میں راحیل فاروق کی انشاء پردازی کا پہلے بھی قائل تھا، اب بھی ہوں۔تاہم میرے خیال میں اُن کے اس لڑی کے پہلے مراسلے میں استعمال کئے جانے والے بعض facts اور منطقی استدلال کا پیش نظرمعاملے سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ (میرے خیال میں یہی معاملہ پچھلی چند لڑیوں میں بھی ہوا تھا۔)
انشا پردازی کا قائل ہونے پر ہم آپ کے شکرگزار ہیں۔
پیشِ نظر معاملہ؟
آپ بھی میر و غالب کا کوئی خیال ایسا نہیں دکھا سکتے جو ان سے پہلے موجود نا ہو۔
ولی دکنی کا ایک شعر ہے:
راہ ِمضمون ِتازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب ِسخن
تاہم شمس الرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے کہ کلاسیکی اردو شاعری میں "مضمون آفرینی انتہائی مشکل اور صبر آزما عمل ہے۔۔۔ نئی بات کہنا تقریباً ناممکن ہے۔۔۔ نئے مضمون روز روز نہیں ہاتھ لگتے۔ اور شاعری میں نئی بات کہے بغیر چارہ نہیں۔ لہذامعنی آفرینی کو فروغ لازمی قرار پایا"۔
حوالہ: اردو غزل کے اہم موڑ: ایہام، رعایت، مناسبت (غالب خطبہ 1996)، صفحہ 16
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
-- سیف الدین سیف
بات واقعی کہیں اور سے شروع ہوئی تھی مگر ہمیں یہ مضمون لکھنے پر جس بات نے اکسایا وہ یہ اعتراض تھا کہ اساتذۂِ اردو خیالات کے سلسلے میں تہی دامن واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے آپ کے حوالے کو بھی غلط یا درست طور پر اسی تناظر میں دیکھا۔
حالی -- جن کا تعلق اردو کی کلاسیکی شاعری کے بالکل آخری دور اور جدید اردو شاعری کے اولین دور سے مانا جاتا ہے -- پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نےاردو شاعری کےاصناف، اسالیب، مضامین، معنی ، وغیرہ پر بات کی ہو۔ کلاسیکی دور کے شعراء کے ہاں یہ مباحث کہیں کہیں تو اُن کی شاعری میں نظر آتے ہیں، لیکن اِس سے کہیں زیادہ یہ سوانحی تحریروں، دیباچوں اور تذکروں میں ملتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہماری گفتگو میں یہ معاملہ اہم نہیں کہ حالیؔ اردو شاعری پر بات کرنے والے پہلے آدمی تھے یا نہیں۔ اہم بات صرف یہ ہے کہ ہماری شاعری کو
مغرب کی نظر سے دیکھنے اور دکھانے والے وہ پہلے آدمی تھے!
دوسری بات یہ ہے کہ حالی کے مقدمہء شعر و شاعری کی اہمیت سےکوئی انکار نہیں ہے (نہ ہی ہو سکتا ہے)، لیکن صرف یہ اصرار ضرور ہے کہ اِسے پڑھتے وقت بعد از 1857 ہندستان کے سیاسی اور سماجی پس منظر کوبھی نظر میں رکھنا چاہیے جس کے نتیجے میں ہمارے ادبی منظر نامے میں بے تحاشا تبدیلیاں آیئں ۔
متفق۔
تیسری اور اہم بات: حالی کا غزل پر اعتراض (جو کہ جدید اردو شاعری کا پیش خیمہ ثابت ہوا ) مضمون آفرینی اور معنی آفرینی کے اُن مباحث سے قدرے مختلف ہے جو کہ
محمد خرم یاسین کی بات کے حوالے سےمیں نے کی تھی۔ کم از کم میں تو "کلاسیک اردو شاعری میں خیالات کی ندرت اور ایجاد کی روایت" سے منکر نہیں ہوں۔ میرے خیال میں حالی نئے مضامین کی مدد سے غزل کے میدان کو وسعت دینا چاہتے تھے، جبکہ بقول شمس الرحمٰن فاروقی ہمارے کلاسیکی شعراء نےنئی بات کہنے کے لئے کلاسیکی شعریات کے اندر رہتے ہوئے معنی آفرینی اور تازہ گوئی کے کئی طریقے (مثلاً ایہام، رعایت، اور مناسبت) دریافت اور استعمال کیے۔
مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ میں آپ کا نکتہ نہیں پکڑ سکا۔ یہ مضمون لکھتے وقت میرے ذہن میں صرف یہ خیال تھا کہ عامۃ الناس جب حالیؔ اور ان کے اندھے مقلدین کو پڑھتے ہیں تو خواہ مخواہ غزل میں خیالات کی فراوانی سے منکر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ حالیؔ کا اعتراض مضامین کی حد تک تو درست ہے، خیال کی قلمرو میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
مزید برآں میں نے آج کے شعرا، ناقدین اور قارئین کو کلاسیکی روایات سے اس قدر نابلد پایا ہے کہ مجھے یقین تھا کہ میری یہ نکتہ سرائیاں بہت سوں کے لیے بالکل نئی ہوں گی۔ ہماری ادبی دنیا کا سوادِ اعظم مضمون اور خیال کو کورانہ طور پر ایک ہی شے سمجھتا ہے۔ خیال اور معنیٰ کا فرق کیا جاتا ہے مگر اس پر مغربی تنقید کی بحثوں کا بہت زیادہ، گو سطحی، اثر ہے۔
مجھے امید ہے کہ مندرجہ ذیل جملوں میں جناب راحیل فاروق کا ہدف شمس الرحمٰن فاروقی نہیں ہوں گے۔ گو کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن خواہش ہے کہ ایسا نہ ہو۔
اپنی روایت اور علوم کی بابت ان کی ناقدانہ آرا کو ایسے لوگوں نے اچھالنا شروع کر دیا ہے جن کا اس روایت اور علوم سے دور دور تک نہ صرف کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ ان تک چاہیں بھی تو نہیں پہنچ سکتے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ ان کندگانِ ناتراش کے سوا ہمارے پاس کوئی اور شخص ان معاملات پر بات کرنے کے ہمت ہی نہیں کرتا۔ اندھیرنگری میں کانے راج کر رہے ہیں اور اندھے ریوڑیوں پر جھگڑ رہے ہیں۔
کیا یہ شدید ناانصافی نہیں ہو گی کہ شوپن ہاؤر کے محاکمے کو، جو ہیگل ہی کی طرح دراصل کانٹ کا خوشہ چین تھا اور ہیگل کا ہم عصر و ہم وطن تھا، ایک ایسے شخص کی جاہلانہ رائے کے موافق سمجھا جائے جسے اس پورے پس منظر سے دور دور تک کوئی علاقہ نہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی سے میرا کچھ خاص تعارف نہیں۔ میں نے آپ کے ارشادات کا جواب لکھنے میں اسی لیے کسی قدر تامل سے کام لیا کہ ان کے کام کو دیکھ سکوں۔ تھوڑے بہت مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گو کہ اکثر معاملات میں میں ان سے اتفاق نہیں کر سکتا مگر ان کے تبحر کا انکار بھی کچھ ایسا سہل نہیں۔
نیز جب میں نے یہ مضمون لکھنے پر کمر باندھی تو ان کی رائے درحقیقت مجھے اپنے خیالات کے موافق معلوم ہوئی تھی۔
تاہم شمس الرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے کہ کلاسیکی اردو شاعری میں "مضمون آفرینی انتہائی مشکل اور صبر آزما عمل ہے۔۔۔ نئی بات کہنا تقریباً ناممکن ہے۔۔۔ نئے مضمون روز روز نہیں ہاتھ لگتے۔ اور شاعری میں نئی بات کہے بغیر چارہ نہیں۔ لہذامعنی آفرینی کو فروغ لازمی قرار پایا"۔
حوالہ: اردو غزل کے اہم موڑ: ایہام، رعایت، مناسبت (غالب خطبہ 1996)، صفحہ 16
موصوف نے مضمون آفرینی کو مشکل قرار دیا ہے جو ہے بھی۔ معنیٰ آفرینی یا خیال آفرینی دوسری بات ہے۔ یہی مرکزی نکتہ میری معروضات کا ہے۔