نعمان رفیق مرزا
محفلین
معاف وہی کر سکتا ہے، جو معافی مانگنا جانتا ہو، جو معافی مانگنے کےعمل سے گزرا ہو؛ جس کا سر کبھی خطا کرنے کے بعد، بوجہ ندامت کسی کے سامنے جھکا ہو، جس کی آنکھیں آنسوؤں سے پرنم ہوئی ہوں اور جس کے کندھے خطا کے بوجھ تلے جھکے ہوں۔ جو اس تجربے سے ہی نہ گزرا، وہ معاف کرنے والا نہ بن سکا۔ معاف کرنے والا اس تجربے سے گزر چکا ہوتا ہے اور ان لطیف جذبات کی قدروقیمت خوب جانتا ہے۔ بعد ازاں اس کی یہی تپسیا اسے بلند ظرف اور معافی مانگنے والے سے بلند درجہ بناتی ہے۔
یہ بھی درست کہ انسان سے معافی مانگنے والا ہی رب کے سامنے اپنی خطاؤں پہ نادم ہو پاتا ہے۔ جو کسی انسان کے سامنے نہ جھک پایا، وہ ربِ جلیل کے سامنے جھکنے کا سلیقہ نہ سیکھ پایا، مردود قرار پایا۔ جھک جانے والا کبھی چھوٹا نہیں ہوتا، یہ تو اسکا بڑائی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ ظاہری طور پر معمولی دِ کھنے والا یہ عمل، انسان کے رکوع و سجود کی مخلصی کا باعث بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بہت عمدہ اور مفید تجربہ گاہ (دنیا) سے نواز رکھا ہے۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی رنجشیں اور ناراضگیاں ہوتی ہیں، یہ مجازاً تو زحمت، لیکن حقیقتاً خدا کی رحمت ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے درجات کو بلند کرنے اور آپس میں اخوت کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ہی ہماری طرف بھیجی جاتی ہیں۔ ان کے آ جانے پر ایک دوسرے سے معافی مانگ لی جائے، تو نا صرف خدا کے سامنے جھکنے جیسے انمول عمل سے آشنائی ہو جائے بلکہ ہمارے آپس کے معاملات بھی بہت آسان ہو جائیں۔
تو خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معافی مانگنے اور دوسروں کو معاف کر دینے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
پی-ایس: پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اگر ہو سکے تو تحریر کے متن پر تنقید کر کے بہتری کی راہ سُجھائیں۔ مشکور ہوں گا۔
نعمان مرزا (میونخ)۔
یہ بھی درست کہ انسان سے معافی مانگنے والا ہی رب کے سامنے اپنی خطاؤں پہ نادم ہو پاتا ہے۔ جو کسی انسان کے سامنے نہ جھک پایا، وہ ربِ جلیل کے سامنے جھکنے کا سلیقہ نہ سیکھ پایا، مردود قرار پایا۔ جھک جانے والا کبھی چھوٹا نہیں ہوتا، یہ تو اسکا بڑائی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ ظاہری طور پر معمولی دِ کھنے والا یہ عمل، انسان کے رکوع و سجود کی مخلصی کا باعث بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بہت عمدہ اور مفید تجربہ گاہ (دنیا) سے نواز رکھا ہے۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی رنجشیں اور ناراضگیاں ہوتی ہیں، یہ مجازاً تو زحمت، لیکن حقیقتاً خدا کی رحمت ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے درجات کو بلند کرنے اور آپس میں اخوت کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ہی ہماری طرف بھیجی جاتی ہیں۔ ان کے آ جانے پر ایک دوسرے سے معافی مانگ لی جائے، تو نا صرف خدا کے سامنے جھکنے جیسے انمول عمل سے آشنائی ہو جائے بلکہ ہمارے آپس کے معاملات بھی بہت آسان ہو جائیں۔
تو خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معافی مانگنے اور دوسروں کو معاف کر دینے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
پی-ایس: پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اگر ہو سکے تو تحریر کے متن پر تنقید کر کے بہتری کی راہ سُجھائیں۔ مشکور ہوں گا۔
نعمان مرزا (میونخ)۔