متلاشی
محفلین
معاشرے کی بگڑتی صورتحال، اورہماری بے حسی
آپ نے اکثر اخبار میں پڑھا ہو گا ۔ ٹی وی اور ریڈیو پر دیکھا اور سنا ہو گا، کہ آج کل ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے، کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی بات برداشت کرنے کو تیار نہیں، خواہ وہ بات عقائد سے تعلق رکھتی ہو یا اخلاقیات سے۔ ہر شخص کا یہی نظریہ بن چکا ہے کہ وہ ٹھیک اور دوسرا غلط ہے، ہماری نگاہیں ہر وقت دوسروں کی برائیاں ڈھونڈنے میں لگی رہتیں ہیں، مگر اپنی طرف ہم ایک نظرکرنا بھی گوارا نہیں کرتے، کہ آیا ہم بھی کوئی خرابی ہے یا نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص ،خواہ وہ ہمارا قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو، ہماری کسی برائی کے بارے میں ہمیں آگاہ کرے ، توہم اسے اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔اگر ہم آج سےایک دو عشرے پہلے کے عرصے پر نظر دوڑائیں، تو ہمیں معلوم ہو گا، کہ آج سے پندہ بیس سال پہلے توہمارا معاشرہ ایسا نہ تھا، اس وقت میں ہمارے معاشرے میں تحمل ، رواداری اور برداشت کی فراوانی تھی۔تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بگڑتا ہی بگڑتا چلا جارہا ہے، کہیں غیرت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں ،تو کہیں عقائد کے نام پر دنگا فساد۔ کہیں نسلی تفاوت کا شور شرابہ ہے تو کہیں صوبائی عصبیت کے جوہر کھل رہے ہیں ۔ مگر ہم ہیں کہ سوچتے ہی نہیں کہ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔؟ کیسے ہو رہا ہے ۔۔۔؟ ٹی وی پر ٹاک شوز او ر اخبار کے کالمز میں یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لسانی اختلافات، نسلی تفاوت ، اور عدم برداشت جیسے رویّے تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں مگر ان رویوںکے اس قدر تیزی سے پنپنے کی کوئی منطقی وجہ بیان نہیں کی جاتی، یاپھر شاید جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ ان رویوں کے پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ ہمارا’’میڈیا‘‘ یعنی ہمارے ذرائع ابلاغ ہیں ۔ہمارا میڈیا اتنا فاسٹ(تیزتر) ہو چکا ہے کہ ہمیں کوئی بات سمجھنے اور سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ہم ابھی ایک خبر سن ہی رہے ہوتے ہیں ، کہ اوپرسے ایک اور دھماکے دار خبر آجاتی ہے ، ہم پچھلی خبر کو چھو ڑکر اس نئی خبر کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ، اور ابھی دوسری خبر پر سوچنا تو درکنار اسے پوری طرح سن بھی نہیں پائے ہوتے کہ اوپر سے ایک مصالحے دار تیسری خبر آ جاتی ہے ، یوں ہمیں ان بریکنگ نیوز کے چکروں میں اس طرح گھمایا جاتا ہے کہ ہماری سوچ کے زوایے مختلف جہتوں پر دوڑتے رہتے ہیں اور ہمیں کسی خبر کی صداقت کو پرکھنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اور نہ ہم وہ ذہنی ارتکاز حاصل کر پاتے ہیں کہ کسی بھی خبر کا درست طور پر تجزیہ کر سکیں۔ یوں اس تیز ترین میڈیا کے پیچھے چلتے چلتے ہم اپنی سوچ ، سمجھ سب گنوا بیٹھے ہیں ، ہمیں میڈیا پر مختلف لوگوں کی جانب سے جس طرف گائیڈ کیا جاتا ہے ، ہماری سوچ کے گھوڑے ادھر ہی دوڑے چلے جاتے ہیں ، یوں نہ صرف ہماری ذہن اور سوچ کی صلاحیتوں کا محدود کیا جارہا ہے بلکہ ہمیں لکیر کے فقیر بنایا جا رہا ہے ، ہمارے ذہنو ں کو اپنے غلام اور تابع بنایا جارہا ہے ۔ یہ سب ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے ۔ مرے بہت سے’’روشن خیال ‘‘ دوست اس بات پر اعتراض کریں گے کہ میڈیا کی ترقی ایک سازش کیسے ہو سکتی ہے ۔ تو میں اُن دوستوں کی خاطر بتاتا چلوں کہ یہ سب اس ’’یہودی اور عیسائی نظریے‘‘ کا حصہ ہے جو انہوں نے مسلمانوں سے عملی لڑائیوں میں ہزیمت اُٹھانے کے بعد ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا تھااور پھر کہا تھا۔
’’کہ پہلے ہم مسلمانوں کے جسموں پر حکومت کرتے تھے ، اب ہم اُن کے ذہنوں پر حکومت کریں گے۔۔۔‘‘
اور ہم ہیں کہ آج تک اُن کی اس چال کو ہی نہ سمجھ سکے ۔ ہم جس خیال اور نظریے اور اپنی سوچ سمجھتے ہیں ، درحقیقت وہ ہماری اپنی سوچ نہیں بلکہ ہمارے ذہنوں پر مسلط اُن یہودیوں اور عیسائیوں کی سوچ ہے ،جو خود تو اس نام نہاد ’’ترقی ‘‘ اور ’’روشن خیالی ‘‘ کی وجہ سے اپنا معاشرہ تباہ و برباد کر بیٹھے ہیں ، اور اب ہمارا معاشرہ انہیں دوغلے نعروں سے خراب کرنے پر تلے ہیں ۔
ہمیں ’’روشن خیالی ‘‘ کے جو سراب دکھائے جاتے ہیں ۔ ہم انہیں کے پیچھے بھٹک کر نہ صرف اپنی معاشرتی اقدار سے دور ہو رہے ہیں بلکہ ہم اپنے عقائد اور مذہب کو اس نام نہاد ’’ ترقی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ، ان کے احکام کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں ۔ اور اس طرح اغیار کے پھیلائے ہوئے اس سنہری جال میں ہم پھنستے ہی پھنستے چلے جارہے ہیں ۔
ایک طرف کافر ہم پر میڈیا کے ذریعے وار کر رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے نونہالوں کی ذہن سازی کرنے کے لئے ہم پر لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم مسلط کیا جارہا ہے ۔ ایک طرف ہمیں نام نہاد ’’ روشن خیالی‘‘جو درحقیقت بے حیائی اور فحاشی ہے ، کے سہانے مگر جھوٹے خواب دکھلائے جارہے ہیں تو دوسری طرف ہم پر ہالی وڈاور بالی وڈ کا کلچر مسلط کیا جارہاہے۔ آج کا مسلمان نوجوان بھائی ، فاروقؓ، حیدرؓ، حسینؓ، محمد بن قاسمؒ اور محمود غزنویؒ کواپنا آئیڈیل سمجھنے کی بجائے ہالی وڈ کے بے غیرت اداکاروں کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے ۔ آج کی مسلمان بہن عائشہؓ و فاطمہؓ کی سیرت کو اپنا نے کی بجائے یہود و ہنود کی ننگی اور غلیظ اداکارؤں کو اپنا آئیڈیل بنا رہی ہیں ۔ ہمارے کورس کی کتابوں سے ہمارے اسلاف کے کارناموں کو ختم کیا جارہا ہے ۔ ہماری نوجوان نسل اس بات سے بے خبر ہے کہ وہ سائنس جس کی بناپر آج کفار ہم پر مسلط اور حاوی ہیں ، اُس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی تھی۔ ہمیں وہ منظر بھلا دیا جاتا ہے ، جب بغداد میں ہلاکو خان نے نہ صرف لاکھوں مسلمانوں کو خون میں نہلایا بلکہ اُن کی متاع ، ان کی کئی قیمتی کتابوں کو دریا میں بہا دیا گیا، اور بقیہ اہم کتابیں وہ اپنے ساتھ لے گیا۔ ۔۔اسی درد کو دل میں لیے اقبال کہتا ہے ۔۔
وہ موتی علم و حکمت کے ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
دشمن ہم پر ہر طرف سے وار کئے جارہا ہے ۔مگر افسوس ہم ہیں کہ دشمن کے وار روکنے کی بجائے، اُسے اپنا دوست اور ہمدرد سمجھ کر اس دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔ اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ، ہم قرآنِ مجید کے ان کھلے اور واضح ارشادات کو بھول بیٹھے ہیں ۔جن میں سے ایک جگہ اللہ تعالیٰ مومنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے ،جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔
’’اور یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ ، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست تو ہو سکتے ہیں ، مگر تمہارے نہیں ‘‘۔
اور ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔۔۔
’’اور یہود و نصاریٰ کبھی بھی تمہارے دوست نہیں بن سکتے ، جب تک کہ تم ان کی ملت کا اتباع نہ کرنے لگو۔‘‘
اور قرآنِ مجید کی اس صداقت کو ہم اپنی آنکھوں سے پرکھ بھی چکے ہیں ۔۔۔۔ اور آج ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔’’کہ امریکہ کی دشمنی سے امریکہ کی دوستی زیادہ بھاری ہے ‘‘۔
مگر افسوس آج بھی ہماری سوچ کا یہ حال ہے کہ ہم بجائے ’’ربّ‘‘ کے محتاج ہونے کے ’’امریکہ ‘‘ کے محتاج بن گئے ہیں ۔ ایک دفعہ میری ایک دوست سے اسی بارےمیں گفتگو ہو رہی تھی کہ جناب موصوف فرمانے لگے کہ ’’ اگر آج ہم امریکہ کو چھوڑ دیں ، تو ہم بھوکے مر جائیں، ہمارا ملک تباہ ہو جائے ۔۔۔‘‘ (نعوذباللہ من ذالک) گویا ہم مسلمان اور مومن ہو کر بھی کافر کے سامنے سر نگوں ہیں ۔حالانکہ مسلمان کی شان تو یہ ہے ۔ بقول اقبالؒ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
مگر ہم اسلحے سے لیس ہونے باوجود، ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ، اپنی جبین امریکہ اور مغرب کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں ۔ ہم رب کی بجائے مغرب کے پجاری بن چکے ہیں ۔ مجھے یہاں ایک بزرگ کی بات یاد آرہی ہے ۔۔ وہ فرماتے ہیں ۔۔۔’’ارے تم مغرب کے پیچھے نہ چلو۔۔۔مغرب میںتو نور کا اتنا بڑا چراغ۔۔۔ یعنی سورج ۔۔۔بھی جا کہ بجھ جاتا ہے۔۔۔ غروب ہو جاتا ہے ۔۔تو تم مغرب کے پیچھے چل کر کیسے طلوع ہو سکتے ہو۔۔۔؟‘‘
بس اب مجھ مزید کچھ کہنے کی سکت نہیں رہی ۔۔۔ کہ وہ درد جسے میں نے آج تک اپنے دل میں چھپا رکھا تھا ، وہ اب آپ کے سامنے صرف اس نیت سے کھول کر بیان کر دیا ہے ۔۔۔کہ۔۔
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
28-11-11