مصطفیٰ دہشت گرد ہے

سید رافع

محفلین
سخت نوکیلے پتھروں اور جھاڑیوں سے ہو کر ایک راستہ پہاڑ کی مشرقی سمت کی جانب جاتا تھا۔ یہ ایک انجانا راستہ تھا۔ لوگوں کو صرف شاہراہ عام یا پہاڑ پر بنی دوسری پگڈنڈی کی خبر تھی جو مغرب کی جانب ایک گہری کھائی سے ہوتی ہوئی چیختے چنگھاڑتے شہر کو لے جاتی تھی۔ مشرقی سمت پر یہ وہی غار تھا جہاں ولی نے پہلی بار مصطفیٰ کو تین باتیں دے کر شہر کی جانب بھیجا تھا۔ مصطفیٰ کو ان باتوں سے سینے پر بوجھ سا معلوم ہو رہا تھا۔ پسینے کی ایک لڑی اسکے ماتھے اور داڑھی سے ہوتی ہوئی غار کی دھول میں جذب ہو گئی۔ وہ صبح آگئی تھی کہ جب مصطفیٰ نے ایک آخری کوشش کرنی تھی۔ مشرق سے طلوع ہوتے سورج کی نرم سنہری کرنیں آہستہ آہستہ غار کی دھول اٹی زمین اور ویران و اجاڑ زمین کو بھرنے لگی تھیں۔

اکبر نے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا۔ یہ بڑے بھائی کاحکم تھا جو ساری دنیا پر جاری تھا۔ ہر مرد کو لازم تھا کہ صبح ناشتے سے قبل اپنے ہاتھ اس طرح سے لٹکا کر اپنی بے چارگی اور کم ہمتی کا اظہار کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو گھر میں موجود اسکی بیوی، بہن، ماں، باپ اور محلے میں آس پڑوس کے لوگ بھائی کے کارندوں کو خبر دے دیتے جو اسکی اور اسکے خاندان کی موت کا پیام تھا۔ گھر کی عورتوں کو لازم تھا کہ وہ بھی دن میں بار بار اپنے ہاتھ سر کے پیچھے اس طرح رکھ لیں کہ ان کے تمام خدوخال نمایاں ہو جائیں۔ یہ بھی بڑے بھائی کا حکم تھا۔

یہ لیں جناب آپ کا پسندیدہ خاگینہ! اکبر کی بیوی نے سر سے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے اکبر کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ اکبر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے مزے سے گرما گرم پراٹھوں کا لطف اٹھانے لگا۔ ناشتہ ختم ہوا تو اکبر نے پکارتے ہوئے کہا کاغذ! اسکی بڑی بیٹی سر کے پیچھے ہاتھ رکھے گھوم رہی تھی۔ وہ فورا ہی ڈرائنگ روم میں سجے سبز کاغذ کو لے آئی۔ اکبر کے گھر کے سب مرد ایک طرف ہو لیے اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا۔ اور تمام عورتوں نے اپنے ہاتھ سر کےپیچھے اس طرح رکھ لیں کہ ان کے تمام خدوخال نمایاں ہو جائیں۔ خاص بڑے بھائی کی جانب سے بھیجا ہوا سبز کاغذ ٹیبل پر سجا بہت خوشنما معلوم ہو رہا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ایک چمک اور مسرت تھی کہ آج کا دن بھی خوشیوں بھرا گزرے گا کہ سب ہی گھر والوں نے سبز کاغذ کی رسم خوب ہی دل جمعی سے ادا کی تھی۔ اکبر کے ذمہ بڑے بھائی نے شہر کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالی تھی۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس کلین شیو اکبر نے اپنے خوبصورت سن گلاسزز سے گاڑی سے باہر کا نظارہ کیا تو ہر لڑکا انگلیاں لٹکائے اور ہر لڑکی سر کے پیچھے ہاتھ رکھ نظر آتی۔ وہ بار بار یہ عمل دوہراتے اور خوش ہوتے۔ پوری ایک صدی کی گھریلو تربیت نے بچپن سے ہی ہر لڑکے اور ہر لڑکی کو اس عمل میں خوب مشق فراہم کر دی تھی۔ مائیں پیدا ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس کی مشق کراتیں اور سبز کاغذ انکے پورے وجود کے گرد گھماتیں۔

مصطفیٰ نوکیلے پتھروں پر احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے غار سے نیچے کی جانب آرہا تھا جہاں سے پگڈنڈی مغرب کی جانب ایک گہری کھائی سے ہوتی ہوئی شہر کو جاتی تھی۔ اسکا سانس پھول رہا تھا اور ماتھے پر پسینے کے قطرےشبنم کے قطروں کی طرح جہلملاتے ہوئے پگڈنڈی پر گرتے جا رہے تھے۔ سورج چڑھ چکا تھا۔مصطفیٰ کے سب سے مخلص ساتھی اکبر، قمر اور ثمر اُس سے بغاوت کر کے بڑے بھائی کے کارندے بن چکے تھے۔مصطفیٰ کے دل میں وہ وقت ایک بجلی کی طرح کوند گیا جب اکبر، قمر اور ثمر نے قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ وہ سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو کسی صورت اختیار نہ کریں گے۔ لیکن بڑے بھائی نے اکبر کو شہر کے دین کا انتظام سنبھالنے کا لالچ دیا، قمر کو کل فوج کی کمان دے دی اور ثمر کو شہر کی تمام تجارت تحفے میں دے دی تھی۔ اس سے قبل ولی نے مصطفیٰ کو شہر کا کل انتظام دیا تھا ،اس عہد کے ساتھ وہ سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو کسی صورت اختیار نہیں کرے گا۔ اب صرف اکیلا مصطفیٰ بچا یا اسکے بارہ مخلص ساتھی باقی تھے۔ وہ ولی کو پکارتا، ہاتھ سیدھے رکھتا اور کسی ایسی عورت سے تعلق نہ رکھتا جو سر کے پیچھے ہاتھ رکھتی ہو۔ بڑے بھائی کی نظر میں مصطفیٰ ایک دشمن تھا، ایک ایسا دہشت گرد جو شہر کا انتظام برباد کرنا چاہتا ہو۔ گھروں میں فساد برپا کرنا چاہتا ہو۔ بڑے بھائی نے اکبر، قمر اور ثمر کو حکم دیا تھا کہ مصطفیٰ جہاں ملے اسے گولی مار دو۔

"مغربی سمت سے ساری فوج واپس بلا لو" ، قمر نے فوج کے کمانڈر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ کمانڈر نے یس سر کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا "آپ نے درست فرمایا مغرب کی سمت تو ماشاء اللہ سب ہی لوگ دن میں بار بار ہتھیلی لٹکا کر ہی چلتے ہیں"۔ ایسا کرو کہ ساری فوج شہر کے پرانے علاقے کی جانب بھیجو جہاں مصطفیٰ کے اب بھی چند مخلص ساتھی چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن دیکھو، تم انکو گولی نہ مارنا بلکہ جب انکو پکڑ لو تو ٹی وی پر انکو دکھانا کہ انہوں نے بھی اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا ہے اور سبز کاغذ کو احترام اور چاہت بھری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ان کے ساتھ کچھ سر کے پیچھے ہاتھ رکھی لڑکیوں کو بھی بیٹھا دینا تا کہ سارے شہر کو علم ہو جائے کہ انہوں نے مصطفیٰ کی تینوں باتوں کو چھوڑ کر بڑے بھائی کی تینوں باتوں کو اختیار کر لیا ہے۔ کمانڈر نے دوبارہ اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا "یس سر" اور سلوٹ کر کے قمر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

مصطفیٰ شہر کے پرانے علاقے پہنچ چکا تھا جہاں اب بھی اس کے بارہ مخلص چاہنے والے موجود تھے۔ مصطفیٰ کو دیکھ کر انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ لیکن جلد ہی ان میں خوف، حزن اور ملال کے ملے جلے جذبات جگہ بنانے لگے۔ انہی میں سے ایک مخلص نے آگے بڑھ کر مصطفیٰ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا "حضور! شہر میں تو بہت خطرہ ہے، خدا کے لیے آپ غار میں چلے جائیں، ہمیں آپ کی جان کا سخت خطرہ ہے، ہر طرف بڑے بھائی کے کارندے پھیلے ہوئے ہیں"۔ مصطفیٰ نے اس مرد باہمت کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا "آپ سب نے ہی اس تاریک دور میں نہ ہی ہاتھ لٹکایا، نہ ہی ان عورتوں سے علاقہ رکھا جو سر کے پیچھے ہاتھ رکھتی ہیں اور نہ ہی سبز کاغذ کی رسم میں شامل ہوئے۔ آپ کے قلوب اب بھی ولی کے زندہ و جاوید پیغام کے ساتھ ڈھڑکتے ہیں۔ آپ مخلصین ہیں اور آپ ہی صادقین ہیں۔ ولی آپکے ساتھ ہے اور میں آپ کے لیے دعا گو ہوں "۔ ان بارہ مخلص لوگوں کے آنسو تھم نہ پائے۔ ایک طرف مصطفیٰ کا دھول میں اٹا لباس اور دوسری طرف ہر طرف پھیلی وحشت جو کسی بھی وقت مصطفیٰ کی جان لے سکتی تھی۔

"ہم نے مصطفیٰ اور اسکے ساتھیوں کی لکھی سب کتابیں تبدیل کر دی ہیں"۔ شہر کے دینی علماءنے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا۔ اکبر نے انتہائی جوش اور مسرت کے ساتھ کہا "بہت عمدہ"۔ اکبر نے دینی کارندوں کی پذیرائی کرتے ہو ئے مزید کہا "آپ نے جس عمدگی اور علم کی خدمت کے جذبے سے یہ کام کیا ہے آپ واقعی تعریف کے لائق ہیں۔ آپ ہی کاوشوں سے شہر میں اب کوئی گھر نہیں بچا جہاں سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو اختیار نہ کیا گیا ہو"۔ اکبر کا چہرہ خوشی سے تمتا رہا تھا۔ اس نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکائیں اور قریبی الماری کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ "آپ سب کے لیے اس کام کے عوض ایک بہت بڑی خوشخبری ہے" اکبر نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اکبر کے کمرے میں موجود چھپن علماء کی آنکھیں چمک اٹھیں اور سب بھنویں دباتے ہوئے اکبر کو دیکھنے لگے۔ "سبز کاغذ کی عقیدت بڑھانے کے لیے بڑے بھائی کی جانب سے آپ سب کو ایک ایک کمرہ سبز کاغذ سے بھر کر دیا جائے گا تاکہ آپ کو سبز کاغذ کی عقیدت بڑھانے میں کاغذ کی فراہمی میں کوئی دشواری نہ ہو۔ اسکے علاوہ بڑے بھائی نے آپ کی لکھی کتب کو مغرب کی جانب تمام ملکوں میں عام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں آپ کے مراکز ہر شہر میں کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے"۔ تمام علماء، بے ساختہ ایک ساتھ ہی ہتھیلی اور انگلیاں لٹکا کر کھڑے ہوئے اور کمرے میں آفرین آفرین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

"آپ سب ان گھرانوں کی گنتی خاص کر لا کے دیں جو دن میں چوبیس بار سے کم تین بلند احکامات کی پیروری کرتے ہیں"۔ ثمر نے مال اور تجارت سے متعلق مشیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اسکی تمام مشیر خواتین تھیں اور وہ ثمر کے آفس میں اپنے سر کےپیچھے ہاتھ کر کے بیٹھی ہوئی تھیں۔ سب نے دل لبھانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ثمر کی جانب دیکھا جو بڑے بھائی کی جانب سے شہر کی تجارت سنبھالنے پر مامور تھا۔ ان میں سے ایک خوبصورت و دلنشین مشیر نے اپنے جسم کو ابھارا اور سر کے پیچھے اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا "سمندر کے پاس کے علاقوں میں مال کی کثرت ہے اور وہاں تو دن میں سو بار سے کم تو کوئی گھر ایسا ہے ہی نہیں جو تین بلند احکامات کی پیروی نہ کرتا ہو"۔ ثمر ہونٹ کاٹتے ہوئے مسکراتے ہوئے اس دلپذیر مشیر سے مخاطب ہوا "اسکا مطلب یہ ہوا کہ اب بڑے بھائی کو مذید سبز کاغذ اس علاقے میں تحفہ دینے کی بھی ضرورت نہیں کہ اب وہ خوش دلی سے بڑے بھائی کا کام اپنے ہی مال سے کر رہے ہیں"۔ اس خوبصورت اور دلآویز مشیر نے ایک مسکراہٹ بھری آہ کھینچتے ہوئے کہا "یس سر"۔ ثمر نے آنکھ دباتے ہوئے آگے کے منصوبے بتاتے ہوئے کہا "ہم نے ہر صورت مصطفیٰ کے تین احکامات کا محاصرہ کرنا ہے اور تمام ایسی آبادیوں کو برباد کرنا ہے جہاں ایک بھی مرد یا عورت بڑے بھائی کے تین بلند احکامات بجائے مصطفیٰ کی طرف مائل ہو۔ ہم نے انکا سختی سے معاشی محاصرہ کرنا ہے کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو شہر کا انتظام بگڑ جائے گا۔ آپ ان آبادیوں تک ہر قسم کی تجارت اور مال کو روکنے کے تمام انتظامات کریں جہاں ابھی بھی مصطفیٰ کی لکھی کتابوں پر رقم خرچ ہو رہی ہے۔ مصطفیٰ دہشت گرد اور اس کا پیغام دہشت گردی ہے۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ مرد ہتھیلی لٹکائیں، عورتیں سر کے پیچھے ہاتھ رکھیں اور سبز کاغذ کی رسم بلند سے بلند سطح پر جاری و ساری رہے"۔

مصطفیٰ کے مخلص نے اپنے گھٹنوں پر آتے ہوئے، اسکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر التجا کی، "حضور! آپ ہماری آخری امید اور محبت کی آخری نشانی ہیں۔ آپ کا تصور کر کے ہی ہم جیتے ہیں اور حوصلہ پاتے ہیں۔ آپ خدارا! غار کی طرف واپس چلے جائیں۔ یہاں خطرہ بہت شدیدہے۔ اکبر کے کارندے خاص کر گلی گلی پھر رہی ہیں وہ آپ کو مار دیں گے"۔ مصطفیٰ نے اپنے مخلص ساتھی اور بزرگ کو ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور تمام مخلصین ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ مصطفیٰ نے اپنی نظر باری باری اپنے تمام مخلصین کے چہروں پر ڈالنی شروع کی جنھوں نے شدت کرب سے اپنے دونوں ہاتھوں کا مضبوطی سے سینے کے پاس تھام کر رکھا ہوا تھا۔ مصطفیٰ ایک ایک مخلص کی طرف نظر ڈالتا جاتا اور وہ گردن کے اشارے سے ہاں کر دیتے اور نرمی سے آنکھیں بند کر لیتے۔

------ جاری ہے---------

محفلین سے سوال: مصطفیٰ کو کیا کرنا چاہیے؟
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
محفلین سے سوال: مصطفیٰ کو کیا کرنا چاہیے؟
علی وقار
اربش علی
ظفری
محمد عبدالرؤوف
جاسمن
الف نظامی
سید عمران
گُلِ یاسمیں
La Alma
خورشیداحمدخورشید
فیصل عظیم فیصل
سیما علی
زیک

آپ تشریف لائیں اور یہ بتائیں کہ کہانی کا اختتام کیسا کریں؟ کیا مصطفیٰ غار واپس چلا جائے؟ کیا وہ خاموشی سے اپنی بات شہر کے لوگوں تک پہنچائے؟ یا کچھ اور؟

شکیل احمد خان23 ، آپ بھی تشریف لائیں اور تحریر کے تیکنیکی پہلو پر تبصرہ کیجیے۔

خیر یہ تحریر بھی گپ شپ کی لڑی میں ہونی چاہیے تھی لیکن تحریر لمبی ہوگئی تو اس زمرے میں پوسٹ کر دی۔
 
دادا صاحب کی گھوڑی پھر اندھیری رات ۔

جب یہ مکمل ہو جائے گا تو پھر اس کا مناسب تجزیہ کیا جائے گا تاکہ بہتے پانی کا بہاؤ دیکھ کر اس کا مصنف اپنے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں پر کوئی بند نہ لگائے۔ آپ اسے مکمل کریں پھر اس پر بات ہوگی ۔ تب تک مجھے کیلا رکھنے کا درست طریقہ اور کھیرا کاٹنے کی حکمتیں سمجھنے دیجئے ۔
 

علی وقار

محفلین
سخت نوکیلے پتھروں اور جھاڑیوں سے ہو کر ایک راستہ پہاڑ کی مشرقی سمت کی جانب جاتا تھا۔ یہ ایک انجانا راستہ تھا۔ لوگوں کو صرف شاہراہ عام یا پہاڑ پر بنی دوسری پگڈنڈی کی خبر تھی جو مغرب کی جانب ایک گہری کھائی سے ہوتی ہوئی چیختے چنگھاڑتے شہر کو لے جاتی تھی۔ مشرقی سمت پر یہ وہی غار تھا جہاں ولی نے پہلی بار مصطفیٰ کو تین باتیں دے کر شہر کی جانب بھیجا تھا۔ مصطفیٰ کو ان باتوں سے سینے پر بوجھ سا معلوم ہو رہا تھا۔ پسینے کی ایک لڑی اسکے ماتھے اور داڑھی سے ہوتی ہوئی غار کی دھول میں جذب ہو گئی۔ وہ صبح آگئی تھی کہ جب مصطفیٰ نے ایک آخری کوشش کرنی تھی۔ مشرق سے طلوع ہوتے سورج کی نرم سنہری کرنیں آہستہ آہستہ غار کی دھول اٹی زمین اور ویران و اجاڑ زمین کو بھرنے لگی تھیں۔

اکبر نے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا۔ یہ بڑے بھائی کاحکم تھا جو ساری دنیا پر جاری تھا۔ ہر مرد کو لازم تھا کہ صبح ناشتے سے قبل اپنے ہاتھ اس طرح سے لٹکا کر اپنی بے چارگی اور کم ہمتی کا اظہار کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو گھر میں موجود اسکی بیوی، بہن، ماں، باپ اور محلے میں آس پڑوس کے لوگ بھائی کے کارندوں کو خبر دے دیتے جو اسکی اور اسکے خاندان کی موت کا پیام تھا۔ گھر کی عورتوں کو لازم تھا کہ وہ بھی دن میں بار بار اپنے ہاتھ سر کے پیچھے اس طرح رکھ لیں کہ ان کے تمام خدوخال نمایاں ہو جائیں۔ یہ بھی بڑے بھائی کا حکم تھا۔

یہ لیں جناب آپ کا پسندیدہ خاگینہ! اکبر کی بیوی نے سر سے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے اکبر کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ اکبر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے مزے سے گرما گرم پراٹھوں کا لطف اٹھانے لگا۔ ناشتہ ختم ہوا تو اکبر نے پکارتے ہوئے کہا کاغذ! اسکی بڑی بیٹی سر کے پیچھے ہاتھ رکھے گھوم رہی تھی۔ وہ فورا ہی ڈرائنگ روم میں سجے سبز کاغذ کو لے آئی۔ اکبر کے گھر کے سب مرد ایک طرف ہو لیے اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا۔ اور تمام عورتوں نے اپنے ہاتھ سر کےپیچھے اس طرح رکھ لیں کہ ان کے تمام خدوخال نمایاں ہو جائیں۔ خاص بڑے بھائی کی جانب سے بھیجا ہوا سبز کاغذ ٹیبل پر سجا بہت خوشنما معلوم ہو رہا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ایک چمک اور مسرت تھی کہ آج کا دن بھی خوشیوں بھرا گزرے گا کہ سب ہی گھر والوں نے سبز کاغذ کی رسم خوب ہی دل جمعی سے ادا کی تھی۔ اکبر کے ذمہ بڑے بھائی نے شہر کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالی تھی۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس کلین شیو اکبر نے اپنے خوبصورت سن گلاسزز سے گاڑی سے باہر کا نظارہ کیا تو ہر لڑکا انگلیاں لٹکائے اور ہر لڑکی سر کے پیچھے ہاتھ رکھ نظر آتی۔ وہ بار بار یہ عمل دوہراتے اور خوش ہوتے۔ پوری ایک صدی کی گھریلو تربیت نے بچپن سے ہی ہر لڑکے اور ہر لڑکی کو اس عمل میں خوب مشق فراہم کر دی تھی۔ مائیں پیدا ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس کی مشق کراتیں اور سبز کاغذ انکے پورے وجود کے گرد گھماتیں۔

مصطفیٰ نوکیلے پتھروں پر احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے غار سے نیچے کی جانب آرہا تھا جہاں سے پگڈنڈی مغرب کی جانب ایک گہری کھائی سے ہوتی ہوئی شہر کو جاتی تھی۔ اسکا سانس پھول رہا تھا اور ماتھے پر پسینے کے قطرےشبنم کے قطروں کی طرح جہلملاتے ہوئے پگڈنڈی پر گرتے جا رہے تھے۔ سورج چڑھ چکا تھا۔مصطفیٰ کے سب سے مخلص ساتھی اکبر، قمر اور ثمر اُس سے بغاوت کر کے بڑے بھائی کے کارندے بن چکے تھے۔مصطفیٰ کے دل میں وہ وقت ایک بجلی کی طرح کوند گیا جب اکبر، قمر اور ثمر نے قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ وہ سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو کسی صورت اختیار نہ کریں گے۔ لیکن بڑے بھائی نے اکبر کو شہر کے دین کا انتظام سنبھالنے کا لالچ دیا، قمر کو کل فوج کی کمان دے دی اور ثمر کو شہر کی تمام تجارت تحفے میں دے دی تھی۔ اس سے قبل ولی نے مصطفیٰ کو شہر کا کل انتظام دیا تھا ،اس عہد کے ساتھ وہ سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو کسی صورت اختیار نہیں کرے گا۔ اب صرف اکیلا مصطفیٰ بچا یا اسکے بارہ مخلص ساتھی باقی تھے۔ وہ ولی کو پکارتا، ہاتھ سیدھے رکھتا اور کسی ایسی عورت سے تعلق نہ رکھتا جو سر کے پیچھے ہاتھ رکھتی ہو۔ بڑے بھائی کی نظر میں مصطفیٰ ایک دشمن تھا، ایک ایسا دہشت گرد جو شہر کا انتظام برباد کرنا چاہتا ہو۔ گھروں میں فساد برپا کرنا چاہتا ہو۔ بڑے بھائی نے اکبر، قمر اور ثمر کو حکم دیا تھا کہ مصطفیٰ جہاں ملے اسے گولی مار دو۔

"مغربی سمت سے ساری فوج واپس بلا لو" ، قمر نے فوج کے کمانڈر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ کمانڈر نے یس سر کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا "آپ نے درست فرمایا مغرب کی سمت تو ماشاء اللہ سب ہی لوگ دن میں بار بار ہتھیلی لٹکا کر ہی چلتے ہیں"۔ ایسا کرو کہ ساری فوج شہر کے پرانے علاقے کی جانب بھیجو جہاں مصطفیٰ کے اب بھی چند مخلص ساتھی چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن دیکھو، تم انکو گولی نہ مارنا بلکہ جب انکو پکڑ لو تو ٹی وی پر انکو دکھانا کہ انہوں نے بھی اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا ہے اور سبز کاغذ کو احترام اور چاہت بھری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ان کے ساتھ کچھ سر کے پیچھے ہاتھ رکھی لڑکیوں کو بھی بیٹھا دینا تا کہ سارے شہر کو علم ہو جائے کہ انہوں نے مصطفیٰ کی تینوں باتوں کو چھوڑ کر بڑے بھائی کی تینوں باتوں کو اختیار کر لیا ہے۔ کمانڈر نے دوبارہ اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا "یس سر" اور سلوٹ کر کے قمر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

مصطفیٰ شہر کے پرانے علاقے پہنچ چکا تھا جہاں اب بھی اس کے بارہ مخلص چاہنے والے موجود تھے۔ مصطفیٰ کو دیکھ کر انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ لیکن جلد ہی ان میں خوف، حزن اور ملال کے ملے جلے جذبات جگہ بنانے لگے۔ انہی میں سے ایک مخلص نے آگے بڑھ کر مصطفیٰ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا "حضور! شہر میں تو بہت خطرہ ہے، خدا کے لیے آپ غار میں چلے جائیں، ہمیں آپ کی جان کا سخت خطرہ ہے، ہر طرف بڑے بھائی کے کارندے پھیلے ہوئے ہیں"۔ مصطفیٰ نے اس مرد باہمت کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا "آپ سب نے ہی اس تاریک دور میں نہ ہی ہاتھ لٹکایا، نہ ہی ان عورتوں سے علاقہ رکھا جو سر کے پیچھے ہاتھ رکھتی ہیں اور نہ ہی سبز کاغذ کی رسم میں شامل ہوئے۔ آپ کے قلوب اب بھی ولی کے زندہ و جاوید پیغام کے ساتھ ڈھڑکتے ہیں۔ آپ مخلصین ہیں اور آپ ہی صادقین ہیں۔ ولی آپکے ساتھ ہے اور میں آپ کے لیے دعا گو ہوں "۔ ان بارہ مخلص لوگوں کے آنسو تھم نہ پائے۔ ایک طرف مصطفیٰ کا دھول میں اٹا لباس اور دوسری طرف ہر طرف پھیلی وحشت جو کسی بھی وقت مصطفیٰ کی جان لے سکتی تھی۔

"ہم نے مصطفیٰ اور اسکے ساتھیوں کی لکھی سب کتابیں تبدیل کر دی ہیں"۔ شہر کے دینی علماءنے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا۔ اکبر نے انتہائی جوش اور مسرت کے ساتھ کہا "بہت عمدہ"۔ اکبر نے دینی کارندوں کی پذیرائی کرتے ہو ئے مزید کہا "آپ نے جس عمدگی اور علم کی خدمت کے جذبے سے یہ کام کیا ہے آپ واقعی تعریف کے لائق ہیں۔ آپ ہی کاوشوں سے شہر میں اب کوئی گھر نہیں بچا جہاں سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو اختیار نہ کیا گیا ہو"۔ اکبر کا چہرہ خوشی سے تمتا رہا تھا۔ اس نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکائیں اور قریبی الماری کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ "آپ سب کے لیے اس کام کے عوض ایک بہت بڑی خوشخبری ہے" اکبر نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اکبر کے کمرے میں موجود چھپن علماء کی آنکھیں چمک اٹھیں اور سب بھنویں دباتے ہوئے اکبر کو دیکھنے لگے۔ "سبز کاغذ کی عقیدت بڑھانے کے لیے بڑے بھائی کی جانب سے آپ سب کو ایک ایک کمرہ سبز کاغذ سے بھر کر دیا جائے گا تاکہ آپ کو سبز کاغذ کی عقیدت بڑھانے میں کاغذ کی فراہمی میں کوئی دشواری نہ ہو۔ اسکے علاوہ بڑے بھائی نے آپ کی لکھی کتب کو مغرب کی جانب تمام ملکوں میں عام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں آپ کے مراکز ہر شہر میں کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے"۔ تمام علماء، بے ساختہ ایک ساتھ ہی ہتھیلی اور انگلیاں لٹکا کر کھڑے ہوئے اور کمرے میں آفرین آفرین کی سدائیں بلند ہونے لگیں۔

"آپ سب ان گھرانوں کی گنتی خاص کر لا کے دیں جو دن میں چوبیس بار سے کم تین بلند احکامات کی پیروری کرتے ہیں"۔ ثمر نے مال اور تجارت سے متعلق مشیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اسکی تمام مشیر خواتین تھیں اور وہ ثمر کے آفس میں اپنے سر کےپیچھے ہاتھ کر کے بیٹھی ہوئی تھیں۔ سب نے دل لبھانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ثمر کی جانب دیکھا جو بڑے بھائی کی جانب سے شہر کی تجارت سنبھالنے پر مامور تھا۔ ان میں سے ایک خوبصورت و دلنشین مشیر نے اپنے جسم کو ابھارا اور سر کے پیچھے اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا "سمندر کے پاس کے علاقوں میں مال کی کثرت ہے اور وہاں تو دن میں سو بار سے کم تو کوئی گھر ایسا ہے ہی نہیں جو تین بلند احکامات کی پیروی نہ کرتا ہو"۔ ثمر ہونٹ کاٹتے ہوئے مسکراتے ہوئے اس دلپذیر مشیر سے مخاطب ہوا "اسکا مطلب یہ ہوا کہ اب بڑے بھائی کو مذید سبز کاغذ اس علاقے میں تحفہ دینے کی بھی ضرورت نہیں کہ اب وہ خوش دلی سے بڑے بھائی کا کام اپنے ہی مال سے کر رہے ہیں"۔ اس خوبصورت اور دلآویز مشیر نے ایک مسکراہٹ بھری آہ کھینچتے ہوئے کہا "یس سر"۔ ثمر نے آنکھ دباتے ہوئے آگے کے منصوبے بتاتے ہوئے کہا "ہم نے ہر صورت مصطفیٰ کے تین احکامات کا محاصرہ کرنا ہے اور تمام ایسی آبادیوں کو برباد کرنا ہے جہاں ایک بھی مرد یا عورت بڑے بھائی کے تین بلند احکامات بجائے مصطفیٰ کی طرف مائل ہو۔ ہم نے انکا سختی سے معاشی محاصرہ کرنا ہے کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو شہر کا انتظام بگڑ جائے گا۔ آپ ان آبادیوں تک ہر قسم کی تجارت اور مال کو روکنے کے تمام انتظامات کریں جہاں ابھی بھی مصطفیٰ کی لکھی کتابوں پر رقم خرچ ہو رہی ہے۔ مصطفیٰ دہشت گرد اور اس کا پیغام دہشت گردی ہے۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ مرد ہتھیلی لٹکائیں، عورتیں سر کے پیچھے ہاتھ رکھیں اور سبز کاغذ کی رسم بلند سے بلند سطح پر جاری و ساری رہے"۔

مصطفیٰ کے مخلص نے اپنے گھٹنوں پر آتے ہوئے، اسکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر التجا کی، "حضور! آپ ہماری آخری امید اور محبت کی آخری نشانی ہیں۔ آپ کا تصور کر کے ہی ہم جیتے ہیں اور حوصلہ پاتے ہیں۔ آپ خدارا! غار کی طرف واپس چلے جائیں۔ یہاں خطرہ بہت شدیدہے۔ اکبر کے کارندے خاص کر گلی گلی پھر رہیں ہیں وہ آپ کو مار دیں گے"۔ مصطفیٰ نے اپنے مخلص ساتھی اور بزرگ کو ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور تمام مخلصین ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ مصطفیٰ نے اپنی نظر باری باری اپنے تمام مخلصین کے چہروں پر ڈالنی شروع کی جنھوں نے شدت کرب سے اپنے دونوں ہاتھوں کا مضبوطی سے سینے کے پاس تھام کر رکھا ہوا تھا۔ مصطفیٰ ایک ایک مخلص کی طرف نظر ڈالتا جاتا اور وہ گردن کے اشارے سے ہاں کر دیتے اور نرمی سے آنکھیں بند کر لیتے۔

------ جاری ہے---------

محفلین سے سوال: مصطفیٰ کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک لفظ سدائیں نظر سے گزرا، یہ ٹائپو ہے، اسے ٹھیک کر دیجیے۔ رہیں ہیں کو رہی ہیں کر دیجیے۔ اسلوب کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ عمدہ ہے۔ آپ کہانی لکھنے کے ہنر سے خوب آشنا ہیں۔ جہاں تک کہانی کا معاملہ ہے تو، یہ آگے بڑھے گی تو معلوم ہو پائے گا کہ اس کی فکری و معنوی جہات کیا ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
جہاں تک کہانی کا معاملہ ہے تو، یہ آگے بڑھے گی تو معلوم ہو پائے گا کہ اس کی فکری و معنوی جہات کیا ہیں۔
کہانی ختم شد کے نزدیک ہے۔ بس مصطفی غار میں واپس چلا جائے یا شہر میں چھپ کر اپنی بات پہنچائے یہی طے کرنا رہ گیا ہے۔اس بابت آپ کیا کہتے ہیں ؟
 

سید رافع

محفلین
تب تک مجھے کیلا رکھنے کا درست طریقہ اور کھیرا کاٹنے کی حکمتیں سمجھنے دیجئے ۔
ضرور، لیکن یاد رہے کہ کیلا رکھنے کا صحیح طریقہ قسمت والوں کو ہی سمجھ آتا ہے اور کھیرا کاٹنے کی حکمتیں تو ایک گمشدہ علم، اس کے درپے نہ ہوں!
 

علی وقار

محفلین
سخت نوکیلے پتھروں اور جھاڑیوں سے ہو کر ایک راستہ پہاڑ کی مشرقی سمت کی جانب جاتا تھا۔ یہ ایک انجانا راستہ تھا۔ لوگوں کو صرف شاہراہ عام یا پہاڑ پر بنی دوسری پگڈنڈی کی خبر تھی جو مغرب کی جانب ایک گہری کھائی سے ہوتی ہوئی چیختے چنگھاڑتے شہر کو لے جاتی تھی۔ مشرقی سمت پر یہ وہی غار تھا جہاں ولی نے پہلی بار مصطفیٰ کو تین باتیں دے کر شہر کی جانب بھیجا تھا۔ مصطفیٰ کو ان باتوں سے سینے پر بوجھ سا معلوم ہو رہا تھا۔ پسینے کی ایک لڑی اسکے ماتھے اور داڑھی سے ہوتی ہوئی غار کی دھول میں جذب ہو گئی۔ وہ صبح آگئی تھی کہ جب مصطفیٰ نے ایک آخری کوشش کرنی تھی۔ مشرق سے طلوع ہوتے سورج کی نرم سنہری کرنیں آہستہ آہستہ غار کی دھول اٹی زمین اور ویران و اجاڑ زمین کو بھرنے لگی تھیں۔

اکبر نے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا۔ یہ بڑے بھائی کاحکم تھا جو ساری دنیا پر جاری تھا۔ ہر مرد کو لازم تھا کہ صبح ناشتے سے قبل اپنے ہاتھ اس طرح سے لٹکا کر اپنی بے چارگی اور کم ہمتی کا اظہار کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو گھر میں موجود اسکی بیوی، بہن، ماں، باپ اور محلے میں آس پڑوس کے لوگ بھائی کے کارندوں کو خبر دے دیتے جو اسکی اور اسکے خاندان کی موت کا پیام تھا۔ گھر کی عورتوں کو لازم تھا کہ وہ بھی دن میں بار بار اپنے ہاتھ سر کے پیچھے اس طرح رکھ لیں کہ ان کے تمام خدوخال نمایاں ہو جائیں۔ یہ بھی بڑے بھائی کا حکم تھا۔

یہ لیں جناب آپ کا پسندیدہ خاگینہ! اکبر کی بیوی نے سر سے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے اکبر کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ اکبر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے مزے سے گرما گرم پراٹھوں کا لطف اٹھانے لگا۔ ناشتہ ختم ہوا تو اکبر نے پکارتے ہوئے کہا کاغذ! اسکی بڑی بیٹی سر کے پیچھے ہاتھ رکھے گھوم رہی تھی۔ وہ فورا ہی ڈرائنگ روم میں سجے سبز کاغذ کو لے آئی۔ اکبر کے گھر کے سب مرد ایک طرف ہو لیے اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا۔ اور تمام عورتوں نے اپنے ہاتھ سر کےپیچھے اس طرح رکھ لیں کہ ان کے تمام خدوخال نمایاں ہو جائیں۔ خاص بڑے بھائی کی جانب سے بھیجا ہوا سبز کاغذ ٹیبل پر سجا بہت خوشنما معلوم ہو رہا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ایک چمک اور مسرت تھی کہ آج کا دن بھی خوشیوں بھرا گزرے گا کہ سب ہی گھر والوں نے سبز کاغذ کی رسم خوب ہی دل جمعی سے ادا کی تھی۔ اکبر کے ذمہ بڑے بھائی نے شہر کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالی تھی۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس کلین شیو اکبر نے اپنے خوبصورت سن گلاسزز سے گاڑی سے باہر کا نظارہ کیا تو ہر لڑکا انگلیاں لٹکائے اور ہر لڑکی سر کے پیچھے ہاتھ رکھ نظر آتی۔ وہ بار بار یہ عمل دوہراتے اور خوش ہوتے۔ پوری ایک صدی کی گھریلو تربیت نے بچپن سے ہی ہر لڑکے اور ہر لڑکی کو اس عمل میں خوب مشق فراہم کر دی تھی۔ مائیں پیدا ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس کی مشق کراتیں اور سبز کاغذ انکے پورے وجود کے گرد گھماتیں۔

مصطفیٰ نوکیلے پتھروں پر احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے غار سے نیچے کی جانب آرہا تھا جہاں سے پگڈنڈی مغرب کی جانب ایک گہری کھائی سے ہوتی ہوئی شہر کو جاتی تھی۔ اسکا سانس پھول رہا تھا اور ماتھے پر پسینے کے قطرےشبنم کے قطروں کی طرح جہلملاتے ہوئے پگڈنڈی پر گرتے جا رہے تھے۔ سورج چڑھ چکا تھا۔مصطفیٰ کے سب سے مخلص ساتھی اکبر، قمر اور ثمر اُس سے بغاوت کر کے بڑے بھائی کے کارندے بن چکے تھے۔مصطفیٰ کے دل میں وہ وقت ایک بجلی کی طرح کوند گیا جب اکبر، قمر اور ثمر نے قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ وہ سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو کسی صورت اختیار نہ کریں گے۔ لیکن بڑے بھائی نے اکبر کو شہر کے دین کا انتظام سنبھالنے کا لالچ دیا، قمر کو کل فوج کی کمان دے دی اور ثمر کو شہر کی تمام تجارت تحفے میں دے دی تھی۔ اس سے قبل ولی نے مصطفیٰ کو شہر کا کل انتظام دیا تھا ،اس عہد کے ساتھ وہ سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو کسی صورت اختیار نہیں کرے گا۔ اب صرف اکیلا مصطفیٰ بچا یا اسکے بارہ مخلص ساتھی باقی تھے۔ وہ ولی کو پکارتا، ہاتھ سیدھے رکھتا اور کسی ایسی عورت سے تعلق نہ رکھتا جو سر کے پیچھے ہاتھ رکھتی ہو۔ بڑے بھائی کی نظر میں مصطفیٰ ایک دشمن تھا، ایک ایسا دہشت گرد جو شہر کا انتظام برباد کرنا چاہتا ہو۔ گھروں میں فساد برپا کرنا چاہتا ہو۔ بڑے بھائی نے اکبر، قمر اور ثمر کو حکم دیا تھا کہ مصطفیٰ جہاں ملے اسے گولی مار دو۔

"مغربی سمت سے ساری فوج واپس بلا لو" ، قمر نے فوج کے کمانڈر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ کمانڈر نے یس سر کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا "آپ نے درست فرمایا مغرب کی سمت تو ماشاء اللہ سب ہی لوگ دن میں بار بار ہتھیلی لٹکا کر ہی چلتے ہیں"۔ ایسا کرو کہ ساری فوج شہر کے پرانے علاقے کی جانب بھیجو جہاں مصطفیٰ کے اب بھی چند مخلص ساتھی چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن دیکھو، تم انکو گولی نہ مارنا بلکہ جب انکو پکڑ لو تو ٹی وی پر انکو دکھانا کہ انہوں نے بھی اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا دیا ہے اور سبز کاغذ کو احترام اور چاہت بھری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ان کے ساتھ کچھ سر کے پیچھے ہاتھ رکھی لڑکیوں کو بھی بیٹھا دینا تا کہ سارے شہر کو علم ہو جائے کہ انہوں نے مصطفیٰ کی تینوں باتوں کو چھوڑ کر بڑے بھائی کی تینوں باتوں کو اختیار کر لیا ہے۔ کمانڈر نے دوبارہ اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا "یس سر" اور سلوٹ کر کے قمر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

مصطفیٰ شہر کے پرانے علاقے پہنچ چکا تھا جہاں اب بھی اس کے بارہ مخلص چاہنے والے موجود تھے۔ مصطفیٰ کو دیکھ کر انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ لیکن جلد ہی ان میں خوف، حزن اور ملال کے ملے جلے جذبات جگہ بنانے لگے۔ انہی میں سے ایک مخلص نے آگے بڑھ کر مصطفیٰ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا "حضور! شہر میں تو بہت خطرہ ہے، خدا کے لیے آپ غار میں چلے جائیں، ہمیں آپ کی جان کا سخت خطرہ ہے، ہر طرف بڑے بھائی کے کارندے پھیلے ہوئے ہیں"۔ مصطفیٰ نے اس مرد باہمت کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا "آپ سب نے ہی اس تاریک دور میں نہ ہی ہاتھ لٹکایا، نہ ہی ان عورتوں سے علاقہ رکھا جو سر کے پیچھے ہاتھ رکھتی ہیں اور نہ ہی سبز کاغذ کی رسم میں شامل ہوئے۔ آپ کے قلوب اب بھی ولی کے زندہ و جاوید پیغام کے ساتھ ڈھڑکتے ہیں۔ آپ مخلصین ہیں اور آپ ہی صادقین ہیں۔ ولی آپکے ساتھ ہے اور میں آپ کے لیے دعا گو ہوں "۔ ان بارہ مخلص لوگوں کے آنسو تھم نہ پائے۔ ایک طرف مصطفیٰ کا دھول میں اٹا لباس اور دوسری طرف ہر طرف پھیلی وحشت جو کسی بھی وقت مصطفیٰ کی جان لے سکتی تھی۔

"ہم نے مصطفیٰ اور اسکے ساتھیوں کی لکھی سب کتابیں تبدیل کر دی ہیں"۔ شہر کے دینی علماءنے اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اٹھایا اور انگلیوں کو ہتھیلی سمیت نیچے کی طرف لٹکا کر کہا۔ اکبر نے انتہائی جوش اور مسرت کے ساتھ کہا "بہت عمدہ"۔ اکبر نے دینی کارندوں کی پذیرائی کرتے ہو ئے مزید کہا "آپ نے جس عمدگی اور علم کی خدمت کے جذبے سے یہ کام کیا ہے آپ واقعی تعریف کے لائق ہیں۔ آپ ہی کاوشوں سے شہر میں اب کوئی گھر نہیں بچا جہاں سبز کاغذ کی رسم، مردوں کے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکانے اور عورتوں کا سر کے پیچھے ہاتھ رکھنے کو اختیار نہ کیا گیا ہو"۔ اکبر کا چہرہ خوشی سے تمتا رہا تھا۔ اس نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے ہتھیلی اور انگلیاں لٹکائیں اور قریبی الماری کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ "آپ سب کے لیے اس کام کے عوض ایک بہت بڑی خوشخبری ہے" اکبر نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اکبر کے کمرے میں موجود چھپن علماء کی آنکھیں چمک اٹھیں اور سب بھنویں دباتے ہوئے اکبر کو دیکھنے لگے۔ "سبز کاغذ کی عقیدت بڑھانے کے لیے بڑے بھائی کی جانب سے آپ سب کو ایک ایک کمرہ سبز کاغذ سے بھر کر دیا جائے گا تاکہ آپ کو سبز کاغذ کی عقیدت بڑھانے میں کاغذ کی فراہمی میں کوئی دشواری نہ ہو۔ اسکے علاوہ بڑے بھائی نے آپ کی لکھی کتب کو مغرب کی جانب تمام ملکوں میں عام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں آپ کے مراکز ہر شہر میں کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے"۔ تمام علماء، بے ساختہ ایک ساتھ ہی ہتھیلی اور انگلیاں لٹکا کر کھڑے ہوئے اور کمرے میں آفرین آفرین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

"آپ سب ان گھرانوں کی گنتی خاص کر لا کے دیں جو دن میں چوبیس بار سے کم تین بلند احکامات کی پیروری کرتے ہیں"۔ ثمر نے مال اور تجارت سے متعلق مشیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اسکی تمام مشیر خواتین تھیں اور وہ ثمر کے آفس میں اپنے سر کےپیچھے ہاتھ کر کے بیٹھی ہوئی تھیں۔ سب نے دل لبھانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ثمر کی جانب دیکھا جو بڑے بھائی کی جانب سے شہر کی تجارت سنبھالنے پر مامور تھا۔ ان میں سے ایک خوبصورت و دلنشین مشیر نے اپنے جسم کو ابھارا اور سر کے پیچھے اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا "سمندر کے پاس کے علاقوں میں مال کی کثرت ہے اور وہاں تو دن میں سو بار سے کم تو کوئی گھر ایسا ہے ہی نہیں جو تین بلند احکامات کی پیروی نہ کرتا ہو"۔ ثمر ہونٹ کاٹتے ہوئے مسکراتے ہوئے اس دلپذیر مشیر سے مخاطب ہوا "اسکا مطلب یہ ہوا کہ اب بڑے بھائی کو مذید سبز کاغذ اس علاقے میں تحفہ دینے کی بھی ضرورت نہیں کہ اب وہ خوش دلی سے بڑے بھائی کا کام اپنے ہی مال سے کر رہے ہیں"۔ اس خوبصورت اور دلآویز مشیر نے ایک مسکراہٹ بھری آہ کھینچتے ہوئے کہا "یس سر"۔ ثمر نے آنکھ دباتے ہوئے آگے کے منصوبے بتاتے ہوئے کہا "ہم نے ہر صورت مصطفیٰ کے تین احکامات کا محاصرہ کرنا ہے اور تمام ایسی آبادیوں کو برباد کرنا ہے جہاں ایک بھی مرد یا عورت بڑے بھائی کے تین بلند احکامات بجائے مصطفیٰ کی طرف مائل ہو۔ ہم نے انکا سختی سے معاشی محاصرہ کرنا ہے کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو شہر کا انتظام بگڑ جائے گا۔ آپ ان آبادیوں تک ہر قسم کی تجارت اور مال کو روکنے کے تمام انتظامات کریں جہاں ابھی بھی مصطفیٰ کی لکھی کتابوں پر رقم خرچ ہو رہی ہے۔ مصطفیٰ دہشت گرد اور اس کا پیغام دہشت گردی ہے۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ مرد ہتھیلی لٹکائیں، عورتیں سر کے پیچھے ہاتھ رکھیں اور سبز کاغذ کی رسم بلند سے بلند سطح پر جاری و ساری رہے"۔

مصطفیٰ کے مخلص نے اپنے گھٹنوں پر آتے ہوئے، اسکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر التجا کی، "حضور! آپ ہماری آخری امید اور محبت کی آخری نشانی ہیں۔ آپ کا تصور کر کے ہی ہم جیتے ہیں اور حوصلہ پاتے ہیں۔ آپ خدارا! غار کی طرف واپس چلے جائیں۔ یہاں خطرہ بہت شدیدہے۔ اکبر کے کارندے خاص کر گلی گلی پھر رہی ہیں وہ آپ کو مار دیں گے"۔ مصطفیٰ نے اپنے مخلص ساتھی اور بزرگ کو ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور تمام مخلصین ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ مصطفیٰ نے اپنی نظر باری باری اپنے تمام مخلصین کے چہروں پر ڈالنی شروع کی جنھوں نے شدت کرب سے اپنے دونوں ہاتھوں کا مضبوطی سے سینے کے پاس تھام کر رکھا ہوا تھا۔ مصطفیٰ ایک ایک مخلص کی طرف نظر ڈالتا جاتا اور وہ گردن کے اشارے سے ہاں کر دیتے اور نرمی سے آنکھیں بند کر لیتے۔

------ جاری ہے---------

محفلین سے سوال: مصطفیٰ کو کیا کرنا چاہیے؟
گو کہ قصے کہانیوں میں مفروضاتی کردار ہوتے ہیں تاہم، اس کے باوصف، مکمل صالح اور مکمل غیر صالح کردار قارئین کے سامنے پیش کرنا مناسب نہیں۔ مخلصین بھی مجھے ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کے اسم بامسمیٰ کرداروں جیسے لگتے ہیں یعنی مٹی کے مادھو ہیں۔ کہانی کے کرداروں میں مجھے زیادہ جان محسوس نہیں ہو رہی؛ یہ جیتے جاگتے سانس لیتے، خیر و شر کا مرکب انسان معلوم نہیں ہوتے بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ اکہری سوچ رکھتے ہیں، انسانی جذبات و احساسات سے عاری ہیں۔ اُن کی ایک واضح شناخت ابھر کر سامنے نہیں آ رہی ہے۔ کہانی کا اس قدر مختصر ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے اور اس قدر اختصار گراں بھی گزرتا ہے؛ یہ افسانہ بھی تو نہیں ہے نا! قصہ مختصر، یہ کہانی یک رخی سوچ کی علم بردار ہے۔ اسلوب کے متعلق عرض کر چکا ہوں کہ اس میں آپ کافی طاق ہیں جس پر تعریف بنتی ہے؛ واقعہ نگاری عمدہ ہے۔
 
آخری تدوین:
Top