ماوراء
محفلین
مظلوم اونٹ
دوستو سندھ کے ريگستاني علاقے ميں ايک چھوٹا سا گاؤں تھا، اس گاؤں میں ايک لڑکا رہتا تھا، اس کا نام خدا بخش تھا مگر گاؤں والے اس کو بخشو کہہ کر پکارتے تھے۔
يہ گاؤں صحرائے تھر کے ساتھ لگتا تھا، گاؤں والوں کيلئے پينے کا پاني حاصل کرنا بڑا مسئلہ تھا، ان کي زندگي کے قيمتي اوقات کا ايک بڑا حصہ پاني کي تلاش ميں گزر جاتا تھا، کبھي سال ميں ايک آدھ بار بارش ہو جاتي تو پاني بعض سخت جگہوں پر گڑھوں ميں تالابوں کي صورت ميں جمع ہوجاتا گاؤں والے وہاں سے پاني حاصل کرتے بعض جگہ سينکٹروں فٹ گہرے کنويں تھے، گاؤں والے کئي کئي ميل کا سفر کرکے وہاں سے بھي پاني لاتے تھے، انہيں اپني زندگي گزارنے کيلئے اونٹوں سے کام لينا پڑتا تھا، ايک جگہ سے دوسري جگہ سفر کرنا، صحرا ميں اونٹ کے بغير ممکن نہيں اس لئے گاؤں کے اکثر لوگوں کے پاس اوٹ تھے۔
بخشو کے باپ نے بھي دو اونٹ تھے جو ان کے مختصر سے کنبے کا ايک خاندان بن چکےتھے، بخشو کے باپ کو اپنے اونٹوں سے بڑا پيار تھا، وہ ان کو اپنے ہاتھوں سے چارہ ڈالتا، ان کے بعد پر کھرير کرتا، بخشو کي ماں بھي ان کا بہت خيال رکھتي تھي۔
مگر دوستوں۔۔۔ بخشو کي عادت بالکل مختلف تھي، وہ ان اونٹوں کے چارے ميں مٹي ملا ديتا ، ان کے پاني ميں صابن گھول ديتا،، بخشو کا باپ اونٹوں کو چرانے کيلئے جنگل ميں چھوڑتا اور بخشو کو ان کي نگراني پر لگاديتا ، اس موقع سے بخشو خوب فائدہ اٹھاتا وہ چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کرکے کسي درخت پر چڑھ جاتا اور نشانہ لے لے کر اونٹوں کو مارتا بے چارے اونٹ درد سے بلبلاتے اور بخشو ہنستا، بعض اوقات خارش کي وجہ سے اونٹوں کے جسم پر کہيں کہيں زخم ہوجاتے ہيں، بخشو غليل سے ان جگہوں پر نشانا لگاتا اونٹ بدک کر ادھر ادھر بھاگتے تو بخشو کو بڑا لطف آتا۔
بخشو کے چچانے ايک دو دفعہ ايسي حرکتيں کرتا ہوا ديکھا تو اس کو اسے منع کيا اور کہا يہ بے زبان جانور بددعائيں ديتا ہے، اس کي بددعا لگ جاتي ہے مگر بخشو پر کوئي اثر نہيں ہوا، ايک بار گاؤں کے ايک بوڑھے نے بخشو کي يہ شرارت ديکھي تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا بابا کينہ پرست اونٹ کي دشمني سے ڈر جب يہ بے زبان جانور اپنا غصہ نکالنے پر آجاتا ہے تو جان لے کر ہي چھوڑتا ہے۔
دوستو۔۔۔۔بخشو کے گاؤں ميں کوئي مدرسہ نہيں تھا، اس کا سارا دن ايسي ہي شرارتوں ميں گزرتا تھا، اس کے ہم عمر سارے دوسرے لڑکے بھي اس کي طرح جنگلوں ميں اونٹ چراتے اور شرارتيں کرتے تھے، ايک دن مغرب کے وقت يہ لڑکے اونٹ چرا کر گاؤں کو لوٹ کر آرہے تھے،کہ ان کے کان ميں يہ بات پڑي کہ گاؤں کي مسجد ميں نئے امام صاحب آئيں ہيں، بچے صرف ان کو ديکھنے کے شوق ميں نماز پڑھنے چلے گئے ديکھا تو ايک سفيد عمامہ والے باوقار مولانا صاحب مصلح پر تھے۔
انہوں نے بڑي اچھي آواز ميں قرات کي ، نمازيوں کو بڑا مزہ آيا، نماز کے بعد امام صاحب نے اعلان کيا کہ کل سے يہاں بچوں کيلئے صبح قرآن مجيد کي تعليم کا آغاز ہوگا، نمازي حضرات اپنے اپنے بچوں کو داخل کرائيں تاکہ ان کے بچے قرآن مجيد کي تعليم سے محروم نہ رہيں، عشا کي نماز کے بعد روزانہ قرآن مجيد کا درس ہوا کرے گا۔
اگلے دن بخشو اور اس کے کئي دوستوں کو امام صاحب کے پاس پڑھنے بٹھا دياگيا، ان کو الف ب بھي نہ آتي تھي، امام صاحب نے انہيں نواراني قاعدہ شروع کراديا، رات کو درس قرآن مجيد ميں وہ اچھي اچھي باتيں بتاتے جس سے لوگوں کي اصلاح ہونے لگي، ايک دن مولوي صاحب نے بخشو اور اس کے دوستوں کو جنگل ميں اونٹوں کے ساتھ شرارتيں کرتے ديکھا، اس وقت کچھ نہ بولے رات کو درس قرآن مجيد ميں انہوں نے موقع کي مناسبت سے يہ واقع سنايا۔
ايک دن حضور نبي صلي اللہ عليہ وسلم باغ ميں تشريف لے گئے، وہاں ايک اونٹ تھا جو حضور نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو ديکھ کر بلبلانے لگا اور اپني تکليف کي فرياد کرنے لگا اور اس کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے حضور نبي صلي اللہ عليہ وسلم اس کے پاس تشريف لے گئے اور اس کے کانوں کي جڑوں کو سہلايا اس کو تسلي دي وہ مطمئن ہو کر خاموش ہوگيا، حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ايک انصاري صحابي نے آکر عرض کيا يہ ميرا اونٹ ہے۔
آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جس اللہ نے تمہيں اس کا مالک بنايا ہے، تم اس اونٹ کے بارے ميں اللہ سے نہيں ڈرتے، يہ اونٹ تمہاري شکايات کر رہا ہے، تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اس سے اس طاقت سے زيادہ کام ليتے ہو۔
اس کے بعد اس انصاري صحابي اونٹ کا زيادہ خيال رکھنے لگے اس کو چارہ بھي زيادہ ديتے اور اس کو آرام کا موقع بھي ديتے۔
امام صاحب سے يہ واقع سن کر بخشو اور اس کے دوستوں پر بہت اثر ہوا اسلئے کہ روزانہ اللہ اور اس کے پيارے حضور نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي باتيں سن سن کر انکے دلوں ميں اللہ اور پيارے حضور نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي محبت دل ميں بيٹھ گئي تھي۔
بخشو اور اس کے دوستوں نے اس کے بعد اونٹوں کوکبھي نہيں تنگ کيا۔