سید رافع
محفلین
صحرا کی سلگتی ریت کے تپتے ذرے شدید گرم ہوا میں دھتکی آگ کی چنگاریوں کی مانند اوپر اٹھ رہے تھے۔ صحرا کی غضب ناک ہوا ان ذروں کو حد نگاہ پھیلے سنہری ریت کے بھیانک سمندر میں قوت سے پٹخ رہی تھی۔ ہوا کے مرغولے حملہ کرتے سانپ کی صورت میں اٹھتے اور غائب ہو جاتے۔ جھلّائی ہوئی ہوا کی آواز اسقدر شدید تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نا دیتی۔ بیاباں کے خار دار خشک کیکٹس اس طوفان کے باعث سبز کے بجائے زرد کھلونے دکھائی دے رہے تھے جن کا وجود تیزی سے منڈلاتی ہوا کے ساتھ کبھی ایک رخ تو کبھی دوسرے رخ جھکا جا رہا تھا۔ رقص کرتی ہوا کی سیٹی نما آواز کانوں کو پھاڑے ڈال رہی تھی۔
صحرا کے بطن میں پوشیدہ بھید ہمیشہ سے اس وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ صحرا کا یہ جنون اس بھید کو چیخ چیخ کر آ گئے وقت پر جگا رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ صحرا اب زمین کا بطن چھوڑ کر دیوانہ وار رقص کرنا چاہتا ہو۔ صحرا کی آگ برساتی یہ وحشت آنے والے وقت سے قبل ولی کو معلوم تھی۔ ولی کو معلوم تھا کہ خاسر کا حسد بار بار زمین پر وحشت کا ساماں پیدا کرے گا۔ آج صحرا کی ہوا خاسر کی انتہائی وحشت پر رَقْصِ بِسْمِل کر رہی تھی۔ وہ لمحہ آ گیا تھا کہ جب مصطفی جاگ گیا۔
جاری ہے۔۔۔
صحرا کے بطن میں پوشیدہ بھید ہمیشہ سے اس وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ صحرا کا یہ جنون اس بھید کو چیخ چیخ کر آ گئے وقت پر جگا رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ صحرا اب زمین کا بطن چھوڑ کر دیوانہ وار رقص کرنا چاہتا ہو۔ صحرا کی آگ برساتی یہ وحشت آنے والے وقت سے قبل ولی کو معلوم تھی۔ ولی کو معلوم تھا کہ خاسر کا حسد بار بار زمین پر وحشت کا ساماں پیدا کرے گا۔ آج صحرا کی ہوا خاسر کی انتہائی وحشت پر رَقْصِ بِسْمِل کر رہی تھی۔ وہ لمحہ آ گیا تھا کہ جب مصطفی جاگ گیا۔
جاری ہے۔۔۔