تاسف معروف اداکار عابد علی انتقال کرگئے

جاسم محمد

محفلین
معروف اداکار عابد علی انتقال کرگئے
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1800374-abidali-1567699277-558-640x480.jpg

صدر پاکستان نے1985 میں عابد علی کو پرائڈ آف پارفامنس سے نوازا تھا، فوٹو: فائل

کراچی: ڈرامہ و فلم انڈسٹری کے معروف اداکار عابد علی 67 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

عابد علی جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گذشتہ دو ماہ سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے چند روز قبل اُن کی حالت انتہائی تشویشناک ہونے کی وجہ سے اہلخانہ کی جانب سے دعاؤں کی درخواست کی گئی تھی تاہم اب اداکار 67 سال کی عمر میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔

عابد علی کی اہلیہ نے اداکار کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عابد علی کا جگر کا عاضہ بگڑ گیا تھا جس کے باعث وہ کئی روز سے وینٹی لیٹر پر تھے لیکن اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔

واضح رہے کہ 29 مارچ 1952 میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے عابد علی نے اپنے فنی کیریئر میں خواہش ، دشت ،دوسرا آسمان ، وارث اورمہندی جیسے مشہور ڈرامے کئے اور متعدد فلموں میں کام کیا جب کہ آخری بار انہوں نے فلم ’ہیر مان جا‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اداکار کو لا جواب اداکاری اور شعبے میں قابل قدر خدمات انجام دینے پر صدر پاکستان نے1985 میں انہیں پرائڈ آف پارفامنس سے بھی نوازا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

مرحوم ورسٹائل آرٹسٹ تھے۔ ڈرامہ 'وارث' اور ڈرامہ 'خواہش' میں اُن کا کردار بالکل الگ نوعیت کا تھا، اور ڈرامہ 'غلام گردش' اور دیگر ڈراموں میں بالکل الگ نوعیت کے کردار ادا کیے۔ بہرصورت، ایک عہد تمام ہوا!
 

فرقان احمد

محفلین
29 مارچ 1952 میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے عابد علی نے اپنے فنی کیریئر میں خواہش ، دشت ،دوسرا آسمان ، وارث اورمہندی جیسے مشہور ڈرامے کئے
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواہش عابد علی کے کیرئیر کے اہم ترین ڈراموں میں سے ایک تھا۔

بی بی سی کا خراج تحسین!

عابد علی: بسنتی کا خوشی محمد رخصت ہوا


خواہش کے سیٹ پر بسنتی کو خوشی محمد نے یہ تک بتایا کہ’ لال بتی جل رہی ہو تو سمجھو کیمرہ تم پر ہے۔'

سیمی راحیل سے ان کے ساتھی اداکار عابد علی کے رخصت ہونے کی تعزیت کرو تو وہ کہتی ہیں وہ میرا دوست ہی نہیں استاد بھی تھا۔

’خواہش' پاکستان ٹیلی ویژن کے ان ہی دنوں کے ڈراموں میں سے ایک ہے جب آٹھ بجے گلیاں سونی ہو جاتی تھیں اور پورا خاندان ٹی وی سیٹ کے آگے براجمان ہوتا تھا۔

اصغر ندیم سید کے لکھے ہوئے اس ڈرامے میں ٹرک ڈرائیور خوشی محمد گڑوی والی پکھی واس بسنتی پر مرتا تھا اور ناظرین ان دو کرداروں کی ہر ادا پر فدا تھے۔ خوشی محمد بسنتی سے کہتا ’تو گانا چھوڑ دے' اور بسنتی اترا کر جواب دیتی ’تو ڈرائیوری چھوڑ دے گا جو میں کہوں؟‘

کوئٹہ میں پلے بڑھے عابد علی نے سڑک چھاپ دیہاتی ٹرک ڈرائیور کو اس کے مخصوص ہندکو لب و لہجے کے ساتھ کمال نبھایا۔ ان کے برجستہ ’جُل او جُل' اور ’وئے پاغلا' میں وہی ٹرک اڈے والی چائے کی کڑک تھی جس کا مزہ اردو ڈرامے کا ہر شائق آج بھی لیتا ہے۔

’خواہش' میں خوشی محمد کی بسنتی، اداکارہ سیمی راحیل اصل زندگی میں ان کی دوست رہیں اور خود کو اداکاری میں ان کی شاگرد بھی مانتی ہیں۔ عابد علی کی رخصت ہونے کے بعد انھیں یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’عابد علی ایک اداکار نہیں، ایک فنکار تھا۔ بے حد ذہین، حساس اور کام سے لگاؤ رکھنے والا۔ ایک دھیما اور خوش مزاج انسان۔‘

سیمی راحیل نے کیرئیر میں سب سے زیادہ کام عابد علی کے ساتھ ہی کیا۔ کچھ یادیں بانٹتے ہوئے سیمی راحیل نے بتایا ’ہوا پہ رقص' کی شوٹنگ کے دوران اکثر وہ چھپڑ کے نیچے چارپائیاں ڈال کر سوئے۔ اور کس طرح ڈرامہ ’دوریاں' کی شوٹنگ کے دوران ایک سین کے لیے عابد علی نےانھیں تھپڑ مارنا تھا لیکن دونوں کی ہنسی پھوٹ پڑتی۔‘

ریڈیو پاکستان سے کیرئیر کے آغاز کے بعد عابد علی نے سنہ 1973 میں پی ٹی وی کے ڈرامے جھوک سیال میں سب سے پہلے اداکاری کی اور اس کے بعد سرکاری اور نجی چینلز کے لیے درجنوں ڈرامے کیے۔ وارث، دشت، پنجرہ، آنگن، مہندی جیسے ڈرامے جس جس نے دیکھے، انھیں یاد رکھا۔

ہم ٹی وی کے پیریڈ پلے آنگن کے لکھاری مصطفی آفریدی جو خود عابد علی کے مداح ہیں، کہتے ہیں کہ عابد علی، قوی خان کا مداح تھا اور کہتا تھا کہ قوی خان کے سامنے کام کرتے آج بھی ڈرتا ہوں۔ انھوں نے ریکارڈنگ کا ایک قصہ یوں بتایا کہ عابد علی میں سادگی اس قدر تھی کہ ایک سیٹ کے لیے آرائشی سامان خود اپنے گھر سے لے آئے۔

عابد علی نے اداکاری کے ساتھ ہدائیتکاری بھی کی اور کئی فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی آخری فلم ’ہیر مان جا' میں ان کی ساتھی اداکارہ حریم فاروق کو وہ ایک خاموش انسان کے طور پر یاد ہیں۔ حریم کہتی ہیں وہ چپ چپ ضرور تھے لیکن ان کی حس ظرافت بلا کی تھی۔

’وہ سیٹ پر اپنے ماضی کی باتیں کرتے اور ہر بات میں ہمارے لیے سیکھنے کے کئی کئی پہلو ہوتے۔'

اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت ہدائیتکار اور پیش کار انھوں نے فن کا نیا باب کھولا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ پہلے ہدائیتکار ہیں جنھوں نے ڈرامے میں کہانی اور موسیقی کی بُنت پر کام کیا اور چھوٹی سکرین پر میوزیکل متعارف کروایا۔ ڈرامہ’دشت' اسی کی مثال ہے۔

عابد علی اس ہفتے علالت کے بعد دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔ لیکن فنکار کے جانے کے بعد فن زندہ رہتا ہے۔ جسے ان کے ساتھی، ناظرین اور ناقدین آج بھی دلجوئی سے یاد کر رہے ہیں۔

سیمی راحیل کہتی ہیں وہ عموماً ذاتی زندگی کے بکھیڑوں پر بات نہیں کرتے تھے۔

عابد علی، سیمی راحیل سے اپنا آپ چھپا بھی لیتا، لیکن خوشی محمد اپنے آپ میں گھل رہا تھا۔ یہ بسنتی سے چھپا کیسے رہ سکتا تھا۔

’پی ٹی وی پر کیے ان کے ساتھ آخری ڈرامے ’سحر' میں میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ خاموش ہو گیا ہے، جیسے اب وہ یہاں سے جانا چاہتا ہو۔'

پھر خوشی محمد چلا گیا۔ لیکن بسنتی کی گڑوی میں اس کا کڑک چائے جیسا لہجہ اب کھنک بن کر رہتا ہے۔

÷÷÷÷÷
کوئٹہ میں پلے بڑھے عابد علی نے سڑک چھاپ دیہاتی ٹرک ڈرائیور کو اس کے مخصوص ہندکو لب و لہجے کے ساتھ کمال نبھایا۔
(اس آرٹیکل میں شاید یہ واحد اختلافی پہلو ہے؛ غالباً خواہش ڈرامہ میں اختیار کردہ لہجہ چکوال میں رہنے بسنے والوں کا ہے، یہ چکوالی لہجہ ہندکو سے مماثلت رکھتا ہے البتہ خالصتاً ہندکو معلوم نہیں ہوتی ہے؛ تاہم تائید تو محترم عبدالقیوم چوہدری صاحب ہی فرمائیں گے! مگر عابد علی مرحوم نے جس طرح یہ لہجہ اپنایا ہے، وہ مقامی چکوالی باشندے معلوم ہوتے تھے اور یہی ان کی اداکاری کا اصل کمال تھا۔)
 
آخری تدوین:
(اس آرٹیکل میں شاید یہ واحد اختلافی پہلو ہے؛ غالباً خواہش ڈرامہ میں اختیار کردہ لہجہ چکوال میں رہنے بسنے والوں کا ہے، یہ چکوالی لہجہ ہندکو سے مماثلت رکھتا ہے البتہ خالصتاً ہندکو معلوم نہیں ہوتی ہے؛ تاہم تائید تو محترم عبدالقیوم چوہدری صاحب ہی فرمائیں گے! مگر عابد علی مرحوم نے جس طرح یہ لہجہ اپنایا ہے، وہ مقامی چکوالی باشندے معلوم ہوتے تھے اور یہی ان کی اداکاری کا اصل کمال تھا۔)
معذرت چاہوں گا کہ میں نے ڈرامہ نہیں دیکھ رکھا۔ کوئی کلپ وغیرہ مل جائے تو شاید سمجھ پاؤں۔ شکریہ
 
ہندکو کے دو معروف لہجے ہیں۔ ایک جو اندرون پشاور میں بولا جاتا ہے اور ایک ہزارہ (ایبٹ اباد، مانسہرہ اور ہری پور) میں۔

مرحوم اداکار ہزارہ والے لہجے کےکچھ الفاظ استعمال کر رہے تھے اور یہ ہندکو ہی کہلائے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی قبر کو روشن، ہوادار، کشادہ اور ٹھنڈا کرے۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔ لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔ آمین!
 
Top