قیصرانی
لائبریرین
یہی کہ ہمارے ہاں تو 99 فیصد عام سی بات ہے۔ یہ کون سے 3 فیصد ہیں جنہیں خلاف ووٹ دینے کی اجازت ملی؟
یہی کہ ہمارے ہاں تو 99 فیصد عام سی بات ہے۔ یہ کون سے 3 فیصد ہیں جنہیں خلاف ووٹ دینے کی اجازت ملی؟
کاتب یا ٹائپسٹ کی غلطی؟ جیسا کہ سرگودھا کے ایک حلقہ میں ہوا تھا۔یہی کہ ہمارے ہاں تو 99 فیصد عام سی بات ہے۔ یہ کون سے 3 فیصد ہیں جنہیں خلاف ووٹ دینے کی اجازت ملی؟
اور ٹائپسٹ کی غلطی سے نتائج پر کتنے فیصد فرق پڑا ؟کاتب یا ٹائپسٹ کی غلطی؟ جیسا کہ سرگودھا کے ایک حلقہ میں ہوا تھا۔
براہ کرم آپ خالص و مخلص اسلامی شریعت کو خود ساختہ قوانین سے گڈمڈ کرکے التباس پیدا کررہے ہیں۔ جو حکومتیں یا افراد اپنی مرضی سے قوانین بناکر نافذ کررہے ہیں بھلا اس میں شریعت اسلامی کا کیا قصور؟ یہ بات صاف ہوجائے تو پھر ذرا یہ بتائیے گا کہ خالص اسلامی شریعت کا وہ کونسا قانون ہے جو آج چودہ سو سال گذرنے کے بعد ان کمپیٹیبل اور ان ایپلیکیبل ہے۔ پھر اس پر گفتگو کریں گے۔آپکے ان دعووں سے پہلے بھی بہت بڑے بڑے عالم دین اس قسم کے بیانات جاری کر چکے ہیں، لیکن عملی طور پر سب کے سب ناکام ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو آجکل کے جدید دور میں 1400 سال پرانی شریعت چاہئے تو اسکو وہ حالات و واقعات پیدا کرنے ہوں گے جو کہ اسوقت کی خلافت راشدین کے وقت تھے۔ یعنی پہلے دنیا کے 1،6 ارب مسلمانوں کیلئے ایک ایسے فرشتہ صفت امیرالمؤمنین کا انتخاب جسکے ہاتھ پر تمام مسلمان خلیفہ کے طور پر بیت کر سکیں۔ جسکے بعد اس اسلامی ریاست میں خلفائے راشدین کے دور کی طرح امن، انصاف، رواداری، انسانی حقوق، مساوات، معاشی استحکام وغیرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد شرعی سزائیں نافذ کی جائیں۔
اب یقیناً آپکو یہ تحریر پُر مزاح لگے گی لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔ اور جو جعلی نام نہاد منافق شریعتیں کچھ اسلامی ممالک میں نافظ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ان میں متواتر کیساتھ دوغلہ پن موجود ہے۔ جیسے سعودی شریعت۔ وہاں سعودی شاہی خاندان کی حکمران غیر شرعی ہے۔ اسلام میں بادشاہت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر آجائیں ایرانی شریعت پر۔ وہاں شیعہ علماء کرام کی ایرانی قوم پر مسلسل حکمرانی غیر شرعی ہے۔ اسلام میں نہ تو کسی شاہی خاندان کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی مولویانہ قسم کے سیاسی نظام کی۔ دوسرا یہ کہ خلفائے راشدین والی شریعت میں ایک بدو بھی اٹھ کر امیرالمؤمنین کیخلاف مقدمہ کر سکتا تھا۔ ایران اور سعودیہ میں اگر نامور عالم دین بھی وہاں نافذ منافقانہ شرعی نظام کی مخالفت کریں تو انکی گردنیں اتار دی جاتی ہیں۔
اور ضیاءالحق کی پاکستان شریعت پر تو لاحول پڑھنے کو دل کر تا ہے
۔
خواتین، بچوں، غلاموں، لونڈیوں کے انسانی حقوق۔ ان سے متعلقہ تمام قوانین جو ہزار سال پرانی اسلامی شریعت میں موجود ہیں وہ آجکل کے جدید دور کیساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ آجکل کے زمانہ میں آپ کسی کو غلام یا لونڈی نہیں بنا سکتے۔ جبکہ پچھلے 1400 سال سے اسلامی معاشروں میں غلاموں، باندیوں، کنیزوں کا وجود عام رہا ہے اور اسکو کہیں بھی کسی بھی اسلامی فقہ نے غیر شرعی قرار نہیں دیا۔ وہ تو اللہ ان کافرین عالمی طاقتوں کا بھلا کرے جن کے بین الاقوامی دباؤ میں آکر بالآخر عرب معاشروں سے بھی حکومتی سطح پر ہی سہی، اس ہزاروں سال پرانی بدعت کا خاتمہ ہو چکاہے:ذرا یہ بتائیے گا کہ خالص اسلامی شریعت کا وہ کونسا قانون ہے جو آج چودہ سو سال گذرنے کے بعد ان کمپیٹیبل اور ان ایپلیکیبل ہے۔
اس دنیا میں اس وقت اسلامی کہلائی جانی والی حکومتیں، گروہان اور تنظیمیں جو کچھ کررہی ہیں، ان کو ہر باخبر شخص جانتا ہے، اس لیے براہ کرم اس مبحث میں ان تحریکوں کی سرگرمیوں کا حوالہ پیش نہ کریں، نہ یہ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں اور نہ اسلام ان کا۔ اس وقت ہم محض اسلامی شریعت کے ان قوانین پر گفتگو کریں گے جنہیں آپ موجودہ دور سے ہم آہنگ نہیں سمجھتےالبتہ آجکل کی جہادی اسلامی دہشت گرد تنظیمیں جیسے نائیجریا کی بوکو حرام اس قدیم اسلامی عرب روایت کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے:
http://www.dailymail.co.uk/news/art...-sex-slavery-international-outcry-kidnap.html
تو عارف بھائی، تو آپ کیوں ان قوانین کے پیچھے پڑ رہے ہیں جبکہ احوال ایسے نہیں رہے۔ یہ تو کچھ ایسی بات ہوئی کہ رمضان گذر گیا تو کوئی یہ کہے کہ روزہ کے احکام حالیہ مہینوں سے ہم آہنگ نہیں، ارے بھائی جب وقت آئے گا جب یہ احکام نافذ ہونگے ورنہ دوسرے احکام۔خواتین، بچوں، غلاموں، لونڈیوں کے انسانی حقوق۔ ان سے متعلقہ تمام قوانین جو ہزار سال پرانی اسلامی شریعت میں موجود ہیں وہ آجکل کے جدید دور کیساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ آجکل کے زمانہ میں آپ کسی کو غلام یا لونڈی نہیں بنا سکتے۔ جبکہ پچھلے 1400 سال سے اسلامی معاشروں میں غلاموں، باندیوں، کنیزوں کا وجود عام رہا ہے اور اسکو کہیں بھی کسی بھی اسلامی فقہ نے غیر شرعی قرار نہیں دیا۔
آپکی دیگر تحریر سے متفق ہوں کہ چونکہ اب عالمگیری اجتماعی طور پر غلاموں اور کنیزوں کا زمانہ ختم ہو چکا ہے تو فقہ اسلامی کے ان قوانین کو کیوں دہرایا جائے جوان سے متعلقہ ہیں۔ لیکن آپ یہاں یہ بھول رہیں کہ آجکل کے زمانہ میں کم سن بچوں، لڑکوں، لڑکیوں، خواتین وغیرہ کے بنیادی انسانی حقوق ہزار سال پرانی اسلامی فقہ کے مطابق نہیں ہیں۔ آپ کسی بھی مسلم ملک کی مثال یہاں پیش کر سکتے ہیں جہاں اسلامی شریعت نافذ ہو یا نہ ہو اور وہاں مغرب سے بہتر حقوق معاشرے کے کمزور ترین ممبران یعنی بچوں اور خواتین کو دئے گئے ہوں۔تو جس چیز کا دور نہیں رہا اس کے قوانین کا تذکرہ کرکے کہنا کہ یہ ہم آہنگی نہیں، غیر دانشمندانہ طرز عمل ہے، بالکل ایسے ہی جیسے اوپر ہم نے روزہ کی مثال دی۔
متفق ہونے کے لیے مشکور (اس کا مطلب تو یہی ہوگا کہ آپ خالص و مخلص شریعت اسلامی کو حالیہ دور سے ہم آہنگ سمجھنے لگے ہیں) اور یہی سوال کہ آج کے دور میں اسلامی کہلائی جانی والی حکومتیں اور ادارے اچھے کام نہیں کررہے ہیں تو اس میں شریعت اسلامی کا کیا قصور بھلا؟آپکی دیگر تحریر سے متفق ہوں کہ چونکہ اب عالمگیری اجتماعی طور پر غلاموں اور کنیزوں کا زمانہ ختم ہو چکا ہے تو فقہ اسلامی کے ان قوانین کو کیوں دہرایا جائے جوان سے متعلقہ ہیں۔ لیکن آپ یہاں یہ بھول رہیں کہ آجکل کے زمانہ میں کم سن بچوں، لڑکوں، لڑکیوں، خواتین وغیرہ کے بنیادی انسانی حقوق ہزار سال پرانی اسلامی فقہ کے مطابق نہیں ہیں۔ آپ کسی بھی مسلم ملک کی مثال یہاں پیش کر سکتے ہیں جہاں اسلامی شریعت نافذ ہو یا نہ ہو اور وہاں مغرب سے بہتر حقوق معاشرے کے کمزور ترین ممبران یعنی بچوں اور خواتین کو دئے گئے ہوں۔
یہاں مغرب میں کفالت طفولیت کے باقاعدہ حکومتی سطح پر ادارے موجود ہیں جو ہر مصیبت میں پھنسے بچے کی ہمہ وقت امداد کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اگر کسی بچے کی کفالت میں اسکے اپنے سگے والدین بھی سستی یا نااہلی کا مظاہرہ کریں ( نشئی، غریب وغیرہ) تو انکو قانونی طور پر یہ اختیار ہوتا ہے کہ ان بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اس حکومتی ادارے یا ا س سے منسلک دارالامان کو دے دی جائے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Child_Protective_Services
اس قسم کا کوئی حکومتی ادارہ مجھے کسی بھی اسلامی ملک میں نظر نہیں آیا۔ گو کہ نجی این جی اوز مغربی فنڈز کے تعاون سے یہ کام مسلم ممالک میں بھی کر رہی ہیں جہاں معاشرے کے بدحال بچوں کی کفالت کی جاتی ہے۔
اسی طرح خواتین کو مردوں کیساتھ برابری کی بنیادوں پر حقوق دینے کا معاملہ آج تک ہماری لاتعداد اسلامی کونسلیں حکومتی سطح پر حل نہیں کر پائی ہیں۔ امسال اس ناکام اور نااہل اِسلامی نظریاتی کونسِل نے ان پاکستانی قوانین کو غیر اسلامی قرار دے دیا جن میں کم سن بچون کی شادی کو خلاف قانون قرار دیا گیا تھا:
http://www.dawn.com/news/1092468/pakistani-laws-prohibiting-underage-marriage-un-islamic-cii
بقول ان نام نہاد اسلامی علماء اور جاہلین کے: شادی کی عمر میں کوئی قید نہیں۔ نکاح والدین کی نگرانی میں کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ البتہ رُخصتی کیلئے بلوغت کی عمر تک انتظار کرنا ہوگا۔
اب بتائیں کہ ایسی احمقانہ شریعت پر بندہ قہقہے نہ لگائے تو کیا کرے؟ اسلامی کونسل کی اسی جہالت کی وجہ سے کسی پاکستانی مسخرے نے طنزاً یہ افواہ نیٹ پر چڑھا دی کہ اس کونسل نے خواتین کا معاشرے میں وجود ہی غیر اسلامی اور شرعی قرار دے دیا ہے جسے مغربی میڈیا نے خوب اچھالا:
http://www.pakistantoday.com.pk/201...ares-womens-existence-anti-islamic/#idc-cover
قصور ہے بالکل ہے۔ کیونکہ اگر آپ دیگر ادیان اور مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپکو معلوم ہوگا کہ انکے علماء کرام نے اپنے اپنے ادیان اور مذاہب کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق سُدھارا ہے اور اسکی قدیم تعلیمات اور حکام کی موجودہ دور کے مطابق درستگی کی ہے۔ جیسے 4000 پرانے یہودی مذہب میں کسی زمانہ میں اسلامی شریعت کی طرح سنگساری کی سزا عام تھی۔ اسی طرح وہ لوگ بیت المقدس میں مسلمانوں کی طرح بکریوں، بھیڑوں کی قربانی بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر حالات و واقعات میں تبدیلی کے بعد انکے مذہبی رہنماؤں نے سنگساری کو ناجائز قرار دے دیا اور بھیڑ بکریوں کی قربانی کی بجائے مالی قربانی کی اجازت دے دی۔ یوں انکی قدیم موسوی شریعت سے رفتہ رفتہ شدت پسند عناصرکا خاتمہ ہونے لگا اور آج مین اسٹریم یہودیت میں صرف لڑکوں کے ختنے کرنے سے متعلق روایات قائم و دائم ہیں۔ کہ یہ انکے مذہب کا بنیادی مسئلہ ہے۔متفقآج کے دور میں اسلامی کہلائی جانی والی حکومتیں اور ادارے اچھے کام نہیں کررہے ہیں تو اس میں شریعت اسلامی کا کیا قصور بھلا؟
او ہو عارف بھائی، یہی تو ہم بھی کہہ رہے کہ اس میں قصور شریعت اسلامی کا نہیں ان علماء کا ہوسکتا ہے جو اس سے وابستگی کا دعوی کرتے ہیں۔قصور ہے بالکل ہے۔ کیونکہ اگر آپ دیگر ادیان اور مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپکو معلوم ہوگا کہ انکے علماء کرام نے اپنے اپنے ادیان اور مذاہب کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق سُدھارا ہے اور اسکی قدیم تعلیمات اور حکام کی موجودہ دور کے مطابق درستگی کی ہے۔ جیسے 4000 پرانے یہودی مذہب میں کسی زمانہ میں اسلامی شریعت کی طرح سنگساری کی سزا عام تھی۔ اسی طرح وہ لوگ بیت المقدس میں مسلمانوں کی طرح بکریوں، بھیڑوں کی قربانی بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر حالات و واقعات میں تبدیلی کے بعد انکے مذہبی رہنماؤں نے سنگساری کو ناجائز قرار دے دیا اور بھیڑ بکریوں کی قربانی کی بجائے مالی قربانی کی اجازت دے دی۔ یوں انکی قدیم موسوی شریعت سے رفتہ رفتہ شدت پسند عناصرکا خاتمہ ہونے لگا اور آج مین اسٹریم یہودیت میں صرف لڑکوں کے ختنے کرنے سے متعلق روایات قائم و دائم ہیں۔ کہ یہ انکے مذہب کا بنیادی مسئلہ ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Reform_movement_in_Judaism
اسی قسم کی ملتی جلتی تحریکات اسلام میں بھی چلنی چاہئے تاکہ اسلامی شریعت سے ان تمام شدت پسند حکام اور سزاؤں کا خاتمہ ہو جائے جو موجودہ جدید دور سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جیسے مرتد کی سزا موت وغیرہ۔
یہی تو ہم مسلمانوں کا 1400 سالہ المیہ ہے۔ ہم اجتماعی طور پر اپنے ہزار سال پرانے فقہ و شریعت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی، جدت، بہتری، اصلاح وغیرہ کو خلاف شریعت سمجھتے ہیں اور اسے بدت کا نام دیتے ہیں ۔ ایسے میں اسلامی شریعت کو موجودہ دور کے حالات و واقعات کے مطابق ڈھالنے کے بلند و باند دعوے بالکل بے مقصد ثابت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب ہماری نیت اور عمل میں تضاد ہوگا تو نظام شریعت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کیسے آئے گی؟ایڈٹ: لیکن ہم قوم یہود میں برپا ہونے والی ان جیسی "اصلاحی" تحریکات کو شریعت اسلامی کے لیے مضر سمجھتے ہیں
تصحیح فرمالیں اسے بدعت نہیں تحریف کہا جاتا ہے، نیز "کسی بھی قسم کی تبدیلی، جدت، بہتری، اصلاح وغیرہ" کی ضرورت شریعت اسلامی کو نہیں کہ یہ کامل و مکمل دین ہے جس کا اعلان خود قرآن میں کیا گیا ہے خالق فطرت انسانی کے جانب سے۔یہی تو ہم مسلمانوں کا 1400 سالہ المیہ ہے۔ ہم اجتماعی طور پر اپنے ہزار سال پرانے فقہ و شریعت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی، جدت، بہتری، اصلاح وغیرہ کو خلاف شریعت سمجھتے ہیں اور اسے بدت کا نام دیتے ہیں ۔ ایسے میں اسلامی شریعت کو موجودہ دور کے حالات و واقعات کے مطابق ڈھالنے کے بلند و باند دعوے بالکل بے مقصد ثابت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب ہماری نیت اور عمل میں تضاد ہوگا تو نظام شریعت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کیسے آئے گی؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Bid‘ah
یہود کی مثال تو میں نے ایویں ہی دی تھی۔ آپ چاہیں تو عیسائیت، بدھمت ، سکھ دھرم جیسے ادیان و مذاہب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ وہاں بھی صدیوں میں بہت سی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں جبکہ اسلامی شریعت پچھلے 1000 سال سے ساکن ہے۔ موسوی شریعت م میں سنگساری کی سزا واجب ہونے کے باوجود 2000 سالوں میں کسی یہودی کو سنگسار نہیں کیا گیا کیونکہ اسوقت یہود قوم کے حالات و واقعات رومیوں نے انکے آبائی وطن اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے بعد بدل دئے تھے۔
آپ کو ان غیر مستعمل قوانین کے باقی اور قائم رہنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ تنفیذ پر اعتراض ہو تو کچھ منطق سمجھ آتی ہے، یہ چھوٹا سا نکتہ آپ سمجھ لیںجب زمانہ ہی بدل گیا تو جن حالات کیلئے وہ قوانین بنائے گئے تھے انکے قائم رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے جو یہود قوم پچھلے 2000 سال سے جانتی ہے لیکن امت مسلمہ کو آج تک سمجھ نہیں آیا
جتھے دی کھوتی اوتھے آ کھلوتی۔ دین اسلام کے کامل و مکمل ہونے میں شک کس کو ہے؟ یہ موضوع تو یہاں زیر بحث ہے ہی نہیں۔ اصل موضوع تو یہ ہے کہ اس ہزار سال پرانے فقہ اسلامی کو حالیہ جدید دور میں کیسے ڈھالا جائے کہ غیر مسلمین اور کفار اسکے احمق پن اور جہالت پر مبنی ہونے کی وجہ سے تمسخر نہ اڑائیں! میں حقائق کی بات کرتا ہوں تو آپ کتابی اور ایمانی باتیں لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایمانی بحث نہیں ہو رہی۔ موجودہ حالات و واقعات پر مبنی قانونی مسائل پر بات کریں جو صدیوں پرانی شریعت حالیہ دور میں لاگو کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔کسی بھی قسم کی تبدیلی، جدت، بہتری، اصلاح وغیرہ" کی ضرورت شریعت اسلامی کو نہیں کہ یہ کامل و مکمل دین ہے جس کا اعلان خود قرآن میں کیا گیا ہے خالق فطرت انسانی کے جانب سے۔
ایڈٹ: اب اگر اسے درست طریقہ سے برتا نہیں جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ سرے سے قانون الہی کو ہدف تغییر بنا لیا جائے۔
دیگر مذہب و ادیان نے یہ تحریفات روا رکھ کر اس بات کا ثبوت فراہم کردیا کہ وہ اپنے مذہب کو مکمل نہیں سمجھتے عملاً
آپ کو ان غیر مستعمل قوانین کے باقی اور قائم رہنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ تنفیذ پر اعتراض ہو تو کچھ منطق سمجھ آتی ہے، یہ چھوٹا سا نکتہ آپ سمجھ لیں
متفقہ یا اکثریت، ایک بات کیجئےجتھے دی کھوتی اوتھے آ کھلوتی۔ دین اسلام کے کامل و مکمل ہونے میں شک کس کو ہے؟ یہ موضوع تو یہاں زیر بحث ہے ہی نہیں۔ اصل موضوع تو یہ ہے کہ اس ہزار سال پرانے فقہ اسلامی کو حالیہ جدید دور میں کیسے ڈھالا جائے کہ غیر مسلمین اور کفار اسکے احمق پن اور جہالت پر مبنی ہونے کی وجہ سے تمسخر نہ اڑائیں! میں حقائق کی بات کرتا ہوں تو آپ کتابی اور ایمانی باتیں لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایمانی بحث نہیں ہو رہی۔ موجودہ حالات و واقعات پر مبنی قانونی مسائل پر بات کریں جو صدیوں پرانی شریعت حالیہ دور میں لاگو کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔
لمبی لمبی بحث کرنے کی بجائے ہم صرف ایک، جی ہاں صرف ایک شرعی قانون پر بات کر لیتے ہیں جہاں متفقہ طور پر امت مسلمہ کی اکثریت کا اجماع ہے یعنی مرتد کی سزا موت۔ یہ شرعی قانون جن حالات و واقعات میں فقہ اسلامی میں شامل کیا گیا وہ آج کہاں ہیں؟ آج کہاں اسلامی خلافت ہے جہاں اس قانون کا عملی اطلاق ہو سکے؟ جب حالات اور زمانہ ہی بدل گیا تو قانون کیوں قائم و دائم ہے؟ ذرا اس سوال کا جواب دیں پہلے!!! یاد رہے کہ موسوی شریعت میں بھی مرتد کی سزا موت اور سنگساری تھی کسی زمانہ میں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Apostasy_in_Judaism
اکثریت۔ متفقہ تو ہم آج تک کسی ایک بات میں بھی نہیں ہوئےمتفقہ یا اکثریت، ایک بات کیجئے