نور وجدان بہنا! تحریر کو پسند کرنے اور دعاؤں کے لیے تہہ دل سے ممنون و متشکر ہوں۔ بہن نے وقت نکال کر میری تحریر کو پڑھا اور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔اس کے لیے سپاس گزار ہوں۔ مصروفیت کی وجہ سے جلد ریسپونس نہیں دے سکا، اس کے لیے معذرت۔ آپ میرے لیے کتنی محترم ہیں ، آپ جانتی ہیں۔ یہاں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ اگر بہن کے نقطہ نظر کے برعکس ہوں تو درگزر کے ساتھ ساتھ رہنمائی فرمائیے گا۔
میں نے لکھاکہ محبت تو محض ایک جذبہ ہےاور جذبے بے رنگ اور بے شکل مائع کی طرح ہوتے ہیں ۔جس برتن میں ڈالو، اُسی کی شکل اپنا لیتے ہیں۔ جیسے بارش کی ایک بوند اگرسیپ کے دل میں اُتر جائے تو موتی اور اگر سانپ کے منہ میں چلی جائے تو زہر بن جاتی ہے۔ یہی حال محبت کاہے۔ اگراس کا جنم کسی پاک دل میں ہو توعشق ِ حقیقی کا روپ بھر کر انسان کو ولایت عطا کردے اوراگر یہی کسی کم ظرف کے دل میں پیدا ہو توہوس بن کر اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کر دے۔
سمجھنے کی ضرورت اس امر کی ہے کہ محبت و عشق کا اثر سب دلوں پر ایک سا نہیں ہوتا اور یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا بھی نہیں جاتا۔اس کے لیے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں۔ محبت کہہ لیں یا عشق کہہ لیں یہ رب کی توفیق ہے ۔ وہ جسے چاہے اس سے نواز دے۔ بس دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ میاں محمد بخش صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
مالی دا کم پانی دینا، بھَر بھَر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھَل پھُل لانا، لاوے یا نہ لاوے
عشق حقیقی کا ایک رنگ۔آپ نے جس مقام عشق کی طرف اشارہ کیا، وہ عشق حقیقی کافقط ایک رنگ ہے جس کی جھلک راہ طریقت پر چلنے والوں میں نظر آتی ہے اورجس کا ذکر تصوف کی کتابوں میں ملتا ہے۔ آپ نے اس حالتِ وجدان اور عالم جذب و مستی کا ذکر کیا ، جس میں ڈوب کر ایک انسان مجذوب کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ساغر صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ تصوف کی کتابوں میں اولیائے اکرام کے ایسے متعدد واقعات کا ذکر ملتا ہے مثلاً حضرت منصورحلاج ؒ کا ذکر جنہوں نے اناالحق کا نعرہ بلند کیا اور اسی جرم کی پاداش میں انہیں سُولی چڑھنا پڑا۔ حضرت سرمد ؒ کا واقعہ جو برہنہ پھرتے تھے اور لاالہ سے آگے نہیں پڑھتے تھے۔ یاد رکھیے۔ اس دیوانگی کی حالت میں انسان کا ناتا صرف مجاز کے وجود سے یا اس کی چاہت سے ہی نہیں ٹوٹتا بلکہ وہ سب رشتوں اورفرائض دنیا سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ جسے شاید آپ نے پکا عشق کہاہے۔ یہ حالت ِعشق اس لیے جائز سمجھی جاتی ہے کہ اس میں انسان عالم بے خودی یاعالم بے اختیاری میں چلا جاتا ہے۔اگر یہ حالت طاری کرنے میں انسانی اختیار کا عمل دخل ہو تو پھر یہ ہرگز جائز نہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی تحریر میں لکھا کہ اختیار نہیں تو پھرڈرکس بات کا۔سوال تو اختیار والوں سے ہوتا ہے۔ سزا تو اختیار والوں کو ملتی ہے۔بے اختیارا بندہ تو سیدھا جنت میں جاتا ہے۔
عشق حقیقی کا دوسرا رنگ :طریقت وشریعت اور فلسفہ وحدت الوجود و شہود کی بحث میں الجھے بغیر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اوپر جو کچھ بیان ہے ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عشق حقیقی کی جھلک صرف مجذوبیت میں نظر آتی ہے اورخردمندی کے راستے میں یہ مقام عشق نہیں آتا۔ راستےبھلے جدا ہوں مگر مقصود و منزل عشق حقیقی ہی ٹھہرتا ہے۔ آپ نے جس وجود کی چاہت کا ذکر کیا وہ وجود کسی دوسرے کا نہیں ، وہ وجود تو اپنا ہے۔ جب تک اپنے وجود کی چاہت رہے گی اور وہ فنا نہیں ہوگا تو عشق حقیقی کا دیا روشن نہیں ہوگا۔ عشق مجازی انسان کے تکبر اور انا کے بت کو توڑ کر اسے صرف ایک ہی در پر جھکنا سکھاتا ہے۔عشق حقیقی کا بیج بونے سے پہلےدل کی بنجر زمین پرعشق مجازی کا ہل چلا کر اس کوتیار کیا جاتا ہے۔ جس طرح کسی معزز مہمان کی آمد پر پہلے ہم اپنے گھر کو اس کے شایان شان سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تصوف میں بھی سارا زور تزکیہ نفس اور اپنی " میں "کو مارنے پر لگایا جاتا ہے۔ میں نے لکھا کہ درد آشنا دل ہی خدا آشنا ہوتا ہے اور جب انسان خدا آشنا ہو جائے تو پھر اس کے بندوں کا پیار اس کے دل میں خودبخود کروٹیں لینے لگتا ہے۔دل میں سوزوگداز کا پیدا ہونا انسانی کوشش سے نہیں ، رب کی توفیق سے ہوتا ہے اور عشق رب کی ایسی ہی توفیق ہے، جو خاص دلوں کے لیے مختص ہے۔محبوب کا وجود تو بس وسیلہ بن جاتا ہے۔ اس کا عکس توسرآئینہ ہے ، پس آئینہ تو بس رب کی چاہت ہی ہوتی ہے۔
اسی تصور پرمیں نے تحریر لکھی ہے۔ جس میں ایک وجود کی چاہت (عشق مجازی ) ڈاکٹر مسعودالحسن کو اس معراج عشق پر پہنچا دیتی ہے جہاں پوری انسانیت کا درد (عشق حقیقی )اس کے دل میں جنم لے لیتا ہے۔ میرے نزدیک عشق حقیقی کی عملی تفسیر مخلوق خدا سے محبت اور انسانیت کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ کا بہت شکریہ۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔