مصنوعی ذہانت کی شاعری انسانوں کے برابر پہنچ گئی؟
مصنوعی ذہانت انسانی شاعری میں پائے جانے والے دقیق خیالات اور تصورات کو سادہ انداز میں بیان کر کے اسے عام انسانوں کے لیے قابل فہم بنا دیتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو
لگتا ہے بڑے بڑے شعرا کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ انگریزی کے شیکسپیئر ہوں یا کیٹس، اردو کے غالب یا اقبال اور فارسی کے رومی یا عمر خیام۔ سب کو ایک ہی چیلنج درپیش ہو سکتا ہے اور وہ ہے مصنوعی ذہانت یا اے آئی۔
قدرتی سائنسز، نفسیات، طب اور انجنیئرنگ کے میدانوں میں تحقیقی مقالے چھاپنے والے جرنل ’سائینٹیفک رپورٹس‘ میں چھپنے والی ایک
حالیہ تحقیق میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ
شاعری انسان کی لکھے ہوئے
کلام سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔‘
امریکہ کی یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں کی گئی تحقیق میں برائن پورٹر اور ایڈورڈ مارچری نے سب سے پہلے انگریزی زبان کے پرانے اور دور جدید کے 10 معروف شعرا کے کلام کا انتخاب کیا اور مصنوعی ذہانت پر چلنے والے چیٹ بوٹس سے ان کی نقول تیار کروائیں۔
اگلے مرحلے میں تاریخ اور سائنس کے فلسفے کے تحقیق کاروں نے 696 افراد کو شعرا کی شاعری اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنایا گیا کلام پڑھنے کو دیا اور ان سے پوچھا کہ ’دونوں میں سے اصل اور نقل کون سے ہیں؟‘
حیرت انگیز طور پر تجربے میں شامل زیادہ تر لوگوں نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی شاعری کی نقل کو اصل قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برائن اور مارچری نے اپنے تجربے میں حصہ لینے والوں کو نظموں کی مخصوص معیار کے مطابق درجہ بندی کرنے کو کہا۔ یعنی ان کے سوالات کچھ یوں تھے کہ کلام میں منظر کشی کتنی بہتر ہے؟ قافیہ اور ردیف کا استعمال کتنا بہتر ہے؟ کلام کتنا خوبصورت اور متاثر کن ہے؟ کلام سُر میں ہے یا نہیں؟ کتنا معنی خیز ہے؟ کتنا اصلی لگتا ہے؟ کلام میں سوچ کی گہرائی کا کیا معیار ہے؟ وغیرہ۔
حیرت انگیز طور پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کیے گئے شعری نمونوں نے تقریباً ہر زمرے میں شیکسپیئر اور دوسرے بڑے بڑے شعرا کو شکست دے دی۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت نے انسان شاعروں کی جگہ لے لی ہے؟ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
تجربے کے شرکا نے مجموعی طور پر ’شاعری میں ان کے تجربے کی کم سطح‘ کو تسلیم کیا۔ کسی بھی فن سے واقفیت کی کمی اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی انسانی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہے۔ مصنوعی ذہانت انسانوں کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ کیسے؟
مصنوعی ذہانت صرف اتنا کرتی ہے کہ کلام میں پائی جانے والی زیادہ مشکل چیزوں، جیسا کہ کلام میں پائے جانے والے ابہامات، لفظوں کے مختلف معنوں کا کھیل اور زبان کی پیچیدگیوں وغیرہ، کو ختم کر کے کلام کا ایک ایسا ورژن تیار کرتی ہے، جو شاعری (یا کسی بھی دوسرے فن) میں کم دلچسپی رکھنے والوں کے لیے زیادہ قابل قبول اور قابل فہم ہوتا ہے۔
اسے یوں سمجھیے۔ دیار غیر میں جب ہمیں وہاں کے کھانوں کی سمجھ نہیں آتی تو ہم ایسی ڈشز منگواتے ہیں، جن سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں۔
18 جولائی 2023 کو فرانس کے شہر ٹولوزمیں لی گئی یہ تصویر بارڈ اے آئی کے لوگو کو ظاہر کرنے والی ایک سکرین کو دکھاتی ہے، جو گوگل اور چیٹ جی پی ٹی کے ذریعہ تیار کردہ ایک مصنوعی ذہانت سے متعلق سافٹ ویئر ایپلی کیشن ہے (اے ایف پی)
لیکن شاعری ایسی صنف نہیں جسے اکثر لوگ فوری تسکین کے لیے دیکھتے ہوں۔ بڑے شعرا اور لکھاریوں کے کلام کا خاصہ یہی ہوتا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے زیادہ توجہ اور انہماک کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس تحقیق کی رپورٹ میں بھی شرکا نے اس نکتے کی طرف توجہ دلوائی۔ انہوں نے کہا کہ اکثر انسانی تصنیف کردہ کلام ’معنی نہیں رکھتا۔‘ یعنی ایک آدھ مرتبہ بغیر انہماک اور توجہ کے پڑھنے سے ان کے پلے کچھ بھی تو نہیں پڑا۔
تاہم بعض ماہرین کے خیال میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے تخلیق کیے گئے کلام میں بھی کسی قاری کو انسانی شاعری کی گہرائی اور سوچ مل سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری کے جذباتی اور فکری اثرات میں ایک اہم کردار قاری کا اپنا تخیل ہوتا ہے۔
لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کتنے پڑھنے والے وقت لگا کر کسی کلام کو بار بار پڑھیں گے تاکہ اسے سمجھا جا سکے۔ بہت کم۔
شاعری پڑھنے والے کو دوسرے انسانوں سے جوڑتی ہے۔ یہ کسی تکنیکی کام سے زیادہ سماجی سرگرمی ہے۔
تحقیق کار پورٹر اور مارچری کے خیال میں ’جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی صلاحیتیں اس کے بارے میں لوگوں کی توقعات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔‘
تاہم ان کے خیال میں ’مصنوعی ذہانت کو انسان کی لکھی ہوئی شاعری کے لیے مناسب متبادل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایسے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے بہت زیادہ جانچ کی ضرورت ہو گی۔‘
یہاں آپ کو ایک دوسری تحقیق کے متعلق بھی بتاتے چلیں۔
آٹھویں جماعت کی طالبہ سیرا ایلمن نے طلوع آفتاب سے متعلق ایک نظم لکھی اور چیٹ جی پی ٹی فور، گوگل بریڈ اور اینتھروپک کلاؤڈ سے ایسی ہی نظمیں لکھوائیں۔
مصنوعی ذہانت کے ان ٹولز اور سیرا ایلمن کی لکھی نظموں کا جائزہ 38 مصنوعی ذہانت کے ماہرین (انجینئرز، ایگزیکٹیوز، پروڈکٹ مینیجر) اور 39 انگریزی زبان کے ماہرین (شاعر، پروفیسرز، مصنفین) کے پینل نے لیا۔
انگریزی زبان کے ماہرین کو مصنوعی ذہانت کی تخلیق کردہ نظم کی نشاندہی میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ 11 انگریزی زبان کے ماہرین اور تین مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے نظموں کے مصنفین کا صحیح صحیح اندازہ لگایا۔
ہر نظم کے مصنف کو درست طریقے سے پہچاننے والے ججوں نے ’کلیشے (فرسودہ کہاوت) اور منطقی خامیوں‘ کی نشاندہی کی۔
ایک 20 سالہ مڈل سکول انگلش ٹیچر نے نوٹ کیا کہ ’مصنوعی ذہانت کی تخلیق کردہ نظموں میں ادبی ٹولز، خصوصاً تشبیہات اور استعارات کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔‘
دونوں تحقیقوں سے بڑی حد تک ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کم از کم شاعری میں انسانی تخلیق کے معیار کو شاید حاصل نہ کر پائے۔