آصف اثر

معطل
اس تناظر ميں درجنوں ممالک کی حکومتيں، ان کی افواج اور سرکردہ اسلامی ممالک کيونکر اس بات کی اجازت ديں گے کہ امريکی فوجی بغير کسی وجہ کے دانستہ بے گناہ شہريوں پر مظالم ڈھا کر انھيں قتل کرنے کی مہم جوئ جاری رکھيں؟
امریکا یہ کام بغیر اجازت کے کرتا ہے۔

بلکہ افغانستان ميں تعمير وترقی کے ضمن ميں کی گئ ہماری بے پناہ کوششيں اور وسائل بھی غارت ہو جاتے ہيں۔
یہ تعمیر و ترقی افغانوں کے لیے نہیں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔

امريکی حکومت جانتے بوجھتے ہوئے کيونکر اپنی اور اتحادی افواج کو خطرے ميں ڈالے گی،
وہ یہ کام افراتفری اور خوف کی حالت میں کردیتی ہے۔

امريکی صدر اوبامہ نے عوامی سطح پر يہ واضح کر ديا ہے کہ ہم خطے سے جلد از جلد نکلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں۔
سفید جھوٹ۔ ابھی کچھ عوامل کا بہانہ بنا کر اپنی موجودگی کو توسیع دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاکہ افغانوں کی نسل کُشی اور ان کے معدنی اور ایمانی طور پر مالامال خطے کو اور لُوٹ لیا جاسکے۔
 

Fawad -

محفلین
تاکہ افغانوں کی نسل کُشی اور ان کے معدنی اور ایمانی طور پر مالامال خطے کو اور لُوٹ لیا جاسکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔ ميں آپ کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ پوری دنيا ميں صرف تين ممالک نے کابل ميں افغانستان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اگر يہ درست ہوتا تو سعودی عرب اور پاکستان سميت دنيا کے اہم ترين مسلم ممالک افغانستان ميں ہماری کاوشوں کی حمايت نہيں کر رہے ہوتے۔

ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ افغانستان ميں ہونے والی ناگزير فوجی کاروائ کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے عوامی سطح پر عالمی براداری کے ساتھ ان دہشت گردوں کی بيخ کنی کرنے کے ليے تعاون سے انکار کر ديا تھا جو صرف امريکہ کے خلاف ہی نہيں بلکہ ہر اس فريق کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے تھے جو ان کے غير انسانی طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکاری تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
ماہ صیام میں فلسطینیوں پرعرصہ حیات مزید تنگ کردیا گیاپانی کی مصنوعی قلت ۔۔ فلسطینیوں کےخلاف صہیونی انتقام کا نیا حربہ
پانی کا بحران

مقبوضہ غرب اردن: موسم گرما میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا
وادی اردن ۔۔۔ مرکز اطلاعات فلسطین +-
ماہ صیام اور موسم گرما کے ایک ساتھ آتے ہی فلسطین میں اسرائیل کی انتقامی سیاست میں بھی شدت آ جاتی ہے۔ فلسطین کے مختلف علاقوں میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے فلسطینی روزہ داروں کی زندگی اجیرن بنانا غاصب صہیونی اور قابض انتظامیہ کا من پسند مشغلہ بن چکا ہے۔

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے بعد صہیونیوں کی جانب سے وادی اردن کے شہریوں کو بھی پانی سے محروم کرتے ہوئے ان کے لیے کربلا کی کیفیت پیدا کرنے کی پوری طرح منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

ادھر غزہ کی پٹی میں اسرائیلی پابندیوں کے باعث 95 فی صد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور مسلسل ناکہ بندی کے باعث بعض علاقوں میں پانی کی فراہمی بھی بری طرح تعطل کا شکار رہتی ہے۔

ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار بھی انتہائی منفی اور ناقابل قبول ہے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینیوں کو پانی کا حق دلوانے میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بالعموم موسم گرما بالخصوص رمضان المبارک کے ایام میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنا اسرائیل کی ایک طے شدہ حکمت عملی اور پالیسی کا حصہ ہے۔ اس ظالمانہ پالیسی کا مقصد فلسطینی شہریوں کو پیاسا رکھنے کا مکروہ انتقامی حربہ اختیار کرتے ہوئے روزہ داروں کی زندگی اجیرن بنانا ہے۔

وادی اردن کا علاقہ اسرائیل کی نام نہاد واٹراتھارٹی کے اوباشوں کے نرغے میں رہتا ہے۔ اسرائیلی سول انتظامیہ کے غنڈے فلسطینی قصبوں میں پانی فراہم کرنے والی ٹریکٹر ٹرالیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ان سے پانی چھین لیتے ہیں اور وہ پانی یا توضائع کر دیا جاتا ہے یا اسےیہودی آباد کاروں کو دے دیا جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں نو رمضان المبارک کو ادی اردن میں اس وقت پیش آیا جب اسرائیلی انتظامیہ نے مقامی فلسطینی شہری محمد عبدالقادر ابو عواد سے ان کا ٹریکٹر اور پانی کی ٹینکی چھین لی گئی۔ وہ پانی اپنے گھر، مویشیوں اور اہل محلہ کے لیے لے جا رہے تھے کہ قابض انتظامیہ نے ان کا ٹریکٹر اور اس کے ساتھ بندھی پانی کی ٹینکی دونوں چھین لیے۔

فلسطینیوں کو پیاسا رکھنے کی مجرمانہ پالیسی
ابو عواد نے اپنی بپتا مرکزاطلاعات فلسطین سے بھی شیئر کی اور بتایا کہ اسرائیلی سول اور فوجی انتظامیہ نے ان کا ٹریکٹر اوراس کے ساتھ بندی ٹینکی قبضے میں لینے کے بعد ایک فوجی کیمپ میں منتقل کردی، مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے خود کیمپ میں اسرائیلی فوج کے سامنے پیش ہو جاؤں۔

ابو عواد نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیلی انتظامیہ نے ان کا ٹریکٹر اور پانی کی ٹینکی غصب کی ہے۔ اس نوعیت کے واقعات اب تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ ان کا اصل محرک اور مقصد مقامی فلسطینی آبادی کو تنگ کر کے انہیں علاقہ چھوڑ دینے پر مجبور کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی المالح، البزیق، سھل البقیعہ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں پانی کے وسائل پریہودی آباد کاروں اور صہیونی فوج کا قبضہ ہے۔ فلسطینی کنوؤں سے پانی بھرلانے کی کوشش کرتے ہیں توانہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی فوجیوں نے مشرقی طوباس کے ابزیق قصبے سے حسن الحروب نامی ایک شہری کو صرف اس لیے حراست میں لے لیا کہ وہ ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے پانی کی ٹینکی باندھ کر اپنے قصبے کو پانی فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صہیونی فوجیوں نے نہ صرف الحروب کو حراست میں لیا بلکہ اس کا ٹریکٹر اور پانی کی ٹینکی بھی ضبط کر لی گئی۔

حسن الحروب کو اس کے ٹریکٹر سے ایسے اتارا گیا جیسے وہ کوئی انتہائی خطرناک دہشت گرد ہو اور صہیونی ریاست کے لیے سیکیورٹی ریسک بن جائے۔

ابزیق اور کئی دوسرے فلسطینی دورافتادہ قصبات میں پانی کی قلت کا عالم یہ ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ انہیں ایک گلاس پانی تک حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور بعض اوقات ایک گلاس پانی کی قیمت 25 شیکل تک جا پہنچتی ہے جو کہ پانی کی مروجہ قیمت سے سات گنا زیادہ ہے۔

چوہے بلی کا کھیل یا بقا کی جنگ
وادی اردن اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا مقصد وہاں رہنے والے فلسطینیوں کو جبراً بے دخل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ سھل البقیعہ کے ایک مقامی شہری اور سرکردہ سماجی کارکن محسن بشارات کا کہنا ہے کہ ’’نہ تو صہیونی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑتے ہیں اور نہ ہم انہیں وہاں سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں مجبورا ان کے فیصلے ماننا پڑتے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی بناء پر چوہے بلی کا کھیل بنا ہوا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے محسن بشارات کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت یا فلسطینیوں کو پانی سے روکنے کا مقصد انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ کسی ایک قصبے کا قصہ نہیں بلکہ تمام فلسطینی قصبات میں ایک ہی جیسی کیفیت ہے اور ہرطرف فلسطینیوں کے لیے مشکلات ہیں۔

اسرائیلی ہمیں ہرصورت میں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں اور تلے ہوئے ہیں کہ ہم قصبے اور اپنی زمینیں ان کے لیے خالی کردیں۔ پانی کی قلت ان حربوں کا حصہ ہے جو فلسطینیوں کے خلاف انتقامی پالیسی کے تحت اپنائے جاتے ہیں۔

محسن بشارات کا کہنا ہے کہ علاقے میں انفراسٹرکچر بہتر ہو جائے تو پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر بدقسمتی سے اسرائیل فلسطینیوں کی وجہ سے انفراسٹرکچر ٹھیک کرنے کے بجائے ان کے لیے اور بھی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

المالح کے مقامی فلسطینی عہدیدار عارف دراغمہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پانی کے بغیر کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسرائیل پانی کی قلت پیدا کر کے وادی اردن کے شہریوں کو خود ہی علاقوں سے نقل مکانی پرمجبور کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی شہری مشکلات برداشت کر رہے ہیں مگر وہ صہیونیوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔

خیال رہے کہ فلسطینیوں کو پیاس میں مبتلا کرنے کی پالیسی کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی فراہمی کے 97 جاری منصوبے بند کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر منصوبے سیکٹر C میں قائم کیے گئے تھے۔

خشک علاقوں میں فلسطینیوں کو صرف 15 فیصد پانی کے وسائل فراہم کیے گئے ہیں جب کہ 85 فی صد وسائل پرصہیونی قابض ہیں۔ اسرائیلی دریائے اردن، طبریا اور بحر مردار کے پانی کے وسائل کے ساتھ ساتھ سالانہ 750 مکعب میٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔

اشاعت کی تاریخ :
جمعہ 17/جون/2016
http://urdu.palinfo.com/news/2016/6...۔۔-فلسطینیوں-کےخلاف-صہیونی-انتقام-کا-نیا-حربہ
 

جاسمن

لائبریرین
مقبوضہ غرب اردن: موسم گرما میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا

اسرائیلی فوج کے غرب اردن اور بیت المقدس میں چھاپے، 9 فلسطینی گرفتارغرب اردن: اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد سے متعدد فلسطینی زخمی فلسطین: غزہ اور غرب اردن کی 42 % آبادی پناہ گزینغرب اردن میں یہودی کالونیوں کے لیے 72 ملین شیکل کی منظوری
الخلیل ۔۔۔ مرکز اطلاعات فلسطین، ایجنسیاں +-
گرمی کاموسم آتے ہی فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض شہروں میں پانی کا بحران پیدا ہوتا اور اسرائیلی پالیسیوں کے باعث شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ امسال بھی موسم گرما کے شروع ہوتے ہی دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہروں میں پینے کے صاف پانی کا خطرناک بحران پیدا ہو گیا ہے۔

اگرچہ شہریوں کی پانی کی قلت دور کرنے کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر کوششیں جاری ہیں، رضاکار تنظیموں اور عام شہریوں کی جانب سے بھی بحران سے نمٹنے میں دوسروں کی مدد کا داعیہ موجود ہے مگر یہودی آباد کاری، اسرائیلی کالونیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے اور صہیونی قابض انتظامیہ کی جانب سے پانی کے وسائل پر قبضے کے بعد فلسطینی شہریوں کے لیے پانی کا بحران اور بھی شدید تر ہو گیا ہے۔

فلسطینی سرکاری واٹر اتھارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے بڑی نا انصافی یہودی کالونیوں کی جانب سے کی جاتی ہے کیونکہ پانی کی تقسیم میں فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان منصفانہ طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا بلکہ یہودیوں کو نہ صرف پانی کی وافر مقدار مہیا کی جاتی ہے بلکہ پانی کی تقسیم کے معاملے میں بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

سنہ 2011ء میں فلسطینی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مغربی کنارے کے کسانوں کو فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے سالانہ 51 ملین مکعب میٹر پانی مہیا کیا جاتا ہے جب کہ اسی عرصے میں یہودیوں کو 1042 ملین مکعب میٹر پانی فرہم کیا جاتا ہے۔

سنہ 1993ء میں طے پائے اوسلو معاہدے کی رو سے غرب اردن میں فلسطینیوں کو سالانہ 118 ملین مکعب میٹر پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جب کہ اس وقت مجموعی طورپر 87 ملین مکعب میٹر پانی نکالا جاتا ہے اور اس میں سے ایک بڑی مقدار یہودی آباد کاروں کو دے دی جاتی ہے۔

اس صورت صورت حال یہ ہے کہ مغربی کنارے کے کل پانی کا 80 فی صد یہودی استعمال کرتے ہیں جب کہ فلسطینیون کے حصےمیں کل 20 فی صد پانی آتا ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی نکاسی کی ذمہ داری اسرائیل کی’’میکروٹ‘‘ نامی کمپنی کو دی گئی ہے جو گذشتہ پندرہ سال سے پانی نکال کر اسے فلسطینیوں اور یہودیوں کو فروخت کرتی ہے۔

فلسطینی واٹر اتھارٹی کے ایک عہدیدار عصام عرمان کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں پانی کا بحران دراصل سیاسی بحران کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت فلسطینیوں کو پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے ان کے لیے پانی کی قلت پیدا کر کے انہیں بحران سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔

عرمان کا کہنا ہے کہ عالمی قانون کے تحت اسرائیل فلسطینی علاقوں میں پانی کے کنوؤں کی کھدائی کا حق نہیں رکھتا مگر صہیونی ریاست کی جانب سے نہ صرف عالمی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزیاں جاری ہیں بلکہ فلسطینیوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’بتسلیم‘‘ کے مطابق فلسطینی شہری یومیہ 73 لیٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ان کی کھیتی باڑی کا پانی بھی شامل ہے۔ جب کہ یہودی فی کس 242 لیٹر غرب اردن میں یہودی آباد کار 800 لیٹر پانی یومیہ استعمال کرتے ہیں۔ گویا سنہ 2011ء کے اعدادو شمار کے مطابق صہیونی 12 گنا زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔
http://urdu.palinfo.com/news/2016/6/15/مقبوضہ-غرب-اردن-موسم-گرما-میں-پانی-کا-بحران-شدت-اختیار-کر-گیا
 

جاسمن

لائبریرین
فلسطینی پانی کے ذخائر میں زہر ملانے کی اجازت


06/19/2016

رام اللہ: فلسطین میں جہاں اسرائیلی ریاست کی جانب سے منظم پالیسی کے تحت فلسطینی شہریوں کو موسم گرما اور ماہ صیام کے دوران پانی کے بحران سے دوچار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے وہیں اس سے بھی زیادہ خطرناک خبر یہ سامنے آئی ہے کہ انسانیت دشمن یہودی مذہبی پیشواؤں نے فلسطینیوں کے زیر استعمال پانی میں زہر ملانے کی اجازت دے دی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے مقامی فلسطینی ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ حال ہی میں ایک سرکردہ یہودی ربی ’شلومو ملمید‘ نے فتویٰ نما ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے پانی چشموں، کنوؤں، پانی کی نالیوں اور ٹینکیوں میں زہر ملانا جائز ہے۔ اسرائیل میں مقامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’بریک دی سائلنس‘ کی جانب سے بھی ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہودی مذہبی رہ نما فلسطینی شہروں اور قصبوں کو پہنچائے جانے والے پانی میں زہر ملانے کی اجازت دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہودی مذہبی رہ نماؤں کی جانب سے اجازت دیے جانے کے بعد انتہا پسند یہودیوں نے پانی میں زہر ملانے پر غور شروع کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی سنگین انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی انسانی حقوق گروپ نے حکومت اور متعلقہ اداروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ یہودی فتووں کی روشنی میں انتہا پسندوں کو فلسطینیوں کے پانی میں زہر ملانے کی کسی بھی گھناؤنی سازش کو سختی سے روکیں ورنہ اس کے نتیجے میں بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔’بریک دی سائلنس‘ کے ایک ذمہ دار یہودا شاؤل نے بتایا کہ فلسطینیوں کے پانی کے وسائل میں زہرملانے کے جواز کے حق میں فتویٰ فلسطینیوں کو وہاں سے ھجرت کرنے پر مجبور کرنے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ان علاقوں پر یہودی آباد کاروں کو آباد کیا جا سکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے پانی کے وسائل میں زہر ملانے کا مذکورہ فتویٰ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل مقبوضہ فلسطین کے صفد شہر میں رہنے والے چیف یہودی ربی اسحاق لیفانون نے بھی ایسا ہی ایک فتویٰ دے رکھا ہے۔ ادھر فلسطین میں دفاع اراضی اور مزحمت یہودی آبادکاری شعبے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہودی مذہبی رہ نماؤں کی طرف سے فلسطینیوں کے پانی کے وسائل میں زہر ملانے کا فتویٰ نتائج کے اعتبار سے ایک بھیانک عمل ہے۔ یہ فتویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت نے غرب اردن کی یہودی آبادیوں کے لیے 74 ملین شیکل کا اضافی بجٹ منظور کیا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق یہودی مذہبی پیشواؤں کے تازہ فتووں کے بعد غرب اردن میں رہنے والے فلسطینی شہریوں میں سخت خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور عالمی برادری سے اس نوعیت کے اشتعال انگیز فتاویٰ کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔
http://www.urdutimes.com/news/18887.html
 
Top