راحیل فاروق
محفلین
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا !
مولانا ظفرؔ علی خان اور اقبالؔ کے مصرعوں کا یہ جوڑ جب پہلی دفعہ ہم نے سنا تو لوٹ پوٹ ہو گئے۔ بعد کو خیال آتا رہا کہ یہ کھیل اچھا ہے۔ کبھی یار دوستوں میں بیٹھ کر کھیلا جائے۔ برا ہو ہماری بری عادتوں کا کہ خیال خیال ہی کی حد تک رہا۔کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا !
اب سوچتے ہیں کہ محفل پر بڑے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ اس سے زیادہ موزوں موقع محل اس کھیل کا اور کیا ہو گا۔
تو لیجیے، ہم آغاز کرتے ہیں۔ ذیل کے ملک شیک ایک ایک مصرع اقبالؔ سے اور ایک ایک غالبؔ سے لے کر بنائے گئے ہیں:
نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے!
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے !