مصنوعی ذہانت اور اردو ادب(امکانات و مسائل کے آئینے میں)۔۔۔محمد خرم یاسین

مصنوعی ذہانت اور اردو ادب(امکانات و مسائل کے آئینے میں)۔۔۔محمد خرم یاسین

مضمون کو اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے:

 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اہم یہ ہے کہ دفاعی اے آئی کہاں تک پہنچ گئی ہے جو موجودہ دنیا کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں۔

یہاں کچھ اہم واقعات کی جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں جو محکمہ دفاع (DoD) کے لئے AI سسٹمز کی دستیابی کو ظاہر کرتی ہیں:

1. **1960s-1970s**: ابتدائی AI تحقیق اور ترقی شروع ہوئی، جس میں بنیادی مشین لرننگ، روبوٹکس، اور فیصلہ سازی کے الگوردمز پر توجہ دی گئی۔

2. **1980s**: اسٹریٹیجک کمپیوٹنگ انیشی ایٹو، جسے ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی (DARPA) نے شروع کیا، نے فوجی ایپلیکیشنز کے لئے AI ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے کا مقصد بنایا، جس میں خودمختار گاڑیاں، جنگی انتظامیہ کے نظام، اور ذہین سافٹ ویئر شامل ہیں۔

3. **1990s**: لاجسٹکس، منصوبہ بندی، اور سیمولیشن میں AI ایپلیکیشنز کا زیادہ وسیع پیمانے پر نفاذ شروع ہوا۔ DoD نے ذہین نظاموں میں سرمایہ کاری کی تاکہ کارکردگی اور فیصلہ سازی کو بہتر بنایا جا سکے۔

4. **2000s**: AI ٹیکنالوجیز میں ارتقاء جاری رہا، جس میں بغیر پائلٹ فضائی گاڑیوں (UAVs)، ڈیٹا تجزیہ، اور سائبرسیکیورٹی پر زیادہ توجہ دی گئی۔ زیادہ جدید مشین لرننگ الگوردمز کی ترقی نے مزید اعلیٰ صلاحیتیں ممکن بنائیں۔

5. **2010s**: DoD نے AI میں اپنی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیا، اس کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ فوجی کارروائیوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔ 2017 میں الگوردمک وارفیئر کراس-فنکشنل ٹیم (پروجیکٹ میون) کا قیام ایک بڑا قدم تھا، جو ڈرون فوٹیج کے تجزیہ کے لئے AI کے استعمال پر مرکوز تھا۔ اس کے علاوہ، 2018 میں مشترکہ مصنوعی ذہانت مرکز (JAIC) قائم کیا گیا تاکہ DoD کے AI کی کوششوں کو مربوط کیا جا سکے۔

6. **2020s**: AI DoD کے لئے ایک اہم توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، جس میں خودمختار نظام، پیشگوئی کی دیکھ بھال، اور انٹیلی جنس تجزیہ سے لے کر بہتر تربیت اور سیمولیشن تک کی ایپلیکیشنز شامل ہیں۔ DoD کی AI حکمت عملی AI کو اپنانے میں تیزی لانے پر زور دیتی ہے تاکہ تکنیکی برتری کو برقرار رکھا جا سکے اور عملی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

اس پورے عرصے کے دوران، DoD نے AI ٹیکنالوجیز کو آگے بڑھانے اور انہیں مختلف دفاعی نظاموں میں شامل کرنے کے لئے تعلیمی اداروں، نجی صنعت، اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
دنیا بھر کا ڈیٹا کن لوگوں کی انگلیوں کی پوروں پر ہے؟ یہ جاننا اہم ہے۔

جبکہ Chat GPT 5 ہمارے لیے ریلیز ہونے والا ہے، محکمہ دفاع کو یقیناً پہلے سے ہی GPT 50 تک رسائی حاصل ہو چکی ہوگی اور تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول WhatsApp، Facebook، LinkedIn وغیرہ، اربوں انٹرنیٹ پر مبنی نظام، ڈارک ویب سائٹس، AWS، Azure، Google Cloud سمیت کسی بھی کلاؤڈ سرور پر رکھی گئی نجی معلومات، اربوں اینڈرائیڈ اور iOS ڈیوائسز پر ذاتی ڈیٹا، کسی بھی سرور پر رکھی گئی کسی بھی دستاویز، تصویر، ویڈیو یا کسی دوسرے فائل تک رسائی حاصل ہوگی جو لینکس، ونڈوز یا میک آپریٹنگ سسٹمز چلا رہا ہو اور کسی بھی IoT ڈیوائس، ڈیجیٹل گیجٹ یا سرویلنس ڈیوائس جو وائی فائی یا عمومی انٹرنیٹ سے منسلک ہو۔

AI ماڈلز مستقبل کی سیاست، مذاہب، فصلوں، معیشت اور فوجی امور کی بالکل درست پیش گوئی کر سکتے ہیں۔

ایک عالمی حکومت کے لئے تیار ہو جائیں۔
 

سید رافع

محفلین
AI صحیح طور پر پیش گوئی کر سکتا ہے کہ 8 ارب افراد کیسے برتاؤ کریں گے بشرطیکہ انہیں ہر ایک کو اپنے دماغوں میں 200 سے 250 متعصب سگنلز مل رہے ہوں۔

یہ اس وقت معصومیت ہے کہ 5 لوگ کسی کمرے میں بیٹھ کر یہ پالیسیاں بنا رہے ہیں کہ 8 ارب لوگوں کو کیسے جینا چاہئے؟

AI اب ایک دماغ بن چکا ہے۔

مثال کے طور پر 2035 تک دنیا کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے۔

2035 تک، اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی۔ یہ 2035 تک ایک مستقل گوشت کاٹنے والی مشین بن جائے گا۔

پاکستانی فوج، جو کہ تمام دیگر افواج کی طرح اشرافیہ کے لیے کام کر رہی ہے، اپنے تمام لوگوں کو اسرائیل تک پہنچنے کی اجازت دینا شروع کر دے گی تاکہ لڑ سکیں، صرف گوشت کے ٹکڑوں میں کاٹے جانے کے لیے۔

مسلم اور عیسائی علماء اور اشرافیہ کے سیاستدان بڑی حد تک تمام فساد کرنے والے لوگوں سے آزاد ہوں گے۔ اور اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر عظیم تر اسرائیل بن جائے گا۔

دنیا بھر کے تمام خطوں میں خواتین کی بڑی آبادی پیچھے رہ جائے گی اور ریاستوں کی خواتین ابھر کر سامنے آئیں گی۔ یہ انسانی تاریخ کا تاریک ترین دور ہوگا۔ عام خواتین آزاد اور بے قابو ہو جائیں گی۔ باقی ماندہ مرد نہ صرف شیعہ سنی بلکہ اسلام کو بھی بھول جائیں گے۔ بڑے شہر اندھیرے، گناہوں اور مصائب سے بھرے ہوں گے، اسرائیل سے تحفظ، پیسہ اور خوراک مانگ رہے ہوں گے۔

پانی اور خوراک کی قلت عام ہو جائے گی اور جھوٹ کی بجائے قتل کرنا نیا معمول بن جائے گا۔ دنیا بھر میں بیماریاں اور قحط عام ہوں گے۔

مکہ، مدینہ، کربلا اور تمام مقدس مقامات کبھی نہ پہلے کی طرح ویران ہو جائیں گے۔ وہاں رہنے کے لیے بہت زیادہ صبر کی ضرورت ہوگی۔ کچھ اچھے مرد اور خواتین اپنے بچوں کے ساتھ ان مقدس مقامات کی طرف ہجرت کریں گے اور اپنے ایمان کو بچانے کے لیے مصائب کا سامنا کریں گے۔

ملالہ یوسف زئی پاکستان کی وزیر اعظم بن جائیں گی۔

واللہ اعلم۔
 
یاد فرمائی کے لیے شکر گزار ہوں۔دئیے ہوئے لنک سے ’’بنیاد‘‘میں شائع آپ کا مقالہ ڈاؤن لوڈ کرلیا ہے۔اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک منفرد اور جدید ترین شے ہے ، ایک ایسی ٹیکنالوجی جس کی کارگزاریوں کی بازگشت اور کارناموں کا آوازہ بہت دُور(براعظم یوروپ وامریکہ )سے سنائی دے رہا تھااور اپنے حیرت انگیز دائرۂ عمل اور معجزنما جولانگاہ کے سبب تمام دنیا کے عالموں اور محققوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا شکر ہے اہلِ اُردُو کی توجہ کا مرکز بھی ہوا۔
میں اِسے قرارواقعی توجہ ،سکون اور دلجمعی سے پڑھ لوں تو اپنی رائے لے کر حاضر ہوں گا، ان شاء اللہ ۔فی الحال اتنا کہوں گا کہ اِس سمت میں آپ کی محنت، تلاش و جستجو اور یافت کا معیار یقیناً آپ کے دیگر تحقیقی مقالوں کے ہم پلہ ہوگا اور یہی بات ہر قاری کی طرح میرے لیے بھی اِس کی پُرجوش اور پُرشوق خواندگی کا باعث رہے گی،یاد فرمائی کے لیے ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں۔​
 
آخری تدوین:
یہ ایپلی کیشنز نہ صرف آپ کی بات سمجھنے اوراس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں
یہ بات سراسر نا درست ہے. یہ ایپلیکیشنز کچھ بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں. ہاں، متن کے جواب میں متن ضرور پیش کرتی ہیں لیکن اس کے درست ہونے کی کوئی guarantee نہیں ہے. اور میرے تجربے کے مطابق اس کے جوابات اکثر و بیشتر ژاژ خائی کے زمرے میں آتے ہیں.
کیایہ متن کا تجزیہ ، تعبیراور تشریح و توضیح کی صلاحیت رکھتی ہے ؟
نہیں، یہ صرف متن کے جواب میں متن دینے کی صلاحیت رکھتی ہے.
ناقدین کے نزدیک ادبی تخلیق کن مفاہیم میں مستعمل ہے اور اسےجانچنے کے لیے کون سے معیارات مقرر کیے گئے ہیں؟
یہ تو فلسفے کا سوال ہے. Aesthetics کی ڈومین میں اس کے جوابات ضرور موجود ہو‍ں گے.
اگر مصنوعی ذہانت مستقبل قریب میں انسانی تخلیق کے مقابل تخلیقات پیش کرنے کے قابل ہوجاتی ہے تو ایسے میںایک ادیب، شاعر، نقاد اور محقق کی کیاحیثیت ہوگی ؟
اول تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن بفرضِ محال اگر ایسا ہو بھی تو کچھ نہیں ہوگا—آبی بخارات مل کر اگر بادلوں کی صورت میں خوبصورت مناظر تخلیق کرتے ہیں تو اس سے مصوروں کی حیثیت میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے؟
اس کی تحقیق و تنقید اور رائے پر کس قدر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟
ایل ایل ایمز متن کے جواب میں متن سامنے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تحقیق کی نہیں.
خرم یاسین نے ایک بالکل نئے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارے زمانے کا سب سے بڑا سوال، مصنوعی ذہانت کی نوعیت، کردار، مقصد اور مضمرات سے متعلق ہے۔ انھوں نے نہ صرف مصنوعی ذہانت کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا ہے اور اس کے دائرہ کار کی وضاحت کی ہے، بلکہ اس کے انسان کے تخلیقی اور تفہیمی عمل پر اثرات و مضمرات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔
من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو

مشین لرننگ ماڈلز پر تحقیق تو بہت عرصے سے جاری تھی، تو یہ موضوعات اب ہی لوگوں کے ذہنوں میں کیوں اٹھنے لگے ہیں؟

اس کی وجہ بہت سادہ ہے، ہر تھوڑی عرصے بعد کچھ نہ کچھ نیا مارکٹ میں آتا ہے اور ہر شخص ہی بغیر سوچے سمجھے اپنی دکان چمکانے کے لیے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارادہ کر لیتا ہے. پہلے آئے او ٹی کا دور تھا پھر کرپٹو اور نجانے کتنی ہی ایسی چیزیں سامنے آئیںں اور پھر ہوا کے ساتھ اڑ گئیں.
 

جاسمن

لائبریرین
بہت زبردست موضوع چُنا ہے۔ میں نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ کچھ پڑھا بھی ہے۔ ان شاءاللہ فرصت سے پڑھتی ہوں۔
جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں، واقعی ان کی بابت تحقیق کی ضرورت ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ بات سراسر نا درست ہے. یہ ایپلیکیشنز کچھ بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں. ہاں، متن کے جواب میں متن ضرور پیش کرتی ہیں لیکن اس کے درست ہونے کی کوئی guarantee نہیں ہے. اور میرے تجربے کے مطابق اس کے جوابات اکثر و بیشتر ژاژ خائی کے زمرے میں آتے ہیں.

نہیں، یہ صرف متن کے جواب میں متن دینے کی صلاحیت رکھتی ہے.

یہ تو فلسفے کا سوال ہے. Aesthetics کی ڈومین میں اس کے جوابات ضرور موجود ہو‍ں گے.

اول تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن بفرضِ محال اگر ایسا ہو بھی تو کچھ نہیں ہوگا—آبی بخارات مل کر اگر بادلوں کی صورت میں خوبصورت مناظر تخلیق کرتے ہیں تو اس سے مصوروں کی حیثیت میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے؟

ایل ایل ایمز متن کے جواب میں متن سامنے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تحقیق کی نہیں.

من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو

مشین لرننگ ماڈلز پر تحقیق تو بہت عرصے سے جاری تھی، تو یہ موضوعات اب ہی لوگوں کے ذہنوں میں کیوں اٹھنے لگے ہیں؟

اس کی وجہ بہت سادہ ہے، ہر تھوڑی عرصے بعد کچھ نہ کچھ نیا مارکٹ میں آتا ہے اور ہر شخص ہی بغیر سوچے سمجھے اپنی دکان چمکانے کے لیے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارادہ کر لیتا ہے. پہلے آئے او ٹی کا دور تھا پھر کرپٹو اور نجانے کتنی ہی ایسی چیزیں سامنے آئیںں اور پھر ہوا کے ساتھ اڑ گئیں.
شاید مجھے اور آپ کو اس بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔
 
یہ بات سراسر نا درست ہے. یہ ایپلیکیشنز کچھ بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں. ہاں، متن کے جواب میں متن ضرور پیش کرتی ہیں لیکن اس کے درست ہونے کی کوئی guarantee نہیں ہے. اور میرے تجربے کے مطابق اس کے جوابات اکثر و بیشتر ژاژ خائی کے زمرے میں آتے ہیں.

نہیں، یہ صرف متن کے جواب میں متن دینے کی صلاحیت رکھتی ہے.

یہ تو فلسفے کا سوال ہے. Aesthetics کی ڈومین میں اس کے جوابات ضرور موجود ہو‍ں گے.

اول تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن بفرضِ محال اگر ایسا ہو بھی تو کچھ نہیں ہوگا—آبی بخارات مل کر اگر بادلوں کی صورت میں خوبصورت مناظر تخلیق کرتے ہیں تو اس سے مصوروں کی حیثیت میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے؟

ایل ایل ایمز متن کے جواب میں متن سامنے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تحقیق کی نہیں.

من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو

مشین لرننگ ماڈلز پر تحقیق تو بہت عرصے سے جاری تھی، تو یہ موضوعات اب ہی لوگوں کے ذہنوں میں کیوں اٹھنے لگے ہیں؟

اس کی وجہ بہت سادہ ہے، ہر تھوڑی عرصے بعد کچھ نہ کچھ نیا مارکٹ میں آتا ہے اور ہر شخص ہی بغیر سوچے سمجھے اپنی دکان چمکانے کے لیے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارادہ کر لیتا ہے. پہلے آئے او ٹی کا دور تھا پھر کرپٹو اور نجانے کتنی ہی ایسی چیزیں سامنے آئیںں اور پھر ہوا کے ساتھ اڑ گئیں.
آپ نے مضمون پڑھے بنا جو دل میں تھا کہہ ڈالا جب کہ مضمون میں ان تمام سوالات کے جوابات بہت ٹھوس دلائل کے ساتھ 56 صفحات پر دیے گئے ہیں اوربال خصوص اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کے تحقیق و تنقید پیش کی گئی ہے۔اس تحقیق میں میں نے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے بہترین ماہرین سے بھی مدد لی تھی۔ اس موقر فورم پر آپ کی تعصب پسندی تو پہلے بھی عیاں ہے اس لیے میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ یہاں وقت ضایع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی پوسٹ کو ڈیلیٹ کردوں تاکہ قارئین فضول باتوں میں الجھنے کی نسبت مطالعہ پر توجہ دیں اور اپنے نتائج خود اخذ کریں۔
 
آخری تدوین:
یاد فرمائی کے لیے شکر گزار ہوں۔دئیے ہوئے لنک سے ’’بنیاد‘‘میں شائع آپ کا مقالہ ڈاؤن لوڈ کرلیا ہے۔اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک منفرد اور جدید ترین شے ہے ، ایک ایسی ٹیکنالوجی جس کی کارگزاریوں کی بازگشت اور کارناموں کا آوازہ بہت دُور(براعظم یوروپ وامریکہ )سے سنائی دے رہا تھااور اپنے حیرت انگیز دائرۂ عمل اور معجزنما جولانگاہ کے سبب تمام دنیا کے عالموں اور محققوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا شکر ہے اہلِ اُردُو کی توجہ کا مرکز بھی ہوا۔
میں اِسے قرارواقعی توجہ ،سکون اور دلجمعی سے پڑھ لوں تو اپنی رائے لے کر حاضر ہوں گا، ان شاء اللہ ۔فی الحال اتنا کہوں گا کہ اِس سمت میں آپ کی محنت، تلاش و جستجو اور یافت کا معیار یقیناً آپ کے دیگر تحقیقی مقالوں کے ہم پلہ ہوگا اور یہی بات ہر قاری کی طرح میرے لیے بھی اِس کی پُرجوش اور پُرشوق خواندگی کا باعث رہے گی،یاد فرمائی کے لیے ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں۔​
آپ ایسے بیدار مغز قاری کا بے حد شکریہ، جزاک اللہ خیرا۔ میں آپ کے جواب اور رائے کا منتظر رہوں گا۔ شاد و آباد رہیں۔
 
بہت زبردست موضوع چُنا ہے۔ میں نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ کچھ پڑھا بھی ہے۔ ان شاءاللہ فرصت سے پڑھتی ہوں۔
جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں، واقعی ان کی بابت تحقیق کی ضرورت ہے۔
مقالے میں ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے اور بال خصوص اردو کے امکانات و مسائل کو زیرِ غور لاتے ہوئے سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔ مطالعہ فرمائیے گا۔ جزاک اللہ
 

جاسمن

لائبریرین
شاید آپ سوچتے ہوں کہ میں اب آپ کے مضامین نہیں پڑھتی ۔۔۔ واقعی کافی عرصے سے میں نے نہیں پڑھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اردو کی انتہائی ادنیٰ سی قاری ہوں۔ آپ کے مضامین چونکہ تحقیقی و تنقیدی ہوتے ہیں سو ان میں اردو کے مشکل الفاظ و اصطلاحات ہوتی ہیں۔ ایسے میں مجھے خاصی محنت سے بات کو سمجھنا پڑتا ہے۔ :)
سو اب اس مقالے کو "عرق ریزی" سے پڑھنا ہو گا۔ :):):)
 

جاسمن

لائبریرین
آپ کا مقالہ ڈھونڈتے ہوئے ایک اور دلچسپ موضوع پہ مقالہ ملا ہے۔
سلینگ اور پاکستانی زبانوں کی ثقافت سے اخذ شدہ سلینگ الفاظ کا مطالعہ
اسے بھی ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ گویا دو سالہ منصوبے لگ رہے ہیں۔
بس مجھے مشکل اردو پڑھتے ہوئے مشکل ہوتی ہے ورنہ تو میں بے حد ذہین ہوں۔ :D
 

علی وقار

محفلین
آپ نے مضمون پڑھے بنا جو دل میں تھا کہہ ڈالا جب کہ مضمون میں ان تمام سوالات کے جوابات بہت ٹھوس دلائل کے ساتھ 56 صفحات پر دیے گئے ہیں اوربال خصوص اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کے تحقیق و تنقید پیش کی گئی ہے۔اس تحقیق میں میں نے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے بہترین ماہرین سے بھی مدد لی تھی۔ اس موقر فورم پر آپ کی تعصب پسندی تو پہلے بھی عیاں ہے اس لیے میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ یہاں وقت ضایع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی پوسٹ کو ڈیلیٹ کردوں تاکہ قارئین فضول باتوں میں الجھنے کی نسبت مطالعہ پر توجہ دیں اور اپنے نتائج خود اخذ کریں۔
میں نے آپ کا مقالہ سرسری طور پر پڑھا ہے۔ آپ نے واقعی کافی عمدہ دلائل پیش کیے ہیں جس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ تاہم، اس کے باوصف ریحان کے کئی نکات میں مجھے وزن معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح کی بے لاگ تنقید کو دل پر نہ لیا کریں۔

اپنے مقالہ جات کی شراکت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ :)
 
شاید آپ سوچتے ہوں کہ میں اب آپ کے مضامین نہیں پڑھتی ۔۔۔ واقعی کافی عرصے سے میں نے نہیں پڑھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اردو کی انتہائی ادنیٰ سی قاری ہوں۔ آپ کے مضامین چونکہ تحقیقی و تنقیدی ہوتے ہیں سو ان میں اردو کے مشکل الفاظ و اصطلاحات ہوتی ہیں۔ ایسے میں مجھے خاصی محنت سے بات کو سمجھنا پڑتا ہے۔ :)
سو اب اس مقالے کو "عرق ریزی" سے پڑھنا ہو گا۔ :):):)
یہ اتنا مشکل مضمون نہیں ہے۔ آپ کو پڑھنا چاہیے۔ ایک اور مضمون افسانہ دارو رسن میں موت کی باز گشت۔۔ اس کے کرداروں کا نفسیاتی جائزہ تو ہم سب کی زندگیوں کے لیے بہت ضروری ہے ۔ اس کا بھی مطالعہ فرمائیے گا۔ جزاک اللہ خیرا۔
 
شاید آپ سوچتے ہوں کہ میں اب آپ کے مضامین نہیں پڑھتی ۔۔۔ واقعی کافی عرصے سے میں نے نہیں پڑھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اردو کی انتہائی ادنیٰ سی قاری ہوں۔ آپ کے مضامین چونکہ تحقیقی و تنقیدی ہوتے ہیں سو ان میں اردو کے مشکل الفاظ و اصطلاحات ہوتی ہیں۔ ایسے میں مجھے خاصی محنت سے بات کو سمجھنا پڑتا ہے۔ :)
سو اب اس مقالے کو "عرق ریزی" سے پڑھنا ہو گا۔ :):)
بات تو بی بی جاسمن ، خرم صاحب سے کررہی ہیں اور جواب بھی خرم صاحب دے چکے ہیں مگر میرا جی چاہتا ہے کہ مشکل الفاظ کے بارے میں جو ایک عام لکھنے والے کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ تحریرتبھی ہر دلعزیزہوگی اور قبولِ عام کی سند پائے گی جب اُس میں مشکل ،ثقیل ، دقیق عربی اور فارسی اور زبانِ اُردُو کے الفاظ ہوں ۔ اِس غلط فہمی کے سبب اکثر اچھے لکھنے والے لکھنے سے محترز رہتے ہیں۔یہی معاملہ جاسمن بی بی کا ہے ۔ میں نے اِسی فورم میں اُن کے اکثر مراسلے دیکھے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہرجگہ ہی اُنھوں نےاپنے اِسی سادہ سے انداز میں تحریرکا حق اِس خوبی سے اداکیا ہے کہ تعریف کی جائے اور مافی الضمیراِس انداز میں بیان کیا ہے کہ کہیں بھی تفہیم میں کمی اور ابلاغ میں رکاوٹ کی شکایت جو پیدا ہوئی ہو۔۔۔۔۔پھر کیوں اِنھیں یہ احساس ہے؟اِس کا جواب یہ ہے بی بی صاحبہ نے ادبیات کے مطالعے میں اِس پہلو سے غور نہیں کیا کہ بڑے بڑے ادیبوں اور خاص طور پر ادیباؤں جیسے قراۃ العین حیدر،خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور،واجدہ تبسم وغیرہا نے اپنی معرکتہ الآرا تحریریں اِس قدر سادہ اور آسان زبان میں لکھی ہیں کہ اگر شاعری کی طرح نثر پر بھی سہلِ ممتنع کا اطلاق ہوتا تو یقیناً اُن کےلکھے ہوئے ضیخیم ناول ،اُن کے تحریرکردہ طویل افسانے اور اُن کی نوشتہ سیرحاصل سوانح عمریاں نثر میں سہلِ ممتنع کا شہکار ہوتیں اور تو اور جوش ملیح آبادی کی خود نوشت’’یادوں کی بارات‘‘جو تقریباً ،سات سو پنتالیس صفحات میں درج ہے ، کہیں بھی تو ترسیل کےکسی بھی نوع کے عیب سے بوجھل نہیں جبکہ لغت کے حوالے سے وہ اُردُو کے امیرترین شاعر اور ادیب تھےاور مشکل تو مشکل ، مشکل ترین الفاظ لاکر وہ اپنی اِس کتابِ حیات کو کیا سے کیا بنا سکتے تھے مگر نہیں اِس طرح شاید اُن کی کتاب وہ رتبہ حاصل نہ کرسکتی جو اُسے ملایعنی ’’یادوں کی بارات ‘‘اردُوزبان میں لکھی جانے والی تمام سوانح عمریوں پر سبقت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔لہٰذا خرم صاحب کا مشورہ صائب ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ پڑھیں اور میں کہتا ہوں بلاجھجک لکھیں بھی۔۔۔اصطلاحوں سے ڈریں نہیں،جب تبصرہ لکھیں تو اصطلاحات کو سرسید احمد خان کی طرح بیانیہ انداز میں کہہ لیا کریں یعنی کھول کر بیان کردیا کریں مگر لکھنے سے ڈریں ہر گز نہیں اور بچیں بالکل بھی نہیںَ۔۔
 
آخری تدوین:
آپ نے مضمون پڑھے بنا جو دل میں تھا کہہ ڈالا جب کہ مضمون میں ان تمام سوالات کے جوابات بہت ٹھوس دلائل کے ساتھ 56 صفحات پر دیے گئے ہیں اوربال خصوص اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کے تحقیق و تنقید پیش کی گئی ہے۔
56 صفحات کا غور سے مطالعہ کرنے کا وقت تو فی الحال میرے پاس نہیں ہے۔ سرسری چند صفحات میں نے دیکھنے کی کوشش کی ہے، اول تو لفظ ٰمصرعٰ کی غلط املا سے سامنا ہوا ہے۔ ہمت کر کے مزید کچھ اور مواد کو دیکھا ہے تو مرزا غالب کے اشعار کے ترجمے پر نظر پڑی ہے:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سر گشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

آپ کے مقالےکے مطابق، جی پی ٹی اس کا مندرجہ ذیل ترجمہ کرتا ہے:

Asad the mountain climber, could not die without reaching the summit. Intoxicated by the passion for breaking norms and constraints.

اس ترجمے کو آپ قریب قریب درست گردانتے ہیں جو کہ میرے لیے بہت باعثِ حیرت ہے۔جی پی ٹی کہتا ہے کہ اسد نامی کوہ پیما چوٹی تک پہنچنے سے قبل مر نہ سکا؛ وہ رسوم و قیود کو توڑنے کے نشے میں مبتلا تھا۔ میرے نزدیک تو یہ ترجمہ مکمل طور پر غلط ہے اور جب میں نے خود جی پی ٹی سے ترجمہ کروایا تو اس نےاس سے بھی زیادہ بیہودہ اور یاوہ گوئی پر مشتمل ترجمہ کیا:

"Kohkan, Asad, could not die without the stone's touch, He was a wanderer in the maze of customs and constraints."

بہرکیف، مصنوعی ذہانت کو آپ سمیت بہت سے لوگ جو کمپیوٹر سائنس کے دیواروں کے باہر سے دیکھ رہے ہیں اس کو میرے حساب سے بہت overrate کر رہے ہیں ۔ آپ کے سوالات میں بہت سے ایسے ہیں جن پر منیر نیازی کا مصرع نہایت موزوں ہے:

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

وقت ملے تو کبھی اس مقالے کا مطالعہ ضرور کیجیے گا:
ChatGPT is bullshit - Ethics and Information Technology
 
مصنوعی ذہانت اور اردو ادب(امکانات و مسائل کے آئینے میں)۔۔۔محمد خرم یاسین

مضمون کو اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے:


عمدہ،
میں ابھی پڑھ رہا ہوں۔
ویسے HER مووی میں سمانتھا سے بات چیت کے لیے جو گیجیٹ یا ڈیوائس استعمال ہوتی ہے اس سے ملتی جلتی ڈیوائس حال ہی میں لانچ کی گئی ہے Rabbit r1 کے نام سے۔
 
Top