محمود احمد غزنوی
محفلین
مصطلحاتِ تصوف
تصوفدین کے تمام مراتب یعنی اسلام، ایمان اور احسان کے ساتھ تحقق(Verification ) حاصل ہونے کا نام تصوف ہے۔
شروع کے زمانوں میں دین کے مرتبہءِ احسان کو ہی تصوف کے مترادف سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان زمانوں میں عامۃالمسلمین اور فقہاء و مقلدین، دین کے پہلے دو مراتب یعنی مرتبہءِ اسلام اور مرتبہءِ ایمان سے عمومی طور پر متحقق ہوا کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں احسان تو درکنار، اسلام اور ایمان کے مراتب بھی گویا شاذ اور کمیاب کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
چنانچہ تصوف کا لفظ اب دین کے تینوں مراتب اور دینداری کے تینوں مراحل کی طرف لوٹ آیا ہے۔ چنانچہ دین اور تصوف اب ایک ہی شئے کا نام ہے۔ اور دین کی جگہ تصوف کا لفظ استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ غافل لوگوں نے لفظ دین کو اسکے شایانِ شان مظاہر کی بجائے بہت غیرمناسب امور کیلئے بھی استعمال کرنا شروع کردیا اور کھوکھلی، سطحی اور خشک بے جان دینداری کے مظاہر پر بھی دین کا اطلاق ہونے لگا۔ حالانکہ دین تو اللہ کے ساتھ اسکے بندے کے معاملے کا نام ہے جو ہردم تروتازہ اور زندہ ہونا چاہئیے۔ چنانچہ اسی بناء پر ، ظاہری و باطنی طور پر صحیح دین کی طرف لوٹ آنے کو تصوف کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
صوفیہ کے نزدیک، قرآن و سنت کے معاملے میں محض سابقین میں سے کسی ایک کی فہم پر ہی اکتفا نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اللہ کی طرف سے انکے قلوب پر بھی علوم وارد ہوتے ہیں کیونکہ اللہ کے خزانوں کی کوئی انتہاء نہیں اور علم کی کوئی حد نہیں ، اور ہر ذی علم سے اوپر بھی ایک علم والا ہے(و فوق کل ذی علم علیم)۔
اور جس کسی نے تصوف کو زہد کے معنوں میں استعمال کیا ہے تو اسکا یہ ایسا کرنا کسی شئے کو اسکے جزو کے نام سے موسوم کرنے کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ زہد، مرتبہِ ایمان کے احوال میں سے ایک حال ہے چنانچہ تصوف کو صرف زہد میں ہی محصور کرنا، علم کی رُو سے خالی از علت نہیں ہے۔
پس صوفی وہ ہے جس نے دینداری کے تمام مراحل طے کئے ہوئے ہوں اور دین کے تمام مراتب سے گذر کر دین کی غرض و غایت (یعنی پروردگارِ عالم کی معرفت) کو پہنچ چکا ہو۔ چنانچہ اس بناء پر ، جسے وصل حاصل نہیں ہوا، وہ صوفی نہیں ۔ البتہ مجازی طور پر کسی سالک کو تبشیر کے تحت صوفی کہا گیا ہو تو یہ ایک الگ بات ہے۔
(مصنف : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: