میرے خیال میں تو ابھی تک مصنوعی ذہانت کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو اسے فراہم کی جائیں یا اس کے بنیادی اجزاء (سکرپٹ/زبان/وغیرہ) میں پہلے سے موجود ہوں ۔ حتیٰ کہ اس کی حسابیات (کیلکیولیشنز) بھی انہی خطوط پر ہونگی جن کے متعلق اسے تربیت دی جائے گی لہذا اب تک کا وہ علمی خزانہ جو حاصل ہو چکا ہے اس کو بہترین طرح سے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے ۔ ابتدائی درجے کا مصنوعی ذہانت کا کام تو گوگل بھی کر لیتا ہے تو اساسی طاقت یا اسے چلانے میں بنیاد ی اہمیت تو انسان کی رہے گی ہی ۔کیونکہ انسانی تخلیقات میں سے اس تخلیق میں بھی خود سے سوچنے اور نتیجہ نکالنے کے لئے بھی اسے یہ خطوط جن پر اسے سوچنا ہے اور نتیجہ نکالنا ہے بتانے ہی پڑیں گے تو جہاں لکیر نہیں ہوگی وہاں لکیر کی تخلیق اس کے بس کی بات نہ ہوگی۔ اگر مصنوعی ذہانت کو یہ نہیں بتائیں گے کہ اس بات کے اتنے رخ اور اتنے مطلب ہیں اور یہاں اس منظر نامے میں یہ مزاح بن جائے گا اور اس منظر نامے میں یہ سنجیدہ ہو جائے گا تو مصنوعی ذہانت اس قابل نہیں ہو سکے گی کہ اس کا کوئی ایسا مطلب نکال سکے جو اسے بتایا ہی نہیں گیا۔ تو پھر ڈرنا کیسا۔ مخلوق کی تخلیق اپنے مخصوص دائرے میں تیز، نفیس ، دیدہ زیب کام تو کر سکتی ہے لیکن خالق حق کی تخلیق کو عطا شدہ صلاحیتوں کے برابر ہونا شاید اس کے بس میں نہیں ہوگا ۔