معاشرے میں عدم برداشت کی بیخ کنی کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے؟؟

معاشرے میں عدم برداشت کی بیخ کنی کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے

  • 1000

    Votes: 0 0.0%
  • 1000

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

ابن رضا

لائبریرین
عدم برادشت جیسا فتنہ پرور دیمک معاشرے کو کیسے کھوکھلا کرتا ہے اقدار کو کیسے پامال کرتا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
ضرورت ہے تو اس امر کی کہ
بلخصوص ایک مسلم معاشرے میں عدم برداشت کو پروان چڑھنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
کیا تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب مہذب اور باشعور ہونا بھی ہے تو کیونکر اس کا عملی ثبوت فراہم کرنا خواب و خیال بن چکا ہے؟
اختلافِ رائے کی صورت میں ہمارےاکابریں کا طرز ِ عمل کیا تھا؟
طنز و مزاح کا مقصد تضحیک ہے یا تعمیری تنقید؟

آئیے اپنا احتساب کرتے ہیں اور ضمیر بیداری کی اس مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔

اپنی آراء سے نوازیں۔

شکریہ۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
اکابرین کے طرزِ عمل کی ایک چھوٹی سی جھلک :

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نےایک لڑائی میں ایک کافر پر قابو پا لیا۔ اس نے آپ کے رخ مبارک پر تھوک دیا تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ حیران رہ گیا کہ یہ بات کیا ہے؟ بجائے اس کے کہ انہیں غصہ آتا اور مجھے قتل کر دیتے انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ حیران ہوکر پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں؛

گفت من تیغ از پئے حق مے زنم
بندہء حقم نہ مامور تنم
شیر حقم نیستم شیر ہوا
فعل من بر دین من باشد گواہ

کہ میں نے محض رضائے حق کے لیے تلوار پکڑی ہے میں خدا کے حکم کا بندہ ہوں اپنے نفس کے بدلہ کے لیے مامور نہیں ہوں۔ میں خدا کا شیر ہوں اپنی خواہش کا شیر نہیں ہوں۔ چونکہ میرے منہ پر تونے تھوکا ہے اس لیے اب اس لڑائی میں نفس کا دخل ہوگیا اخلاص جاتا رہا، اس لیے میں نے تجھے چھوڑ دیا ہے کہ میرا کام اخلاص سے خالی نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
بہت اچھا دھاگہ شروع کیا ہے۔

میرے خیال میں تو علم ہی عدم برداشت کا توڑ ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو بہتر طور پر جانیں گے تو اپنائیت محسوس ہو گی اور ایک دوسرے کے قریب آ سکیں گے۔ ایک دوسرے کے عقائد کو ان کی کتب سے پڑھیں تاکہ مشترکات کا علم ہو سکے اور اختلافات پر کم دھیان دیں۔ ابھی بچھلے دنوں مولانا اسحاق صاحب کا انتقال ہو گیا (اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے- آمین) انہوں نے مسلمانوں میں اتحاد کے موضوع پر ایک تقریر کی تھی جو میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔ ان کی باتوں سے میں کافی حد تک متفق ہوں۔

 

ابن رضا

لائبریرین
بہت اچھا دھاگہ شروع کیا ہے۔

میرے خیال میں تو علم ہی عدم برداشت کا توڑ ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو بہتر طور پر جانیں گے تو اپنائیت محسوس ہو گی اور ایک دوسرے کے قریب آ سکیں گے۔ ایک دوسرے کے عقائد کو ان کی کتب سے پڑھیں تاکہ مشترکات کا علم ہو سکے اور اختلافات پر کم دھیان دیں۔ ابھی بچھلے دنوں مولانا اسحاق صاحب کا انتقال ہو گیا (اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے- آمین) انہوں نے مسلمانوں میں اتحاد کے موضوع پر ایک تقریر کی تھی جو میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔ ان کی باتوں سے میں کافی حد تک متفق ہوں۔

محترم سید ذیشان علم تو موجود ہے مگر عمل نہ ہونے کے سبب نتیجہ خیز نہیں۔ اس علم کو عملی شکل دینے کے لیے انفرادی سطح پر کیا سعی درکار ہے؟
 
Top