محسن وقار علی
محفلین
نہ جانے ہم پاکستانی اس قدر بے حس کیوں ہوگئے۔ کوئٹہ جیسا سانحہ کسی اور ملک میں رونما ہوتا تو قیامت برپا ہوجاتی لیکن ہم تھے کہ اس کے بعد بھی اپنے معمول کے دھندوں میں مگن رہے ۔ اس درد ‘ کرب اور تکلیف کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا جس سے اس سانحہ میں لقمہ اجل بننے والوں کے چاہنے والے گزرے۔ ایک نہیں‘ دو نہیں چھیاسی لاشیں سامنے پڑی ہیں۔ لاشیں بھی بم دھماکے کا نشانہ بننے والی لاشیں ہیں۔ کسی کے سامنے بیٹے‘ کسی کے سامنے باپ‘ کسی کے سامنے بھائی تو کسی کے سامنے شوہر کی لاش پڑی ہے۔ اوپر سے کوئٹہ کی سردی ‘ بارش اور برف باری۔ امریکہ جسے ہم وحشیوں کا ملک قرار دیتے ہیں‘ میں چند بچے فائرنگ سے مرگئے تو پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔ صدر اوباما کیمروں کے سامنے ایسے روئے کہ جیسے اس کے سگے بچے مرگئے ہیں لیکن اسلام کے قلعے پاکستان میں بے حسی کی انتہا دیکھ لیجئے۔ صدر مملکت بلاول ہاؤس میں بیٹھ کر روایتی سیاسی شطرنج میں مصروف رہے۔ ان کے نامزد کردہ اور بلوچستان اسمبلی کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ بے شرمی کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے برطانیہ میں گھومتے رہے اور جب وزیراعظم بادل نخواستہ ان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کررہے تھے تو وہ کیمبرج کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں مقیم تھے اور شاید کیمبرج یونیورسٹی سے بے حسی کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش میں مگن رہے۔ دوسری طرف پاکستانیوں کے جان ومال کی حفاظت کی ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹر رحمن ملک کینیڈا سے تشریف لانے والے ایک اور ڈاکٹر کے ساتھ لگے تماشے کو اور بھی دلچسپ بنانے کے لئے تگ و دو کرتے رہے ۔ وہاں یہ قیامت برپا رہی اور بلوچستان کے نام پر اربوں روپے بٹورنے والے صوبائی وزیروں ‘ مشیروں یا اراکین اسمبلی میں کوئی ایک بھی (سوائے ایک ہزارہ ممبر کے) دھرنا دینے والوں کے آنسو پونچھنے کے لئے علمدار روڈ پر نہیں گیا۔ ان بے حسوں کی ڈھٹائی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے زبانیں کھولیں تو صرف اس مطالبے کے لئے کہ گورنر راج کے بجائے ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے تاکہ ان کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے اور تو اور اسلام کے ٹھیکیدار لیڈران میں سے بھی کوئی تین دنوں میں کربلا کا منظر پیش کرنے والے کوئٹہ کی طرف نہیں گیا۔ ایک شیخ الاسلام اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے نام تو حضرت امام حسین کا لیتے رہے لیکن ان کے ان عاشقوں کا درد بانٹنے کے لئے اپنا رخ کوئٹہ کی طرف کرنے کی بجائے وہ اپنے مارچ کے ذریعے میڈیا اور قوم کی توجہ اس سے ہٹانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ انسانیت اور قومی غیرت کا ثبوت دیا تو صرف عمران خان نے جو ان مظلوموں کی دادرسی کے لئے وہاں گئے اور ان کے اس اقدام پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی ایسے دن کہ ان کے بیٹے کی مہندی تھی‘ کوئٹہ جاکر اپنی ساکھ کو بہتر بنایا جبکہ سید خورشید شاہ اور قمرزمان کائرہ کا رول بھی لائق تحسین رہا۔ وزیراعظم کی موجودگی میں غمزد ہ اور بپھرے ہوئے ایک ہزارہ نوجوان نے بدتمیزی کی لیکن اس کے جواب میں کائرہ صاحب نے جس صبروتحمل کا مظاہرہ کیا‘ اس کی وجہ سے ان کے سیاسی قدکاٹھ میں مزید اضافہ ہوا ۔ بہرحال ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور خون پھر خون ہے ٹپکتے ٹپکتے جم ہی جاتا ہے۔ بالآخرکوئٹہ کی یخ بستہ راتوں کی وجہ سے ان معصوموں کا خون بھی جم گیا۔ ہزارہ کمیونٹی کی آہیں عرش تک پہنچ گئیں۔ حکومت وقتی طور پر ہی سہی لیکن حرکت میں آ ہی گئی مگر کیا گورنر راج اور فوج کے اختیارات میں اضافہ مسئلے کا حل ہے، نہیں ہر گز نہیں۔ وہ لوگ بہت سادہ ہوں گے جو انہی عطاروں کے لونڈے سے دوا لے کر شفا کی توقع کررہے ہیں جنہوں نے مریض کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ بلوچستان کے لئے سردار مگسی نئے ہیں اور نہ فوج کو پہلی مرتبہ اختیارات ملیں گی۔ بلوچستان کو اس مقام تک سرداروں اور فوجی آپریشنوں نے ہی پہنچایا ہے۔ مگسی صاحب بھی ایک سردار ہیں اور پہلے بھی صوبے کے چیف ایگزیکیٹو رہے ہیں اور فوج پرویز مشرف کے پورے دور اقتدار میں بلوچستان پر حکمرانی کرتی رہی۔ وفاقی حکومت اور مجموعی سیاسی قیادت دلچسپی نہیں لے گی اور بلوچستان کے مسئلے یا پھر دہشت گردی کے روٹ کازز کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی تو نہ بلوچستان میں امن آئے گا اور نہ ہزارہ کمیونٹی کی زندگیاں محفوظ ہوں گی ۔چنانچہ ضروری ہے کہ گورنر راج کے دنوں میں بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت اور عوام کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ایک جامع اور قومی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ نہیں تو یہ مسائل مزید بھیانک شکل میں سر اٹھائیں گے ۔ پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ایک بڑا سبب دو خلیجی ممالک کی پاکستان میں مداخلت ہے اور وہ ممالک اپنی جنگ ہماری سرزمین پر آکر لڑرہے ہیں چنانچہ ان ممالک سے بھی بات کرنی ہوگی اور انہیں اس کام سے منع کرنا ہوگا۔ پچھلے تین روز کے دوران جو کچھ ہوا اس سے موجودہ حکومت کے بارے میں قائم اس رائے کو مزید تقویت ملی کہ وہ ٹھیک کام بھی غلط وقت پر کرتی ہے اور دباؤ میں آئے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کئی ہفتے قبل کہہ دیا تھا کہ بلوچستان کی حکومت حق حکمرانی کھو چکی ہے اور اگر اس وقت اس فیصلے پر عمل کرکے رئیسانی حکومت کو رخصت کیا جاتا تو عزت رہ جاتی لیکن اب بعدازخرابیٴ بسیار یہ کام کرلیا گیا۔ اسی طرح ہزارہ کمیونٹی کے پُرامن احتجاج کے نتیجے میں بلوچستان حکومت کی رخصتی سے ثابت ہوگیا کہ قوم کا اجتماعی ضمیر آج بھی مظلومیت کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو تشدد‘ دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔ جو لوگ دھونس‘ دھاندلی اور تشدد کا راستہ اپناتے ہیں وہ اپنی قوم کے ساتھ ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو لوگ مظلومانہ جدوجہد کرتے ہیں وہی کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت حضرت امام حسین ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے ۔ ماضی میں بعض ممالک اور بعض لیڈروں نے شیعہ کمیونٹی کے بعض لوگوں کو تشدد کے راستے پر گامزن کیا تو اس کا ان کی کمیونٹی کو نقصان ہوااور اب جب کچھ لیڈروں نے حقیقی معنوں میں فلسفہ حسینیت پر عمل کرتے ہوئے مظلومانہ جدوجہد کا راستہ اپنایا تو تعداد میں کم اور غیرمسلح ہونے کے باوجود ان کے مطالبات تسلیم کرلئے گئے۔ اہل سنت کے قائدین کے لئے بھی یہ ایک سبق ہے ۔ وہ اگر تشدد کے ذریعے اپنی باتوں کو منوانا چاہیں گے تو اجتماعی ضمیر ان کو قبول نہیں کرے گا اور انہیں جواب میں نفرت ملے گی لیکن اگر وہ پُرامن اور مظلومانہ جدوجہد کا راستہ اپنائیں گے تو انہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اس دھرنے اور اس کے نتائج نے ثابت کردیا کہ اصل طاقت ظلم میں نہیں مظلومیت میں ہے ۔ کاش ہماری قوم تشدد کی بجائے امن کی اور ظلم کے بجائے مظلومیت کی طاقت کو سمجھ لے۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک