امریکی افواج شام پر حملے کے لیے تیار
امریکی افواج شام پر حملے کے لیے تیار
Saturday 24 August 2013
اے ایف پی
1
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
واشنگٹن: عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیردفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ شام میں فوجی کارروائی کے لیے افواج کی پیش قدمی کے حوالے سے پینٹاگون کو صدر بارک اوبامہ کے حکم کا انتظار ہے۔
چک ہیگل نے ملائیشیا جاتے ہوئے اپنے طیارے میں موجود میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اس ہفتے شام کی حکومت کے مبینہ کیمیائی حملے کے بعد فوج کو مداخلت کے لیے کہہ دیا گیا ہے، امریکی کمانڈر اوبامہ کی جانب سے دیے جانے والے کسی بھی آپشن، جس میں دمشق پر حملہ شامل ہے ، کے لیے تیار ہیں۔
لیکن انہوں نے شام میں جاری خانہ جنگی کو ہوا دینے کے حوالے سے امریکی فوجیوں اور اس کے اثاثوں کی پوزیشن کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ”محکمہ دفاع کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صدر کو امکانات کے تمام پہلوؤں کو صدر کے سامنے پیش کردے۔“
ایک دفاعی اہلکار کی حثیت سے انہوں نے کہا کہ امریکی بحریہ نے چوتھے جنگی بیڑے کے ساتھ بحیرہ روم میں اپنی قوت میں اضافہ کردیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ بحری بیڑہ کروز میزائیل سے لیس ہے۔ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑی پہلے ہی بحیرہ روم میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوایس ایس ماہن کو ورجینیا سے واپس بلوا کر اس خطے میں اہم ذمہ داری دے دی گئی ہے۔
تین اور تباہ کن بحری بیڑے اس خطے میں تعینات ہیں، جن میں ایک یوایس ایس گریولی، یوایس ایس بیری اور یوایس ایس ریمیج۔ یہ تمام جنگی بحری بیڑے کئی درج ٹام ہاک کروز میزائل سے لیس ہیں۔
اگر اوبامہ فوجی حملے کا حکم دیتے ہیں تو یہ امدادی فوج پینٹاگون کو تیز ترین حملے میں مدد دے گی۔
ہیگل نے بتایا کہ ”صدر نے محکمہ دفاع کو تمام آپشن کا جائزہ لینے کے لیے کہا تھا، اور ہمیشہ کی طرح محکمہ دفاع پوری طرح تیار ہے، اور امریکی صدر کو امکانات کے تمام آپشنز فراہم کیے جاچکے ہیں۔“
پینٹاگون کے سربراہ اور محکمہ دفاع کے دیگر اہلکاروں نے واضح کیا کیا کہ ابھی اس حوالےسے کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کی مخالف فورس کے کے حوالے سے کیا اقدام اُٹھایا جائے گا۔
امریکی اخبارات کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ایک اور امریکی مداخلت کے نتیجے میں سامنے آنے والے ممکنہ خطرات کے حوالے سے امریکی انتظامیہ میں خاصے اختلافات موجود ہیں۔
چک ہیگل نے مشرق بعید کے اپنے ایک ہفتہ طویل دورے سے قبل جمعرات کو ہوائی میں امریکی بحریہ کا وزٹ کیا تھا،اس موقع پر انہوں کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں تیزی سے یہ جائزہ لے رہی ہیں کہ شامی حکومت نے واقعی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ امریکی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس معاملے پر غور کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”عالمی برادری یقیناً اس قسم کے معاملے پر ہم آہنگی کے ساتھ کارروائی کرے گی۔“
یاد رہے کہ شام میں بشارالاسد کے مخالفین نے اُن کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اُس نے دمشق کے مضافاتی علاقوں میں کیمیائی ہتھیاروں سے اپنے مخالفین پر حملہ کیا، جس کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مخالفین کے مطابق بدھ کی صبح باغیوں پر ہلاکت خیز کیمیائی بموں کے حملے راکٹوں کے ذریعے دمشق کے ایک علاقے غوتہ پر کیے ۔
اگلے روز اقوامِ متحدہ کے حکام نے بتایا تھا کہ شام میں موجود اُن کے نمائندوں کو دمشق کے اس علاقے تک رسائی کے لیے سفارتی روابط استعمال کیے جارہے ہیں، جہاں بشارالاسد کی فوج نے کیمیائی ہتھیار سے حملہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ شام کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ اس کے پاس بھاری مقدار میں کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔
اے ایف پی کا کہنا ہے کہ کیمیائی حملوں کا مقصد اِن علاقوں سے باغی فوجیوں کو باہر نکالنا تھا۔
http://urdu.dawn.com/2013/08/24/us-weighs-military-options-for-syria-hagel/