محمد علم اللہ
محفلین
محمد علم اللہ اصلاحی
کبھی کسی کی زبانی سنا تھا ’’فساد تو دراصل فروٹ ہوتا ہے اس سے پہلے کھاد ،پانی اور بیج بویا جاتا ہے نفرت ،تعصب ،ظلم اور بربریت کا ‘‘۔اس قول کی سچی تعبیر اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہم مغربی یوپی کے علاقہ مظفر نگر اور اس کے مضافات میں ہوئے فسادات کے بعد حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں پہونچے۔پولس اور فورس کی بھاری نفری نے نقض امن کی دہائی دیکر ہمیں ان علاقوں میں جانے تو نہیں دیا جہاں یہ واردات انجام دی گئی تھیں۔مگر ہم نے متاثرین پر ہوئے ظلم و تشدد کی کہانی سننے اور حقیقی واقعہ کی تلاش کے لئے عارضی طور پر بنے کیمپوں کا رخ کیا اور وہیں بے یار و مددگار اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے متاثرین سے ملاقات کی۔
ریاست اترپردیش کے ضلع کاندھلہ ،شاملی اور باغپت جیسے ضلعوں کے مختلف مدرسوں ،اسکولوں، عید گاہوں و گھروں میں مقیم ایک لاکھ سے بھی زائد مہاجرین کی الگ الگ داستان اور الگ الگ واقعات تھے ،جنھیں سنتے ہوئے ہمارے دل لرز رہے تھے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے۔یہیں معلوم ہوا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ان کی کربناک داستان الگ ہے جن میں ہزاروں لوگ قرب و جوار میں اپنے رشتے داروں کے یہاں چلے گئے ہیں۔یہاں پچاسوں ہزارسے بھی زائد کی تعداد میں اپنے جائداد ،لٹے پٹے گھر ،جانور اور اثاثہ کو کھو دینے والے مہاجرین کے چہرے سے خوف اور دہشت صاف عیاں تھی۔
کھلے آسمان تلے ان بے خانماں لوگوں میں کوئی اپنے بیٹے کو کھوچکا ہے تو کسی کی بیٹی غائب ہے ،کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل کی روداد سناتے سناتے آنسووں کو ضبط نہیں کر پارہی تو کوئی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو کاندھا دینے کی دلخراش کہانی بیان کرتے کرتے رو پڑتا ہے۔کسی کا پورا اثاثہ لٹ گیا ہے ،کسی کے گھر کو آگ لگا دی گئی ہے تو کسی کے شیر خوار بچے کو چھین کر اس کے سامنے ہی قتل کر دیا گیاہے۔کسی کی ماں زخمی ہے تو کسی کا بھائی ہمیشہ کے لئے پاوں سے معذور ہو چکا ہے۔کتنے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی جوان بیٹیوں کو کھو دیا ہے یا انھیں بلوائی اغوا کر لے گئے ہیں۔
دہلی سولہ دسمبر 2012کے غیر انسانی واقعہ میں دامنی کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس پر شنوائی کرتے ہوئے عدالت نے چار لوگوں کو پھانسی کی سزا دی ہے ، اس سے کہیں زیادہ شرمناک اور جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے واقعات اس علاقے میں ہماری بہت سی بہنوں کے ساتھ پیش آئے ہیں، یہ دونوں واقعات موازنہ کے قابل نہیں ہیں لیکن واقعاتی نوعیت پر حکومت کے اقدام کا موازنہ ضرور کیا جانا چاہیے، ایک موقع پر عالمی پیمانے پر حکومت کی ساکھ مجروح ہونے کا ڈر تھااس لیے تمام قانونی کارروائیاں عمل میں آگئیں،حکومت نے اخلاقی تقاضے بھی دھڑادھڑ پورے کرڈالے، دوسری طرف صرف اندرون ملک کا سماجی خلفشار ہے ، جو ہمیشہ سے حکومت کی غفلت شعاری کا شکار رہا ہے، اس واقعہ میں بھی سیاسی جماعتیں باہم جھگڑ رہی ہیں اور فساد کے مارے ہوئے لوگ عوام کے ذریعہ پہنچائی گئی مدد کے سہارے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
مدرسہ اسلامیہ سلیمانیہ کاندھلہ کیمپ
سب سے پہلے ہم سلیمانیہ کاندھلہ مدرسہ اسلامیہ میں واقع کیمپ میں پہنچے۔جس کے ذمہ دارپوری دل جمعی سے پناہ گزینوں کی خدمت کر رہے ہیں۔یہاں تقریبا ساڑھے سات ہزار مہاجرین قیام پذیر ہیں ،اس کیمپ میں زیادہ تر لساڑ گاوں ،نثار گنج ،پھگانہ ،دھوبیان جیسے دیہی علاقوں کے افراد تھے۔اس کیمپ کی دیکھ ریکھ اور دیگر ذمہ داریاں انجام دینے والے مولانا نور الحسن راشد کا کہنا تھا: ’’پورے علاقے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 60ہزار سے بھی زائد مہاجرین اس طرح کے کیمپوں میں ہیں ،مرنے والوں کی تعداد حکومت کے مطابق 48ہے تاہم ہمارا کہنا ہے کہ یہ تعداد بھی دو سو سے کم نہیں ہے۔بعض خاندانوں کے تو پانچ اور بعضوں کے دس دس افراد کو بلوائیوں نے یا تو قتل کر دیا یا زندہ جلا دیاہے۔20سے زائد لڑکیاں غائب ہیں۔لوگوں کے اندر خوف و ہراس اس قدر ہے کہ وہ پولس اور فورس کی موجودگی میں بھی اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہ رہے ہیں۔بہت سارے مسلم نوجوانوں کو پولس نے گرفتار کر لیا ہے ،گھراور مسجدیں مسمار کر دی گئی ہیں اور لاش و دیگر شواہد کو مٹانے کے لئے اس کے راکھ تک کو ندی میں بہا دیا گیا ہے۔مکانات جس طرح سے گرائے گئے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ اچانک ہو گیا بلکہ وہ منظم سازش کا مظہر ہے ،جس میں دھماکہ خیز اشیاء کے علاوہ کچھ خاص قسم کے کیمیکل بھی استعمال کئے گئے ہیں۔سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی اس قسم کے حادثات وقوع پذیر نہیں ہوئے،حتی کہ تقسیم ہند کے بعد بھی جب پورا ملک خاک و خون میں لتھڑ گیا تھا ‘‘۔
یہاں گوکہ ملی تنظیموں کی جانب سے ہیلتھ سینٹر ، اشیائے خوردونوش اور دیگر عام ضروریات زندگی کا نظم کیا گیا ہے لیکن حالات بہر حال نا گفتہ بہ ہیں۔ایک ایک خیمہ میں ہزاروں خواتین ایک ساتھ اور اسی طرح مردوں کے خیمہ میں ہزاروں مرد ایک ساتھ سونے پر مجبور ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر کھیلنے اور اسکول جانے کی ہے ہجرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔یہاں پر ہم نے مختلف متاثرین سے ملاقات بھی کی جنھوں نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔نثار گنج کے محمد طیب (30)کہتے ہیں ’’سات ستمبر کو کوال میں پنچایت ہوئی اسی کے بعد حالات خراب ہوئے ،سب سے پہلے گاوں کے ہی انصاری لڑکے کو جاٹ لڑکوں نے مارا۔کئی جگہ اس طرح کی واردات سننے میں آ رہی تھیں اور لوگ گھروں کو چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ہم نے بھی لڑکیوں اور خواتین کو محفوظ مقام میں پہنچانا شروع کر دیا لیکن راستہ میں جاٹوں کے کھیت میں چار سو سے بھی زائد ہندو اکٹھا ہو گئے اور انھوں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔کسی طرح ہم لوگ فورس کی مدد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہماری بہت ساری خواتین اور لڑکے چھوٹ گئے اوروہ غائب ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔‘‘
اسی گاؤں کے ایک اور متاثر محمد خالد 25سال کا کہنا تھا: ’’ہم سب سے بعد میں آئے۔مختلف شر پسند عناصر کی جانب سے سی ڈی( CD)کی تقسیم کے بعد جس میں کچھ لوگوں کو مبینہ طور پر دکھایا گیا تھا کہ مسلمان ہندؤوں کو مار رہے ہیں۔ان کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے لوگ جو مر گئے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے۔سب سے پہلے ہمارے مکان سے آگ لگائی گئی۔آگ لگانے والوں کے ہاتھ میں پٹرول اور خطرناک ہتھیار تھے۔وہ ڈھول اور باجے کے ساتھ آتے تھے اور آگ لگاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔آگے آگے پولس تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔ہم لوگوں نے گنے کے کھیت میں چھپ کر کسی طرح اپنی جان بچائی۔‘‘
اسی کیمپ میں مقیم 40سالہ لساڑ گاوں کے ستارہ مسجد کے امام جمیل احمد کا کہنا تھا: ’’ ہمارے گاوں میں تین سو کے قریب مسلمان گھرانے ہیں ،کوئی بھی نوکری والا نہیں ہے۔جس وقت واردات ہوئی میں جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ میرے سامنے میرے چچا کو ان لوگوں نے قتل کر دیا۔اتوار کا دن تھا آٹھ ستمبر ہمارے چچا، جن کا نام سکھن تھا کو انھوں نے گنڈاسے اور تبلہ سے مار دیا۔حملہ آوروں کے پاس تلوار ،گڑاسا ،بندوق اور رائفلیں تھیں۔انھوں نے مسجد کو بھی آگ لگا دی ،جس میں خاصی تعداد میں قرآن مجید اوردوسری بہت سی چیزیں جل کر راکھ ہو گئیں۔میں نے کھیتوں میں گھس کر جان بچائی اور ندی پار کرکے کاندھلہ پہنچا ‘‘۔
محمد سلیم 44 سال پھگانہ محلہ چھوٹی مسجد دھوبیان کا کہنا تھا ’’آٹھ ستمبر کی صبح کو جاٹ آئے ،جو بھاگ سکے وہ بھاگے۔عورتوں کو انھوں نے زخمی کیا ،کئی کو مار ڈالا۔عمر علی حاجی کی ماں اور ان کے لڑکے اور بھائی کو بری طرح چاقو سے مار کر زخمی کر دیا۔آس محمد نام کے ایک نوجوان کو قتل کر دیا۔اس کی وہ ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس ہے جب وہ ڈاکٹر اور دیگر افراد کو رو رو کر بتا رہا ہے کہ کس طرح اس کے ہاتھ اور پاوں کو کاٹ دیا گیا۔ان تمام واقعات کی اطلاع کے لئے جب ہم نے ایس او کو فون کیا تو انھوں نے فون کاٹ دیا ،میرے سامنے دو لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔لیکن میں کچھ بھی نہیں کر سکا ،اس لئے کہ وہ پوری طرح ہتھیار سے لیس تھے ‘‘۔
مدرسہ اسلامیہ رفیقیہ ریاض العلوم جوگیا کھیڑا
اس کیمپ میں بھی پانچ ہزار کے قریب افراد قیام پذیر ہیں ،یہاں زیادہ تر پھگانہ ،ہڑد ،کھیڑا ،ستان ،شد ناولی ،ٹکری ،ڈونگر ،وغیرہ جیسے گاؤں کے افراد تھے۔لوگوں کے بقول حکومت کے ذمہ داران نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے کھانے پینے ،رہنے سہنے اور ہر قسم کی ضرورتوں کا انتظام کرایا جائے گا ،لیکن فی الحال حکومت کی جانب سے کوئی خاص اقدام نہیں ہوا ہے۔زیادہ تر لوگ نا خواندہ اور کم پڑھے لکھے ہیں۔اس لئے ابھی تک انھوں نے اپنے اوپر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی اور ہر ایک اپنی داستان سنانے کے لئے بے تاب ہو گیا۔اس کیمپ میں اسی سالہ بزرگ سے لیکر 15دن کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی موجود تھے۔
اس کیمپ میں مقیم پھگانہ کی ایک خاتون فاطمہ 35سال کا کہنا تھا :’’بلوائیوں نے انھیں ننگا کر کے آبروریزی کی کوشش کی ،وہ برہنگی کی حالت میں بھاگ کر پولس اسٹیشن آئی جہاں انھیں کپڑا دیا دیا گیا اور اس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔جلدی میں اور جان بچانے کے چکر میں ان کی تین سالہ بھتیجی بھی چھوٹ گئی جس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔فسادی جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے اور ڈھول بجاتے ہوئے حملہ کے لئے آئے تھے۔،ان لوگوں نے ہمارے کتنے لوگوں کو مارا پتہ نہیں ‘‘۔
پھگانہ کے حاجی مان علی ولد فتح دین( 55سال) کا کہنا تھا :’’ کئی دن پہلے سے مودی کے بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے تھے۔گاوں کے پردھان نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔پردھان ہمیں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آج کے دن نوجوانوں میں ذرا آکروش ہے تو اگر وہ کچھ کہہ بھی دیں تو اس کا جواب نہ دیں۔ہم لوگوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ کچھ نہیں کہیں گے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد انھوں نے حملہ کر دیا۔وہ بلم اور تلوار لئے ہوئے تھے۔انھوں نے میرے لڑکے کو گنڈاسا سے مار کر زخمی کر دیا۔اسلام نامی ایک ستر سالہ بزرگ کو میرے سامنے قتل کر ڈالا۔ہم اپنی جان بچانے کے لئے گھر وں کے چھتوں میں چڑھ گئے اور وہاں اینٹیں بھی جمع کر لیں۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم انھیں اینٹوں سے حملہ کریں گے اگر وہ ہماری جانب آنے کی کوشش کریں گے۔بچوں کو ہم نے حوصلہ دلایا کہ ڈرو نہیں ہم بھی مقابلہ کر سکتے ہیں اور سچ مچ جب انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔اس کے بعد ہم نے تھانہ فون کیا لیکن فون ریسیو نہیں کیا گیا۔شام کو سات گھنٹہ بعد فورس آئی اور پھر چھت میں سے جہاں 300افراد جمع تھے ہمیں یہاں منتقل کیا۔اب ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔بھینس اور جانور کھول کر لے گئے۔ کچھ نہیں بچا ہم لٹ گئے ‘‘۔
اسی گاوں کے گلفام (30سال) کا کہنا تھا ’’ہم ہمت کر کے چار دن بعد اپنی بھینیسوں کو لانے گئے اور 6بھینسوں کو لانے میں کامیاب ہوئے ان لوگوں نے بہت سارے جانور ہمارے چرا لئے۔گاوں میں ایک بڑا مدرسہ تھا۔اس کو بھی پوری طرح لوٹ لیا۔اس میں تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔عطیہ کی رقم بھی کافی مقدار میں اکٹھا تھی وہ سب لوٹ کر لے گئے۔مسجدوں میں بھگوا جھنڈا گاڑ دیا گیا ہے۔پتہ چلا کہ ہمارے بہت سے جانور وہ لوگ کاٹ کر کھا گئے اور بھی لوگوں کے جانور وہاں بندھے ہوئے تھے ،کئی دنوں سے انھیں کھانا پانی اور چارہ نہیں دیا گیا ہے وہ ویسے ہی وہاں پر بندھے پڑے ہیں اگر ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی تو سب مر جائیں گے ،کئی بچھڑے اور گائیں تو مرچکی ہیں۔‘‘
جولا گاؤں کا کیمپ
یہاں باضابطہ خیمہ گاڑ کر کیمپ نہیں بنایا گیا ہے ،لیکن بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کے گھروں میں مقیم ہیں۔یہاں بھی پانچ ہزار لوگ مقیم ہیں۔کسی کے یہاں دو سو لوگوں کے رہنے کا عارضی انتظام کیا گیا ہے تو کسی کے یہاں ڈیڑھ سو۔بہت سارے خاندان ٹکڑیوں کی صورت میں مختلف لوگوں نے مہمان بنا لئے ہیں ،یہاں بھی زخمی اور بے یار و مددگار اور عزیزوں اور پیاروں کو کھو دینے والے افراد کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے طور پر ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا ہے۔یہاں کے مقامی مدرسہ میں ریلیف کا سامان رکھا ہواہے جہاں سے ضرورت مندوں کو سپلائی کیا جا رہا ہے ،ایک اور مدرسہ میں طعام کا انتظام کیا گیا ہے۔یہاں لاکھ گاؤں، باوڑی ،لساڑ اور ڈونگر جیسے علاقوں کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
یہاں حاجی مہدی کے یہاں مقیم 120لوگوں میں سے لاکھ کی رہنے والی ایک 60سالہ رئیسہ خاتون کا کہنا تھا: ’’ 8ستمبر کو صبح کا وقت تھا۔وہ لوگ بڑے بڑے لاٹھی، ڈنڈا اور بلم و چاقو لے کر گاؤں میں گھس گئے ،وہ زور زور سے چلا رہے تھے۔ ساتھ میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور ڈھول و باجا بھی پیٹ رہے تھے۔جب ہم نے انھیں دیکھا تو ہم بیت الخلاء میں چھپ گئے۔انھوں نے ہمارے گھر میں گھس کر ہمارے دیور اور شوہر کو مار ڈالا۔میرے دیور کا نام پونی (40)تھا اور شوہر کا نام قاسم (62)۔ہم تو ڈر کے مارے وہاں سے نکلے ہی نہیں۔بعد میں جولا گاوں کے لوگ فورس کے ساتھ آئے اور ہمیں نکال کریہاں لائے ‘‘۔
یہیں مستری مانگی کے یہاں مقیم 137لوگوں میں سے ایک اقبال( 41سال )جس نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے کو کھو دیا کا کہنا تھا :’’۔انھوں نے میرے بیٹے کو شہید کر دیا۔میرے گھر کو آگ لگا دی ،سارا اثاثہ لوٹ کر لے گئے ،ہم کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔میری امی 75سال کی ہے انھیں بھی ان لوگوں نے سر میں مار کر زخمی کر دیا۔گنڈاسے سے مار کر پیٹھ کو زخمی کر دیا اور آگ لگا کر بھاگ گئے۔اقبال کی والدہ رمضانو سے ہم نے ملاقات کی۔وہ بستر پر پڑی تھی اور آس پاس عیادت کرنے والی خواتین کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ان کا پچھلا حصہ پوری طرح جلا ہوا تھا ،سر پر پٹی تھی اور پشت پر بینڈیج لگا تھا۔
کینوال کیمپ :
شفیق الپٹی نامی گاؤں میں ایک وسیع و عریض سرکاری قطعہ اراضی پر تھوڑے تھوڑے سے فاصلہ پر کئی خیمے لگے ہوئے ہیں ۔وہ خواتین جو کل تک اپنے اپنی گھروں میں ہنسی خوشی زندگی گذار رہی تھیں،یہاں دھوپ کی شدت اور بارش میں ٹپکتے پانی کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے ۔اس کیمپ کے ٓرگنائزر مولانا محمد داؤود اسعدی کے بقول :’’اس کیمپ میں تقریبا پانچ ہزار افراد مقیم ہیں کچھ اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے ہیں پھر بھی روزانہ یہاں 300سے زائد لوگوں کا کھانا بنایا جا رہا ہے ۔یہاں 29گاوں کے لوگ ہیں ۔
اس کیمپ میں مقیم ایک بزرگ محمد یوسف 50سال کا کہنا تھا :رات کو پتھرا�ؤکیا گیا ،ہمارے گاؤں سے کسی کے مرنے کی اطلاع تو نہیں ہے لیکن رات بھر بلوائی گالم گلوچ ااور دلوں کو دہلا دینے والے نعرے لگاتے رہے ۔ہم سے کہا گیا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو سارے مسلمانوں والے اعمال کرنا چھوڑ دو ،داڑھی کٹوا لو اور ہم جیسا کہیں ویسا ہی کرو نہیں تو ہم تم لوگوں کو مزا چکھا دیں گے ۔ہم بہت ڈر گئے تھے ،دروازہ بند کر لیا تھا ،کئی دنوں تک ہم گھر میں بند رہے 7ستمبر کو فورس آئی اور ہمیں شکار پوئی چھوڑ گئی اور وہاں سے ہم کیمپ میں آ گئے ‘‘
یہیں تنگائی گاؤں کی ایک خاتون جنھوں نے اپنا نام حسینہ بتایا عمر پوچھنے پر ذہن پر ذرا زور دیتے ہوئے 60بتایا ،کہنے لگیں :پہلے تو ان لوگوں نے فساد ہونے سے بھی پہلے ہمارے گاوں میں مسجد کے امام حاجی علی حسن کے اوپر غلط الزام لگا کر انھیں جیل بھیجوا دیا اور جب وہ ضمانت پر رہا ہوکر آئے تو ان کے اوپر حملہ کی کوشش کی گئی ،انھیں مارا پیٹا گیا ،ہماری مسجد جسے ستارہ مسجد کہتے ہیں میں خنزیر کا گوشت رکھ دیا ۔ہماری جانب سے احتجاج کیا گیا تو پورے گاوں کو تباہ و برباد کر دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ہمارے کئی جانوروں کو ان لوگوں نے زہر دے کرمار دیا ،ہم اس گاوں میں صرف 30سے 40گھر ہیں ۔ہم واپس نہیں جا سکتے چاہے یہیں ہماری موت کیوں نہ آ جائے ۔
لوئی گاوں کا کیمپ :
یہاں بھی بقول یہاں کے پردھان مہربان علی کے پانچ ہزار سے زائد افراد مقیم ہیں وہ کرودا ،نرپڑا ،بڑہل ،باوڑی دہا اور دوسرے گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے پاس نہ تو رہنے کا کوئی بندو بست ہے اور نا ہی کوئی مناسب ہیلتھ سینٹر اور دیگر سہولیات کا انتظام جس کے سبب کئی بچوں کی موت ہو چکی ہے۔کئی ایک شدید طور پر زخمی ہیں ،جن کا مناسب علاج ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔یہاں بھی زیادہ تر لوگ ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے افراد ہیں۔لوگوں کی آمد کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ،اور یہ اتنی زیادہ ہے کہ ان کے رہنے سہنے اور دیگر ضروریات کا انتظام کرانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔حکومت کی جانب سے محض امید اور دلاسا دلایا جا رہا ہے۔لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر جو کچھ ہو سکا ہے کیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی اورمتعدد کیمپ ہیں لیکن چونکہ رات کافی ہو گئی تھی اور ہمیں دہلی واپس بھی آنا تھا اس لئے ہم ان جگہوں کا دورہ نہیں کر سکے اور یوں ہمیں اس خواہش کے باوجود کے اور بھی لوگوں سے ملاقات کرتے انھیں حوصلہ دلاتے اور دکھ درد میں شریک ہوتے وقت نہ ہونے کے سبب واپس لوٹنا پڑا۔واضح رہے کہ ہمارا یہ دورہ مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی قیادت میں تھا جن کے ساتھ مشاورت کے رکن مرکزی عاملہ نوید حامد ،ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے اخلاق احمد کے علاوہ کئی سماجی کارکنان بھی شامل تھے۔اس وفد نے پرانی دہلی کے عوام اور مقتدر طبقہ کی جانب سے عطیہ کی شکل میں دئے گئے کپڑے ،چادریں اور ضروری سامان بھی متاثرین کے درمیان تقسیم کئے۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور نوید حامد نے تفصیل سے متاثرین کی بات سنی، انھیں دلاسا دیا اور اعلی ذمہ داران تک ان کی بات پہنچانے و انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔
عمومی تاثرات
لوگ ابھی بھی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔کسی بھی طرح سے وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔زیادہ تر لوگ ان پڑھ ،ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے ہیں اس لئے انھیں اپنے حقوق کے لئے لڑنے حتی کہ ایف آئی آر کس طرح سے درج کرائی جائے یا کیسے لکھی جائے معلوم نہیں ہے۔پولس اور دیگر منتظمین کا رویہ متعصبانہ ہے اور وہ حقیقت حال نہ تو جاننا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی مجرمین کو کوئی سزا دینا ،بلکہ بعض جگہوں پر جیسا کہ متاثرین نے بتایا ،حکومتی ذمہ داران نے جان بوجھ کر لوگوں کو ڈھیل دی کہ مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اور ان کے جان و مال کو لوٹا جائے۔اس بابت پھگانہ سے شروع ہونے والے ایس او علاقہ کے اوم بی سروہی کے کر دار پر لوگوں نے سوالیہ نشان کھڑے کئے۔اسی طرح لوگوں نے ہریش چندر جوشی کاندھلہ کے موجودہ ایس او کی کافی تعریف بھی کی اور کہا کہ ان کا کر دار اس معاملہ میں مثبت رہا۔جہاں پر واردات ہوئی ہیں حکومت کی جانب سے سروے اور دیگر احکام جاری ہونے کے بعد بھی پولس کی جانب سے شواہد کے مٹانے کا کام پڑے پیمانہ پر جاری ہے۔ فساد شروع ہونے سے پہلے پولیس نے مسلم گھروں سے ان کے روزمرہ کے استعمال کے اشیاء بلم، گنڈاسے اور چاقو وغیرہ ، جو ان کے دفاع میں کام آسکتے تھے، جمع کرالئے ،جب کہ باہر سے اسلحے وغیرہ لاکر فسادی عناصر میں تقسیم کئے گئے۔بعض معمر لوگ اور بچے ابھی تک مخدوش گاؤوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ پانی۔ پولیس ان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد نہیں کررہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگرتوجہ نہ دی گئی تو ان میں سے کچھ کمزور لوگ مرگئے ہوں گے یا عنقریب مر جائیں گے۔ جہاں مسلم اکثریت میں ہیں ان علاقوں سے بعض ہندو بھی احتیاطاً بھاگے لیکن مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی اور کہیں بھی ان کے خلاف کوئی واردات انجام دینے کی خبریں نہیں ملیں۔کافی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔وہ کہاں ہیں کس حالت میں ہیں کسی کو علم نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام طرح کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت رویہ سامنے نہیں آیا ہے۔
مجھ پر کیا گذری :
سچ مچ ان تمام حالات اور واقعات کو دیکھنے کے بعد مجھ پر کیا گذری میں اسے بیان نہیں کر سکتا ،کئی جگہ میری آنکھیں بھر آئیں ۔ہم صحافی لوگ روزانہ کسی نہ کسی معاملے میں کسی کے مرنے کی خبر سنتے ہیں اور اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہیں سڑک حادثہ ،تو کہیں قتل کہیں لڑائی جھگڑا ،وہاں پر ہمارے لئے صرف اور صرف خبر کی اہمیت ہوتی ہے اگر ہم ان میں جذبات کو حاوی ہونے دیں تو شاید ایک سطر بھی نہ لکھ سکیں ۔لیکن یہاں کا منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے ،میں اپنے آنسووں کو روک نہیں پایا ۔انھیں تسلی کیا دیتا یہاں تو خود اپنی حالت ہی غیر تھی ۔شاید اسی وجہ سے واپسی کے موقع سے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب جن کی معیت میں مجھے جانا نصیب ہوا تھا سے میں نے کہہ ہی دیا کہ ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد تو جینے کی جیسے تمنا ہی ختم ہو جاتی ہے ،اس سے بہتر تو مر جانا ہے ،ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا اور کافی دیر تک مجھے سمجھاتے رہے ،کہنے لگے’’ اسی معاشرے کو تو بدلنا ہے اپنی فکر سے اپنے علم سے۔۔۔ ‘‘ ۔
فساد زدہ علاقوں سے لوٹنے کے بعد جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ایسا لگ رہا ہے جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے ۔میں دیکھ رہا ہوں سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے ہرے بھرے کھیت ہیں لیکن ان میں بھی اداسی چھائی ہوئی ،پتہ نہیں قدرت کے ان کرشمہ سازیوں کو دیکھنے کے بعد دل میں جو سرور اور طمانیت نصیب ہوتی ہے آج مجھے وہ بالکل بھی نظر نہیں آ رہا ہے ۔ایک ہو اور سناٹے کا عالم ہے ۔میں اپنے دوست اویس سلطان خان سے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ’’یہ نظروں کا پھیر ہے‘‘،ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن پتہ نہیں مجھے تو بڑی بے چینی ہو رہی ہے اور مجھے ہر کوئی بے قرار اور آبدیدہ نظر آ رہا ہے ۔
میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جس کے ذریعہ میں اپنی ماوں اور بہنوں کے درد اور کرب کو بیان کر سکوں ،میرے اندر اتنی ہمت ہی نہیں کہ میں ان بوڑھے بزرگ اور لاٹھی ٹیکتے ضعیف العمرلوگوں کی کہانی کو لفظوں کا روپ دے سکوں ،ان معصوم بچوں کی ان کہی کہانیوں کو لکھ سکوں جو وقت سے پہلے ،مستقبل سے بے خبر یتیم ہو گئے ۔معروف جرمن شاعر اور ادیب رائندر ماریہ رلکے نے اپنے شاگرد صحافی فرانز ژاور کاپس کو ایک خط میں لکھا تھا’’ اگر زندگی کی حقیقتوں کو بیان نہیں کر سکتے ،معاشرے کی عکاسی نہیں کر سکتے تو تم سمجھ لو کہ ایک اچھا تخلیق کار نہیں بن سکتے ،تمہیں لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘اگر ماریہ رلکے کہ اس حقیقت پسندانہ بیان کو دیکھا جائے تو مجھ جیسے مبتدی قلم کار کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔لیکن اس کے باوجود میں نے اسے اس لئے لکھنے کی کوشش کی ہے کہ آنے والے دنوں کے لئے سند رہے ۔مجھے پتہ ہے اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے پھر بھی نے اسے اس لئے لکھا کہ ہمارا ۱قومی ذرائع ابلاغ اور خود اردو اخبارات جو ہمیشہ اور ہر آن قوم کی قصیدہ خوانی کا گن گاتے اور آواز اٹھانے کا دم بھرتے ہیں اتنے بڑے حادثہ کو بیان کرنے میں لگی لپٹی سے کام لیتے رہے ۔اللہ ان سب کو سمجھ عطا کرے، کہنے والے اس کو عصبیت کا شاخسانہ کہہ رہے ہیں، تو کچھ سیاسی بازی گری کا نتیجہ ،لیکن میں کیا کہوں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے
کبھی کسی کی زبانی سنا تھا ’’فساد تو دراصل فروٹ ہوتا ہے اس سے پہلے کھاد ،پانی اور بیج بویا جاتا ہے نفرت ،تعصب ،ظلم اور بربریت کا ‘‘۔اس قول کی سچی تعبیر اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہم مغربی یوپی کے علاقہ مظفر نگر اور اس کے مضافات میں ہوئے فسادات کے بعد حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں پہونچے۔پولس اور فورس کی بھاری نفری نے نقض امن کی دہائی دیکر ہمیں ان علاقوں میں جانے تو نہیں دیا جہاں یہ واردات انجام دی گئی تھیں۔مگر ہم نے متاثرین پر ہوئے ظلم و تشدد کی کہانی سننے اور حقیقی واقعہ کی تلاش کے لئے عارضی طور پر بنے کیمپوں کا رخ کیا اور وہیں بے یار و مددگار اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے متاثرین سے ملاقات کی۔
ریاست اترپردیش کے ضلع کاندھلہ ،شاملی اور باغپت جیسے ضلعوں کے مختلف مدرسوں ،اسکولوں، عید گاہوں و گھروں میں مقیم ایک لاکھ سے بھی زائد مہاجرین کی الگ الگ داستان اور الگ الگ واقعات تھے ،جنھیں سنتے ہوئے ہمارے دل لرز رہے تھے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے۔یہیں معلوم ہوا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ان کی کربناک داستان الگ ہے جن میں ہزاروں لوگ قرب و جوار میں اپنے رشتے داروں کے یہاں چلے گئے ہیں۔یہاں پچاسوں ہزارسے بھی زائد کی تعداد میں اپنے جائداد ،لٹے پٹے گھر ،جانور اور اثاثہ کو کھو دینے والے مہاجرین کے چہرے سے خوف اور دہشت صاف عیاں تھی۔
کھلے آسمان تلے ان بے خانماں لوگوں میں کوئی اپنے بیٹے کو کھوچکا ہے تو کسی کی بیٹی غائب ہے ،کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل کی روداد سناتے سناتے آنسووں کو ضبط نہیں کر پارہی تو کوئی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو کاندھا دینے کی دلخراش کہانی بیان کرتے کرتے رو پڑتا ہے۔کسی کا پورا اثاثہ لٹ گیا ہے ،کسی کے گھر کو آگ لگا دی گئی ہے تو کسی کے شیر خوار بچے کو چھین کر اس کے سامنے ہی قتل کر دیا گیاہے۔کسی کی ماں زخمی ہے تو کسی کا بھائی ہمیشہ کے لئے پاوں سے معذور ہو چکا ہے۔کتنے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی جوان بیٹیوں کو کھو دیا ہے یا انھیں بلوائی اغوا کر لے گئے ہیں۔
دہلی سولہ دسمبر 2012کے غیر انسانی واقعہ میں دامنی کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس پر شنوائی کرتے ہوئے عدالت نے چار لوگوں کو پھانسی کی سزا دی ہے ، اس سے کہیں زیادہ شرمناک اور جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے واقعات اس علاقے میں ہماری بہت سی بہنوں کے ساتھ پیش آئے ہیں، یہ دونوں واقعات موازنہ کے قابل نہیں ہیں لیکن واقعاتی نوعیت پر حکومت کے اقدام کا موازنہ ضرور کیا جانا چاہیے، ایک موقع پر عالمی پیمانے پر حکومت کی ساکھ مجروح ہونے کا ڈر تھااس لیے تمام قانونی کارروائیاں عمل میں آگئیں،حکومت نے اخلاقی تقاضے بھی دھڑادھڑ پورے کرڈالے، دوسری طرف صرف اندرون ملک کا سماجی خلفشار ہے ، جو ہمیشہ سے حکومت کی غفلت شعاری کا شکار رہا ہے، اس واقعہ میں بھی سیاسی جماعتیں باہم جھگڑ رہی ہیں اور فساد کے مارے ہوئے لوگ عوام کے ذریعہ پہنچائی گئی مدد کے سہارے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
مدرسہ اسلامیہ سلیمانیہ کاندھلہ کیمپ
سب سے پہلے ہم سلیمانیہ کاندھلہ مدرسہ اسلامیہ میں واقع کیمپ میں پہنچے۔جس کے ذمہ دارپوری دل جمعی سے پناہ گزینوں کی خدمت کر رہے ہیں۔یہاں تقریبا ساڑھے سات ہزار مہاجرین قیام پذیر ہیں ،اس کیمپ میں زیادہ تر لساڑ گاوں ،نثار گنج ،پھگانہ ،دھوبیان جیسے دیہی علاقوں کے افراد تھے۔اس کیمپ کی دیکھ ریکھ اور دیگر ذمہ داریاں انجام دینے والے مولانا نور الحسن راشد کا کہنا تھا: ’’پورے علاقے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 60ہزار سے بھی زائد مہاجرین اس طرح کے کیمپوں میں ہیں ،مرنے والوں کی تعداد حکومت کے مطابق 48ہے تاہم ہمارا کہنا ہے کہ یہ تعداد بھی دو سو سے کم نہیں ہے۔بعض خاندانوں کے تو پانچ اور بعضوں کے دس دس افراد کو بلوائیوں نے یا تو قتل کر دیا یا زندہ جلا دیاہے۔20سے زائد لڑکیاں غائب ہیں۔لوگوں کے اندر خوف و ہراس اس قدر ہے کہ وہ پولس اور فورس کی موجودگی میں بھی اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہ رہے ہیں۔بہت سارے مسلم نوجوانوں کو پولس نے گرفتار کر لیا ہے ،گھراور مسجدیں مسمار کر دی گئی ہیں اور لاش و دیگر شواہد کو مٹانے کے لئے اس کے راکھ تک کو ندی میں بہا دیا گیا ہے۔مکانات جس طرح سے گرائے گئے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ اچانک ہو گیا بلکہ وہ منظم سازش کا مظہر ہے ،جس میں دھماکہ خیز اشیاء کے علاوہ کچھ خاص قسم کے کیمیکل بھی استعمال کئے گئے ہیں۔سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی اس قسم کے حادثات وقوع پذیر نہیں ہوئے،حتی کہ تقسیم ہند کے بعد بھی جب پورا ملک خاک و خون میں لتھڑ گیا تھا ‘‘۔
یہاں گوکہ ملی تنظیموں کی جانب سے ہیلتھ سینٹر ، اشیائے خوردونوش اور دیگر عام ضروریات زندگی کا نظم کیا گیا ہے لیکن حالات بہر حال نا گفتہ بہ ہیں۔ایک ایک خیمہ میں ہزاروں خواتین ایک ساتھ اور اسی طرح مردوں کے خیمہ میں ہزاروں مرد ایک ساتھ سونے پر مجبور ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر کھیلنے اور اسکول جانے کی ہے ہجرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔یہاں پر ہم نے مختلف متاثرین سے ملاقات بھی کی جنھوں نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔نثار گنج کے محمد طیب (30)کہتے ہیں ’’سات ستمبر کو کوال میں پنچایت ہوئی اسی کے بعد حالات خراب ہوئے ،سب سے پہلے گاوں کے ہی انصاری لڑکے کو جاٹ لڑکوں نے مارا۔کئی جگہ اس طرح کی واردات سننے میں آ رہی تھیں اور لوگ گھروں کو چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ہم نے بھی لڑکیوں اور خواتین کو محفوظ مقام میں پہنچانا شروع کر دیا لیکن راستہ میں جاٹوں کے کھیت میں چار سو سے بھی زائد ہندو اکٹھا ہو گئے اور انھوں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔کسی طرح ہم لوگ فورس کی مدد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہماری بہت ساری خواتین اور لڑکے چھوٹ گئے اوروہ غائب ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔‘‘
اسی گاؤں کے ایک اور متاثر محمد خالد 25سال کا کہنا تھا: ’’ہم سب سے بعد میں آئے۔مختلف شر پسند عناصر کی جانب سے سی ڈی( CD)کی تقسیم کے بعد جس میں کچھ لوگوں کو مبینہ طور پر دکھایا گیا تھا کہ مسلمان ہندؤوں کو مار رہے ہیں۔ان کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے لوگ جو مر گئے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے۔سب سے پہلے ہمارے مکان سے آگ لگائی گئی۔آگ لگانے والوں کے ہاتھ میں پٹرول اور خطرناک ہتھیار تھے۔وہ ڈھول اور باجے کے ساتھ آتے تھے اور آگ لگاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔آگے آگے پولس تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔ہم لوگوں نے گنے کے کھیت میں چھپ کر کسی طرح اپنی جان بچائی۔‘‘
اسی کیمپ میں مقیم 40سالہ لساڑ گاوں کے ستارہ مسجد کے امام جمیل احمد کا کہنا تھا: ’’ ہمارے گاوں میں تین سو کے قریب مسلمان گھرانے ہیں ،کوئی بھی نوکری والا نہیں ہے۔جس وقت واردات ہوئی میں جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ میرے سامنے میرے چچا کو ان لوگوں نے قتل کر دیا۔اتوار کا دن تھا آٹھ ستمبر ہمارے چچا، جن کا نام سکھن تھا کو انھوں نے گنڈاسے اور تبلہ سے مار دیا۔حملہ آوروں کے پاس تلوار ،گڑاسا ،بندوق اور رائفلیں تھیں۔انھوں نے مسجد کو بھی آگ لگا دی ،جس میں خاصی تعداد میں قرآن مجید اوردوسری بہت سی چیزیں جل کر راکھ ہو گئیں۔میں نے کھیتوں میں گھس کر جان بچائی اور ندی پار کرکے کاندھلہ پہنچا ‘‘۔
محمد سلیم 44 سال پھگانہ محلہ چھوٹی مسجد دھوبیان کا کہنا تھا ’’آٹھ ستمبر کی صبح کو جاٹ آئے ،جو بھاگ سکے وہ بھاگے۔عورتوں کو انھوں نے زخمی کیا ،کئی کو مار ڈالا۔عمر علی حاجی کی ماں اور ان کے لڑکے اور بھائی کو بری طرح چاقو سے مار کر زخمی کر دیا۔آس محمد نام کے ایک نوجوان کو قتل کر دیا۔اس کی وہ ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس ہے جب وہ ڈاکٹر اور دیگر افراد کو رو رو کر بتا رہا ہے کہ کس طرح اس کے ہاتھ اور پاوں کو کاٹ دیا گیا۔ان تمام واقعات کی اطلاع کے لئے جب ہم نے ایس او کو فون کیا تو انھوں نے فون کاٹ دیا ،میرے سامنے دو لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔لیکن میں کچھ بھی نہیں کر سکا ،اس لئے کہ وہ پوری طرح ہتھیار سے لیس تھے ‘‘۔
مدرسہ اسلامیہ رفیقیہ ریاض العلوم جوگیا کھیڑا
اس کیمپ میں بھی پانچ ہزار کے قریب افراد قیام پذیر ہیں ،یہاں زیادہ تر پھگانہ ،ہڑد ،کھیڑا ،ستان ،شد ناولی ،ٹکری ،ڈونگر ،وغیرہ جیسے گاؤں کے افراد تھے۔لوگوں کے بقول حکومت کے ذمہ داران نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے کھانے پینے ،رہنے سہنے اور ہر قسم کی ضرورتوں کا انتظام کرایا جائے گا ،لیکن فی الحال حکومت کی جانب سے کوئی خاص اقدام نہیں ہوا ہے۔زیادہ تر لوگ نا خواندہ اور کم پڑھے لکھے ہیں۔اس لئے ابھی تک انھوں نے اپنے اوپر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی اور ہر ایک اپنی داستان سنانے کے لئے بے تاب ہو گیا۔اس کیمپ میں اسی سالہ بزرگ سے لیکر 15دن کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی موجود تھے۔
اس کیمپ میں مقیم پھگانہ کی ایک خاتون فاطمہ 35سال کا کہنا تھا :’’بلوائیوں نے انھیں ننگا کر کے آبروریزی کی کوشش کی ،وہ برہنگی کی حالت میں بھاگ کر پولس اسٹیشن آئی جہاں انھیں کپڑا دیا دیا گیا اور اس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔جلدی میں اور جان بچانے کے چکر میں ان کی تین سالہ بھتیجی بھی چھوٹ گئی جس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔فسادی جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے اور ڈھول بجاتے ہوئے حملہ کے لئے آئے تھے۔،ان لوگوں نے ہمارے کتنے لوگوں کو مارا پتہ نہیں ‘‘۔
پھگانہ کے حاجی مان علی ولد فتح دین( 55سال) کا کہنا تھا :’’ کئی دن پہلے سے مودی کے بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے تھے۔گاوں کے پردھان نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔پردھان ہمیں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آج کے دن نوجوانوں میں ذرا آکروش ہے تو اگر وہ کچھ کہہ بھی دیں تو اس کا جواب نہ دیں۔ہم لوگوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ کچھ نہیں کہیں گے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد انھوں نے حملہ کر دیا۔وہ بلم اور تلوار لئے ہوئے تھے۔انھوں نے میرے لڑکے کو گنڈاسا سے مار کر زخمی کر دیا۔اسلام نامی ایک ستر سالہ بزرگ کو میرے سامنے قتل کر ڈالا۔ہم اپنی جان بچانے کے لئے گھر وں کے چھتوں میں چڑھ گئے اور وہاں اینٹیں بھی جمع کر لیں۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم انھیں اینٹوں سے حملہ کریں گے اگر وہ ہماری جانب آنے کی کوشش کریں گے۔بچوں کو ہم نے حوصلہ دلایا کہ ڈرو نہیں ہم بھی مقابلہ کر سکتے ہیں اور سچ مچ جب انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔اس کے بعد ہم نے تھانہ فون کیا لیکن فون ریسیو نہیں کیا گیا۔شام کو سات گھنٹہ بعد فورس آئی اور پھر چھت میں سے جہاں 300افراد جمع تھے ہمیں یہاں منتقل کیا۔اب ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔بھینس اور جانور کھول کر لے گئے۔ کچھ نہیں بچا ہم لٹ گئے ‘‘۔
اسی گاوں کے گلفام (30سال) کا کہنا تھا ’’ہم ہمت کر کے چار دن بعد اپنی بھینیسوں کو لانے گئے اور 6بھینسوں کو لانے میں کامیاب ہوئے ان لوگوں نے بہت سارے جانور ہمارے چرا لئے۔گاوں میں ایک بڑا مدرسہ تھا۔اس کو بھی پوری طرح لوٹ لیا۔اس میں تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔عطیہ کی رقم بھی کافی مقدار میں اکٹھا تھی وہ سب لوٹ کر لے گئے۔مسجدوں میں بھگوا جھنڈا گاڑ دیا گیا ہے۔پتہ چلا کہ ہمارے بہت سے جانور وہ لوگ کاٹ کر کھا گئے اور بھی لوگوں کے جانور وہاں بندھے ہوئے تھے ،کئی دنوں سے انھیں کھانا پانی اور چارہ نہیں دیا گیا ہے وہ ویسے ہی وہاں پر بندھے پڑے ہیں اگر ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی تو سب مر جائیں گے ،کئی بچھڑے اور گائیں تو مرچکی ہیں۔‘‘
جولا گاؤں کا کیمپ
یہاں باضابطہ خیمہ گاڑ کر کیمپ نہیں بنایا گیا ہے ،لیکن بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کے گھروں میں مقیم ہیں۔یہاں بھی پانچ ہزار لوگ مقیم ہیں۔کسی کے یہاں دو سو لوگوں کے رہنے کا عارضی انتظام کیا گیا ہے تو کسی کے یہاں ڈیڑھ سو۔بہت سارے خاندان ٹکڑیوں کی صورت میں مختلف لوگوں نے مہمان بنا لئے ہیں ،یہاں بھی زخمی اور بے یار و مددگار اور عزیزوں اور پیاروں کو کھو دینے والے افراد کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے طور پر ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا ہے۔یہاں کے مقامی مدرسہ میں ریلیف کا سامان رکھا ہواہے جہاں سے ضرورت مندوں کو سپلائی کیا جا رہا ہے ،ایک اور مدرسہ میں طعام کا انتظام کیا گیا ہے۔یہاں لاکھ گاؤں، باوڑی ،لساڑ اور ڈونگر جیسے علاقوں کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
یہاں حاجی مہدی کے یہاں مقیم 120لوگوں میں سے لاکھ کی رہنے والی ایک 60سالہ رئیسہ خاتون کا کہنا تھا: ’’ 8ستمبر کو صبح کا وقت تھا۔وہ لوگ بڑے بڑے لاٹھی، ڈنڈا اور بلم و چاقو لے کر گاؤں میں گھس گئے ،وہ زور زور سے چلا رہے تھے۔ ساتھ میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور ڈھول و باجا بھی پیٹ رہے تھے۔جب ہم نے انھیں دیکھا تو ہم بیت الخلاء میں چھپ گئے۔انھوں نے ہمارے گھر میں گھس کر ہمارے دیور اور شوہر کو مار ڈالا۔میرے دیور کا نام پونی (40)تھا اور شوہر کا نام قاسم (62)۔ہم تو ڈر کے مارے وہاں سے نکلے ہی نہیں۔بعد میں جولا گاوں کے لوگ فورس کے ساتھ آئے اور ہمیں نکال کریہاں لائے ‘‘۔
یہیں مستری مانگی کے یہاں مقیم 137لوگوں میں سے ایک اقبال( 41سال )جس نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے کو کھو دیا کا کہنا تھا :’’۔انھوں نے میرے بیٹے کو شہید کر دیا۔میرے گھر کو آگ لگا دی ،سارا اثاثہ لوٹ کر لے گئے ،ہم کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔میری امی 75سال کی ہے انھیں بھی ان لوگوں نے سر میں مار کر زخمی کر دیا۔گنڈاسے سے مار کر پیٹھ کو زخمی کر دیا اور آگ لگا کر بھاگ گئے۔اقبال کی والدہ رمضانو سے ہم نے ملاقات کی۔وہ بستر پر پڑی تھی اور آس پاس عیادت کرنے والی خواتین کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ان کا پچھلا حصہ پوری طرح جلا ہوا تھا ،سر پر پٹی تھی اور پشت پر بینڈیج لگا تھا۔
کینوال کیمپ :
شفیق الپٹی نامی گاؤں میں ایک وسیع و عریض سرکاری قطعہ اراضی پر تھوڑے تھوڑے سے فاصلہ پر کئی خیمے لگے ہوئے ہیں ۔وہ خواتین جو کل تک اپنے اپنی گھروں میں ہنسی خوشی زندگی گذار رہی تھیں،یہاں دھوپ کی شدت اور بارش میں ٹپکتے پانی کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے ۔اس کیمپ کے ٓرگنائزر مولانا محمد داؤود اسعدی کے بقول :’’اس کیمپ میں تقریبا پانچ ہزار افراد مقیم ہیں کچھ اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے ہیں پھر بھی روزانہ یہاں 300سے زائد لوگوں کا کھانا بنایا جا رہا ہے ۔یہاں 29گاوں کے لوگ ہیں ۔
اس کیمپ میں مقیم ایک بزرگ محمد یوسف 50سال کا کہنا تھا :رات کو پتھرا�ؤکیا گیا ،ہمارے گاؤں سے کسی کے مرنے کی اطلاع تو نہیں ہے لیکن رات بھر بلوائی گالم گلوچ ااور دلوں کو دہلا دینے والے نعرے لگاتے رہے ۔ہم سے کہا گیا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو سارے مسلمانوں والے اعمال کرنا چھوڑ دو ،داڑھی کٹوا لو اور ہم جیسا کہیں ویسا ہی کرو نہیں تو ہم تم لوگوں کو مزا چکھا دیں گے ۔ہم بہت ڈر گئے تھے ،دروازہ بند کر لیا تھا ،کئی دنوں تک ہم گھر میں بند رہے 7ستمبر کو فورس آئی اور ہمیں شکار پوئی چھوڑ گئی اور وہاں سے ہم کیمپ میں آ گئے ‘‘
یہیں تنگائی گاؤں کی ایک خاتون جنھوں نے اپنا نام حسینہ بتایا عمر پوچھنے پر ذہن پر ذرا زور دیتے ہوئے 60بتایا ،کہنے لگیں :پہلے تو ان لوگوں نے فساد ہونے سے بھی پہلے ہمارے گاوں میں مسجد کے امام حاجی علی حسن کے اوپر غلط الزام لگا کر انھیں جیل بھیجوا دیا اور جب وہ ضمانت پر رہا ہوکر آئے تو ان کے اوپر حملہ کی کوشش کی گئی ،انھیں مارا پیٹا گیا ،ہماری مسجد جسے ستارہ مسجد کہتے ہیں میں خنزیر کا گوشت رکھ دیا ۔ہماری جانب سے احتجاج کیا گیا تو پورے گاوں کو تباہ و برباد کر دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ہمارے کئی جانوروں کو ان لوگوں نے زہر دے کرمار دیا ،ہم اس گاوں میں صرف 30سے 40گھر ہیں ۔ہم واپس نہیں جا سکتے چاہے یہیں ہماری موت کیوں نہ آ جائے ۔
لوئی گاوں کا کیمپ :
یہاں بھی بقول یہاں کے پردھان مہربان علی کے پانچ ہزار سے زائد افراد مقیم ہیں وہ کرودا ،نرپڑا ،بڑہل ،باوڑی دہا اور دوسرے گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے پاس نہ تو رہنے کا کوئی بندو بست ہے اور نا ہی کوئی مناسب ہیلتھ سینٹر اور دیگر سہولیات کا انتظام جس کے سبب کئی بچوں کی موت ہو چکی ہے۔کئی ایک شدید طور پر زخمی ہیں ،جن کا مناسب علاج ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔یہاں بھی زیادہ تر لوگ ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے افراد ہیں۔لوگوں کی آمد کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ،اور یہ اتنی زیادہ ہے کہ ان کے رہنے سہنے اور دیگر ضروریات کا انتظام کرانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔حکومت کی جانب سے محض امید اور دلاسا دلایا جا رہا ہے۔لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر جو کچھ ہو سکا ہے کیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی اورمتعدد کیمپ ہیں لیکن چونکہ رات کافی ہو گئی تھی اور ہمیں دہلی واپس بھی آنا تھا اس لئے ہم ان جگہوں کا دورہ نہیں کر سکے اور یوں ہمیں اس خواہش کے باوجود کے اور بھی لوگوں سے ملاقات کرتے انھیں حوصلہ دلاتے اور دکھ درد میں شریک ہوتے وقت نہ ہونے کے سبب واپس لوٹنا پڑا۔واضح رہے کہ ہمارا یہ دورہ مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی قیادت میں تھا جن کے ساتھ مشاورت کے رکن مرکزی عاملہ نوید حامد ،ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے اخلاق احمد کے علاوہ کئی سماجی کارکنان بھی شامل تھے۔اس وفد نے پرانی دہلی کے عوام اور مقتدر طبقہ کی جانب سے عطیہ کی شکل میں دئے گئے کپڑے ،چادریں اور ضروری سامان بھی متاثرین کے درمیان تقسیم کئے۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور نوید حامد نے تفصیل سے متاثرین کی بات سنی، انھیں دلاسا دیا اور اعلی ذمہ داران تک ان کی بات پہنچانے و انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔
عمومی تاثرات
لوگ ابھی بھی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔کسی بھی طرح سے وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔زیادہ تر لوگ ان پڑھ ،ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے ہیں اس لئے انھیں اپنے حقوق کے لئے لڑنے حتی کہ ایف آئی آر کس طرح سے درج کرائی جائے یا کیسے لکھی جائے معلوم نہیں ہے۔پولس اور دیگر منتظمین کا رویہ متعصبانہ ہے اور وہ حقیقت حال نہ تو جاننا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی مجرمین کو کوئی سزا دینا ،بلکہ بعض جگہوں پر جیسا کہ متاثرین نے بتایا ،حکومتی ذمہ داران نے جان بوجھ کر لوگوں کو ڈھیل دی کہ مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اور ان کے جان و مال کو لوٹا جائے۔اس بابت پھگانہ سے شروع ہونے والے ایس او علاقہ کے اوم بی سروہی کے کر دار پر لوگوں نے سوالیہ نشان کھڑے کئے۔اسی طرح لوگوں نے ہریش چندر جوشی کاندھلہ کے موجودہ ایس او کی کافی تعریف بھی کی اور کہا کہ ان کا کر دار اس معاملہ میں مثبت رہا۔جہاں پر واردات ہوئی ہیں حکومت کی جانب سے سروے اور دیگر احکام جاری ہونے کے بعد بھی پولس کی جانب سے شواہد کے مٹانے کا کام پڑے پیمانہ پر جاری ہے۔ فساد شروع ہونے سے پہلے پولیس نے مسلم گھروں سے ان کے روزمرہ کے استعمال کے اشیاء بلم، گنڈاسے اور چاقو وغیرہ ، جو ان کے دفاع میں کام آسکتے تھے، جمع کرالئے ،جب کہ باہر سے اسلحے وغیرہ لاکر فسادی عناصر میں تقسیم کئے گئے۔بعض معمر لوگ اور بچے ابھی تک مخدوش گاؤوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ پانی۔ پولیس ان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد نہیں کررہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگرتوجہ نہ دی گئی تو ان میں سے کچھ کمزور لوگ مرگئے ہوں گے یا عنقریب مر جائیں گے۔ جہاں مسلم اکثریت میں ہیں ان علاقوں سے بعض ہندو بھی احتیاطاً بھاگے لیکن مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی اور کہیں بھی ان کے خلاف کوئی واردات انجام دینے کی خبریں نہیں ملیں۔کافی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔وہ کہاں ہیں کس حالت میں ہیں کسی کو علم نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام طرح کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت رویہ سامنے نہیں آیا ہے۔
مجھ پر کیا گذری :
سچ مچ ان تمام حالات اور واقعات کو دیکھنے کے بعد مجھ پر کیا گذری میں اسے بیان نہیں کر سکتا ،کئی جگہ میری آنکھیں بھر آئیں ۔ہم صحافی لوگ روزانہ کسی نہ کسی معاملے میں کسی کے مرنے کی خبر سنتے ہیں اور اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہیں سڑک حادثہ ،تو کہیں قتل کہیں لڑائی جھگڑا ،وہاں پر ہمارے لئے صرف اور صرف خبر کی اہمیت ہوتی ہے اگر ہم ان میں جذبات کو حاوی ہونے دیں تو شاید ایک سطر بھی نہ لکھ سکیں ۔لیکن یہاں کا منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے ،میں اپنے آنسووں کو روک نہیں پایا ۔انھیں تسلی کیا دیتا یہاں تو خود اپنی حالت ہی غیر تھی ۔شاید اسی وجہ سے واپسی کے موقع سے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب جن کی معیت میں مجھے جانا نصیب ہوا تھا سے میں نے کہہ ہی دیا کہ ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد تو جینے کی جیسے تمنا ہی ختم ہو جاتی ہے ،اس سے بہتر تو مر جانا ہے ،ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا اور کافی دیر تک مجھے سمجھاتے رہے ،کہنے لگے’’ اسی معاشرے کو تو بدلنا ہے اپنی فکر سے اپنے علم سے۔۔۔ ‘‘ ۔
فساد زدہ علاقوں سے لوٹنے کے بعد جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ایسا لگ رہا ہے جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے ۔میں دیکھ رہا ہوں سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے ہرے بھرے کھیت ہیں لیکن ان میں بھی اداسی چھائی ہوئی ،پتہ نہیں قدرت کے ان کرشمہ سازیوں کو دیکھنے کے بعد دل میں جو سرور اور طمانیت نصیب ہوتی ہے آج مجھے وہ بالکل بھی نظر نہیں آ رہا ہے ۔ایک ہو اور سناٹے کا عالم ہے ۔میں اپنے دوست اویس سلطان خان سے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ’’یہ نظروں کا پھیر ہے‘‘،ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن پتہ نہیں مجھے تو بڑی بے چینی ہو رہی ہے اور مجھے ہر کوئی بے قرار اور آبدیدہ نظر آ رہا ہے ۔
میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جس کے ذریعہ میں اپنی ماوں اور بہنوں کے درد اور کرب کو بیان کر سکوں ،میرے اندر اتنی ہمت ہی نہیں کہ میں ان بوڑھے بزرگ اور لاٹھی ٹیکتے ضعیف العمرلوگوں کی کہانی کو لفظوں کا روپ دے سکوں ،ان معصوم بچوں کی ان کہی کہانیوں کو لکھ سکوں جو وقت سے پہلے ،مستقبل سے بے خبر یتیم ہو گئے ۔معروف جرمن شاعر اور ادیب رائندر ماریہ رلکے نے اپنے شاگرد صحافی فرانز ژاور کاپس کو ایک خط میں لکھا تھا’’ اگر زندگی کی حقیقتوں کو بیان نہیں کر سکتے ،معاشرے کی عکاسی نہیں کر سکتے تو تم سمجھ لو کہ ایک اچھا تخلیق کار نہیں بن سکتے ،تمہیں لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘اگر ماریہ رلکے کہ اس حقیقت پسندانہ بیان کو دیکھا جائے تو مجھ جیسے مبتدی قلم کار کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔لیکن اس کے باوجود میں نے اسے اس لئے لکھنے کی کوشش کی ہے کہ آنے والے دنوں کے لئے سند رہے ۔مجھے پتہ ہے اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے پھر بھی نے اسے اس لئے لکھا کہ ہمارا ۱قومی ذرائع ابلاغ اور خود اردو اخبارات جو ہمیشہ اور ہر آن قوم کی قصیدہ خوانی کا گن گاتے اور آواز اٹھانے کا دم بھرتے ہیں اتنے بڑے حادثہ کو بیان کرنے میں لگی لپٹی سے کام لیتے رہے ۔اللہ ان سب کو سمجھ عطا کرے، کہنے والے اس کو عصبیت کا شاخسانہ کہہ رہے ہیں، تو کچھ سیاسی بازی گری کا نتیجہ ،لیکن میں کیا کہوں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے
مدیر کی آخری تدوین: