جاسم محمد
محفلین
مطالعہ پاکستان اور مغالطہ پاکستان —– احمد الیاس
By احمد الیاس on مئی 27, 2019
مطالعہ پاکستان واقعی ایک کافی فضول کتاب ہے لیکن اس لیے نہیں کہ اس میں دو قومی نظریہ ہے۔ بلکہ اس لیے کہ یہ دو قومی نظریے کو کہ ٹھیک سے سمجھاتی ہی نہیں ہے۔
مثال کے طور پر آج کل اکثر لوگوں کو یہ مغالطہ ہے کہ دو قومی نظریے کا مطلب پاکستان کا قیام اور دو ریاستوں کا نظریہ تھا۔ یہ قطعی طور پر غلط ہی نہیں بلکہ شہریت کے حوالے سے شدید کج فہمی کا حامل نکتہ نظر ہے۔ قوم اور ریاست قطعاً ہم معنی ہیں نہ لازم و ملزوم۔ دنیا میں کئی قومیں بغیر کسی ریاست کے قوم ہیں اور کئی ریاستیں دستوری یا غیر دستوری طور پر کثیر القومی ہیں۔
علیحدہ ریاست کی بات تو باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ 1930 میں علامہ اقبال نے کی۔ دو قومی نظریے پر مسلمانوں کی رائے عامہ 1867 کے اردو ہندی تنازعے سے ہموار ہونا شروع ہوئی تھی اور 1886 کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس تک مسلمان اپنے آپ کو ایک علیحدہ قوم مان چکے تھے۔ یہ کانفرنس ڈھاکہ میں ہوئی اور اس میں پنجاب، بنگال، سندھ، سرحد، مدراس اور مالابار سمیت پورے ہندوستان کے مسلمان نمائندے شریک تھے۔
بہرحال، اس کانفرنس کے بعد سے مسلمانانِ ہند اپنے لیے قوم کا لفظ ہی استعمال کرتے رہے۔ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر (جن میں سب سے نمایاں ایک دور میں اقبال اور جناح تھے) جب ابتدائی دور میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو سیاسی اتحاد بنانے پر قائل کرتے تب بھی اسے دو قوموں کا اتحاد قرار دیتے۔
دو قومی نظریہ ایک تمدنی نظریہ ہے جو پاکستان کی بات ہونے سے قبل بھی مسلمہ طور پر ہندوستانی مسلمانوں میں رائج تھا اور بالفرض اگر پاکستان نہ بنتا تو بھی حقیقیت ہوتا۔
بہرحال، وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ ہندوؤں کی سب سے مقبول اور نمائندہ جماعت کانگرس مسلمانوں کو قوم تسلیم کرکے ان کی اقتدار میں جائز اور آبادی سے متناسب شرکت پر راضی نہیں ہے بلکہ انہیں کسی افسانوی “ہندوستانی قوم” کا حصہ بتا کر مارجنلائز کرنا چاہتی ہے۔ ایسا 1911 میں بنگال کی تقسیم منسوخ ہونے سے شروع ہوگیا تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں نے صبر کا مظاہرہ کیا اور قائد اعظم کی کوششوں سے میثاقِ لکھنؤ بھی طئے پایا اور گاندھی کی قیادت میں عدم تعاون کی مشترکہ تحریک بھی چلی۔ تاہم انیس سو بیس کی دہائی میں جب جمہوریت باقاعدہ طور پر وارد ہوئی تو دونوں قوموں میں سیاسی فاصلہ بڑھتا چلا گیا۔
انیس سو اٹھائیس کی نہرو رپورٹ میں جداگانہ انتخابات ختم کرنے اور اختیارات زیادہ سے زیادہ مرکزی حکومت کے پاس رکھنے کی سفارش کی گئی۔ یہ مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے والی بات تھی۔ اسی کے ردعمل میں پہلے جناح کی چودہ نکات آئے اور جب یہ انتہائی معتدل اور معقول مطالبات بھی مسترد کردئیے گئے تو اقبال نے انتہائی مطالبہ کردیا یعنی شمال مغرب میں مسلم ریاست کا قیام، خواہ تاجِ برطانیہ کے تحت ہو یا اس سے الگ۔
گویا دو قومی نظریہ ایک تمدنی نظریہ ہے جو پاکستان کی بات ہونے سے قبل بھی مسلمہ طور پر ہندوستانی مسلمانوں میں رائج تھا اور بالفرض اگر پاکستان نہ بنتا تو بھی حقیقت ہوتا۔ پاکستان صرف اور صرف ایک سیاسی بندوبست ہے جو کانگرس کی ضد کے باعث پیدا ہونے والی انسیکورٹی کے سبب ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے کم سے کم سیاسی حقوق محفوظ رکھنے کے لیے کروایا ہے۔ اس سے بہتر سیاسی بندوبست متحدہ ہندوستان میں ہی مسلمانوں کو دستوری ضمانتیں (جداگانہ انتخابات اور صوبائی خودمختاری وغیرہ) ملنا ہوسکتا تھا لیکن اس سے انکار مسلمانوں نے نہیں بلکہ کانگرس نے کیا تھا۔
مسلمان 1940 میں قرارداد پاکستان منظور کرچکے تھی جس کی توثیق ہندوستان کے تمام حصوں کے مسلمان نمائندوں نے کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود 1946 میں کابینہ مشن پلان میں مسلم لیگ نے پاکستان سے دستبرداری قبول کرلی کیونکہ اس پلان میں پاکستان قائم کیے بغیر اور ہندوستان تقسیم کیے بغیر مسلمانوں کو ان کے سیاسی حقوق کی دستوری ضمانت دی گئی تھی۔ اس پلان کو مسترد کرنے والی کانگرس تھی، گویا متحد ہند کے تابوت میں آخری کیل بھی خود کانگرس نے لگایا۔
لہذا پاکستان رہے یا نہ رہے، دو حصوں میں بٹ جائے یا دس، ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی مل سکے یا نہ ملے، مسلمانانِ برصغیر میں ایک مشترکہ قومی شعور اور مشترکہ شناخت بہرحال موجود تھا، ہے اور رہے گا۔ صرف اسی کا نام دو قومی نظریہ ہے۔
(لسانی قومیت کی آوازیں قیام پاکستان سے قبل وجود ہی نہ رکھتی تھیں۔ یہ قیام پاکستان کے بعد سیاسی وجوہات اور مفادات کے تحت اٹھائی گئی ہیں اس لیے خارج از بحث ہیں)