۲۔ معنوی ضرورتوں پر مادی ضرورتوں کا تقدم
انسان کو کم از کم اپنے اجتماعی وجود میں دو طرح کی ضرورتیں درپیش ہیں: ایک روٹی‘ پانی‘ مکان‘ کپڑا اور دوا جیسی ضرورتیں اور دوسری تعلیم‘ ادب‘ آرٹ‘ فلسفی افکار‘ ایمان‘ آئیڈیالوجی‘ دعا‘ اخلاق اور ان جیسی روحانی چیزیں۔ یہ دونوں ضرورتیں بہرحال اور بہر سبب انسان میں موجود ہیں۔ لیکن یہاں گفتگو ان ضرورتوں کے تقدم اور اولیت کے بارے میں ہے کہ کون سی ضرورت دوسری پر مقدم ہے۔ مادی ضرورتیں روحانی ضرورتوں پر مقدم ہیں‘ یا برعکس ہے یا پھر کوئی تقدم نہیں رکھتیں۔ مادی ضرورتوں کے تقدم سے متعلق نظریہ یہ ہے کہ مادی ضرورتوں کو تقدم اور اولیت حاصل ہے اور یہ اولیت اور تقدم صرف اس جہت سے نہیں کہ انسان سب سے پہلے مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے درپے ہوتا ہے اور جب یہ پوری ہو جاتی ہیں‘ تو پھر معنوی ضرورتوں کا سرچشمہ ہیں- ایسا نہیں ہے کہ انسان اپنی خلقت میں دو طرح کی ضرورتوں اور دو طرح کی جبلتوں کے ساتھ آیا ہو‘ مادی ضرورت و جبلت اور معنوی ضرورت و جبلت‘ بلکہ انسان ایک طرح کی ضرورت اور ایک طرح کی جبلت کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور اس کی معنوی ضرورتیں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں اور درحقیقت یہ مادی ضرورتوں کو بہتر طور پر پورا کرنے کے لئے ایک وسیلہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ روحانی ضرورتیں شکل‘ کیفیت اور ماہیت کے اعتبار سے بھی مادی ضرورتوں کے تابع ہیں۔ انسان ہر دور میں آلات پیداوار میں نشوونما کے تناسب سے مختلف شکل و رنگ اور کیفیت کی مادی ضرورتیں رکھتا ہے اور چونکہ اس کی معنوی ضرورتیں اس کی مادی ضرورتوں سے ابھرتی ہیں‘ لہٰذا وہ بھی شکل و صورت اور کیفیت و خصوصیت کے اعتبار سے مادی ضرورتوں سے مناسبت رکھتی ہیں۔ پس درحقیقت مادی ضرورتوں اور معنوی ضرورتوں میں دو طرح کی ترجیحات موجود ہیں‘ ایک وجود سے متعلق ترجیحات‘ یعنی روحانی ضروریات مادی ضروریات کی پیداوار ہیں اور دوسری ہویت سے متعلق ترجیح۔ جس میں روحانی ضرورتوں کی شکل و صورت اور خصوصیت و کیفیت مادی ضرورتوں کی شکل و صورت‘ کیفیت و خصوصیت کے تابع ہیں۔ پی- رویان ”میٹریالزم تاریخی“ میں ”ہایمن لوئی“ کی کتاب ”فلسفی افکار“ کے صفحہ ۹۲ کے حوالے سے لکھتا ہے:
”انسان کی مادی زندگی نے اسے اس بات پر ابھارا کہ وہ اپنے زمانے کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وسائل کے مطابق نظریات بیان کرے۔ یہ نظریات جو تصور کائنات‘ معاشرے‘ آرٹ‘ اخلاق اور دیگر روحانی پہلوؤں کے بارے میں ہیں کہ جو اسی مادی راستے اور پیداوار سے پیدا ہوئے ہیں۔“(میٹریالزم تاریخی‘ ص ۳۷)
اس اعتبار سے ہر شخص کے علمی تضادات‘ اس کی فلسفیانہ سوچ‘ اس کا ذوق‘ حس جمالیات‘ فنون لطیفہ کا ذوق‘ اخلاقی میزان اور مذہبی رجحان اس کی طرز معاش کے تابع ہے۔ اسی لئے جب قانون کسی فرد کے بارے میں لایا جائے گا‘ تو اس کی ادائیگی کی صورت یہ ہو گی۔
”بتاؤ وہ کیا کھاتا ہے؟ تاکہ میں بتا سکوں کہ وہ کیا سوچتا ہے؟“ اور اگر اسے معاشرے کی سطح پر استعمال کیا جائے تو جملہ یہ ہو گا ”مجھے بتاؤ کہ پیداواری آلات میں بہتری کس درجے پر ہے اور یہ بھی کہ معاشرے میں افراد کے مابین کس طرح کے اقتصادی روابط کارفرما ہیں تاکہ میں یہ بتا سکوں کہ اس معاشرے میں کس طرح کی آئیڈیالوجی‘ کس طرح کا فلسفہ‘ کس طرح کا اخلاق اور کیسا مذہب پایا جاتا ہے؟“
اس کے مدمقابل روحانی ضرورتوں کی اصالت پر مبنی نظریہ ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہرچند انسان میں مادی ضرورتیں وقت کے اعتبار سے جلدی جوان اور نمایاں ہو جاتی ہیں اور اپنے آپ کو جلد ظاہر کرتی ہیں‘ جیسا کہ چھوٹے بچے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے‘ پیدا ہوتے ہی اسے دودھ اور ماں کی چھاتی کی تلاش ہوتی ہے‘ لیکن انسان کی سرشت میں چھپی ہوئی معنوی ضرورتیں بتدریج اس میں پھوٹنے لگتی ہیں اور رشد و کمال کی ایک ایسی منزل آتی ہے‘ جب وہ اپنی مادی ضرورتوں کو روحانی ضرورتوں پر قربان کر دیتا ہے۔ بہ تعبیر دیگر: معنوی لذتیں انسان میں مادی لذتوں اور مادی کششوں کی نسبت بنیادی بھی ہیں اور زیادہ طاقتور بھی(اشارات کے باب ہشتم میں بو علی نے اس مسئلے پر نہایت عمدہ بحث کی ہے)۔ آدمی جس قدر تعلیم و تربیت حاصل کرے گا‘ اس کی معنوی ضرورتیں‘ معنوی لذتیں یہاں تک کہ اس کی تمام حیات معنوی اسی قدر مادی ضرورتوں‘ مادی لذتوں اور مادی حیات کو اپنے زیراثر لے آئے گی‘ معاشرے کا بھی یہی حال ہے کہ ابتدائی معاشروں میں معنوی ضرورتوں سے زیادہ مادی ضرورتوں کی حکمرانی ہوتی ہے‘ لیکن جس قدر معاشرہ کمال کی منزلیں طے کرتا ہے‘ اسی قدر اس کی معنوی ضرورتیں قابل قدر بنتی جاتی ہیں اور انہیں تقدم حاصل ہوتا جاتا ہے اور وہ انسانی مقصد کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور مادی ضرورتوں کو ثانوی حیثیت دے کر انہیں ایک وسیلے کے مقام تک نیچے لے آتی ہیں۔
(دیکھئے: قیام اور انقلاب مہدی از دیدگاہ فلسفہ تاریخ‘ تالیف استاد مطہری)
۳۔ فکر پر کام کے تقدم کا اصول
انسان ایک وجود ہے‘ جو فکر کرتا ہے‘ پہچانتا ہے اور کام کرتا ہے‘ تو پھر کام کو تقدم حاصل ہے یا فکر کو؟ انسان کا شرف اس کے کام میں ہے یا فکر میں؟ انسان کا جوہر اس کا کام ہے یا فکر؟ انسان کام کا نتیجہ ہے یا فکر کا؟
مادیت تاریخ‘ فکر پر کام کے تقدم اور اس کی اصالت کی قائل ہے۔ وہ کام کو اصل اور فکر کو فرع اور شاخ شمار کرتی ہے۔ منطق اور قدیم فلسفہ‘ فکر کو کلید جانتا ہے۔ اس منطق میں فکر‘ تصور اور تصدیق میں تقسیم ہوتی تھی۔ پھر یہ دونوں بدیہی اور نظری میں منقسم ہوتی تھیں اور پھر بدیہی افکار نظری افکار کی کلید سمجھے جاتے تھے‘ اس منطق اور فلسفے میں جوہر انسان میں محض فکر کو سمجھا جاتا تھا‘ انسان کا کمال اور اس کا شرف اس کے علم میں بتایا جاتا تھا۔ ایک کامل انسان ایک عالم انسان کے مساوی تھا۔( فلسفے کی تعریف میں ہدف و غایت کے پہلو سے کہا جاتا ہے: ”صیرورة الا انسان عالما عقلیا و مضاھیا للعالم العینی“ یعنی ”فلسفی اس سے عبارت ہے کہ انسان عالم فکر بن جائے عالم عینی کی طرح“)
لیکن تاریخ مادیت اس بنیاد پر استوار ہے کہ کام‘ فکر کی کلید اور فکر کا معیار ہے‘ انسان کا جوہر اس کا پیداواری کام ہے۔ کام انسان کی شناخت کا سبب بھی ہے اور اسے بنانے والا بھی۔ مارکس کہتا ہے:
”پوری تاریخ عالم سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسان کی خلقت انسانی کام کے ذریعے سے ہے۔“(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۴۰‘ ۴۱)
اینجلز کہتا ہے:
”خود انسان بھی کام کی پیداوار ہے۔“(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۴۰‘ ۴۱)
کیوں کہ وہ ابتداء ہی سے بجائے اس کے کہ طبیعی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لئے فکر سے کام لیتا‘ اس نے اپنے پر مشقت کام کے ذریعے اپنے بیرونی ماحول پر غلبہ پا لیا اور اسی انقلابی عمل کے ذریعے طاقت ور جارحین کا مقابلہ کیا۔
اپنی مرضی کے معاشرے کو آگے بڑھایا اور اس کی تعمیر کی۔ ”مارکس اور مارکسزم“ کا مولف لکھتا ہے:
”ایسی صورت میں جب فلسفہ ہستی میں یہ معمول تھا کہ پہلے فکر و اصول پیش ہوں اور پھر ان کی روشنی میں عملی نتائج برآمد ہوں پراکسز (فلسفہ عمل کے موجد) نے عمل کو فکر کی اساس قرار دیا (فلسفہ ہستی وہ فلسفہ ہے۔ جو دنیا کو ”ہونے“ کی اساس پر تفسیر کرتا ہے‘ اس کے مقابل پر ”ہو چکنے“ کا فلسفہ ہے۔ مارکسزم اسی سے تعلق رکھتا ہے)۔“
پروکسز طاقت کو عقیدے کی جگہ سمجھتا ہے اور ہیگل سے ہم آواز ہو کر اس عقیدے کو پیش کرتا ہے کہ ”انسان کی حقیقی ہستی پہلے مرحلے پر اس کا عمل ہے“ اور اپنے اس عقیدے میں جرمنی کے ایک نہایت صاف دل فلسفی کے ساتھ بھی شامل ہو جاتا ہے اور اس کے مشہور جملے کو الٹ کر دیتا ہے کہ ”سب سے پہلے فعل تھا“ یعنی روح تھی اور کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ اس فلسفے نے اسے یوں بنا دیا ہے: پہلے عمل تھا(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۳۹) کہ یہ مارکسزم کا ایک اصول ماہیت ہے‘ اس میں مارکسزم کے اصول کو ”پراکسز“ کے نام سے شہرت حاصل ہے اور مارکس نے اسے پہلے استاد مادیت ”فوئرباخ“ اور اپنے دوسرے پیشوا ہیگل سے لیا ہے‘ اس اصول کے مقابل قرار پانے والا اصول فلسفہ ریلزم ہے‘ جو کام اور فکر کی ایک دوسرے پر تاثیر اور فکر کے کام پر تقدم کا قائل ہے۔ اس فلسفے کے مطابق انسان کا جوہر اس کی فکر ہے (نفس کا اپنی ذات سے متعلق جوہری حضوری علم) انسان کام کے ذریعے یعنی بیرونی دنیا سے ارتباط کے ذریعے اپنی معلومات کے لئے مواد فراہم کرتا ہے۔ جب تک ذہن اس پہلے مواد کی مدد سے غنی ہو جائے معرفت سے متعلق باتوں پر ”تعمیم“، ”انتزاع“ اور استدلال (Generalization, Abstraction & Argumentation) کا عمل انجام دیتا ہے اور صحیح معرفت و شناخت کی راہ فراہم کرتا ہے۔ شناخت صرف ذہن میں عینی مادے کا سادہ انعکاس نہیں بلکہ ذہن میں اس عینی مادے کے انعکاس کے بعد روح کے غیر مادی جوہر سے ابھرنے والے ذہنی اعمال کے لئے معرفت کا ایک وسیلہ پیدا ہوتا ہے۔ پس کام فکر سے اور اسی حال میں فکر کام سے جنم لیتی ہے۔ کام معیار فکر اور اسی طرح فکر معیار کار ہے اور یہ دور(”دور“ ایک فلسفی اصطلاح ہے۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی کہے کہ انڈے نے مرغی کو اور مرغی نے انڈے کو جنم دیا ہے‘ تو ہم کہیں گے کہ اس طرح تو ”دور“ لازم آتا ہے‘ مترجم) دور محال نہیں انسان کی بزرگی اس کے علم‘ اس کے ایمان‘ اس کی عزت نفس اور کرامت نفس سے ہے اور کام اس اعتبار سے باوقار ہے کہ اس کے ذریعے یہ بزرگی اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کام کا خالق بھی ہے اور اس کا بنایا ہوا بھی اور یہ انسان کا ایک خاص امتیاز ہے کہ جس میں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ شرف اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص قسم کی خلقت حاصل ہونے کی وجہ سے ہے۔(ہم نے ”مسئلہ شناخت“ کے بارے میں اپنی کتاب میں اس بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے) لیکن کام سے متعلق انسان کی تخلیق ایک ایجادی اور ایجابی تخلیق ہے‘ جب کہ کام سے انسان کی تخلیق ”اعدادی“ ہے‘ یعنی انسان حقیقتاً اپنے کام کو خلق کرتا ہے‘ لیکن کام واقعاً انسان کو خلق نہیں کرتا‘ بلکہ کام‘ تکرار عمل اور تجربہ انسان کی تخلیق کے لئے اندرونی طور پر راہ ہموار کرتا ہے اور جہاں دو اشیاء کا باہمی رابطہ ایسا ہو‘ جہاں ایک طرف ”ایجابی“ اور ”ایجادی“ ہو اور دوسری طرف ”اعدادی“ اور ”امکانی“ تو ہمیشہ ”ایجابی“ اور ”ایجادی“ کو تقدم حاصل ہو گا۔
پس وہ انسان جس کا جوہر ذات ایک طرح کی آگاہی ہے (نفس کا اپنی ذات کے بارے میں حضوری علم)‘ کام جس کے ساتھ اس کا رابطہ مدمقابل کا اور فریقی ہے اور انسان کام کو خلق کرنے والا اور اسے وجود میں لانے والا ہے اور یہ کام انسان کو وجود میں لانے والا ہے‘ اس اعتبار سے کہ انسان کام کی ایجابی علت اور کام انسان کی اعدادی اور امکانی علت ہے‘ پس انسان کام پر تقدم رکھتا ہے‘ کام انسان پر نہیں۔