تمہید
اس موضوع کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چند باتوں کو جاننا ضرورہے۔ سب سے پہلی بات جو اس سلسلے میں جاننی ضروری ہے کہ دینی علوم جس انداز سے آج مدون اور مرتب ہیں اس طرح رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھے۔
علوم کی تدوین
بہت سے علوم صحابہ کرام ؓمیں رائج تھے لیکن ان کی زندگیاں جہاد میں گزریں، اس لیے تدوین (کتابی شکل)کے کام کی ان کو فرصت نہ ملی۔ گو کہ ان کی اصل رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھی لیکن تدوین بعد میں ہوئی۔ مثلا:چاروں خلفائے راشدین اعلی درجے کے محدث تھے۔ لیکن خود ان سے کوئی حدیث کا مجموعہ ہمارے پاس نہیں۔ حدیث کی تدوین کا کام بعد میں ہوا۔ یا جیسے حضرت کعبؓ بہت بڑے قاری تھے۔ لیکن ان کی طرف سے اس علم پر کوئی تصنیف نہیں۔ البتہ بعد کے لوگوں نے اس کو مدون کردیا۔ اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے کام آسان فرما دیا۔
زمانے کے تقاضے
دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں نے بہت سے مسائل پیدا کیے اور بہت سے وہ کام کیے گئے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھے۔ مثلا قرآن پاک کو ایک مصحف (کتابی شکل) میں جمع کرنا رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں ہوا تھا لیکن حالات کے تقاضوں نے اس کی ضرورت پیدا کردی۔ چنانچہ سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں قرآن پاک کو ایک مصحف میں جمع کردیا گیا۔ اسی طرح آگے کے زمانے میں جب عرب و عجم کا ملاپ ہوا اور خالص عربیت کا ذوق کم ہوگیا اور ضرورت محسوس ہوئی تو قرآن پاک پر اعراب لگائے گئے، آیتوں کی علامتیں ڈالی گئیں، وقوف کی علامتیں لگائیں گئیں۔ یہ سب نبی کریم ﷺ کی حیات پاک میں نہیں تھا۔ان تمام باتوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دین پر سہولت سے عمل ہوجائے۔ اسی کو سامنے رکھتے علمائے امت نے دین کی تقویت یا اعانت کے تمام جائز طریقوں کو اختیار کیا۔ مساجد میں تنخواہ دار امام اور موذن کا تعین، قرآن پڑھانے کے لیے اجرت کی ادائیگی، مساجد میں وضو اور حاجات کی سہولت، جانمازوں اور قالین کا اہتمام، کتابوں کی تالیف و اشاعت، درس و تدریس، دعوت و تبلیغ، اصلاح باطن کے اعمال وغیرہ سب اس کی مثالیں ہیں۔
تدوین صرف و نحو
قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بھی مختلف علوم وجود میں آئے جن کا وجود رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔مثلا دین کا کوئی طالب علم بھی علم النحو (عربی گرامر) پڑھے بغیر آگے نہیں چل سکتا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دور میں علم النحو بحیثیت علم موجود نہیں تھا۔ دیگر اسلامی علوم کی طرح اس کو بھی مدون کیا گیا اور اس کی اصطلاحات متعین کی گئیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بعد کے آنے والے ان علوم (لغت، صرف و نحو، منطق، بیان، تفسیر، حدیث وغیرہ) میں ان پچھلوں کا اتباع یا تقلید کرتے ہیں یعنی ان کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہیں جس کے بغیر خود قرآن و حدیث کا سمجھنا محال ہے۔
تدوین حدیث
اسی طرح وقت اور حالات کے تقاضوں نے حدیث کی تدوین کی ضرورت پیدا کی چنانچہ علمائے دین نے اس کی طرف توجہ کی اور علم الحدیث کی بنیاد ڈالی جس میں حدیث اور سند حدیث پر بحث کی جاتی ہے اور ایسے اصول متعین کیے جن سے حدیث کی صحت اور عدم صحت کا پتہ چلایا جاسکے۔ اور جیسا کہ ہر علم میں ہوتا ہے کہ سمجھنے سمجھانے اور تبادلہ خیال میں سہولت کے لیے اس علم کی اصطلاحیں (مثلا: صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ) بھی وجود میں آئیں ۔ علم الحدیث کے اصول اور اس کی اصطلاحیں سب اجتہادی ہیں۔یہ کام رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔
امام مسلمؒ صحیح مسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’(پہلے) لوگ (حدیث کی) سند کے متعلق پوچھ گچھ نہیں کرتے تھے لیکن جب فتنہ عام ہوگیا تو پھر راوی سے سند کے متعلق پوچھ گچھ شروع ہوئی۔‘‘
یہاں تک کہ اہل علم نے سند کی تحقیق واجب (ضروری) قرار دے دی۔
تدوین فقہ
اسی طرح شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے فقہا نے فقہ کی تدوین کی اور اس میں تحقیق کے طریقے اور اصول بنائے۔ اس کی اصطلاحیں وجود میں آئیں (فرض، واجب سنت وغیرہ) اور تدوین فقہ کا کام سرانجام ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین کے تمام علوم اجتہادی ہیں ان معنوں میں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں موجود تو تھے لیکن اس طرح مدون (یعنی مرتب) نہ تھے جیسے بعد میں ہوگئے۔ اس تدوین و ترتیب سے ان علوم سے فائدہ اٹھانے میں سہولت ہوگئی۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا ہر شخص کا الگ الگ ہے، عالم اپنے علم کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غیرعالم اپنی حیثیت کے مطابق۔ علوم چاہے دینی ہوں یا دنیاوی، ہر علم کا یہی حال ہے۔ کچھ لوگ علوم ایجاد کرتے ہیں، کچھ ان ایجاد کردہ علوم کو ترقی دیتے ہیں اور باقی لوگ ان کی کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ درحقیقت ہر عالم اپنی تحقیق کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر رکھتا ہے۔
ایک تاریخی حقیقت
ایک تاریخی حقیقت جو انتہائی اہم اور ذہن نشین کرنے کے قابل ہے وہ یہ کہ فقہ کی تدوین پہلے ہوئی اور حدیث کی تدوین بعد میں۔ فقہا نے فقہ کی تدوین اور اس میں تحقیق کے طریقے پہلے بنا لیے جب کہ محدثین نے یہ کام بعد میں کیا۔ بلکہ حدیث کے مجموعے فقہا کی دی گئی ترتیب کے مطابق تیار کیے گئے ہیں۔ تدوین فقہ کا دور رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے قریب کا تھا۔ یہ تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ تھا۔ اس دور کے علما کے لیے سنت رسول ﷺ کو جاننے کے لیے صحابہ کرام کا عملی نمونہ موجود تھا۔ اسی لیے اس وقت کے علمائے کرام کے نزدیک تعامل (عمل) صحابہؓ کی بہت اہمیت تھی۔ اور خیرالقرون میں تعامل صحابہؓ (یعنی صحابہ کرام ؓکا عمل) ہی معیار سنت تھا۔ انہوں نے اختلاف احادیث کے وقت ردوقبول میں بھی اور حدیث کے مفہوم کی تعیین میں بھی اصل معیار تعامل صحابہؓ و تابعینؒ کو ٹھہرایا۔ ابتدائی دور کے فقہا کے نزدیک سب سے بڑی دلیل صحابہ ؓکا عمل تھا۔ اس دور کے فقہا کثرت روایت سے زیادہ کثرت تعامل کا اعتبار کرتے ہیں۔ تعامل صحابہ کو معیار بنانا عین فطری بات ہے اس لیے کہ وہ مقدس ہستیاں حیات رسول ﷺ کی عینی شاہد تھیں اور کسی واقعے کے بارے عینی شاہد ہی سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔ وہ فقہا جن کے سامنے یہ عملی نمونے موجود نہیں تھے انہوں نے اختلاف حدیث کے وقت نقد روایات (روایات کا صحیح یا غیر صحیح ہونا) کا معیار روایوں پر رکھ لیا۔ پہلے دور میں پرکھنے کا معیار پوری جماعت (صحابہؓ اور تابعینؒ) کے تعامل پر تھا بعد میں یہ اشخاص پر آگیا۔ اہلسنت و الجماعت کی یہی فضیلت ہے کہ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا عمل اور ان کے صحابہ کرامؓ کا عمل بھی قابل حجت ہے۔ اسی سے عنوان، اہلسنت والجماعت نکلا ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث کی تعریف یہ ہے:
رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے قول فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔کبھی اس کو اثر اور خبر بھی کہتے ہیں۔
اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم۔ الحدیث (صحیح البخاری، کتاب الرقاق)
عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو اُن کے بعد ہوں گے۔‘‘
اسی لیے حدیث کی کتابوں میں صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال اور اعمال کا ذکر بھی موجود ہے۔
عملِ صحابی کی مثال: وكان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض على لحيته فما فضل اخذه۔ الحدیث (صحیح البخاری، کتاب اللباس)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی ( ہاتھ سے ) پکڑ لیتے اور ( مٹھی ) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے ۔
صحابی کا فتوی: لا ناخذ بقولک و ندع قول زید۔الحدیث (صحیح البخاری، کتاب الحج)
بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے ایک مسئلہ پوچھا اور ان کا جواب سننے کے بعد بولے: ہم ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کی بات پر عمل تو کریں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی بات چھوڑ دیں یعنی ان کے فتوے کو چھوڑ دیں۔
قول تابعی: قال عطا آمین دعا ۔ الحدیث (صحیح البخاری، باب جہرالامام بالتامین)
یعنی عطاؒ (تابعی) نے فرمایا: کہ آمین دعا ہے۔
اس موضوع کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چند باتوں کو جاننا ضرورہے۔ سب سے پہلی بات جو اس سلسلے میں جاننی ضروری ہے کہ دینی علوم جس انداز سے آج مدون اور مرتب ہیں اس طرح رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھے۔
علوم کی تدوین
بہت سے علوم صحابہ کرام ؓمیں رائج تھے لیکن ان کی زندگیاں جہاد میں گزریں، اس لیے تدوین (کتابی شکل)کے کام کی ان کو فرصت نہ ملی۔ گو کہ ان کی اصل رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھی لیکن تدوین بعد میں ہوئی۔ مثلا:چاروں خلفائے راشدین اعلی درجے کے محدث تھے۔ لیکن خود ان سے کوئی حدیث کا مجموعہ ہمارے پاس نہیں۔ حدیث کی تدوین کا کام بعد میں ہوا۔ یا جیسے حضرت کعبؓ بہت بڑے قاری تھے۔ لیکن ان کی طرف سے اس علم پر کوئی تصنیف نہیں۔ البتہ بعد کے لوگوں نے اس کو مدون کردیا۔ اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے کام آسان فرما دیا۔
زمانے کے تقاضے
دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں نے بہت سے مسائل پیدا کیے اور بہت سے وہ کام کیے گئے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھے۔ مثلا قرآن پاک کو ایک مصحف (کتابی شکل) میں جمع کرنا رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں ہوا تھا لیکن حالات کے تقاضوں نے اس کی ضرورت پیدا کردی۔ چنانچہ سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں قرآن پاک کو ایک مصحف میں جمع کردیا گیا۔ اسی طرح آگے کے زمانے میں جب عرب و عجم کا ملاپ ہوا اور خالص عربیت کا ذوق کم ہوگیا اور ضرورت محسوس ہوئی تو قرآن پاک پر اعراب لگائے گئے، آیتوں کی علامتیں ڈالی گئیں، وقوف کی علامتیں لگائیں گئیں۔ یہ سب نبی کریم ﷺ کی حیات پاک میں نہیں تھا۔ان تمام باتوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دین پر سہولت سے عمل ہوجائے۔ اسی کو سامنے رکھتے علمائے امت نے دین کی تقویت یا اعانت کے تمام جائز طریقوں کو اختیار کیا۔ مساجد میں تنخواہ دار امام اور موذن کا تعین، قرآن پڑھانے کے لیے اجرت کی ادائیگی، مساجد میں وضو اور حاجات کی سہولت، جانمازوں اور قالین کا اہتمام، کتابوں کی تالیف و اشاعت، درس و تدریس، دعوت و تبلیغ، اصلاح باطن کے اعمال وغیرہ سب اس کی مثالیں ہیں۔
تدوین صرف و نحو
قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بھی مختلف علوم وجود میں آئے جن کا وجود رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔مثلا دین کا کوئی طالب علم بھی علم النحو (عربی گرامر) پڑھے بغیر آگے نہیں چل سکتا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دور میں علم النحو بحیثیت علم موجود نہیں تھا۔ دیگر اسلامی علوم کی طرح اس کو بھی مدون کیا گیا اور اس کی اصطلاحات متعین کی گئیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بعد کے آنے والے ان علوم (لغت، صرف و نحو، منطق، بیان، تفسیر، حدیث وغیرہ) میں ان پچھلوں کا اتباع یا تقلید کرتے ہیں یعنی ان کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہیں جس کے بغیر خود قرآن و حدیث کا سمجھنا محال ہے۔
تدوین حدیث
اسی طرح وقت اور حالات کے تقاضوں نے حدیث کی تدوین کی ضرورت پیدا کی چنانچہ علمائے دین نے اس کی طرف توجہ کی اور علم الحدیث کی بنیاد ڈالی جس میں حدیث اور سند حدیث پر بحث کی جاتی ہے اور ایسے اصول متعین کیے جن سے حدیث کی صحت اور عدم صحت کا پتہ چلایا جاسکے۔ اور جیسا کہ ہر علم میں ہوتا ہے کہ سمجھنے سمجھانے اور تبادلہ خیال میں سہولت کے لیے اس علم کی اصطلاحیں (مثلا: صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ) بھی وجود میں آئیں ۔ علم الحدیث کے اصول اور اس کی اصطلاحیں سب اجتہادی ہیں۔یہ کام رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔
امام مسلمؒ صحیح مسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’(پہلے) لوگ (حدیث کی) سند کے متعلق پوچھ گچھ نہیں کرتے تھے لیکن جب فتنہ عام ہوگیا تو پھر راوی سے سند کے متعلق پوچھ گچھ شروع ہوئی۔‘‘
یہاں تک کہ اہل علم نے سند کی تحقیق واجب (ضروری) قرار دے دی۔
تدوین فقہ
اسی طرح شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے فقہا نے فقہ کی تدوین کی اور اس میں تحقیق کے طریقے اور اصول بنائے۔ اس کی اصطلاحیں وجود میں آئیں (فرض، واجب سنت وغیرہ) اور تدوین فقہ کا کام سرانجام ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین کے تمام علوم اجتہادی ہیں ان معنوں میں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں موجود تو تھے لیکن اس طرح مدون (یعنی مرتب) نہ تھے جیسے بعد میں ہوگئے۔ اس تدوین و ترتیب سے ان علوم سے فائدہ اٹھانے میں سہولت ہوگئی۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا ہر شخص کا الگ الگ ہے، عالم اپنے علم کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غیرعالم اپنی حیثیت کے مطابق۔ علوم چاہے دینی ہوں یا دنیاوی، ہر علم کا یہی حال ہے۔ کچھ لوگ علوم ایجاد کرتے ہیں، کچھ ان ایجاد کردہ علوم کو ترقی دیتے ہیں اور باقی لوگ ان کی کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ درحقیقت ہر عالم اپنی تحقیق کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر رکھتا ہے۔
ایک تاریخی حقیقت
ایک تاریخی حقیقت جو انتہائی اہم اور ذہن نشین کرنے کے قابل ہے وہ یہ کہ فقہ کی تدوین پہلے ہوئی اور حدیث کی تدوین بعد میں۔ فقہا نے فقہ کی تدوین اور اس میں تحقیق کے طریقے پہلے بنا لیے جب کہ محدثین نے یہ کام بعد میں کیا۔ بلکہ حدیث کے مجموعے فقہا کی دی گئی ترتیب کے مطابق تیار کیے گئے ہیں۔ تدوین فقہ کا دور رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے قریب کا تھا۔ یہ تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ تھا۔ اس دور کے علما کے لیے سنت رسول ﷺ کو جاننے کے لیے صحابہ کرام کا عملی نمونہ موجود تھا۔ اسی لیے اس وقت کے علمائے کرام کے نزدیک تعامل (عمل) صحابہؓ کی بہت اہمیت تھی۔ اور خیرالقرون میں تعامل صحابہؓ (یعنی صحابہ کرام ؓکا عمل) ہی معیار سنت تھا۔ انہوں نے اختلاف احادیث کے وقت ردوقبول میں بھی اور حدیث کے مفہوم کی تعیین میں بھی اصل معیار تعامل صحابہؓ و تابعینؒ کو ٹھہرایا۔ ابتدائی دور کے فقہا کے نزدیک سب سے بڑی دلیل صحابہ ؓکا عمل تھا۔ اس دور کے فقہا کثرت روایت سے زیادہ کثرت تعامل کا اعتبار کرتے ہیں۔ تعامل صحابہ کو معیار بنانا عین فطری بات ہے اس لیے کہ وہ مقدس ہستیاں حیات رسول ﷺ کی عینی شاہد تھیں اور کسی واقعے کے بارے عینی شاہد ہی سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔ وہ فقہا جن کے سامنے یہ عملی نمونے موجود نہیں تھے انہوں نے اختلاف حدیث کے وقت نقد روایات (روایات کا صحیح یا غیر صحیح ہونا) کا معیار روایوں پر رکھ لیا۔ پہلے دور میں پرکھنے کا معیار پوری جماعت (صحابہؓ اور تابعینؒ) کے تعامل پر تھا بعد میں یہ اشخاص پر آگیا۔ اہلسنت و الجماعت کی یہی فضیلت ہے کہ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا عمل اور ان کے صحابہ کرامؓ کا عمل بھی قابل حجت ہے۔ اسی سے عنوان، اہلسنت والجماعت نکلا ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث کی تعریف یہ ہے:
رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے قول فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔کبھی اس کو اثر اور خبر بھی کہتے ہیں۔
اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم۔ الحدیث (صحیح البخاری، کتاب الرقاق)
عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو اُن کے بعد ہوں گے۔‘‘
اسی لیے حدیث کی کتابوں میں صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال اور اعمال کا ذکر بھی موجود ہے۔
عملِ صحابی کی مثال: وكان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض على لحيته فما فضل اخذه۔ الحدیث (صحیح البخاری، کتاب اللباس)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی ( ہاتھ سے ) پکڑ لیتے اور ( مٹھی ) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے ۔
صحابی کا فتوی: لا ناخذ بقولک و ندع قول زید۔الحدیث (صحیح البخاری، کتاب الحج)
بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے ایک مسئلہ پوچھا اور ان کا جواب سننے کے بعد بولے: ہم ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کی بات پر عمل تو کریں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی بات چھوڑ دیں یعنی ان کے فتوے کو چھوڑ دیں۔
قول تابعی: قال عطا آمین دعا ۔ الحدیث (صحیح البخاری، باب جہرالامام بالتامین)
یعنی عطاؒ (تابعی) نے فرمایا: کہ آمین دعا ہے۔
(جاری ہے)