دوست اور دشمن کے مقامات تو سیاق و سباق کے لحاظ سے بدلے ہیں ورنہ شعر کچھ یوں ہےدوست اور دشمن کے مقام نہ بدل دیجیے گا کہیں
’’دردِ دِل کے واسطے پیدا کیاانسان کو‘‘
عورتوں کو دردِ دِل دینے کا ملکہ دے دیا
اسی وجہ میں محمد خلیل الرحمٰن کے مراسلے کے جواب میں لکھ چکا ہوںدوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
آنکھ ٹیڑھی، ناک چپٹی، کان تو تھا ہی نہیںیک بادشاہ نے چار آدمی طلب کئے ان میں سے ایک عالم تھا ، دوسرا عاشق تھا ، تیسرا نابینا تھا اور چوتھا غریب تھا ، بادشاہ نے ان چاروںسے کہا کہ میرے دماغ میں ایک مصرعہ آیا ہے تم لوگ اسکو مکمل کرو
، مصرعہ یہ ہے:
( اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں )
چاروں نے تھوڑا سوچ بچار کیا اور اپنے اپنے حساب سے شعر بنائے جو
کچھ یوں تھے ۔
عالم :
بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں
اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق :
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں
اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
نابینا :
ہم میں بینائی نہیں اور اس میں گویائی نہیں
اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
غریب :
مانگتے پیسے مصور جیب میں پائی نہیں
اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اگر آپ کو اس شعر کو مکمل کرنے کا اختیار دیا جائے تو اس شعر کا
دوسرا مصرع کیا ہونا چاہیئے ؟؟؟ ۔ "
کیا خوب لکھا ہے آپ نے۔آنکھ ٹیڑھی، ناک چپٹی، کان تو تھا ہی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائ نہیں
ماشاء اللہ اکمل بھائی۔نظروں کو تابِ رخِ زیبائی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائ نہیں