مصطفٰی ہیں.........

صفی حیدر

محفلین
محترم سر الف عین راحیل فاروق اور محفلیں سے اصلاح کی درخواست ہے ......
بحر ہزج مسدس محذوف

وہ محبوبِ خدا ہیں مصطفٰی ہیں
وہ جانِ دوسرا ہیں مصطفٰی ہیں
دلاسا دیتے ہیں رنج و الم میں
غموں میں آسرا ہیں مصطفٰی ہیں
وہ میرا عشق ہیں میری وفا ہیں
محبت کی انتہا ہیں مصطفٰی ہیں
مداوا درد کا ہیں کرب کا ہیں
وہ ہی میری شفا ہیں مصطفٰی ہیں
نہ ان کے بعد پھر جبریل آئے
وحی کی منتہا ہیں مصطفٰی ہیں
تعین کرتے ہیں سجدوں کے رخ کا
وہ ہی قبلہ نما ہیں مصطفٰی ہیں
عدو کہتے ہیں صادق اور امیں ہیں
وہ کہتے برملا ہیں مصطفٰی ہیں
حسیں ہیں، چہرہِ پر نور ہیں وہ
وہ بے شک دل ربا ہیں مصطفٰی ہیں
سراپا نور ہیں وہ ظلمتوں میں
اندھیروں میں ضیا ہیں مصطفٰی ہیں
کلام اللہ ہیں اخلاق ان کے
وہ حق کی ہر ادا ہیں مصطفٰی ہیں
بشارت دیتے ہیں جنت کی سب کو
وہ ایسے خوش نوا ہیں مصطفٰی ہیں
سکوں ہے بس درودِ مصطفٰی میں
وہ ذکرِ دل کشا ہیں مصطفٰی ہیں
میں ان پر زندگی ساری لٹا دوں
وہ ہی میری بقا ہیں مصطفٰی ہیں
وہ کرتے ہیں صفی کی غم گساری
مرے درد آشنا ہیں مصطفٰی ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دلاسا دیتے ہیں رنج و الم میں
غموں میں آسرا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ غموں میں یا رنج و الم میں، ایک ہی بات کا دہرانا ہے ۔۔۔ وہی اک آسرا ہیں، زیادہ بہتر ہوتا۔۔۔

وہ میرا عشق ہیں میری وفا ہیں
محبت کی انتہا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔۔ دوسرا مصرع وزن سے خارج لگتا ہے۔۔۔ جہاں شفا اور بقا آسکتا ہے، وہاں انتہا نہیں آسکتا۔ جو مجھے دکھائی دیا۔

مداوا درد کا ہیں کرب کا ہیں
وہ ہی میری شفا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ پہلا مصرع بیان کے اعتبار سے کمزور ہے کہ اتنی مختصر بحر میں "کا ہیں" کا دہرانا اضافی لگتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں "وہ ہی" کی جگہ "وہی" آئے گا۔
نہ ان کے بعد پھر جبریل آئے
وحی کی منتہا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ منتہا یا انتہا؟ ۔۔۔ پہلے مصرعے میں بہتری کی گنجائش اپنی جگہ ہے۔ ویسے انتہا کے بعد ابتدا پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی، یہاں اختتام بہتر دکھائی دیتا ہے۔ وہ کیسے آئے گا، یہ آپ کو سوچنا ہوگا۔
تعین کرتے ہیں سجدوں کے رخ کا
وہ ہی قبلہ نما ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ سجدوں کے رخ کا تعین تو اللہ نے ہی کیا، ہاں، اس میں حضور ﷺ کی خواہش ضرور ایک اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ قبلہ نما کا لفظ یہاں درست نہیں آسکا۔۔۔ ایک مثال: حاجیو آؤ مرے شاہ کا روضہ دیکھو، کعبہ تو دیکھ چکے، کعبے کا کعبہ دیکھو ۔۔۔

عدو کہتے ہیں صادق اور امیں ہیں
وہ کہتے برملا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ یہاں بھی "کہتے" کی تکرار درست نہیں لگتی۔ مضمون جاندار نہیں رہا۔

حسیں ہیں، چہرہِ پر نور ہیں وہ
وہ بے شک دل ربا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ دل ربا کا لفظ عام طور پر کسی نعت گو کو استعمال کرتے نہیں دیکھا، ممکن ہے جائز ہو مگر مجھے نہیں لگتا۔ اس کے علاوہ مصرع اول میں "ہیں" کی تکرار۔۔۔

سراپا نور ہیں وہ ظلمتوں میں
اندھیروں میں ضیا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ ظلمت اور اندھیرا ایک ہی بات ہے، تکرار نہیں ہے ، مگر ہے۔ اگر اس کا کچھ ہوسکے تو کیجئے، نہ ہوسکے تو نامناسب بھی نہیں۔


بشارت دیتے ہیں جنت کی سب کو
وہ ایسے خوش نوا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔ خوش نوا وہ ہوتا ہے جس کی آواز اچھی ہو، بے شک حضور کی یہ خوبی بھی اپنی جگہ، لیکن اس شعر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ "نوا" سے "نوازش" مراد لی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس میں بھی بہتری کی گنجائش کیا ہے، آپ جانتے ہیں۔
 

صفی حیدر

محفلین
دلاسا دیتے ہیں رنج و الم میں
غموں میں آسرا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ غموں میں یا رنج و الم میں، ایک ہی بات کا دہرانا ہے ۔۔۔ وہی اک آسرا ہیں، زیادہ بہتر ہوتا۔۔۔

وہ میرا عشق ہیں میری وفا ہیں
محبت کی انتہا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔۔ دوسرا مصرع وزن سے خارج لگتا ہے۔۔۔ جہاں شفا اور بقا آسکتا ہے، وہاں انتہا نہیں آسکتا۔ جو مجھے دکھائی دیا۔

مداوا درد کا ہیں کرب کا ہیں
وہ ہی میری شفا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ پہلا مصرع بیان کے اعتبار سے کمزور ہے کہ اتنی مختصر بحر میں "کا ہیں" کا دہرانا اضافی لگتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں "وہ ہی" کی جگہ "وہی" آئے گا۔
نہ ان کے بعد پھر جبریل آئے
وحی کی منتہا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ منتہا یا انتہا؟ ۔۔۔ پہلے مصرعے میں بہتری کی گنجائش اپنی جگہ ہے۔ ویسے انتہا کے بعد ابتدا پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی، یہاں اختتام بہتر دکھائی دیتا ہے۔ وہ کیسے آئے گا، یہ آپ کو سوچنا ہوگا۔
تعین کرتے ہیں سجدوں کے رخ کا
وہ ہی قبلہ نما ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ سجدوں کے رخ کا تعین تو اللہ نے ہی کیا، ہاں، اس میں حضور ﷺ کی خواہش ضرور ایک اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ قبلہ نما کا لفظ یہاں درست نہیں آسکا۔۔۔ ایک مثال: حاجیو آؤ مرے شاہ کا روضہ دیکھو، کعبہ تو دیکھ چکے، کعبے کا کعبہ دیکھو ۔۔۔

عدو کہتے ہیں صادق اور امیں ہیں
وہ کہتے برملا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ یہاں بھی "کہتے" کی تکرار درست نہیں لگتی۔ مضمون جاندار نہیں رہا۔

حسیں ہیں، چہرہِ پر نور ہیں وہ
وہ بے شک دل ربا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ دل ربا کا لفظ عام طور پر کسی نعت گو کو استعمال کرتے نہیں دیکھا، ممکن ہے جائز ہو مگر مجھے نہیں لگتا۔ اس کے علاوہ مصرع اول میں "ہیں" کی تکرار۔۔۔

سراپا نور ہیں وہ ظلمتوں میں
اندھیروں میں ضیا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔۔ ظلمت اور اندھیرا ایک ہی بات ہے، تکرار نہیں ہے ، مگر ہے۔ اگر اس کا کچھ ہوسکے تو کیجئے، نہ ہوسکے تو نامناسب بھی نہیں۔


بشارت دیتے ہیں جنت کی سب کو
وہ ایسے خوش نوا ہیں مصطفٰی ہیں
۔۔ خوش نوا وہ ہوتا ہے جس کی آواز اچھی ہو، بے شک حضور کی یہ خوبی بھی اپنی جگہ، لیکن اس شعر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ "نوا" سے "نوازش" مراد لی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس میں بھی بہتری کی گنجائش کیا ہے، آپ جانتے ہیں۔
بہت شکریہ شاہد شاہنواز بھائی ۔۔۔۔۔۔ آپ نے اپنی آراء سے نوازا جو میرے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
Top