی، ایسی صورت میں حالات آپ کو بد سے بدتر لگنے لگیں گے۔لہٰذا کسی بھی پریشانی کواپنے اوپر طاری نہ ہونے دیں۔مسئلہ کا حل سوچنے کے بجائے بدحواسی کے آگے ہتھیارڈالنے کا مطلب اپنا دشمن آپ بننا ہے۔

۴) دماغ سے صحیح حل اسی وقت نکلتا ہے جب دماغ کی مجموعی حالت پُر سکون ہو،دماغ کو پُرسکون رکھنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔بس بے جا بھاگ دوڑ، چیخ و پکار یا رونے دھونے سے پرہیز کریں، تھوڑا تحمل اور بردباری سے کام لیں ۔تحمل سے کام لینا اس طرح ممکن ہوگا کہ اپنی مشکل کو بڑا نہ سمجھیں۔ آپ کو اپنی مشکل اس وقت چھوٹی لگنے لگے گی جب آپ دنیا کے ان لوگوں کو دیکھیں گے جو آپ سے سو گنا زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، تب آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان مشکلات میں گھرے لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔

۵) اگر مسئلہ آپ سے کسی طرح حل نہ ہو رہا ہو تو کسی ایسے فرد سے رابطہ کریں جو سمجھدار، تجربہ کار اور آپ کا مخلص ہو،جو آپ کی پریشانیوں پر ہرطرح سے غور کرے اور آپ کو مفید مشورہ دے۔لیکن کسی بھی مشورہ پرعمل کرنے سے پہلے اسے اپنے ذاتی فیصلے کے ساتھ اچھی طرح پرکھیں،کیوں کہ آپ کے لیے کیاصحیح ہے اور کیا غلط یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

۶) اپنی ذات پر اعتماد آپ کی اصل کامیابی ہے۔اس اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ کہہ کر اپنی کمر خود ٹھونکیں کہ ہاں میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ یہ اعتماد مشکلات کے حل کے لیے ایسے ہی کام کرتا ہے جیسے گاڑی کوچلانے کے لیے پیٹرول۔اگر آپ نے اپنے اندر اس اعتماد کو پروان چڑھا لیا تو کوئی پریشانی آپ کوپریشان نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ اب آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔

۷) کسی بھی پریشانی کے حل کو التوا میں نہ ڈالیں۔بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں تو اسے التوا میں ڈال دیتے ہیں، یہ نہایت غلط سوچ ہے۔ یقین جانیے مسئلہ چاہے کتنا ہی بڑا اور مشکل کیوں نہ ہو آپ کی صلاحیتوں کے سامنے ہیچ ہے۔لیکن اسے کل پر ٹالنے یا نظریں چرانے سے اس کا حل نہیں نکلے گا۔خود اعتمادی سے یہ کہہ کر اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں کہ ہاں میں تم سے نمٹ سکتا ہوں۔ پھر ناممکن ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکیں۔

ان سب باتوں سے ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ مشکلات و مصائب انسان کو توڑنے کے لیے نہیں، اسے مضبوط و خود اعتماد بنانے اور ایک نئی زندگی پہلے سے بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ یہ مشکلات انسان کی شخصیت کی تعمیر و تربیت کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں، کیوں کہ آزمائش کی ان بھٹیوں سے گزرنے کے بعد اس کا اصل جوہر نکھر کر سامنے آتا ہے،اور اس کی وہ صلاحیتیں جو اب تک چھپی ہوئی ہوتی ہیں اس طرح ظاہر ہوتی ہیں کہ وہ خود بھی حیران رہ جاتا ہے۔

ہر مضبوط اور کامیاب شخصیت کے پیچھے مصائب ،تکالیف اور رنج و الم کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ غم اور مشکلات آپ کو وقتی طور پر تو پریشان کردیتے ہیں، آپ کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں، آپ کی ہمت جواب دیتی نظر آتی ہے اور آپ کو اپنی زندگی لاحاصل لگنے لگتی ہے۔ لیکن درحقیقت آپ کی آج کی مشکل آپ کا کل محفوظ بناتی ہے، یہ اندر ہی اندر آپ کی تربیت کرتی ہے اور آپ کا مستقبل تاب ناک بنانے کے لیے آپ کو تیار کرتی ہے۔

اگر آپ نے آج کی پریشانی کو اپنے ذہن پر سوار کرلیا تو آپ کا آج اور کل دونوں تاریک ہوجائیں گے۔اس لیے بہادر بنیے، مصائب سے سبق تو سیکھیئے لیکن ان کو اپنے دل کا روگ نہ بنائیے۔ہمت سے کام لیجئے اور تازہ اُمنگ سے ایک نئی زندگی جینے کا ارادہ کیجیے۔

ایک نئی اور خوشگوار زندگی آپ کا استقبال کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے!!!
سید صاحب! بہت اچھی تحریر ہے۔ نصیحت آموز۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
عمدہ تدبیریں ذکر کی ہیں آپ نے۔ میری طرف سے ذرا سا اضافہ:
کسی بھی مصیبت یا پریشانی میں سب سے پہلے اللہ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ ہی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا کرتا ہے۔اور صرف وہی نجات دلا سکتا ہے۔ ہماری تدابیر اس کے اذن کے بغیر کسی کام کی نہیں۔ استغفار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اپنے گناہوں کو یاد کرکے نادم ہوں اور آیندہ کیلئے توبہ کریں۔
اگر کوئی خطا یاد آجاے تو کسی سے ذکر نا کریں۔ اللہ پردہ پوشی کرنے والا ہے اور پردہ پوشی کو پسند فرماتے ہیں۔
اپنی مصیبت کا ذکر ہر کسی سے کرتے کرتے نا پھریں۔ اشد ضرورت کے تحت ہی کسی خاص کے ساتھ اسکا تذکرہ کریں۔
امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نا چھوٹے۔ ہر اندھیری رات کے بعد صبح ہوتی ہے۔
اقبال صاحب نے کیا ہی خوب فرمایا ہے۔
طریقہ اہلِ دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شانِ درویشی
یہ نکتہ پیرِ دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا کہ ہے ضبطِ فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی۔

اللہ ہم سب کو مصائب و آلام سے محفوظ رکھے!
 

سید عمران

محفلین
سید صاحب! بہت اچھی تحریر ہے۔ نصیحت آموز۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
عمدہ تدبیریں ذکر کی ہیں آپ نے۔ میری طرف سے ذرا سا اضافہ:
کسی بھی مصیبت یا پریشانی میں سب سے پہلے اللہ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ ہی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا کرتا ہے۔اور صرف وہی نجات دلا سکتا ہے۔ ہماری تدابیر اس کے اذن کے بغیر کسی کام کی نہیں۔ استغفار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اپنے گناہوں کو یاد کرکے نادم ہوں اور آیندہ کیلئے توبہ کریں۔
اگر کوئی خطا یاد آجاے تو کسی سے ذکر نا کریں۔ اللہ پردہ پوشی کرنے والا ہے اور پردہ پوشی کو پسند فرماتے ہیں۔
اپنی مصیبت کا ذکر ہر کسی سے کرتے کرتے نا پھریں۔ اشد ضرورت کے تحت ہی کسی خاص کے ساتھ اسکا تذکرہ کریں۔
امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نا چھوٹے۔ ہر اندھیری رات کے بعد صبح ہوتی ہے۔
اقبال صاحب نے کیا ہی خوب فرمایا ہے۔
طریقہ اہلِ دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شانِ درویشی
یہ نکتہ پیرِ دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا کہ ہے ضبطِ فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی۔

اللہ ہم سب کو مصائب و آلام سے محفوظ رکھے!
بے شک...
اللہ سے تعلق ہر وقت قائم رکھنا چاہیے...
خوشی ہو یا غم...
یہی ہمارا مقصد اول و آخر ہے...
اور...
یہی ہمارا مقصد تخلیق ہے!!!
 
Top