معاصر فارسی ادب میں بیدل پسندی - سید رضا محمدی

حسان خان

لائبریرین
بیدل نفسم کارگہِ حشرِ معانیست
چون غلغلۂ صورِ قیامت کلماتم
ہند کے فارسی گو شاعر میرزا عبدالقادر بیدل ان آخری سالوں تک ایران میں معروف شاعر نہیں تھے۔ ایران کے اہلِ ادب کی سبکِ ہندی سے طولانی دوری کو اس گمنامی کا سب سے زیادہ سبب سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی بازگشتِ ادبی کے دور کے فوراً بعد سے کہ جب ایران میں شاعروں نے عمومی طور پر یہ کوشش کی تھی کہ سبکِ ہندی کے پیچیدہ تکلفات سے رجوع کریں، ایران سبکِ ہندی سے دور رہا ہے۔
سبکِ ہندی سے یہ دوری اس بات کا باعث بنی کہ اس سبک کے بزرگ شعراء بھی بطورِ کُل فراموشی کی نذر ہو گئے۔ بیدل، کلیم، غنی، عرفی، امیر خسرو، واقف، غالب، ناظم، قدسی اور طالب جیسے کتنے ہی شاعر ہیں کہ جو اب دو صدیوں بعد ایک ایک کر کے کتاب خانوں کے پرانے طاقچوں سے اپنا سر بلند کر رہے ہیں۔
اس بازیابی میں قوم پرستانہ تمایلات کا بھی ذرا اثر شامل تھا۔ لہذا کلیم اور طالب جیسے شاعر دوسروں سے پہلے ایران میں دریافت ہوئے، اور اُس کے بعد عرفی کی باری آئی۔
لیکن بیدل پہلے ہی کی طرح ایک فراموش شدہ شاعر رہا۔ شاید اس کی ایک وجہ ان دو صدیوں میں فارسی گو مناطق کے مابین آمد و رفت کی شدید کمی بھی تھی، کیونکہ بیدل افغانستان، وسطی ایشیا اور برِ صغیر میں حافظ ہی کی طرح معروف اور موردِ احترام تھا۔

ایران میں بیدل شناسی
مہرداد اوستا پہلے شخص تھے جو ادبی محافل میں بیدل کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے اور اُن کی یہ گفتگوئیں ان کے ہم صحبتوں اور شاگردوں کو بیدل کے متعلق تحقیق کرنے پر راغب کرتی تھیں۔ علی معلم دامغانی، یوسف علی میر شکاک، حسین آہی اور سید حسن حسینی نے اسی حلقے سے بیدل کے بارے میں اور بیدل سے اُنس رکھنا سیکھا تھا۔
حسین آہی نے انقلاب کے بعد افغان محققوں خال محمد خستہ اور استاد خلیلی کی تصحیح کے مطابق بیدل کی غزلیات شائع کیں۔
یوسف علی میر شکاک نے بیدل کی پہلی مثنوی محیطِ اعظم کی تصحیح کی اور اُس کی ایک عمیق اور بے نظیر عرفانی متن کے عنوان سے تعریف کی۔
اُس کے بعد، سید حسن حسینی نے ایران کے جدید شاعر سہراپ سپہری سے بیدل کا تقابل کیا اور بیدل کی تخلیقی اور متجددانہ خصوصیات پر 'بیدل، سپہری و سبکِ ہندی' نامی کتاب میں بحث کی۔
اس کے علاوہ، علمی بنیادوں پر کام کرنے والے ادیب ڈاکٹر شفیعی کدکنی نے اپنی کتاب 'شاعرِ آئینہ ہا' شائع کی اور اُس میں بیدل کی غزلیات و رباعیات کا انتخاب جمع کیا۔ یہ کتاب ہر دوسری کتاب سے بڑھ کر ایرانی کتاب خواں برادری کے بیدل اور اُس کے دیوان پر توجہ کرنے کا سبب بنی ہے۔
ایران میں بیدل کی بازشناسی میں ایک اہم نکتہ ایران میں افغانستان کے مہاجر شاعروں اور محققوں کی موجودگی تھی۔
عبدالغفور آرزو، سعادت ملوک تابش، محمد کاظم کاظمی، ڈاکٹر سرور مولائی، ڈاکٹر سلطان اور شہباز ایرج اُن چند لوگوں میں سے تھے جو افغانستان کے ادبی معاشرے کے بیدل سے دیرینہ اُنس کو اپنے ہمراہ ایران لے آئے تھے۔
اسی طریقے سے بیدل نے اپنی متجددانہ خصوصیات، پیچیدہ فکر اور ادبی و لسانی صنائع سے بے شمار استفادے سے اور ایک تازہ کشف شدہ شاعر کے عنوان سے ایران کی نئی ادبی نسل کو مجذوب کر دیا۔

افغانستان میں بیدل
البتہ افغانستان میں بیدل کی داستان کا ماجرا مکمل طور پر متفاوت تھا۔ افغانستان کی ادبی روایت میں سبکِ ہندی سے بازگشت (واپسی) جیسی کوئی تحریک نہیں چلی تھی اور اسی وجہ سے سبکِ ہندی اور خصوصاً سبکِ بیدلی میں شعر کہنے کا افغانستان میں ابھی تک رواج ہے۔
اگرچہ اس خطے کے شاعروں میں بیدل پسندی کا عموماً رواج رہا ہے اور دیوانِ بیدل روایتی مکاتب میں تدریس ہوتا رہا ہے اور گھروں میں یہ دیوان ایک مقدس کتاب کے طور پر موجود رہا ہے، لیکن افغانستان میں بیدل پسندی نے منظم تر اور سنجیدہ تر شکل پہلی بار بخارا کے مہاجرین کے وہاں ورود کے ساتھ اختیار کی تھی۔
امیر حبیب اللہ خان کے زمانے میں دیوانِ بیدل کی پہلی بار طباعت بخارا کے انہی فضلاء اور ملک الشعراء قاری عبداللہ کی کوششوں سے شروع ہوئی تھی اور یہ حرفِ دال تک جاری رہی۔
خال محمد خستہ، بخارائیوں کے اسی زمرے میں تھے اور دیوانِ بیدل کی تصحیح اور طباعت میں اُن ہی کا اصلی کردار تھا۔ اگرچہ یہ دیوان خال محمد خستہ اور استاد خلیل اللہ خیلی کے مشترک نام کے ساتھ منتشر ہوا تھا، لیکن سب جانتے تھے کہ فراواں سیاسی مصروفیتوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے استاد خلیلی فطری طور پر حکومتی ذمہ داریوں کی نظارت کے سوا کوئی دوسرا کام انجام نہیں دے سکتے تھے۔
اس کے لیے علاوہ گلوکار استاد سرآہنگ کی بیدل خوانی کے اثر کا بھی بیدل کی شہرت، عمومیت اور معرفت میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔
افغانستان میں بیدل پسندی کے کچھ اور بھی دلائل ہیں۔ بیدل کو مروج کرنے والے چند لوگ، اہلِ تصوف اور خانقاہ تھے جو بیدل کو اہلِ طریقت اور صوفی شاعر کے عنوان سے اپنی محفلوں میں قدر کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ایک اور گروہ مولویوں اور روایتی مکاتب کے معلموں کا تھا جو قرآن شریف اور دیوانِ حافظ کے بعد دیوانِ بیدل کو درسی کتاب کے طور پر پڑھاتے تھے۔
اس کے علاوہ بیدل کی شہرت کا ایک سبب یہ تصور تھا کہ وہ گویا افغانستان سے تھا اور بدخشاں کے برلاس سے ہند گیا تھا۔ طاہر بدخشی جیسے مقبول سیاست دان نے اس بارے میں ایک رسالہ بھی لکھا تھا۔
خود برِ صغیر میں بیدل کی روایت اور نفوذ ہنوز جاری ہے۔ اگرچہ اب برِ صغیر میں فارسی زبان کم رنگ ہو گئی ہے اور بیدل اُن دوسرے تمام بزرگ فارسی گو شاعروں کی طرح کہ جو ہند میں مدفون ہیں عمومی شہرت کھو چکا ہے لیکن ہند، کشمیر اور پاکستان میں ابھی بھی بلند پایہ بیدل شناس پائے جاتے ہیں۔

وسطی ایشیا میں بیدل
بیدل کے دوام میں سب سے زیادہ کردار وسطی ایشیا کے لوگوں کا رہا ہے۔ صدرالدین عینی کی یادداشتیں پچھلی شمسی صدی میں وہاں بیدل خوانی کے وفور کی خبر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بخارا، سمرقند، خجند اور دوشنبہ میں نسل در نسل بیدل کو عزیز رکھنے والے بیدل شناس ابھی بھی کثیر تعداد میں ہیں۔
موجودہ صدی کے دوران وسطی ایشیا میں بیدل کی سرگذشت مختلف انداز کی طرح ہے۔ مثلاً ازبکستان میں رسمی زبان کے فارسی سے ازبکی میں تبدیل ہونے کے بعد اگرچہ بیدل خوانی کی روایت تو ختم نہیں ہوئی، لیکن اکثر مناطق میں بیدل کے ازبکی میں ترجمے اور بیدل کی تالیفات کے اس زبان میں پڑھے جانے نے فارسی بیدل کی جگہ لے لی ہے۔
اسی طرح بیدل شناسی کی ایک نئی روش مارکسیت پر مبنی تھی، کہ جو وسطی ایشیا کے ماسکو کی سوویت حکومت سے ملحق ہو جانے کے بعد وہاں کا سرکاری نظریہ بن گیا تھا۔ استاد محمد جان شکوری بخارائی کے بقول، وہ گروہ کہ جو نہ بیدل کو ہاتھ سے گنوانا چاہتا تھا اور نہ سوویت حکومت میں تصوف پر گفتگو کر سکتا تھا، وہ بیدل کی تالیفات کی عدالت خواہ، انسان دوست اور سرمایہ داری مخالف خصوصیات کو سامنے لانے کی سعی کرتا تھا۔
اور بالآخر وسطی ایشیا کا ایک اور گروہ، کہ جو اب غالب گروہ میں تبدیل ہو گیا ہے، محض ادبی روایت کی خاطر ابھی تک بیدل کو عزیز رکھتا آیا ہے۔

یورپیوں کے درمیان بیدل
لیکن مغربی مستشرقین میں بیدل ابھی تک زیادہ معروف نہیں ہے۔ ارضِ مغرب سے تعلق رکھنے والے اُن لوگوں میں، کہ جنہوں نے بیدل کی طرف بہت زیادہ توجہ مبذول کی ہے اور اُس کے بارے میں پوری کتاب لکھی ہے، صرف دو لوگوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ایک تو جمہوریہ چیک کے یرژی بچکا تھے جو وسطی ایشیا میں آمد و رفت اور تاجک ادبیات سے ارتباط رکھنے کی وجہ سے بیدل سے متعارف اور اُس کے مداح ہو گئے تھے۔ اور دوسرے اطالوی ڈاکٹر ریکاردو زیپولی تھے، جو اپنی تحریروں کے مطابق افغانوں کے توسط سے بیدل سے متعارف ہوئے تھے اور کابل کے اور بعد میں ایران اور ہند کے سفر کے بعد، اُنہوں نے بیدل کے بارے میں واقعی قیمتی تحقیقات انجام دی ہیں۔

(ماخذ)

محمد وارث سید عاطف علی محمود احمد غزنوی الف نظامی شاکرالقادری
 
آخری تدوین:
Top