ایس ایس ساگر
لائبریرین
ایک نئی تحریر پیشِ خدمت ہے۔ ہمیشہ کی طرح احباب ِمحفل کی طرف سے قیمتی آراء کا انتظار رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
معراجِ عشق
از قلم ایس ایس ساگر
معراجِ عشق
از قلم ایس ایس ساگر
اگردنیا میں انسان کو دُکھ اور سُکھ میں سے کسی ایک چیزکے انتخاب کا اختیار ہوتا، تو وہ یقیناً اپنے لیے سُکھ ہی چُنتا۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر مسعود الحسن عام لوگوں سے بالکل مختلف تھے۔ انہوں نے دوسروں کے لیےاپنے سُکھوں کی قربانی دی تھی اوربیگانے دُکھ سمیٹ کراپنی جھولی بھر لی تھی۔ وہ معاشرے کے دُھتکارے ہوئے ان لوگوں کے لیے مسیحا بنے تھےجن سے اُن کے اپنوں نے بھی نظریں چُرا لی تھیں اور انہیں مرنے کے لیے ویران بستیوں میں تنہا چھوڑ دیاتھا۔ڈاکٹر مسعودالحسن نے اپنی پوری زندگی جزام کےمریضوں کا علاج کرنے میں وقف کردی تھی۔ جب وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے مریضوں کے پیپ بھرے زخموں سےکیِڑے چنُتے تو ان کے مریضوں کی آنکھیں فرطِ محبت سے اشکبار ہو نے لگتیں اور انہیں زمیں پر خدا کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا۔ میڈیکل کے شعبہ میں ڈاکٹر مسعودالحسن کی غیرمعمولی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا جاتا تھا۔
میری ان سے پہلی ملاقات چند سال قبل ہوئی تھی۔ میں اُن دنوں جزام کے مرض پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ رہا تھا اور مجھے اِس سلسلے میں ان کی مدد درکار تھی۔ان سے ملنے کی خواہش مجھے شہرسے دور اُس چھوٹی سی بستی میں لے گئی تھی ، جہاں بسنا تو درکنار، لوگ اس کی تعفن آمیز فضا میں سانس لینےسے بھی کتراتے تھے۔ ڈاکٹر مسعودالحسن نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں انہی گمنام بستیوں کو اپنا مسکن بنالیا تھا، جہاں وہ شب و روزمریضوں کے علاج میں مصروف نظر آتے۔ میں نے جب پہلی بار انہیں دیکھا، تووہ اپنے عمر رسیدہ ہاتھوں سے اپنے مریضوں کے زخموں پر مرہم لگا رہے تھے۔ اس وقت ، ان کے چہرے پہ ایسا سکون چھایا ہوا تھا جس میں اس درد کا شائبہ تک نہ تھاجومجھ سے گفتگو کے دوران ان کی آنکھوں میں جھلکنے لگاتھا۔
میرے ایک سوال پرکہ وہ کونسی ایسی چیز تھی جس نے انہیں زندگی کے اس قدراعلٰی و ارفع مقصدسے متعارف کروا یا، وہ مسکرا کر کہنے لگے"میرےدردنے " ۔ میں نے کہا " میں سمجھا نہیں" کہنے لگے۔دیکھو بیٹا ۔ زندگی میں اکثر لوگ خوشیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔مگرمیرے نزدیک وہ درد، خوشی سے زیادہ اہم ہے جو انسان کو دوسروں میں خوشیاں بانٹنا سِکھاتا ہے۔ درد آشنا دل ہی خدا آشنا ہوتا ہے اور جب انسان خدا آشنا ہو جائے تو پھر اس کے بندوں کا پیار اس کے دل میں خودبخود کروٹیں لینے لگتا ہے۔ ڈاکٹر مسعودالحسن کی باتیں بہت گہری تھیں۔ پہلی ہی ملاقات میں، میں ان کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ بولتے جا رہے تھے اوران کے الفاظ بارش کی پاکیزہ بوندوں کی طرح میرے دل کی بنجر زمیں کو سیراب کرتے جا رہے تھے۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔ پھر یوں ہوا کہ گاہے بگاہے کسی نہ کسی بہانے میری ان سے ملاقات رہنے لگی۔ ہر ملاقات میں وہ بہت گرمجوشی سے ملتے۔ اگرچہ ہم دونوں کی عمروںمیں گہرا تفاوت تھا مگر اس کے باوجود آہستہ آہستہ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط ترہوتا چلا گیا۔ میں اب اپنی ریسرچ کے ساتھ ساتھ اس درد کی کھوج میں بھی رہنے لگا تھاجس کی کوکھ سے ڈاکٹر مسعودالحسن جیسی عظیم شخصیت نے جنم لیا تھا ۔ بالآخر میرے بڑھتے ہوئے اشتیاق کو دیکھ کر ایک دن وہ اس راز سے پردہ اٹھا نے پر رضامند ہو گئے جسے انہوں نے سالہا سال سے دل کے نہاں خانوں میں چھپا رکھا تھا۔
اس دن بارش زوروں پرتھی۔ وہ میرے سامنے خاموش بیٹھے کمرے کی کھڑکی سے باہر برستی ہوئی بارش کو بڑی محویت سےتک رہے تھے۔ میز پر رکھی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی، مگرہم دونوں میں سےکسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں تھی۔ میری ساری دلچسپی اس گفتگو میں تھی جس کا آغاز ڈاکٹر مسعودالحسن کرنے والے تھے اور وہ تو شاید کب کے ماضی کے سفر پرنکل چکے تھے۔بالآخر چندساعتوں کی گہری خاموشی کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور پھر آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔
جمیل میاں۔ برسوں پہلےنگار کی محبت میرے دل میں اس وقت جاگی تھی، جس دن اس کی شادی ہو رہی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے ۔کتنی ہی دیر میں بُت بنا اس راستے پر کھڑارہا تھا، جس پہ چل کر نگار اپنے شوہر کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لیے میری زندگی سے دور چلی گئی تھی۔ اس کی گاڑی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو یوں لگاجیسے کسی نے میرا دل مٹھی میں لے کربھینچ ڈالا ہو۔ اس رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔پھر بھی زبردستی آنکھیں بند کیں تو خیال کی کھڑکی سے اختر کا مسکراتا ہوا چہرہ جھانکنے لگا۔ وہی ہمیشہ کی طرح چمکتی ہوئی روشن آنکھیں ۔ فراخ پیشانی اور الجھے ہوئے گھنگھریالے بال۔
اس دن کالج کے ہاسٹل میں میرے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا وہ ایسا ہی وجیہہ دِکھتا تھا۔ مجھے کتاب پڑھتے دیکھ کر اس نے ایک سوال پوچھ لیا تھا، کہنے لگا۔ یار فلسفی! ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ لوگ محبت کو اسقدر برُا کیوں سمجھتے ہیں؟۔ وہ مجھے ہمیشہ فلسفی کہہ کر بلاتا تھا۔ میں نے کتاب سے نظریں اٹھا کراسے دیکھا۔ وہ کچھ پریشان تھا۔ میں نے کتاب بند کی اور اسکے پاس جاکھڑا ہوا۔ دیکھو اختر علی! یہ جو محبت ہے ناں۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے ۔جو چیز سکھ کے بدلے جھولی میں دکھ ڈال دے۔ وہ بھلا کِسےاچھی لگے گی؟۔ میری بات پراُس نے مُڑ کر دیکھا ، پھر خاموشی سے اپنے اُلجھےبالوں کو ہاتھوں سے سُلجھانے لگا۔ اسے میری بات یقیناً بُری لگی تھی۔میں نے اُس کےکاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اختر علی ! میرا مشورہ ہے کہ تم اپنے والد کی بات مان کرسلمٰی کا خیال ذہن سے نکال دو۔ تُم پیرمراد علی شاہ کے اکلوتے بیٹے اور ان کی گدّی کے وارث ہو۔اگرخاندان سے باہر شادی کرنا تمہارے پیر گھرانے کی روایات کے منافی ہے تو تم ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔وہ آئینے میں دیکھتے ہوئے بولا۔تم نہیں سمجھو گے فلسفی ! میری محبت ان فرسودہ روایات کو نہیں مانتی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آگیا۔ کم عقلی کی باتیں مت کرو اختر علی ۔ اپنی آنکھوں پر بندھی فریب کی پٹی اتار کر دیکھو۔ حقیقت کی دنیا میں تمہاری یہ نام نہاد محبت، دولت و اقتدارکے پاؤں کی جوتی برابر بھی نہیں ہے ۔ تم کن چکروں میں پڑے ہو؟۔ میری باتیں سُن کر بالوں کو سلجھاتے اخترکے ہاتھ یکدم رک گئے۔ اس نے گھُور کر میر ی طر ف دیکھا ، پھر کہنے لگا۔فلسفی! تمہاری ساری باتوں کے جواب میں، دل تو چاہتا ہے کہ تجھے محبت کی بد دعادوں ۔ مگر پھر تمہاری دوستی آڑے آ جاتی ہے۔ایک بات یاد رکھنا۔جس دن تمہارا محبت سے سامنا ہوگیا، تمہارا اسارا فلسفہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔میں نےاس کی بات مذاق میں اڑا دی ۔ چلو پھر یونہی سہی، پیر ابن پیر اختر مراد علی سرکار۔ مجھے بھی اس دن کا انتظار رہے گا ۔ جس دن پیر مرادعلی کے بیٹے کی طرح محبت میری عقل کو بھی بیڑیاں پہنا کر دیس نکالے کا حکم سنائے گی۔ اس دن میں تمہارےدربار پر دیا جلانےضرور آؤں گا۔میرے طنز پر وہ ناراض ہو گیا۔
اس روز اختر میرے کمرے سے تو چلا گیامگرجانے سے پہلے اس کے منہ سے نکلے الفاظ رب کی بارگاہ میں شرف ِقبولیت پا چکے تھے۔ اس کے لفظوں نے دوستی کا لحاظ بھی نہیں کیا تھا اور مجھے محبت کی بددعا لگ چکی تھی۔اِس بات کا احساس برسوں بعد مجھے اس وقت ہوا ، جس دن نگار اپنے شوہر کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لیے میری زندگی سے بہت دور چلی گئی تھی۔
میری ان سے پہلی ملاقات چند سال قبل ہوئی تھی۔ میں اُن دنوں جزام کے مرض پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ رہا تھا اور مجھے اِس سلسلے میں ان کی مدد درکار تھی۔ان سے ملنے کی خواہش مجھے شہرسے دور اُس چھوٹی سی بستی میں لے گئی تھی ، جہاں بسنا تو درکنار، لوگ اس کی تعفن آمیز فضا میں سانس لینےسے بھی کتراتے تھے۔ ڈاکٹر مسعودالحسن نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں انہی گمنام بستیوں کو اپنا مسکن بنالیا تھا، جہاں وہ شب و روزمریضوں کے علاج میں مصروف نظر آتے۔ میں نے جب پہلی بار انہیں دیکھا، تووہ اپنے عمر رسیدہ ہاتھوں سے اپنے مریضوں کے زخموں پر مرہم لگا رہے تھے۔ اس وقت ، ان کے چہرے پہ ایسا سکون چھایا ہوا تھا جس میں اس درد کا شائبہ تک نہ تھاجومجھ سے گفتگو کے دوران ان کی آنکھوں میں جھلکنے لگاتھا۔
میرے ایک سوال پرکہ وہ کونسی ایسی چیز تھی جس نے انہیں زندگی کے اس قدراعلٰی و ارفع مقصدسے متعارف کروا یا، وہ مسکرا کر کہنے لگے"میرےدردنے " ۔ میں نے کہا " میں سمجھا نہیں" کہنے لگے۔دیکھو بیٹا ۔ زندگی میں اکثر لوگ خوشیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔مگرمیرے نزدیک وہ درد، خوشی سے زیادہ اہم ہے جو انسان کو دوسروں میں خوشیاں بانٹنا سِکھاتا ہے۔ درد آشنا دل ہی خدا آشنا ہوتا ہے اور جب انسان خدا آشنا ہو جائے تو پھر اس کے بندوں کا پیار اس کے دل میں خودبخود کروٹیں لینے لگتا ہے۔ ڈاکٹر مسعودالحسن کی باتیں بہت گہری تھیں۔ پہلی ہی ملاقات میں، میں ان کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ بولتے جا رہے تھے اوران کے الفاظ بارش کی پاکیزہ بوندوں کی طرح میرے دل کی بنجر زمیں کو سیراب کرتے جا رہے تھے۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔ پھر یوں ہوا کہ گاہے بگاہے کسی نہ کسی بہانے میری ان سے ملاقات رہنے لگی۔ ہر ملاقات میں وہ بہت گرمجوشی سے ملتے۔ اگرچہ ہم دونوں کی عمروںمیں گہرا تفاوت تھا مگر اس کے باوجود آہستہ آہستہ ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط ترہوتا چلا گیا۔ میں اب اپنی ریسرچ کے ساتھ ساتھ اس درد کی کھوج میں بھی رہنے لگا تھاجس کی کوکھ سے ڈاکٹر مسعودالحسن جیسی عظیم شخصیت نے جنم لیا تھا ۔ بالآخر میرے بڑھتے ہوئے اشتیاق کو دیکھ کر ایک دن وہ اس راز سے پردہ اٹھا نے پر رضامند ہو گئے جسے انہوں نے سالہا سال سے دل کے نہاں خانوں میں چھپا رکھا تھا۔
اس دن بارش زوروں پرتھی۔ وہ میرے سامنے خاموش بیٹھے کمرے کی کھڑکی سے باہر برستی ہوئی بارش کو بڑی محویت سےتک رہے تھے۔ میز پر رکھی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی، مگرہم دونوں میں سےکسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں تھی۔ میری ساری دلچسپی اس گفتگو میں تھی جس کا آغاز ڈاکٹر مسعودالحسن کرنے والے تھے اور وہ تو شاید کب کے ماضی کے سفر پرنکل چکے تھے۔بالآخر چندساعتوں کی گہری خاموشی کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور پھر آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔
جمیل میاں۔ برسوں پہلےنگار کی محبت میرے دل میں اس وقت جاگی تھی، جس دن اس کی شادی ہو رہی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے ۔کتنی ہی دیر میں بُت بنا اس راستے پر کھڑارہا تھا، جس پہ چل کر نگار اپنے شوہر کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لیے میری زندگی سے دور چلی گئی تھی۔ اس کی گاڑی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو یوں لگاجیسے کسی نے میرا دل مٹھی میں لے کربھینچ ڈالا ہو۔ اس رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔پھر بھی زبردستی آنکھیں بند کیں تو خیال کی کھڑکی سے اختر کا مسکراتا ہوا چہرہ جھانکنے لگا۔ وہی ہمیشہ کی طرح چمکتی ہوئی روشن آنکھیں ۔ فراخ پیشانی اور الجھے ہوئے گھنگھریالے بال۔
اس دن کالج کے ہاسٹل میں میرے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا وہ ایسا ہی وجیہہ دِکھتا تھا۔ مجھے کتاب پڑھتے دیکھ کر اس نے ایک سوال پوچھ لیا تھا، کہنے لگا۔ یار فلسفی! ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ لوگ محبت کو اسقدر برُا کیوں سمجھتے ہیں؟۔ وہ مجھے ہمیشہ فلسفی کہہ کر بلاتا تھا۔ میں نے کتاب سے نظریں اٹھا کراسے دیکھا۔ وہ کچھ پریشان تھا۔ میں نے کتاب بند کی اور اسکے پاس جاکھڑا ہوا۔ دیکھو اختر علی! یہ جو محبت ہے ناں۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے ۔جو چیز سکھ کے بدلے جھولی میں دکھ ڈال دے۔ وہ بھلا کِسےاچھی لگے گی؟۔ میری بات پراُس نے مُڑ کر دیکھا ، پھر خاموشی سے اپنے اُلجھےبالوں کو ہاتھوں سے سُلجھانے لگا۔ اسے میری بات یقیناً بُری لگی تھی۔میں نے اُس کےکاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اختر علی ! میرا مشورہ ہے کہ تم اپنے والد کی بات مان کرسلمٰی کا خیال ذہن سے نکال دو۔ تُم پیرمراد علی شاہ کے اکلوتے بیٹے اور ان کی گدّی کے وارث ہو۔اگرخاندان سے باہر شادی کرنا تمہارے پیر گھرانے کی روایات کے منافی ہے تو تم ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔وہ آئینے میں دیکھتے ہوئے بولا۔تم نہیں سمجھو گے فلسفی ! میری محبت ان فرسودہ روایات کو نہیں مانتی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آگیا۔ کم عقلی کی باتیں مت کرو اختر علی ۔ اپنی آنکھوں پر بندھی فریب کی پٹی اتار کر دیکھو۔ حقیقت کی دنیا میں تمہاری یہ نام نہاد محبت، دولت و اقتدارکے پاؤں کی جوتی برابر بھی نہیں ہے ۔ تم کن چکروں میں پڑے ہو؟۔ میری باتیں سُن کر بالوں کو سلجھاتے اخترکے ہاتھ یکدم رک گئے۔ اس نے گھُور کر میر ی طر ف دیکھا ، پھر کہنے لگا۔فلسفی! تمہاری ساری باتوں کے جواب میں، دل تو چاہتا ہے کہ تجھے محبت کی بد دعادوں ۔ مگر پھر تمہاری دوستی آڑے آ جاتی ہے۔ایک بات یاد رکھنا۔جس دن تمہارا محبت سے سامنا ہوگیا، تمہارا اسارا فلسفہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔میں نےاس کی بات مذاق میں اڑا دی ۔ چلو پھر یونہی سہی، پیر ابن پیر اختر مراد علی سرکار۔ مجھے بھی اس دن کا انتظار رہے گا ۔ جس دن پیر مرادعلی کے بیٹے کی طرح محبت میری عقل کو بھی بیڑیاں پہنا کر دیس نکالے کا حکم سنائے گی۔ اس دن میں تمہارےدربار پر دیا جلانےضرور آؤں گا۔میرے طنز پر وہ ناراض ہو گیا۔
اس روز اختر میرے کمرے سے تو چلا گیامگرجانے سے پہلے اس کے منہ سے نکلے الفاظ رب کی بارگاہ میں شرف ِقبولیت پا چکے تھے۔ اس کے لفظوں نے دوستی کا لحاظ بھی نہیں کیا تھا اور مجھے محبت کی بددعا لگ چکی تھی۔اِس بات کا احساس برسوں بعد مجھے اس وقت ہوا ، جس دن نگار اپنے شوہر کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لیے میری زندگی سے بہت دور چلی گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نگار میری پھپھو کی اکلوتی بیٹی تھی۔عمر میں مجھ سے پانچ سال بڑی تھی ۔میں اسے نگار آپا کہتا تھا۔وہ چار سال کی تھی جب پھوپھا جان ایک ٹریفک حادثہ میں چل بسےتھے۔ بہن کے بیوہ ہوجانے پر میرے والد انہیں اپنے گھر لے آئے تھے۔ میرے والد کواپنے بزنس سےاوروالدہ کو سماجی سرگرمیوں سے فرصت نہ تھی۔ اسی لیےپیدا ہوتے ہی میری پرورش کا سارے کا سارا ذمہ پھپھو نے اپنے سر لے لیا تھا۔ جب ذرا بڑا ہوا تو یہ ذمہ داری خود نگار نے سنبھال لی۔میرے بچپن میں نگار کاکردار ہمیشہ ایک مرغی کا اور میرا مرغی کے بچے کا سا رہا۔ وہ پر پھیلائے جدھر جاتی ، میں اس کے پروں کے نیچے گھُسنے کی کوشش کرتا۔ خود نگار بھی کبھی مجھے اپنے سائے سے الگ ہونے نہیں دیتی تھی۔ اس کے مزاج میں انتہا درجہ کی سادگی تھی۔ وہ ہمیشہ سے ہر چیز پر مجھے فوقیت دینے کی عادی تھی۔ میری چھوٹی سے چھوٹی خوشی کاپورا خیال رکھتی۔اس کی یہ عادت بڑے ہونے پر بھی نہ بدلی تھی ۔میری کوئی چیز کہاں پڑی ہے ، اس کا میری والدہ کو اتنا پتا نہ ہوتا جتنا نگار کو ۔ وہ مجھے اب بھی بچپن والا مسعودالحسن سمجھتی تھی۔مگرمیں اب پَر پُرزے نکال چکا تھا اور اپنے پروں پر اڑنے لگا تھا۔ اگرچہ میں شوخ رنگوں اور مست اداؤں کا اسیر تھا۔ مگر نگار کی فطری سادگی کی وجہ سے اس کا بیحد احترام کرتا تھا۔ شایدیہی وجہ تھی کہ جب بھی گھر والوں نے نگار کے نام کے ساتھ میرا نام جوڑنے کی کوشش کی ، میں نے صاف انکار کر دیا ۔ میرے ہر دفعہ کے انکار پر بالآخرنگار کی شادی میرے والد کے ایک دیرینہ دوست کے بیٹے سے طے کر دی گئی۔ لڑکا بیرون ملک میں مقیم تھا۔ شادی کے بعد وہ نگار کو اپنے ہمراہ پردیس لے جانے کا متمنی تھا۔
مجھے یاد ہے ۔ ان دنوں گھر میں شادی کی تیاریاں خوب زوروشور سے چل رہی تھیں۔ اماں اورپھپھو ہمہ وقت گھر کے کاموں میں جُتی رہتیں ۔ میں نے والد صاحب کے ساتھ مل کر بیرونی محاذ سنبھال رکھا تھا۔ ایک ماہ تیاریوں میں پل جھپکتے گزر گیا اور پھر وہ دن آن پہنچا جس دن نگار کی بارات آنی تھی۔ اس دن گھر میں نفسانفسی کا عالم تھا۔ہر کوئی ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں لگا تھا۔ نگارنچلے کمرے میں سہیلیوں کے جھرمٹ میں گھری بیٹھی تھی۔ مجھےموزے نہیں مل رہےتھے۔ اپنے کمرے میں ہر جگہ ڈھونڈ چکا تھا ۔ جب کہیں نہ ملے تونگار کے کمرے کا رخ کیا کیونکہ میری اکثر چیزیں اس کی الماری سے ملا کرتی تھیں۔ الماری میں ادھر ادھر ہاتھ چلاتے ہوئے اچانک چند کا غذات فرش پر آ گرے۔جُھک کر اٹھانے کی کوشش میں ان پر اپنا نام لکھا دیکھ کر تجسس ہوا۔کاغذات پڑھنا شروع کیے تو حیرت کےپہاڑٹوٹ پڑے۔ وہ محبت بھرے خط تھے جو نگار آپا نے مجھے لکھے تھے۔ شاید مجھے دینے میں ان کی فطری شرم آڑے آ گئی تھی۔ نجانے کب بچپن کی دوستی نے نگار آپا کے دل میں محبت کا روپ دھار لیا تھا ۔ میں اس بات سے مکمل لاعلم تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ آج ان کےسارے راز افشاہو گئے تھے۔
قدموں کی چاپ سن کر میں نے ہاتھ میں پکڑ ےخط جلدی سے پشت کےپیچھے چھپا لیے۔ کھُلے دروازے کی طرف نگاہ کی تو سامنے نگار کھڑی تھی۔ جلدی میں کچھ نہ سوجھا تو بولا۔نگار آپا۔ موزے نہیں مل رہے۔ پلیز ڈھونڈدیں۔میری بات سن کر وہ چپ چاپ الماری کے پاس گئی او ر اندر سے موزوں کی ایک جوڑی نکال کر میرےسامنے رکھ دی اور کہنے لگی ۔ اپنی چیزیں اب خود سنبھالنا سیکھیے جناب۔ آج کے بعد اس گھرمیں آپ کو نگار نہیں ملے گی۔ اس کے لہجہ میں اداسی اور آنکھوںمیں نمی چھپی تھی۔اس لمحےمیرےاندرایک چھناکے کی سی آوازگونجی،جیسے کچھ ٹوٹ گیا ہو۔زندگی میں پہلی بارلگاجیسے کوئی بہت قیمتی شے چھن رہی ہو ۔ نگار! یہ کیا ہے ؟ میں نے ہاتھ میں پکڑے سارے خط اس کے سامنے کردیے۔میرے منہ سے آپا کی بجائے نگار کا لفظ سن کروہ لمحے بھر کوبھونچکی رہ گئی پھر خطوط پر نگاہ پڑتے ہی اس کی پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئیں۔ دھیمے لہجے میں بولی۔ چلو اچھا ہوا۔ حقدارکے پاس اس کی امانت پہنچ گئی۔میں نے قدرے دکھ سے کہا۔ نگار! تم نے ایک بار مجھ سے کہا تو ہوتا ۔ اس کے چہرے پر درد بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔ محبت بتانے کی نہیں محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے جناب۔ اور آپ کو کس نے کہہ دیا کہ محبت مانگنے سے مل جاتی ہے۔ لفظوں کے کشکول میں بھیک ملتی ہے محبت نہیں۔ میں اس کی بات پر تڑپ اُٹھا۔ نگار! تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔میں اندر سےکھوکھلا ہو تا جا رہا تھا۔ وہ میری آنکھوں میں جھانک کر بولی۔ایسی ہی فکر تھی جناب، تو ہمیں ہمیشہ کے لیے اپنے پاس روک لیتے۔ مگر آپ کو ہماری پرواہ ہی کب تھی۔ وہ دوپٹے کے پلو سے بھیگی پلکیں صاف کرنے لگی۔ اس کے لفظوں میں چھپے شکوے کے تیرمیرا دل چیر گئے تھے۔ اس لمحے پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ نگار کی محبت تو میری نس نس میں لہو بن کے دوڑتی تھی۔پھر نجانے میں اس جذبے سے اتنا عرصہ انجان کیسے بنا رہا۔ پچھتاوے کی اِک آگ تھی جس نےیکایک میرے پورےوجود کو گھیرلیا تھا۔نگار کی باتوں میں چھپے درد اور اس کےآنسوؤں نے مجھے اندر سے بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا۔پھراس سے پہلے کہ میں ریزہ ریزہ ہو کر نگار کے قدموں میں بکھر جاتا، والدہ کی آواز سنائی دی۔ وہ نگار کو نیچے بلا رہی تھیں۔ اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر اوڑھا، ایک بارجاتے جاتے پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھرتیزی سے کمرے سےچلی گئی۔
مجھے یاد ہے ۔ ان دنوں گھر میں شادی کی تیاریاں خوب زوروشور سے چل رہی تھیں۔ اماں اورپھپھو ہمہ وقت گھر کے کاموں میں جُتی رہتیں ۔ میں نے والد صاحب کے ساتھ مل کر بیرونی محاذ سنبھال رکھا تھا۔ ایک ماہ تیاریوں میں پل جھپکتے گزر گیا اور پھر وہ دن آن پہنچا جس دن نگار کی بارات آنی تھی۔ اس دن گھر میں نفسانفسی کا عالم تھا۔ہر کوئی ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں لگا تھا۔ نگارنچلے کمرے میں سہیلیوں کے جھرمٹ میں گھری بیٹھی تھی۔ مجھےموزے نہیں مل رہےتھے۔ اپنے کمرے میں ہر جگہ ڈھونڈ چکا تھا ۔ جب کہیں نہ ملے تونگار کے کمرے کا رخ کیا کیونکہ میری اکثر چیزیں اس کی الماری سے ملا کرتی تھیں۔ الماری میں ادھر ادھر ہاتھ چلاتے ہوئے اچانک چند کا غذات فرش پر آ گرے۔جُھک کر اٹھانے کی کوشش میں ان پر اپنا نام لکھا دیکھ کر تجسس ہوا۔کاغذات پڑھنا شروع کیے تو حیرت کےپہاڑٹوٹ پڑے۔ وہ محبت بھرے خط تھے جو نگار آپا نے مجھے لکھے تھے۔ شاید مجھے دینے میں ان کی فطری شرم آڑے آ گئی تھی۔ نجانے کب بچپن کی دوستی نے نگار آپا کے دل میں محبت کا روپ دھار لیا تھا ۔ میں اس بات سے مکمل لاعلم تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ آج ان کےسارے راز افشاہو گئے تھے۔
قدموں کی چاپ سن کر میں نے ہاتھ میں پکڑ ےخط جلدی سے پشت کےپیچھے چھپا لیے۔ کھُلے دروازے کی طرف نگاہ کی تو سامنے نگار کھڑی تھی۔ جلدی میں کچھ نہ سوجھا تو بولا۔نگار آپا۔ موزے نہیں مل رہے۔ پلیز ڈھونڈدیں۔میری بات سن کر وہ چپ چاپ الماری کے پاس گئی او ر اندر سے موزوں کی ایک جوڑی نکال کر میرےسامنے رکھ دی اور کہنے لگی ۔ اپنی چیزیں اب خود سنبھالنا سیکھیے جناب۔ آج کے بعد اس گھرمیں آپ کو نگار نہیں ملے گی۔ اس کے لہجہ میں اداسی اور آنکھوںمیں نمی چھپی تھی۔اس لمحےمیرےاندرایک چھناکے کی سی آوازگونجی،جیسے کچھ ٹوٹ گیا ہو۔زندگی میں پہلی بارلگاجیسے کوئی بہت قیمتی شے چھن رہی ہو ۔ نگار! یہ کیا ہے ؟ میں نے ہاتھ میں پکڑے سارے خط اس کے سامنے کردیے۔میرے منہ سے آپا کی بجائے نگار کا لفظ سن کروہ لمحے بھر کوبھونچکی رہ گئی پھر خطوط پر نگاہ پڑتے ہی اس کی پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئیں۔ دھیمے لہجے میں بولی۔ چلو اچھا ہوا۔ حقدارکے پاس اس کی امانت پہنچ گئی۔میں نے قدرے دکھ سے کہا۔ نگار! تم نے ایک بار مجھ سے کہا تو ہوتا ۔ اس کے چہرے پر درد بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔ محبت بتانے کی نہیں محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے جناب۔ اور آپ کو کس نے کہہ دیا کہ محبت مانگنے سے مل جاتی ہے۔ لفظوں کے کشکول میں بھیک ملتی ہے محبت نہیں۔ میں اس کی بات پر تڑپ اُٹھا۔ نگار! تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔میں اندر سےکھوکھلا ہو تا جا رہا تھا۔ وہ میری آنکھوں میں جھانک کر بولی۔ایسی ہی فکر تھی جناب، تو ہمیں ہمیشہ کے لیے اپنے پاس روک لیتے۔ مگر آپ کو ہماری پرواہ ہی کب تھی۔ وہ دوپٹے کے پلو سے بھیگی پلکیں صاف کرنے لگی۔ اس کے لفظوں میں چھپے شکوے کے تیرمیرا دل چیر گئے تھے۔ اس لمحے پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ نگار کی محبت تو میری نس نس میں لہو بن کے دوڑتی تھی۔پھر نجانے میں اس جذبے سے اتنا عرصہ انجان کیسے بنا رہا۔ پچھتاوے کی اِک آگ تھی جس نےیکایک میرے پورےوجود کو گھیرلیا تھا۔نگار کی باتوں میں چھپے درد اور اس کےآنسوؤں نے مجھے اندر سے بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا۔پھراس سے پہلے کہ میں ریزہ ریزہ ہو کر نگار کے قدموں میں بکھر جاتا، والدہ کی آواز سنائی دی۔ وہ نگار کو نیچے بلا رہی تھیں۔ اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر اوڑھا، ایک بارجاتے جاتے پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھرتیزی سے کمرے سےچلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نگارمیری زندگی سے کیا گئی ، جاتے جاتے سارے سکھ بھی ساتھ لے گئی۔ گھرکی رونقیں دم توڑ گئیں۔ دوستوں کی محفلیں بھی بے رنگ ہوتی چلی گئیں۔ ایک پل کو کہیں سکوں نصیب نہ تھا۔ گھر کا سُونا آنگن کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ سارا دن گھر سے باہر گلی میں ایک تھڑےپر سوچوں میں گم بیٹھا رہتا۔ یادوں کا اک ہجوم تھا جو ہر وقت مجھے گھیرے رہتا۔ آنکھیں تھیں کہ خشک ہونے کا نام نہ لیتیں۔ گھر والے اور سب دوست یار میرے اس حال پر بےحد پریشان تھے۔ وہ پوچھ پوچھ کر تھک جاتے مگر میرے منہ سے ایک لفظ نہ نکلتا ۔ اب کہنے اورسننے کو بچا ہی کیا تھا۔ میں نے خوداپنے ہاتھوں اپنی دنیا اُجاڑلی تھی۔ اب شکوہ کس سے کرتا۔
ایک دن سوچوں میں گم گلی میں بیٹھا تھا کہ مسجد کی طرف جاتے ہوئےرمضان بابا کے قدم مجھے دیکھ کررک گئے۔ رمضان بابا ایک صوفی منش انسان تھے۔عمر اسّی سال کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ محلے کی جامع مسجد میں امامت کرواتے تھے۔ بچپن میں مجھے اور نگار کو سپارہ پڑھانے ہمارے گھر آتے تھے۔ تب سے استاد ہونے کے ناطے میں ان کی بہت عزت کرتا تھا اور وہ بھی مجھ پرخاص شفقت فرماتےتھے۔ اس دن میری پریشانی بھانپ کر وہ سیدھے میرے پاس آبیٹھے اور پوچھنے لگے۔ کیا بات ہے بیٹا۔کچھ دنوں سےتم پریشان دکھائی دیتے ہو۔ معاملہ کیا ہے؟ ۔ میں نے اپنائیت سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ایک مشکل آ پڑی ہے بابا۔سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟۔ بتا ؤ بیٹا !آخر بات کیاہے؟ بابا پیارسے بولے۔ کوئی دل میں آ بیٹھاہے بابا۔ لاکھ کوشش کی، مگر جانے کا نام نہیں لیتا۔ میں نے لاچارگی ظاہر کی۔ میری بات سُن کرباباکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ، کہنے لگے۔مہمان تو رب کی رحمت ہوتا ہے بیٹا۔ آ ہی گیا ہے تو بیٹھا رہنے دے اُسے۔ تیرا کیا لیتا ہے۔ تجھے تواُلٹا اُس کا احسان مند ہو نا چاہیے ۔تیرےسُونے دل کو آباد جو کیا ہے اس نے۔میں تو کہتا ہوں۔ چاکری کرلےاُس کی۔ میں نے بے بسی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ میں تو پاؤں دھو کر پیتا اُس کے بابا ۔ پر میرا دل اب اُس کے رہنے کی جگہ نہیں ہے ۔ کسی نےدِل میں جھانک کر دیکھ لیا تو بڑی جگ ہنسائی ہوگی۔کوئی تعویذ لکھ دو بابا کہ کسی طورخلاصی ہو جائے۔ جاں بخشی ہو جائے میری۔میری منت سماجت پررمضان بابا کا دل تڑپ اٹھا۔ بولے۔ اب تجھے کیسے سمجھاؤں بیٹا۔ دل کے مہمان تعویذ گنڈوں سے نہیں جاتے۔ اُسے نکالنا ہے توتجھے دل میں نفرت بھرنا ہو گی۔ پھر وہ اپنے آپ چلا جائے گا۔ میں نے بے بسی سے کہا۔ یہی تو مسئلہ ہے بابا۔ اُس کی محبت یانفرت پر میرا اختیار نہیں ہے ۔ مجھے دکھی دیکھ کر بابا بولے۔ اختیار نہیں ہے ۔ تو پھرڈرکس بات کا بیٹا ۔سوال تو اختیار والوں سے ہوتا ہے۔ سزا تو اختیار والوں کو ملتی ہے۔بے اختیارا بندہ تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ ڈر مت۔ تیرے پاس تو عذر ہے۔ تجھےقیامت کے دن اپنے رب کے حضور شرمندہ نہیں ہو نا پڑےگا۔ بابا کی بات پر میں تڑپ اٹھا ، بولا۔ وہ تو بڑارحیم ہے بابا۔ اپنے بندوں کی بڑی سے بڑی خطا کو بھی معاف کر دیتا ہے مگر بندہ معاف نہیں کرتا۔ مجھے تو اب شاید وہ بھی معاف نہ کرے جس کی ناجائز محبت کو دل میں بسا ئے پھرتا ہوں۔میری بات پر بابا نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔ ناں بیٹا۔ محبت جائز یا ناجائز نہیں ہوتی۔محبت تو محض ایک جذبہ ہےاور جذبے تو بے رنگ اور بے شکل مائع کی طرح ہوتے ہیں ۔جس برتن میں ڈال دو ، اُسی کی شکل اپنا لیتے ہیں۔دیکھو۔ اگر بارش کی بوندسیپ کے دل میں اُتر جائے تو موتی بن جاتی ہے اور اگر یہی قطرہءآب سانپ کے منہ میں چلا جائے تو زہر بن جاتا ہے۔ محبت کا بھی یہی حال ہے بیٹا۔اگر کسی پاک دل میں جنم لے توعشق ِ حقیقی کا روپ بھر کر انسان کو ولایت عطا کردے اوراگر یہی کسی کم ظرف کے دل میں پیدا ہو جائے توہوس بن کر اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کر دے۔ اگر تیری محبت سچی ہے تو تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ تجھے تیری منزل تک آپ لے جائے گی۔ میں نے بابا کے نورانی چہرے کی طرف دیکھا ۔ آپ کی ساری باتیں درست ہیں بابا ۔ مگراس دل کا کیا کروں جسے ایک پل کو سکوں نصیب نہیں ہے۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر بابا بولے۔سکون چاہتے ہو بیٹا، تو اپنا مقدمہ اس کے حضور لے جاؤ جس کا اختیار دلوں پر بھی چلتا ہے۔ میں تو خود بے اختیارا بندہ ہوں۔ تجھے دعا کے سِوا کچھ نہیں دے سکتا۔ بابا نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ مشکلیں تووہی آسان کرتا ہے سب کی۔ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاءاللہ۔بابانےمیرےسر پر پیار سےہاتھ پھیرا اور پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے مسجد کی طرف چل دیے۔
ایک دن سوچوں میں گم گلی میں بیٹھا تھا کہ مسجد کی طرف جاتے ہوئےرمضان بابا کے قدم مجھے دیکھ کررک گئے۔ رمضان بابا ایک صوفی منش انسان تھے۔عمر اسّی سال کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ محلے کی جامع مسجد میں امامت کرواتے تھے۔ بچپن میں مجھے اور نگار کو سپارہ پڑھانے ہمارے گھر آتے تھے۔ تب سے استاد ہونے کے ناطے میں ان کی بہت عزت کرتا تھا اور وہ بھی مجھ پرخاص شفقت فرماتےتھے۔ اس دن میری پریشانی بھانپ کر وہ سیدھے میرے پاس آبیٹھے اور پوچھنے لگے۔ کیا بات ہے بیٹا۔کچھ دنوں سےتم پریشان دکھائی دیتے ہو۔ معاملہ کیا ہے؟ ۔ میں نے اپنائیت سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ایک مشکل آ پڑی ہے بابا۔سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟۔ بتا ؤ بیٹا !آخر بات کیاہے؟ بابا پیارسے بولے۔ کوئی دل میں آ بیٹھاہے بابا۔ لاکھ کوشش کی، مگر جانے کا نام نہیں لیتا۔ میں نے لاچارگی ظاہر کی۔ میری بات سُن کرباباکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ، کہنے لگے۔مہمان تو رب کی رحمت ہوتا ہے بیٹا۔ آ ہی گیا ہے تو بیٹھا رہنے دے اُسے۔ تیرا کیا لیتا ہے۔ تجھے تواُلٹا اُس کا احسان مند ہو نا چاہیے ۔تیرےسُونے دل کو آباد جو کیا ہے اس نے۔میں تو کہتا ہوں۔ چاکری کرلےاُس کی۔ میں نے بے بسی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ میں تو پاؤں دھو کر پیتا اُس کے بابا ۔ پر میرا دل اب اُس کے رہنے کی جگہ نہیں ہے ۔ کسی نےدِل میں جھانک کر دیکھ لیا تو بڑی جگ ہنسائی ہوگی۔کوئی تعویذ لکھ دو بابا کہ کسی طورخلاصی ہو جائے۔ جاں بخشی ہو جائے میری۔میری منت سماجت پررمضان بابا کا دل تڑپ اٹھا۔ بولے۔ اب تجھے کیسے سمجھاؤں بیٹا۔ دل کے مہمان تعویذ گنڈوں سے نہیں جاتے۔ اُسے نکالنا ہے توتجھے دل میں نفرت بھرنا ہو گی۔ پھر وہ اپنے آپ چلا جائے گا۔ میں نے بے بسی سے کہا۔ یہی تو مسئلہ ہے بابا۔ اُس کی محبت یانفرت پر میرا اختیار نہیں ہے ۔ مجھے دکھی دیکھ کر بابا بولے۔ اختیار نہیں ہے ۔ تو پھرڈرکس بات کا بیٹا ۔سوال تو اختیار والوں سے ہوتا ہے۔ سزا تو اختیار والوں کو ملتی ہے۔بے اختیارا بندہ تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ ڈر مت۔ تیرے پاس تو عذر ہے۔ تجھےقیامت کے دن اپنے رب کے حضور شرمندہ نہیں ہو نا پڑےگا۔ بابا کی بات پر میں تڑپ اٹھا ، بولا۔ وہ تو بڑارحیم ہے بابا۔ اپنے بندوں کی بڑی سے بڑی خطا کو بھی معاف کر دیتا ہے مگر بندہ معاف نہیں کرتا۔ مجھے تو اب شاید وہ بھی معاف نہ کرے جس کی ناجائز محبت کو دل میں بسا ئے پھرتا ہوں۔میری بات پر بابا نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔ ناں بیٹا۔ محبت جائز یا ناجائز نہیں ہوتی۔محبت تو محض ایک جذبہ ہےاور جذبے تو بے رنگ اور بے شکل مائع کی طرح ہوتے ہیں ۔جس برتن میں ڈال دو ، اُسی کی شکل اپنا لیتے ہیں۔دیکھو۔ اگر بارش کی بوندسیپ کے دل میں اُتر جائے تو موتی بن جاتی ہے اور اگر یہی قطرہءآب سانپ کے منہ میں چلا جائے تو زہر بن جاتا ہے۔ محبت کا بھی یہی حال ہے بیٹا۔اگر کسی پاک دل میں جنم لے توعشق ِ حقیقی کا روپ بھر کر انسان کو ولایت عطا کردے اوراگر یہی کسی کم ظرف کے دل میں پیدا ہو جائے توہوس بن کر اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کر دے۔ اگر تیری محبت سچی ہے تو تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ تجھے تیری منزل تک آپ لے جائے گی۔ میں نے بابا کے نورانی چہرے کی طرف دیکھا ۔ آپ کی ساری باتیں درست ہیں بابا ۔ مگراس دل کا کیا کروں جسے ایک پل کو سکوں نصیب نہیں ہے۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر بابا بولے۔سکون چاہتے ہو بیٹا، تو اپنا مقدمہ اس کے حضور لے جاؤ جس کا اختیار دلوں پر بھی چلتا ہے۔ میں تو خود بے اختیارا بندہ ہوں۔ تجھے دعا کے سِوا کچھ نہیں دے سکتا۔ بابا نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ مشکلیں تووہی آسان کرتا ہے سب کی۔ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاءاللہ۔بابانےمیرےسر پر پیار سےہاتھ پھیرا اور پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے مسجد کی طرف چل دیے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمضان بابا کی باتوں نے میرے دل پر گہرا اثرکیا تھا۔ پانچ وقت رب کے حضور ماتھا ٹیکنا شروع کیا تووسوسوں کی دھند چھٹتی چلی گئی۔ من کی میل اترنے لگی تو زندگی کا اجلا پن صاف دکھائی دینےلگا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک روزمیرا ایک دوست مجھےایک دربار پر لے گیا۔ کہنے لگا کہ دربار پر ایک بہت پہنچی ہوئی ہستی بیٹھتی ہے۔سُنا ہے جس کے حق میں دعا کردیں، اس کا بیڑا پار ہو جاتا ہے۔اگرچہ میں پیروں فقیروں پر یقین نہیں رکھتا تھا مگر پھر بھی اس کا دل رکھنے کو اس کے ساتھ چل پڑا۔ دربار کافی وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور آنے جانے والے لوگوں کا تانتا بندھا تھا۔وسیع و عریض صحن کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا حجرا تھا جس میں کوئی بزرگ ہستی اپنے مریدوں کے بیچ گھِری بیٹھی تھی۔ ہمیں اپنی باری کا انتظار کرنا تھا۔ میں نے امجد سے کہا۔ اندر میرا دل گھبرائے گا۔ میں باہر کھلے صحن میں بیٹھتا ہوں۔ جب باری آئے گی تم مجھے بلا لینا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو میں صحن میں اُگے پیپل کے ایک گھنے درخت تلے جا بیٹھا۔ وہاں بیٹھےتھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اچانک کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسو س ہوا اور ساتھ ہی ایک مانوس سی آواز سماعت سے ٹکرائی ۔ لگتا ہے فلسفی، محبت تجھے میرے درپرلے ہی آئی ہے۔میں نے سراٹھا کر آواز کی سمت میں دیکھا تو سامنے اختر کھڑا تھا ۔ سبز چوغہ پہنے ،سفید عمامہ باندھے، گلے میں طرح طرح کی تسبیحوں کے ہار لٹکائے وہ میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ کافی بدل گیا تھا۔ دبلا بھی ہو گیا تھا۔ اب پہلی نظر میں پہچانا نہیں جاتا تھا۔اس کی گھنگریالی زلفیں شانوں کو چھونے لگی تھیں۔ میری آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے بھرے دیکھ کر اس نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا۔ کیا بات ہے فلسفی ؟ ۔ پریشان دکھائی دیتے ہو۔ میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔ میں اس سے لپٹ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ محبت پر ہنسنے کی سزا بھگت رہا ہوں اختر۔ مجھے معاف کردےیار۔ میں نے اختر کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ وہ کتنی ہی دیر مجھے گلے سے لگا کر بہلانے کی کوشش کرتا رہا۔ جب میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو میں نے پوچھا۔ سلمٰی کس حال میں ہے ۔ میری بات سُن کر وہ خاموش رہا۔ پھر میرا ہاتھ تھام کر اپنے حجرے کی طرف چل پڑا۔ میں بھی چپ چاپ اس کے پیچھے ہو لیا۔ حجرے کے پاس جا کر وہ رکا اور اس سے ملحقہ ایک قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔مل لوسلمٰی سے۔یہ اُسی کا مزار ہے۔ میں نے تازہ گلابوں سے ڈھکی قبر کو دیکھا اور پھر اختر کی طرف نگاہ کی ۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی سلمٰی کی محبت کے دیے روشن تھے۔ میرے چہرے پر بکھرے ان گنت سوالوں کو بھانپ کر اس کے چہرے پر برسوں پرانی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ قبر کے سرہانے بیٹھ کر وہ بجھا ہوا دیا جلا تے ہوئے کہنے لگا۔ یاد ہے فلسفی ؟۔ میں کہتا تھا کہ سلمٰی کے بغیر جی نہیں پاؤں گا۔سلمٰی مر گئی مگر میں پھر بھی زندہ ہوں۔ وہ پھیکی سی ہنسی ہنسا۔جانتے ہو کیوں؟ ۔کیونکہ سلمٰی کے ساتھ اس کی محبت نہیں مری ۔ وہ آج بھی میرے اندر زندہ ہے ۔اس نے اپنی چاہت کی جوایک شمع میرے اندر روشن کی تھی، اب اس سے ہزاروں دیے جل اُٹھے ہیں۔میں اب اس کی بخشی ہوئی محبت کی روشنی دوسروں میں بانٹتا پھرتا ہوں ۔ وہ جھاڑو پکڑ کر قبر کےگرد بکھرے خزاں رسیدہ زرد پتوں کو سمیٹنے لگا۔میں نے سلمٰی سے شادی کر لی تھی۔مگر زندگی نے اسے زیادہ مہلت نہیں دی اور وہ مجھے پھر سے ایک لمبے انتظار میں چھوڑ کر رخصت ہو گئی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر رخساروں پر بہہ نکلے تھے۔ اس نےاپنی بات جاری رکھی۔ سلمٰی نے پہلی نظر میں ہی مجھے اپنا اسیر بنا لیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک اس کی چاکری میں لگا ہوں۔ وہ کل بھی میرے دل کی مالکن تھی ۔ آج بھی ہے۔ وہ قبر پر بکھرے پھولوں کو اپنے ہاتھوں سے درست کرنے لگا۔ تم خوش نصیب ہو فلسفی۔ تم اس فضا میں سانس لیتے ہو جس میں تمہاری نگار کی خوشبو بسی ہے۔تمہارے پاس ا سے پھر سےدیکھنے کی، اس سےملنے کی آس باقی ہے ۔ میرے پاس تو سوائے سلمٰی کی یادوں کے اور کچھ نہیں۔ نجانے زندگی کا یہ سفر کب ختم ہو گا اور اس سے دوبارہ مل پاؤں گا۔اس نےاٹھ کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ فلسفی ۔ محبت فنا ہونے کا نا م نہیں ہے ۔ محبت تو زندگی بخشتی ہے۔ تم نگار کی یاد میں خود کو مٹا کر اس کی محبت کویوں ذلیل مت کرو۔ جاؤ ۔اپنے دل میں جلنے والی محبت کی شمع سے اپنے چاروں طرف اتنے دیے جلاؤ کہ پھر روشنی کے لیے کسی کوکسی بھی دربار پرحاضری نہ دینی پڑے ۔ اس دن اختر کی باتوں نے مجھے محبت کے نئے معنی سمجھا دیے۔ میں پھر سے جینے لگا مگر اس بار یہ جینا اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے تھا۔
ڈاکٹر مسعودالحسن اپنی داستان محبت سنا کر چپ ہو گئےتھے۔ ان کی باتوں نے میری سوچ کے زاویے یکسر بدل دیے تھے۔ ناکام محبت کو میں نے روح کا روگ بنتے دیکھا تھا مگر ڈاکٹر مسعودالحسن نے اس بات کو غلط ثابت کر دکھایا تھا۔ محبت کے دردنے ایک شخص کو اس معراج پر لا کھڑا کیا تھا جہاں پرخودانسانیت ایک بشر کے وجود پر فخر محسوس کرنے لگتی ہے۔
ڈاکٹر مسعودالحسن اپنی داستان محبت سنا کر چپ ہو گئےتھے۔ ان کی باتوں نے میری سوچ کے زاویے یکسر بدل دیے تھے۔ ناکام محبت کو میں نے روح کا روگ بنتے دیکھا تھا مگر ڈاکٹر مسعودالحسن نے اس بات کو غلط ثابت کر دکھایا تھا۔ محبت کے دردنے ایک شخص کو اس معراج پر لا کھڑا کیا تھا جہاں پرخودانسانیت ایک بشر کے وجود پر فخر محسوس کرنے لگتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مسعودالحسن کی کہانی نامکمل رہے گی، اگر میں ان دنوں کا ذکر نہ کروں جب وہ ہاسپٹل میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ بیماری کی اطلاع ملنےپر میں ہاسپٹل پہنچا تو وہ بستر پر آنکھیں موندے سیدھے لیٹے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نےبظاہر ہشاش بشاش دکھائی دینے کی کوشش کی مگر میں اچھی طرح جانتا تھا کہ دوسروں کی خاطر موت سے لڑنے والا آ ج خود زندگی کی بازی ہار رہا تھا۔ کینسر ان کے پورے بدن میں پھیل چکا تھا۔ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ اب بچنے کی کوئی امید باقی نہیں ۔ مجھے دیکھ کر پل بھر کو ان کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق آ گئی تھی۔ جلدی سے پوچھنےلگے۔نگار نہیں آئی ؟ تم نے اسے اطلاع تو بھجوا دی تھی ناں۔ میں نے ان کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ بے فکر رہیں۔صبح کی فلائٹ سے وہ آ رہی ہیں۔ میری بات سن کر وہ مطمئن ہو گئے۔
شادی کےبعد نگار آپا اپنے شوہر کے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہو گئی تھیں۔ ان کے شوہر کا وہاں اچھا خاصا بزنس تھا اور پیسے کی ریل پیل تھی۔ مگر نگار آپا کی زندگی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ بیس سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہنے کے بعد ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی تھی اور پھر کچھ عرصہ بعد ہی نگار آپا کو طلاق دے دی تھی ۔ نگار آپا نے وہاں ایک فلاحی ادارے میں ملازمت کر لی تھی اور آج کل وہ اسپیشل بچوں کا ایک سکول چلا رہی تھیں۔جیسے ہی میں نے انہیں فون پر ڈاکٹر مسعودالحسن کے بارے میں اطلاع دی۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ مجھے لگا کہ گزرتے ماہ و سال نے نگار آپا کے دل میں ڈاکٹر مسعودالحسن کی چاہت کو کم نہیں ہونے دیاتھا۔ جب میں نےان سے آنے کا پوچھا تو فوراً بولیں کہ صبح کی فلائٹ سے پہنچ جاؤں گی۔اس رات ڈاکٹر مسعودالحسن دیر تک جاگتے رہے، میرے ساتھ نگار کی باتیں کرتے رہے۔ بیتے دنوں کے قصے سناتے رہے۔ رات کافی گزر گئی تومیں نے کہا۔ اب سو جائیں۔ بولے۔ صبح جلدی جگا دینا ۔ میں نے پوچھا ۔ کس لیے؟۔ کہنے لگے۔ نگار آ رہی ہے۔ اس کے لیے تیار تو ہونا پڑے گا ناں۔ انہوں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا اور ساتھ ہی مجھے آنکھ ماردی ۔ میں ہنس پڑا۔وہ پہلی بار مجھے اتنے زندہ دل نظر آئے تھے۔ نگار کے آنے کی خوشی میں انہیں رات بھراچھی طرح سے نیند نہ آ سکی۔ فجر کے وقت خود ہی اٹھ بیٹھے۔ غسل کے بعد نئے کپڑے پہنے، نماز پڑھی ، ناشتہ کیا پھر اخبار لے کر بیڈ پر دراز ہو گئے۔میں جانتا تھا کہ انہیں اخبار پڑھنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو صرف وقت گزار رہے تھے۔ ان کے لیے انتظارکرنا مشکل ہو رہا تھا۔ بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے۔ پھر میری طرف دیکھ کر پوچھنے لگتے ۔ نگار نہیں آئی؟۔ میں ان کو تسلی دیتا کہ وہ بس آتی ہی ہوں گی ۔
صبح نو بجے کے قریب ان کی طبعیت اچانک بگڑنے لگی۔ میں نے بھاگ کر ڈاکٹرز کو بلایا۔انہوں نے سرتوڑ کوشش کی مگر اب ڈاکٹر مسعودالحسن کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ عالم نزاع میں ایک بار انہوں نے اپنی بے نور ہوتی ہوئی آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور آہستہ سے پوچھا۔ نگار نہیں آئی۔ میں نے تسلی دی ۔ بس پہنچنے والی ہیں ۔وہ چپ ہو گئے پھر نہیں بولے۔ کمرے میں لگے گھڑیال کی دونوں سوئیاں بارہ کے ہندسے کو چھونے لگیں تو ڈاکٹر مسعودالحسن نے آخری ہچکی لی اور میرے بازوؤں میں دم توڑ دیا۔ میں نے روتے ہوئے انتظار میں دروازے پر لگی ان کی کھلی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کر دیا۔ وہ صبح سے مسلسل نگار آپا کا انتظار کر رہے تھے مگر نجانے انہوں نے آنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی تھی۔
کچھ دیر بعد ان کی میت کو ایمبولینس میں ڈالا جارہا تھا۔ ان کا جنازہ شہر کےمرکزی قبرستان میں لایا گیا،تو تاحدِ نظرلوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا۔ ہر کوئی اپنے مسیحا کی آخری جھلک دیکھنے کو بے قرار تھا۔نمازِ جنازہ کے بعد ان کا جسدِ خاکی سسکیوں اور آہوں کے شورمیں لحد میں اتار دیاگیا۔ آج ڈاکٹر مسعودالحسن منوں مٹی تلے جا سوئے تھے، مگرانہوں نے اپنی محبت کے جو چراغ لوگوں کےدلوں میں جلائے تھے، وہ بدستور روشن تھے۔اِس محبت کا عکس مجھے لاکھوں پُرنم آنکھوں میں دکھائی دیا ۔ بلاشبہ ڈاکٹر مسعودالحسن کی شخصیت چاہے جانے کے لائق ہی تھی۔
قبرستان سے واپسی پر دل بہت بوجھل تھا۔ باربار ڈاکٹر مسعودالحسن کی کھلی آنکھیں میری نگاہوں کے سامنےآ جاتیں جن میں نگار آپا کا انتظارعکس بن کر ٹھہرگیا تھا۔جونہی گھر کے ٹی وی لاؤنج میں قدم رکھا ، ایک آواز نے میرے قدم پکڑ لیے۔ ٹی وی پر کسی طیارے کے کریش ہونے کی خبر چل رہی تھی۔ برطانیہ سے آنے والے بدقسمت طیارے کے تمام مسافر لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اوہ میرے خدا! سکرین پر چلنے والی مسافروں کی فہرست میں ایک نا م نگار آپا کا بھی تھا۔ میرا وجود اپنا وزن نہ سہار سکا ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ میں وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ نیوز کاسٹر کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے ۔ وہ بتا رہی تھی کہ جہاز ٹھیک بارہ بجے انجن کی خرابی کے باعث زمین سے آٹکرا یا تھا ۔ یہ سن کرمیں حیرت میں ڈوبتا چلا گیاکیونکہ یہی وہ وقت تھا جب نگار آپا کے انتظار میں ڈاکٹر مسعودالحسن کی روح جسم کی قید سے آزاد ہو کر عالمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی تھی۔
شادی کےبعد نگار آپا اپنے شوہر کے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہو گئی تھیں۔ ان کے شوہر کا وہاں اچھا خاصا بزنس تھا اور پیسے کی ریل پیل تھی۔ مگر نگار آپا کی زندگی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ بیس سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہنے کے بعد ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی تھی اور پھر کچھ عرصہ بعد ہی نگار آپا کو طلاق دے دی تھی ۔ نگار آپا نے وہاں ایک فلاحی ادارے میں ملازمت کر لی تھی اور آج کل وہ اسپیشل بچوں کا ایک سکول چلا رہی تھیں۔جیسے ہی میں نے انہیں فون پر ڈاکٹر مسعودالحسن کے بارے میں اطلاع دی۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ مجھے لگا کہ گزرتے ماہ و سال نے نگار آپا کے دل میں ڈاکٹر مسعودالحسن کی چاہت کو کم نہیں ہونے دیاتھا۔ جب میں نےان سے آنے کا پوچھا تو فوراً بولیں کہ صبح کی فلائٹ سے پہنچ جاؤں گی۔اس رات ڈاکٹر مسعودالحسن دیر تک جاگتے رہے، میرے ساتھ نگار کی باتیں کرتے رہے۔ بیتے دنوں کے قصے سناتے رہے۔ رات کافی گزر گئی تومیں نے کہا۔ اب سو جائیں۔ بولے۔ صبح جلدی جگا دینا ۔ میں نے پوچھا ۔ کس لیے؟۔ کہنے لگے۔ نگار آ رہی ہے۔ اس کے لیے تیار تو ہونا پڑے گا ناں۔ انہوں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا اور ساتھ ہی مجھے آنکھ ماردی ۔ میں ہنس پڑا۔وہ پہلی بار مجھے اتنے زندہ دل نظر آئے تھے۔ نگار کے آنے کی خوشی میں انہیں رات بھراچھی طرح سے نیند نہ آ سکی۔ فجر کے وقت خود ہی اٹھ بیٹھے۔ غسل کے بعد نئے کپڑے پہنے، نماز پڑھی ، ناشتہ کیا پھر اخبار لے کر بیڈ پر دراز ہو گئے۔میں جانتا تھا کہ انہیں اخبار پڑھنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو صرف وقت گزار رہے تھے۔ ان کے لیے انتظارکرنا مشکل ہو رہا تھا۔ بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے۔ پھر میری طرف دیکھ کر پوچھنے لگتے ۔ نگار نہیں آئی؟۔ میں ان کو تسلی دیتا کہ وہ بس آتی ہی ہوں گی ۔
صبح نو بجے کے قریب ان کی طبعیت اچانک بگڑنے لگی۔ میں نے بھاگ کر ڈاکٹرز کو بلایا۔انہوں نے سرتوڑ کوشش کی مگر اب ڈاکٹر مسعودالحسن کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ عالم نزاع میں ایک بار انہوں نے اپنی بے نور ہوتی ہوئی آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور آہستہ سے پوچھا۔ نگار نہیں آئی۔ میں نے تسلی دی ۔ بس پہنچنے والی ہیں ۔وہ چپ ہو گئے پھر نہیں بولے۔ کمرے میں لگے گھڑیال کی دونوں سوئیاں بارہ کے ہندسے کو چھونے لگیں تو ڈاکٹر مسعودالحسن نے آخری ہچکی لی اور میرے بازوؤں میں دم توڑ دیا۔ میں نے روتے ہوئے انتظار میں دروازے پر لگی ان کی کھلی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کر دیا۔ وہ صبح سے مسلسل نگار آپا کا انتظار کر رہے تھے مگر نجانے انہوں نے آنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی تھی۔
کچھ دیر بعد ان کی میت کو ایمبولینس میں ڈالا جارہا تھا۔ ان کا جنازہ شہر کےمرکزی قبرستان میں لایا گیا،تو تاحدِ نظرلوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا۔ ہر کوئی اپنے مسیحا کی آخری جھلک دیکھنے کو بے قرار تھا۔نمازِ جنازہ کے بعد ان کا جسدِ خاکی سسکیوں اور آہوں کے شورمیں لحد میں اتار دیاگیا۔ آج ڈاکٹر مسعودالحسن منوں مٹی تلے جا سوئے تھے، مگرانہوں نے اپنی محبت کے جو چراغ لوگوں کےدلوں میں جلائے تھے، وہ بدستور روشن تھے۔اِس محبت کا عکس مجھے لاکھوں پُرنم آنکھوں میں دکھائی دیا ۔ بلاشبہ ڈاکٹر مسعودالحسن کی شخصیت چاہے جانے کے لائق ہی تھی۔
قبرستان سے واپسی پر دل بہت بوجھل تھا۔ باربار ڈاکٹر مسعودالحسن کی کھلی آنکھیں میری نگاہوں کے سامنےآ جاتیں جن میں نگار آپا کا انتظارعکس بن کر ٹھہرگیا تھا۔جونہی گھر کے ٹی وی لاؤنج میں قدم رکھا ، ایک آواز نے میرے قدم پکڑ لیے۔ ٹی وی پر کسی طیارے کے کریش ہونے کی خبر چل رہی تھی۔ برطانیہ سے آنے والے بدقسمت طیارے کے تمام مسافر لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اوہ میرے خدا! سکرین پر چلنے والی مسافروں کی فہرست میں ایک نا م نگار آپا کا بھی تھا۔ میرا وجود اپنا وزن نہ سہار سکا ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ میں وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ نیوز کاسٹر کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے ۔ وہ بتا رہی تھی کہ جہاز ٹھیک بارہ بجے انجن کی خرابی کے باعث زمین سے آٹکرا یا تھا ۔ یہ سن کرمیں حیرت میں ڈوبتا چلا گیاکیونکہ یہی وہ وقت تھا جب نگار آپا کے انتظار میں ڈاکٹر مسعودالحسن کی روح جسم کی قید سے آزاد ہو کر عالمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آخری تدوین: