صرف علی
محفلین
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے کچھ سینیئر حکام کو موصول ہونے والی دھمکی آمیز فون کالز میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اربوں روپے کی کرپشن سے متعلق مضاربہ اسکینڈل کیس کی تفتیش سے دور ہوجائیں۔
نیب کے ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'تحقیقات جاری رکھنے کی صورت میں ہمیں سنگین نتجائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم خوف زدہ نہیں ہوں گے اور تفتیش جاری رکھیں گے، کیونکہ لوگوں کی محنت کی کمائی انہیں واپس ملنی چاہیے۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نیب حکام کو یہ کال نامعلوم افراد کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔
نیب کے ترجمان رمضان ساجد کا کہنا تھا کہ 'نیب کے اوپر اس مقدمے کی تفتیش کے لیے خاص طور پر ان لوگوں کا دباؤ ہے جو مضاربہ کمپنیوں میں اپنی رقومات کھو چکے ہیں'۔
ایک دوسرے نیب عہدیدار کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوا کہ یہ مقدمہ 550 ملین روپے سے متعلق ہے، لیکن بعد میں 17 کمپنیوں کے اس میں ملوث ہونے کا اعتراف ہوا، جنہوں نے اسلامک انویسٹمنٹ کے نام پر عوام کے پیسے کو لوٹا اور سرمایہ کاروں کی جانب سے تقریباً 31 ارب سے بھی زائد کی رقم وصول کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 31 ارب روپے کے دعووں کے برعکس صرف 446 ملین روپے برآمد ہوسکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے وزارتِ داخلہ سے ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن اب تک ایسا نہ ہوسکا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ مفتی احسان الحق کی فیاضی انڈسٹریز، آصف جاوید کا لکسر گروپ اور غلام رسول یعقوبی کا میزبان اسٹور وہ اہم کمپنیاں ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر عوام سے اربوں روپے وصول کیے۔
نیب کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنیاں 31 ارب روپے کی وصولی میں 75 فیصد ملوث تھیں۔
مفتی شبیر عثمانی کا الواسے گروپ، مولانا عبداللہ کی اسلامک ٹریڈ پرائیویٹ، محمد بلال کی بلال ٹریڈنگ کارپوریشن، متین الرحمان کی گلوبل کونرز، محمد نذیر کی البرکہ، الجزیرہ انٹرنینشل اور اسلامک انویسٹمنٹ، ماس ٹریڈرز اور پرل شائن پرائیویٹ لمیٹڈ بھی اسکینڈل میں ملوث ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان میں علماء سمیت چالیس سے زائد مذہبی رہنماء شامل ہیں، اور سب سے زیادہ متاثرہ افراد مدرسے کے طالبِ علموں، اور ان کی فیملی ممبرز، بیوائیں اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو کہا جارہا ہے۔
یہ کیس رواں سال جنوری میں نیب کے علم میں لایا گیا تھا جب کچھ لوگوں نے شکایات درج کرواتے ہوئے کہا تھا کہ مفتی احسن ایک متوازی بینکاری نظام چلارہے تھے اور انہوں نے کئی لوگوں کو دھوکہ دیا۔ اس کے بعد نیب نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔
تقریباً 823 کمپنیاں فراد سے متعلق 550 ملین روپے نیب میں جمع کروا چکی ہیں جس نے اب تک مفتی احسان کے خلاف صرف ایک ریفرنس فائل کیا ہے، جبکہ ان کی جائیداد کو بھے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔
http://urdu.dawn.com/news/1003872/nab-officials-investigating-modaraba-scam-receiving-threats
نیب کے ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'تحقیقات جاری رکھنے کی صورت میں ہمیں سنگین نتجائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم خوف زدہ نہیں ہوں گے اور تفتیش جاری رکھیں گے، کیونکہ لوگوں کی محنت کی کمائی انہیں واپس ملنی چاہیے۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نیب حکام کو یہ کال نامعلوم افراد کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔
نیب کے ترجمان رمضان ساجد کا کہنا تھا کہ 'نیب کے اوپر اس مقدمے کی تفتیش کے لیے خاص طور پر ان لوگوں کا دباؤ ہے جو مضاربہ کمپنیوں میں اپنی رقومات کھو چکے ہیں'۔
ایک دوسرے نیب عہدیدار کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوا کہ یہ مقدمہ 550 ملین روپے سے متعلق ہے، لیکن بعد میں 17 کمپنیوں کے اس میں ملوث ہونے کا اعتراف ہوا، جنہوں نے اسلامک انویسٹمنٹ کے نام پر عوام کے پیسے کو لوٹا اور سرمایہ کاروں کی جانب سے تقریباً 31 ارب سے بھی زائد کی رقم وصول کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 31 ارب روپے کے دعووں کے برعکس صرف 446 ملین روپے برآمد ہوسکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے وزارتِ داخلہ سے ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن اب تک ایسا نہ ہوسکا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ مفتی احسان الحق کی فیاضی انڈسٹریز، آصف جاوید کا لکسر گروپ اور غلام رسول یعقوبی کا میزبان اسٹور وہ اہم کمپنیاں ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر عوام سے اربوں روپے وصول کیے۔
نیب کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنیاں 31 ارب روپے کی وصولی میں 75 فیصد ملوث تھیں۔
مفتی شبیر عثمانی کا الواسے گروپ، مولانا عبداللہ کی اسلامک ٹریڈ پرائیویٹ، محمد بلال کی بلال ٹریڈنگ کارپوریشن، متین الرحمان کی گلوبل کونرز، محمد نذیر کی البرکہ، الجزیرہ انٹرنینشل اور اسلامک انویسٹمنٹ، ماس ٹریڈرز اور پرل شائن پرائیویٹ لمیٹڈ بھی اسکینڈل میں ملوث ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان میں علماء سمیت چالیس سے زائد مذہبی رہنماء شامل ہیں، اور سب سے زیادہ متاثرہ افراد مدرسے کے طالبِ علموں، اور ان کی فیملی ممبرز، بیوائیں اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو کہا جارہا ہے۔
یہ کیس رواں سال جنوری میں نیب کے علم میں لایا گیا تھا جب کچھ لوگوں نے شکایات درج کرواتے ہوئے کہا تھا کہ مفتی احسن ایک متوازی بینکاری نظام چلارہے تھے اور انہوں نے کئی لوگوں کو دھوکہ دیا۔ اس کے بعد نیب نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔
تقریباً 823 کمپنیاں فراد سے متعلق 550 ملین روپے نیب میں جمع کروا چکی ہیں جس نے اب تک مفتی احسان کے خلاف صرف ایک ریفرنس فائل کیا ہے، جبکہ ان کی جائیداد کو بھے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔
http://urdu.dawn.com/news/1003872/nab-officials-investigating-modaraba-scam-receiving-threats