سیما علی
لائبریرین
خوش لباس ہونا کوئی بری بات تو نہیں ہے لیکن دیکھنے مین آیا ہے کہ اپنے طور پر یا کچھ دوستوں کی دیکھا دیکھی لوگ ایک عادت بنا لیتے ہیں کہ ہر اہم موقعے یعنی شادی بیاہ یا سالگرہ وغیرہ پر پہنا گیا لباس دوبارہ اسی آڈیئنس کے سامنے نہیں پہننا۔ حالانکہ پرانی جنریشن کے لوگ تو کبھی بھی ڈھیروں کپڑے بنانے کی شوقین نہیں رہے تھے بلکہ ہم نے کئی اہم لوگوں کو کتنے سالوں تک دو عدد تھری پیس سوٹ ہی ہر شادی میں پہنتے دیکھا۔
یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ انکو کنجوسی کی حد تک قناعت پسند قرار دیں۔ لیکن ایسے نظریے اس وقت غلط ثابت ہوتے ہیں جب انسان خود کو وقت کے دھارے میں بہتے اور لڑھکتے ہوئے عین اسی مقام پر پایے جہاں کبھی اپنے ماں باپ کو دیکھا تھا۔ یعنی خود الحمدللہ صاحب اولاد ہونے پر!
ایک امریکی ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ
(پرانا کوٹ پہنو اور نئی کتاب خریدو)
اس مقولے کے بعد دنیا کو دوسرے زاوئے سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اچھے لباس کا شوق ہمیں بھی ہے اور آج بھی برقرار ہے لیکن اس شوق سے کہیں بڑا لطف اب کتاب پڑھنے میں آتا ہے! اور یقین جانئے جتنا ضروری تن ڈھانپنے کے لئے لباس ہے اتنی ہی ضروری دماغ کھولنے کے لئے کتاب ہے!
ہماری نوجوان نسل کی اب صرف ایک ہی بک ہے.. یہ “فیس بک” نام کی دیمک ہے جو آج کل اچھے اچھوں کے وقت کو چاٹ رہی ہے اور جس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہمیں کتابوں سے دور کر رہا ہے.
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کتابیں پڑھنے والے اکثر لوگوں کی عینک کیوں لگی ہوتی ہے؟ دراصل مطالعہ کرنے والے اپنی بصارت کا سودا کر کے پڑھنے کی عادت خرید لیتے ہیں.
بدقسمتی سے ہمارے ہاں مطالعے کو وقت کا زیاں سمجھا جاتا ہے اکثر معقول طبقے کے لوگ بھی اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اگر کوئی شوق یا مجبوری میں مطالعہ کرنے کا ارادہ کر ہی لے تو اس کام کو فارغ ترین اوقات کے لئے رکھ دیا جاتا ہے. افسوس کی بات یہ ہے کے اتنی فراغت انہیں مل ہی نہیں پاتی کہ جس میں وہ یہ “فالتو کام” کرسکیں.
آج لوگ دبا دب الٹے سیدھے منطقی پیغامات بنا تحقیق کئے فلاسفر لوگوں کے نام سے ایک دوسرے کو موبائل پر بھیجتے ہیں لیکن ان سے پوچھ لیا جائے کہ سقراط کون تھا؟ تو ایسے ایسے اٹکل پچو جوابات ملیں گے کہ سقراط زندہ ہوتا تو ان جوانوں کو دیکھ کر دوبارہ زہر پی لیتا۔
سو پڑھنے کی عادت ضرور ڈالئے. یہ عادت نہ صرف آپ کے لئے کامیاب زندگی کا راستہ بنے گی بلکہ زندگی سے رس کشید کر آپ کی شخصیت کو شہد سا بنانے میں مدد کرے گی۔
یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ انکو کنجوسی کی حد تک قناعت پسند قرار دیں۔ لیکن ایسے نظریے اس وقت غلط ثابت ہوتے ہیں جب انسان خود کو وقت کے دھارے میں بہتے اور لڑھکتے ہوئے عین اسی مقام پر پایے جہاں کبھی اپنے ماں باپ کو دیکھا تھا۔ یعنی خود الحمدللہ صاحب اولاد ہونے پر!
ایک امریکی ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ
(پرانا کوٹ پہنو اور نئی کتاب خریدو)
اس مقولے کے بعد دنیا کو دوسرے زاوئے سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اچھے لباس کا شوق ہمیں بھی ہے اور آج بھی برقرار ہے لیکن اس شوق سے کہیں بڑا لطف اب کتاب پڑھنے میں آتا ہے! اور یقین جانئے جتنا ضروری تن ڈھانپنے کے لئے لباس ہے اتنی ہی ضروری دماغ کھولنے کے لئے کتاب ہے!
ہماری نوجوان نسل کی اب صرف ایک ہی بک ہے.. یہ “فیس بک” نام کی دیمک ہے جو آج کل اچھے اچھوں کے وقت کو چاٹ رہی ہے اور جس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہمیں کتابوں سے دور کر رہا ہے.
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کتابیں پڑھنے والے اکثر لوگوں کی عینک کیوں لگی ہوتی ہے؟ دراصل مطالعہ کرنے والے اپنی بصارت کا سودا کر کے پڑھنے کی عادت خرید لیتے ہیں.
بدقسمتی سے ہمارے ہاں مطالعے کو وقت کا زیاں سمجھا جاتا ہے اکثر معقول طبقے کے لوگ بھی اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اگر کوئی شوق یا مجبوری میں مطالعہ کرنے کا ارادہ کر ہی لے تو اس کام کو فارغ ترین اوقات کے لئے رکھ دیا جاتا ہے. افسوس کی بات یہ ہے کے اتنی فراغت انہیں مل ہی نہیں پاتی کہ جس میں وہ یہ “فالتو کام” کرسکیں.
آج لوگ دبا دب الٹے سیدھے منطقی پیغامات بنا تحقیق کئے فلاسفر لوگوں کے نام سے ایک دوسرے کو موبائل پر بھیجتے ہیں لیکن ان سے پوچھ لیا جائے کہ سقراط کون تھا؟ تو ایسے ایسے اٹکل پچو جوابات ملیں گے کہ سقراط زندہ ہوتا تو ان جوانوں کو دیکھ کر دوبارہ زہر پی لیتا۔
سو پڑھنے کی عادت ضرور ڈالئے. یہ عادت نہ صرف آپ کے لئے کامیاب زندگی کا راستہ بنے گی بلکہ زندگی سے رس کشید کر آپ کی شخصیت کو شہد سا بنانے میں مدد کرے گی۔