ضیاء حیدری
محفلین
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی صحت کے حوالے سے اکثر و بیشتر گردش کرنے والی خبروں کو کیش کروانا اصل مقصد ہے۔ امکان یہ تھا کہ الطاف حسین کی زندگی کی ڈولتی کشتی کے پیش نظر کچھ ابن الوقت پارٹی چھلانگ لگا سکتے ہیں، اور انکی دیکھا دیکھی کارکنان نے پارٹی چھوڑنی شروع کردی تو بھاگم دوڑ شروع ہوجائے گی، اور پارٹی ٹوٹ جائے گی۔
اس قسم کی بے سروپا باتوں پر جماعت اسلامی اکثر داؤ کھیلتی رہتی ہے اور منہ کی کھاتی ہے، اب عمران خان بھی اسی کشتی میں سورا ہوگئے ہیں۔ جماعت اسلامی تو ایک مسترد شدہ پارٹی ہے، اس کے پاس کھونے کچھ نہیں ہے، لیکن عمران کو سوچنا چاہئے، اگر وہ کراچی کے شہریوں کے لئے کھڑا نہیں ہوسکتا ہے، تو پھر بھول جائے کراچی کو۔۔۔
انیس قائم خانی اور مصطفیٰ کمال نے آتے ہی کچھ ایسی غلطیاں کردی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ کراچی کی ہمدردی میں نہیں آئے ہیں، بلکہ مائنس ون فارمولا کے مہرے ہیں۔ مصطفٰی کمال اور انیس قائم خانی نے ایم کیو ایم کی قیادت پر رشوت، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹ ہونے جیسے الزامات لگائے تھے۔ مان لیا یہ سب باتیں سچ ہیں، لیکن یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ اس ملک کے لوگوں کو اب ان باتون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ سب لیڈر ایسے ہی ہیں۔ ماڈل ٹاؤں میں چودہ افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ کسی نے تو حکم دیا ہوگا کہ ان کو ٹھونک دو۔ نواز بات بے بات پر مودی سرکار کے آگےکورنش بجا لاتا ہے، ڈو مور کے حکم کے تابعداری میں، وزیرستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں کھربوں روپے اس آپریشن میں جھونک دئے جاتے ہیں، اب ان باتوں میں کچھ نہیں رکھا ہے، جس نے جو کرنا کرتا رہے، رائے عامہ بے حس ہوچکی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو عوام کی سپورٹ حاصل ہے اور وجہ صرف یہ کہ دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں پاس کراچی کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے، کراچی کے مسائل کا حل علیحدہ صوبے کا قیام ہے کیونکہ سندھی وڈیرے نے صرف لوٹ مار کرنا ہے، اس شہر سے انہیں نفرت ہے۔
اس زمانے میں اگر مصطفیٰ کمال نے اردو بولنے والوں اور ملک کے دوسرے صوبوں میں رہنے والوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں نفرت کی جگہ محبت کا بیج بونے کی کوشش کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکن کس حد تک ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ ملک کے باقی حصوں میں لوگوں نے ان کی پریس کانفرنس کا ایک مثبت تاثر لیا ہے۔ لیکن متعصب سندھی اور پنجابی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایم کیو ایم کو ختم کرنے اور الطاف بھائی کی جگہ مصطفیٰ کمال کو اردو بولنے والوں کا لیڈر بنانے کی کوشش کو اس وقت تک عوامی پذیرائی نہیں ملے گی جب تک کراچی کی نا گفتہ بہ حالت کے ذمہ داروں سے اختیار چھین کر، منتخب نمائندوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ہے۔ مصطفیٰ کمال کو جرات کے ساتھ علیحدہ صوبے کی بات کرنا چاہئے، یہی وہ پوائنٹ ہے جس پر وہ کامیاب تحریک چلا سکتے ہیں، اردو بولنے والوں کی ہمدردی حاصل کر سکتے ہیں، اور ثانت کر سکتے ہیں کہ وہ اردو بولنے والوں سے مخلص ہیں ، کسی اور کا کھیل نہیں کھیل رہے ہیں۔
ل