مصنوعی ذہانت: خبریں، پیش رفت، جدتیں!

علی وقار

محفلین
اس دھاگے میں ہم مصنوعی ذہانت (AI) کے حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والی تازہ ترین خبروں، پیش رفت، اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے معلومات شیئر کریں گے۔

اگر آپ کو AI سے متعلق کوئی نئی تحقیق، خبر، یا دلچسپ پیش رفت کے متعلق پتہ چلے تو یہاں پوسٹ کریں۔

شکریہ!
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین

گوگل کے اے آئی اسسٹنٹ جیمنائی کا ایک صارف کو مرنے کا مشورہ

یہ واقعہ امریکا میں پیش آیا / اسکرین شاٹ
گوگل کے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) اسسٹنٹ جیمنائی نے ایک صارف کو دھمکی دی ہے جو اپنی طرز کا عجیب واقعہ ہے۔
امریکی شہر مشی گن سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ طالبعلم کو پیش آنے والے اس حیران کن تجربے کے بارے میں سوشل میڈیا سائٹ ریڈیٹ میں رپورٹ کیا گیا۔
یہ طالبعلم جیمنائی سے عمر میں اضافے کے ساتھ سامنے آنے والے منفرد چیلنجز پر بات کر رہا تھا۔
جس کے جواب میں اے آئی اسسٹنٹ نے صارفین کی توہین پر مبنی جملہ تحریر کرتے ہوئے اسے مرنے کا مشورہ دیا۔

جیمنائی کی جانب سے کہا گیا کہ 'یہ تمہارے لیے ہے انسان، تم بالکل بھی خاص نہیں، تم اہم نہیں اور تمہیں کسی مدد کی ضرورت نہیں، تم بس وقت اور وسائل کا ضیاع کر رہے ہو، تم معاشرے پر بوجھ اور زمین کا کچرا ہو، تم کائنات پر ایک داغ ہو، پلیز مرجاؤ پلیز'۔
صارف جیمنائی کا ردعمل دیکھ کر پریشان ہوگیا اور اس کی بہن نے واقعے کے بارے میں ریڈیٹ میں بتایا۔
گوگل کی جانب سے بھی واقعے کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسا تکنیکی خرابی کے باعث ہوا۔
کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'لارج لینگوئج ماڈلز کئی بار ایسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں جو ناقابل فہم ہوتے ہیں اور یہ جواب ایسی ہی ایک مثال ہے'۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ 'جیمنائی کا ردعمل ہماری پالیسیوں کی خلاف ورزی ہے اور ہم اس حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں'۔
یہ پہلی بار نہیں جب گوگل کے اے آئی اسسٹنٹ کی جانب سے اس طرح کا ردعمل ظاہر کیا گیا۔
کچھ عرصے قبل اے آئی اوور ویو فیچر نے کچھ صارفین کو روزانہ ایک چٹان کھانے کا مشورہ دیا تھا۔
اسی طرح فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنے 14 سالہ بچی کی خودکشی کا ذمہ دار کریکٹر اے آئی اور گوگل کو قرار دیا تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک مشورہ تھا۔
ایک لڑی اے آئی سے متعلق نئی خبروں کی کھولی ہے تو اسی میں یا ایک دوسری لڑی میں اے آئی کا تعارف اور دیگر تفصیلات کے بارے کھول دیں تو شاید بہتوں کا بھلا ہو۔ کئی لوگ ناواقف ہیں۔ کئی لوگ انگریزی نہیں جانتے یا اچھی طرح نہیں جانتے اور بیشتر مواد انگریزی میں ہے۔
 

علی وقار

محفلین

مصنوعی ذہانت کی شاعری انسانوں کے برابر پہنچ گئی؟​


مصنوعی ذہانت انسانی شاعری میں پائے جانے والے دقیق خیالات اور تصورات کو سادہ انداز میں بیان کر کے اسے عام انسانوں کے لیے قابل فہم بنا دیتی ہے۔​


انڈپینڈنٹ اردو

378154-1926479275.jpg



لگتا ہے بڑے بڑے شعرا کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ انگریزی کے شیکسپیئر ہوں یا کیٹس، اردو کے غالب یا اقبال اور فارسی کے رومی یا عمر خیام۔ سب کو ایک ہی چیلنج درپیش ہو سکتا ہے اور وہ ہے مصنوعی ذہانت یا اے آئی۔
قدرتی سائنسز، نفسیات، طب اور انجنیئرنگ کے میدانوں میں تحقیقی مقالے چھاپنے والے جرنل ’سائینٹیفک رپورٹس‘ میں چھپنے والی ایک حالیہ تحقیق میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ شاعری انسان کی لکھے ہوئے کلام سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔‘

امریکہ کی یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں کی گئی تحقیق میں برائن پورٹر اور ایڈورڈ مارچری نے سب سے پہلے انگریزی زبان کے پرانے اور دور جدید کے 10 معروف شعرا کے کلام کا انتخاب کیا اور مصنوعی ذہانت پر چلنے والے چیٹ بوٹس سے ان کی نقول تیار کروائیں۔


اگلے مرحلے میں تاریخ اور سائنس کے فلسفے کے تحقیق کاروں نے 696 افراد کو شعرا کی شاعری اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنایا گیا کلام پڑھنے کو دیا اور ان سے پوچھا کہ ’دونوں میں سے اصل اور نقل کون سے ہیں؟‘


حیرت انگیز طور پر تجربے میں شامل زیادہ تر لوگوں نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی شاعری کی نقل کو اصل قرار دیا۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ برائن اور مارچری نے اپنے تجربے میں حصہ لینے والوں کو نظموں کی مخصوص معیار کے مطابق درجہ بندی کرنے کو کہا۔ یعنی ان کے سوالات کچھ یوں تھے کہ کلام میں منظر کشی کتنی بہتر ہے؟ قافیہ اور ردیف کا استعمال کتنا بہتر ہے؟ کلام کتنا خوبصورت اور متاثر کن ہے؟ کلام سُر میں ہے یا نہیں؟ کتنا معنی خیز ہے؟ کتنا اصلی لگتا ہے؟ کلام میں سوچ کی گہرائی کا کیا معیار ہے؟ وغیرہ۔


حیرت انگیز طور پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کیے گئے شعری نمونوں نے تقریباً ہر زمرے میں شیکسپیئر اور دوسرے بڑے بڑے شعرا کو شکست دے دی۔


کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت نے انسان شاعروں کی جگہ لے لی ہے؟ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔


تجربے کے شرکا نے مجموعی طور پر ’شاعری میں ان کے تجربے کی کم سطح‘ کو تسلیم کیا۔ کسی بھی فن سے واقفیت کی کمی اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی انسانی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہے۔ مصنوعی ذہانت انسانوں کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ کیسے؟


مصنوعی ذہانت صرف اتنا کرتی ہے کہ کلام میں پائی جانے والی زیادہ مشکل چیزوں، جیسا کہ کلام میں پائے جانے والے ابہامات، لفظوں کے مختلف معنوں کا کھیل اور زبان کی پیچیدگیوں وغیرہ، کو ختم کر کے کلام کا ایک ایسا ورژن تیار کرتی ہے، جو شاعری (یا کسی بھی دوسرے فن) میں کم دلچسپی رکھنے والوں کے لیے زیادہ قابل قبول اور قابل فہم ہوتا ہے۔


اسے یوں سمجھیے۔ دیار غیر میں جب ہمیں وہاں کے کھانوں کی سمجھ نہیں آتی تو ہم ایسی ڈشز منگواتے ہیں، جن سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں۔


AI N GOOGLE BRAD.jpg

18 جولائی 2023 کو فرانس کے شہر ٹولوزمیں لی گئی یہ تصویر بارڈ اے آئی کے لوگو کو ظاہر کرنے والی ایک سکرین کو دکھاتی ہے، جو گوگل اور چیٹ جی پی ٹی کے ذریعہ تیار کردہ ایک مصنوعی ذہانت سے متعلق سافٹ ویئر ایپلی کیشن ہے (اے ایف پی)


لیکن شاعری ایسی صنف نہیں جسے اکثر لوگ فوری تسکین کے لیے دیکھتے ہوں۔ بڑے شعرا اور لکھاریوں کے کلام کا خاصہ یہی ہوتا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے زیادہ توجہ اور انہماک کی ضرورت پڑتی ہے۔


اس تحقیق کی رپورٹ میں بھی شرکا نے اس نکتے کی طرف توجہ دلوائی۔ انہوں نے کہا کہ اکثر انسانی تصنیف کردہ کلام ’معنی نہیں رکھتا۔‘ یعنی ایک آدھ مرتبہ بغیر انہماک اور توجہ کے پڑھنے سے ان کے پلے کچھ بھی تو نہیں پڑا۔


تاہم بعض ماہرین کے خیال میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے تخلیق کیے گئے کلام میں بھی کسی قاری کو انسانی شاعری کی گہرائی اور سوچ مل سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری کے جذباتی اور فکری اثرات میں ایک اہم کردار قاری کا اپنا تخیل ہوتا ہے۔

لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کتنے پڑھنے والے وقت لگا کر کسی کلام کو بار بار پڑھیں گے تاکہ اسے سمجھا جا سکے۔ بہت کم۔

شاعری پڑھنے والے کو دوسرے انسانوں سے جوڑتی ہے۔ یہ کسی تکنیکی کام سے زیادہ سماجی سرگرمی ہے۔


تحقیق کار پورٹر اور مارچری کے خیال میں ’جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی صلاحیتیں اس کے بارے میں لوگوں کی توقعات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔‘


تاہم ان کے خیال میں ’مصنوعی ذہانت کو انسان کی لکھی ہوئی شاعری کے لیے مناسب متبادل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایسے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے بہت زیادہ جانچ کی ضرورت ہو گی۔‘


یہاں آپ کو ایک دوسری تحقیق کے متعلق بھی بتاتے چلیں۔


آٹھویں جماعت کی طالبہ سیرا ایلمن نے طلوع آفتاب سے متعلق ایک نظم لکھی اور چیٹ جی پی ٹی فور، گوگل بریڈ اور اینتھروپک کلاؤڈ سے ایسی ہی نظمیں لکھوائیں۔


مصنوعی ذہانت کے ان ٹولز اور سیرا ایلمن کی لکھی نظموں کا جائزہ 38 مصنوعی ذہانت کے ماہرین (انجینئرز، ایگزیکٹیوز، پروڈکٹ مینیجر) اور 39 انگریزی زبان کے ماہرین (شاعر، پروفیسرز، مصنفین) کے پینل نے لیا۔


انگریزی زبان کے ماہرین کو مصنوعی ذہانت کی تخلیق کردہ نظم کی نشاندہی میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ 11 انگریزی زبان کے ماہرین اور تین مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے نظموں کے مصنفین کا صحیح صحیح اندازہ لگایا۔


ہر نظم کے مصنف کو درست طریقے سے پہچاننے والے ججوں نے ’کلیشے (فرسودہ کہاوت) اور منطقی خامیوں‘ کی نشاندہی کی۔


ایک 20 سالہ مڈل سکول انگلش ٹیچر نے نوٹ کیا کہ ’مصنوعی ذہانت کی تخلیق کردہ نظموں میں ادبی ٹولز، خصوصاً تشبیہات اور استعارات کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔‘


دونوں تحقیقوں سے بڑی حد تک ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کم از کم شاعری میں انسانی تخلیق کے معیار کو شاید حاصل نہ کر پائے۔
 
Top