معروف اسماء کی وجہ تسمیہ بیان کیجے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کراچی کا لالو کھیت جو اب لیاقت آباد ہے ۔۔
لیاقت آباد کو 1950ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام پر آباد کیا گیا۔کراچی کے جس مقام کا سب سے زیادہ ذکر ہوا، وہ ہے لالوکھیت۔
کراچی کے لالوکھیت نے بڑے بڑے ہیرے پیدا کئے، مہدی حسن سے صابری برادران، استاد قمرجلالوی سے نقاش کاظمی، اشرف شاد اور معین اختر تک لالوکھیت میں ان گنت چمکتے ستارے ہیں، عمرشریف کا تعلق بھی لالوکھیت یعنی لیاقت آباد سے تھا ۔۔۔
خود کراچی کے نام کے بارے میں ستر کی دہائی کے بعد سے یہ انکشافات شروع ہوئے کہ یہ شروع میں ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جس کا نام وہاں رہنے والی ایک خاتون مائی کولاچی کی نسبت سے کولاچی پڑگیا ۔ بعد میں کلاچی اور پھر رفتہ رفتہ کراچی میں تبدیل ہوگیا ۔ اس بارے میں میری نظر سے کوئی معتبر تحریر نہیں گزری۔ ایک صاحب بتارہے تھے کہ اب تو مائی کولاچی کی قبر بھی "دریافت" کرلی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد وہاں عرس وغیرہ بھی ہونے لگے اور اپنے معان بھائی معان بھائی وہاں دھمال ڈالتے نظر آئیں ۔
 

علی وقار

محفلین
پاکستان کا نام چودھری رحمت علی نے گھڑا تھا ۔ اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ مختلف علاقوں یا صوبوں کے ناموں سے پہلا حرف لے کر ایک acronym بنایاتھا ۔ رحمت علی صاحب نے واقعی ایسا کیا تھا یا بعد میں یار لوگوں نے کہانی گھڑلی ۔ مجھے علم نہیں ۔ کوئی صاحبِ علم اس پر موم بتی گھمائے تو اچھا رہے گا۔
اس کتابچے میں تو کچھ ایسے ہی مذکور ہے ظہیر بھائی۔
 

علی وقار

محفلین
خود کراچی کے نام کے بارے میں ستر کی دہائی کے بعد سے یہ انکشافات شروع ہوئے کہ یہ شروع میں ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جس کا نام وہاں رہنے والی ایک خاتون مائی کولاچی کی نسبت سے کولاچی پڑگیا ۔ بعد میں کلاچی اور پھر رفتہ رفتہ کراچی میں تبدیل ہوگیا ۔ اس بارے میں میری نظر سے کوئی معتبر تحریر نہیں گزری۔ ایک صاحب بتارہے تھے کہ اب تو مائی کولاچی کی قبر بھی "دریافت" کرلی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد وہاں عرس وغیرہ بھی ہونے لگے اور اپنے معان بھائی معان بھائی وہاں دھمال ڈالتے نظر آئیں ۔
کراچی کے تقریباً تیس قدیم ناموں میں کروکالا[Krokola](زمانہ ماقبل مسیح علیہ السلام، بشمول عہد اسکندراعظم یونانی)،ککرولا،ککرالو، بَاربَری کون(Barbarikon)،بَربَرِیس(Barbarice)، رأ س الکرازی، راس کراشی،کوراشی[Kaurashi]، خراچی، کلاچی، کلاچی جو کَن،(کلاچی نامی میر بحر یعنی ماہی گیر/ملاح کا ذخیرہ آب کے لیے کھودا ہوا گڑھا)، کلاچی جو گوٹھ، Nawa Nar،Rambagh،Kurruck،Karak Bander،Auranga Bandar،Minnagara،کریچی،کراچے ٹاؤن،کھوراجی،کُوراچی(Kurrachee) اورکرانچی شامل ہیں۔عربی میں مذکورناموں رأ س الکرازی، راس کراشی اور ترکی میں کوراشی کے ساتھ ساتھ، موجودہ عربی نام ’کراتشی‘ پر غور کریں تو بہت مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ اس شہر کو، ایرانی سیاحوں نے قدیم دورمیں، گدھا گاڑی کی نسبت سے ’خراچی‘ کہا تھا۔البتہ یہ سینہ گزٹ صریحاً غلط ہے کہ کراچی کسی بلوچ مائی کولاچی یا کلاچی کے نام سے موسوم یا منسوب ہے۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اس مشہور عام پرچارکی واضح طور پر تردید کی تھی کہ یہ نام کسی بلوچ خاتون کاہے یا اس کی اصل بلوچی ہے۔یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں:ا)۔ اس بستی اور شہر کے قدیم ترین باشندوں میں شامل، موہانے یا ماہی گیر /ملاح، سندھ سے آئے تھے اور انھیں میر بحر بھی کہتے ہیں۔ب)۔ انھی کا ایک قبیلہ آج بھی کراچو۔یا۔قلاچو/کلاچو کہلاتا ہے۔جب ہم بلوچ نژاد سندھی، اردو محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تردید پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کی جڑیں کہیں اور ہیں۔کروکالا اوربَاربَری کون دونوں ہی کراچی کے قریب واقع قدیم بندرگاہیں تھیں، جبکہ منوڑا کو “Morontobara” (Woman’s Harbour) اور عربی تواریخ میں مناہرہ کہاجاتاتھا۔بعض پرانی کتب میں کراچی کو سہواً دیبل اور بھنبھور بھی قراردیا گیا کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق، فاتح سندھ محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) کے جہاز،پانی کے راستے یہاں، کراچی کے قریب، بھنبھور پہنچ کر لنگر اَنداز ہوئے، جسے دیبل کا اصل مقام کہاجاتا ہے، خود سپہ سالار، ایران سے خشکی کے راستے، لسبیلہ (بلوچستان) ہوتے ہوئے پہنچے تھے۔اُن کے عہد میں کراچی بستی کا وجود، کہیں آس پاس ہونا بعید اَ ز قیاس نہیں کہ اُن کی آمد کے بھی کوئی آٹھ سو سال بعد کے عرب مؤرخ نے ”رأ س الکرازی“ کا ذکر کیا ہے۔کھارادَرکو فارسی میں خارادر۔اور۔خرادَر کہاجاتا ہے، کچھ بعید نہیں کہ قدیم دورمیں بھی یہی نام ہو اوراسے کچھی،گجراتی یا قدیم سندھی میں بگاڑ کر کھارادرکیا گیا ہو۔اس کی وجہ تسمیہ تو ظاہر ہے کہ نمکین پانی سے ہے، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب 1792ء میں اسی علاقے،بلکہ پورے کراچی میں، اولین آغاخانی داعی (مبلغ) غلام علی شاہ کا انتقال ہوا تو اُنھیں تدفین کے لیے،کِرا۔ یا۔ کِڑا(Kera)، لے جایا گیا۔یہ قدیم گاؤں کَچھ، گجرات (بھارت) کے تعلقہ بھوج[Bhuj Taluka of Kutch district of Gujarat] میں واقع ہے۔غور کریں تو صوتی اعتبار سے یہ نام بھی کراچی سے قریب ہے۔کراچی کے گردونواح میں زمانہ قدیم سے چُونے کے ذخائر موجودہیں اور اِسے سفید چونے کے پتھر کی نسبت سے ’کراشہر‘ بھی کہاجاتا تھا۔یہ ابھی تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ ”کرا“ کس زبان کا لفظ ہے۔اس سے ایک قدم آگے کی بات خاکسار نے دریافت کی۔ترکی زبان میں چُونے کو”کِریچ“(Kireç) اور کلے[Kalay] کہتے ہیں، بِشناق یعنی بوسنیائی زبان میں بھی ہجے کے فرق سے یہی نام(krec)ہے، جبکہ باسک زبان میں یہ لفظ Karea(کری) ہے۔یہاں رُک کرمیرا لسانی قیاس بھی ملاحظہ فرمائیں۔ممکن ہے کہ ”کرا“ بمعنی چُونے کا پتھر اور ”چی“ بمعنی حامل، والا(ترکی) ملاکریہ نام، کراچی معرض وجودمیں آیا ہویعنی چُونے کے پتھر والا شہریا علاقہ۔ایک طویل مدت تک مختلف ناموں اور مختلف ہجوں کے ساتھ پکارے جانے والے اس شہر کو، 1860ء میں کراچی ایوان صنعت وتجارتکے قیام کے بعد، اُسی کے ایماء پر کراچی [Karachi]کہا اور لکھا جانے لگا۔اس سے قبل، اس بستی کے بطور شہر ترقی کا آغاز، انگریز کے قبضے کے بعد ہوا۔پہلے یہاں بلوچ حکمراں تھے جنھیں سیٹھ ناؤں مَل ہوت چند (1804ء تا1878ء) کی غداری کے طفیل، ایسٹ انڈیا کمپنی نے شکست دی۔سیٹھ کی یادداشتوں کا مجموعہ اُس کے پوتے، رائے بہادر اَلُو مَل ٹریکم داس کے انگریزی ترجمے کے طفیل 1915ء میں شایع ہوا، 1968ء میں اس کا ترجمہ سندھی میں اور ایک طویل مدت کے بعد، اردومیں ہوا۔بندہ”کراچی کی ماں“ لیاری کے متعلق بھی بہت دل چسپ ومتنوع علمی وادبی مواد فراہم ہوسکتا ہے، مگر بوجوہ اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس علاقے کی وجہ تسمیہ پر بحث ابھی طے نہیں ہوسکی، البتہ دیگر آراء سے قطع نظر، ’وادی لیاری‘ کے محقق، مدیر ومؤلف، محترم حمید ناضر صاحب کی یہ تحقیق،قرینِ قیاس ہے کہ یہ نام ایک جھاڑی ’لئی‘ سے منسوب ہے جسے اردو میں جھاؤ اور عربی میں غابہ کہاجاتا ہے۔قدیم دریائے لیاری(اور موجودہ لیاری ندی) کے ساتھ ساتھ اور شہر کے بعض دیگر مقامات پر بھی یہ جھاڑی پائی جاتی ہے۔(غابہ کا ذکر ہماری اسلامی تاریخ میں یوں بھی اہم ہے کہ ایک اہم غزوہ بھی اسی سے موسوم ہے۔سن سات ہجری میں غزوہ خیبر سے فقط تین دن پہلے پیش آنے والے اس غزوہ کو غزوہ ذی قرد بھی کہتے ہیں)۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کراچی کے تقریباً تیس قدیم ناموں میں کروکالا[Krokola](زمانہ ماقبل مسیح علیہ السلام، بشمول عہد اسکندراعظم یونانی)،ککرولا،ککرالو، بَاربَری کون(Barbarikon)،بَربَرِیس(Barbarice)، رأ س الکرازی، راس کراشی،کوراشی[Kaurashi]، خراچی، کلاچی، کلاچی جو کَن،(کلاچی نامی میر بحر یعنی ماہی گیر/ملاح کا ذخیرہ آب کے لیے کھودا ہوا گڑھا)، کلاچی جو گوٹھ، Nawa Nar،Rambagh،Kurruck،Karak Bander،Auranga Bandar،Minnagara،کریچی،کراچے ٹاؤن،کھوراجی،کُوراچی(Kurrachee) اورکرانچی شامل ہیں۔عربی میں مذکورناموں رأ س الکرازی، راس کراشی اور ترکی میں کوراشی کے ساتھ ساتھ، موجودہ عربی نام ’کراتشی‘ پر غور کریں تو بہت مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ اس شہر کو، ایرانی سیاحوں نے قدیم دورمیں، گدھا گاڑی کی نسبت سے ’خراچی‘ کہا تھا۔البتہ یہ سینہ گزٹ صریحاً غلط ہے کہ کراچی کسی بلوچ مائی کولاچی یا کلاچی کے نام سے موسوم یا منسوب ہے۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اس مشہور عام پرچارکی واضح طور پر تردید کی تھی کہ یہ نام کسی بلوچ خاتون کاہے یا اس کی اصل بلوچی ہے۔یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں:ا)۔ اس بستی اور شہر کے قدیم ترین باشندوں میں شامل، موہانے یا ماہی گیر /ملاح، سندھ سے آئے تھے اور انھیں میر بحر بھی کہتے ہیں۔ب)۔ انھی کا ایک قبیلہ آج بھی کراچو۔یا۔قلاچو/کلاچو کہلاتا ہے۔جب ہم بلوچ نژاد سندھی، اردو محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تردید پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کی جڑیں کہیں اور ہیں۔کروکالا اوربَاربَری کون دونوں ہی کراچی کے قریب واقع قدیم بندرگاہیں تھیں، جبکہ منوڑا کو “Morontobara” (Woman’s Harbour) اور عربی تواریخ میں مناہرہ کہاجاتاتھا۔بعض پرانی کتب میں کراچی کو سہواً دیبل اور بھنبھور بھی قراردیا گیا کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق، فاتح سندھ محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) کے جہاز،پانی کے راستے یہاں، کراچی کے قریب، بھنبھور پہنچ کر لنگر اَنداز ہوئے، جسے دیبل کا اصل مقام کہاجاتا ہے، خود سپہ سالار، ایران سے خشکی کے راستے، لسبیلہ (بلوچستان) ہوتے ہوئے پہنچے تھے۔اُن کے عہد میں کراچی بستی کا وجود، کہیں آس پاس ہونا بعید اَ ز قیاس نہیں کہ اُن کی آمد کے بھی کوئی آٹھ سو سال بعد کے عرب مؤرخ نے ”رأ س الکرازی“ کا ذکر کیا ہے۔کھارادَرکو فارسی میں خارادر۔اور۔خرادَر کہاجاتا ہے، کچھ بعید نہیں کہ قدیم دورمیں بھی یہی نام ہو اوراسے کچھی،گجراتی یا قدیم سندھی میں بگاڑ کر کھارادرکیا گیا ہو۔اس کی وجہ تسمیہ تو ظاہر ہے کہ نمکین پانی سے ہے، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب 1792ء میں اسی علاقے،بلکہ پورے کراچی میں، اولین آغاخانی داعی (مبلغ) غلام علی شاہ کا انتقال ہوا تو اُنھیں تدفین کے لیے،کِرا۔ یا۔ کِڑا(Kera)، لے جایا گیا۔یہ قدیم گاؤں کَچھ، گجرات (بھارت) کے تعلقہ بھوج[Bhuj Taluka of Kutch district of Gujarat] میں واقع ہے۔غور کریں تو صوتی اعتبار سے یہ نام بھی کراچی سے قریب ہے۔کراچی کے گردونواح میں زمانہ قدیم سے چُونے کے ذخائر موجودہیں اور اِسے سفید چونے کے پتھر کی نسبت سے ’کراشہر‘ بھی کہاجاتا تھا۔یہ ابھی تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ ”کرا“ کس زبان کا لفظ ہے۔اس سے ایک قدم آگے کی بات خاکسار نے دریافت کی۔ترکی زبان میں چُونے کو”کِریچ“(Kireç) اور کلے[Kalay] کہتے ہیں، بِشناق یعنی بوسنیائی زبان میں بھی ہجے کے فرق سے یہی نام(krec)ہے، جبکہ باسک زبان میں یہ لفظ Karea(کری) ہے۔یہاں رُک کرمیرا لسانی قیاس بھی ملاحظہ فرمائیں۔ممکن ہے کہ ”کرا“ بمعنی چُونے کا پتھر اور ”چی“ بمعنی حامل، والا(ترکی) ملاکریہ نام، کراچی معرض وجودمیں آیا ہویعنی چُونے کے پتھر والا شہریا علاقہ۔ایک طویل مدت تک مختلف ناموں اور مختلف ہجوں کے ساتھ پکارے جانے والے اس شہر کو، 1860ء میں کراچی ایوان صنعت وتجارتکے قیام کے بعد، اُسی کے ایماء پر کراچی [Karachi]کہا اور لکھا جانے لگا۔اس سے قبل، اس بستی کے بطور شہر ترقی کا آغاز، انگریز کے قبضے کے بعد ہوا۔پہلے یہاں بلوچ حکمراں تھے جنھیں سیٹھ ناؤں مَل ہوت چند (1804ء تا1878ء) کی غداری کے طفیل، ایسٹ انڈیا کمپنی نے شکست دی۔سیٹھ کی یادداشتوں کا مجموعہ اُس کے پوتے، رائے بہادر اَلُو مَل ٹریکم داس کے انگریزی ترجمے کے طفیل 1915ء میں شایع ہوا، 1968ء میں اس کا ترجمہ سندھی میں اور ایک طویل مدت کے بعد، اردومیں ہوا۔بندہ”کراچی کی ماں“ لیاری کے متعلق بھی بہت دل چسپ ومتنوع علمی وادبی مواد فراہم ہوسکتا ہے، مگر بوجوہ اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس علاقے کی وجہ تسمیہ پر بحث ابھی طے نہیں ہوسکی، البتہ دیگر آراء سے قطع نظر، ’وادی لیاری‘ کے محقق، مدیر ومؤلف، محترم حمید ناضر صاحب کی یہ تحقیق،قرینِ قیاس ہے کہ یہ نام ایک جھاڑی ’لئی‘ سے منسوب ہے جسے اردو میں جھاؤ اور عربی میں غابہ کہاجاتا ہے۔قدیم دریائے لیاری(اور موجودہ لیاری ندی) کے ساتھ ساتھ اور شہر کے بعض دیگر مقامات پر بھی یہ جھاڑی پائی جاتی ہے۔(غابہ کا ذکر ہماری اسلامی تاریخ میں یوں بھی اہم ہے کہ ایک اہم غزوہ بھی اسی سے موسوم ہے۔سن سات ہجری میں غزوہ خیبر سے فقط تین دن پہلے پیش آنے والے اس غزوہ کو غزوہ ذی قرد بھی کہتے ہیں)۔
اسے فرصت سے دیکھنا پڑے گا ، علی بھائی ۔ یہ معاملہ دلچسپ ہے اور تحقیق طلب ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
فلک شیر
یہ نام مغلوں، ایرانیوں ، ، پنجابیوں اور دیگر نسبتاً کم معروف اقوام میں مذکر انسانوں کے لیے معروف ہے۔ عجیب بات ہے ویسے، انسان کا نام جانور پہ رکھ دیتے ہیں ، اس کے برعکس کسی انسان کو یہ شرف ابھی تک حاصل نہیں ہوا کہ جانور کا نام پائے ۔ ویسے سنتے ہیں کہ عرب مختلف جانوروں کی انسانی کنیتیں رکھ چھوڑتے ہیں؛ جیسے کیکڑے کو ابو بحر ،شیر کو ابو حارث اور بھیڑیے کو ابوجعادہ کہتے ہیں ، ہاں گھوڑے کو بھی کچھ کہتے ہیں ، بھولتا ہوں ، خیر کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہیں ۔ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ کہے جانے سے کس کو مفر ہے ، وہ علی البر ہے یا فی البحر ہے ، انگلیاں اس کی گھی میں تر بہ تر ہیں یا وہ بے چارہ خود ابتر و بدتر ہے، اس کے خصائل مثلِ صر صر بر وزن و فعلِ ہوائے خطہ بربر ہیں یا پیغام برِ لطافت یعنی روزگارِکاشمیر او کاشغر ہیں۔۔۔ المختصر یہ کہ کچھ کہے جانے سے کسی کو نجات نہیں ، یہ بس بات نہیں ، آپ خود ہی کو دیکھ لیجیے ، آپ کے اپنے پرائے چھوٹے بڑے ننھیالی ددھیالی سسرالی ابالی و لاابالی ، ہمہ قسم کے اعزہ و اقارب، وہ جن کے بارے میں عربی میں غلط یا صحیح ، کسی نے کچھ کہا ہے ، کیا ہے ، وہ بھلا سا محاورہ، ہاں ۔۔۔ الاقارب کالعقارب۔۔۔ ترجمہ چھوڑیے ، پھر آپ میرے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہیں گے ۔۔۔۔تو یہ ہمہ قسم عقارب، معذرت خواہ ہوں۔۔اقارب۔۔ آپ کے بارے میں کیاکیا کچھ نہ کچھ نہیں کہتے ۔۔۔حالانکہ آپ جیسا شریف النفس، وسیع الظرف ، عالی حوصلہ ،فراخ جبیں ، حلیم الطبع ، قتیلِ شرافت، اصیلِ دودمان خاندانوں کےچھان ماریے ، نہیں ملتا ، اور آپ نے ان کے بارے میں کبھی کچھ نہ کچھ نہیں کہا، آپ کو تو پتا ہی ہے اس سب کا۔۔۔ خیر انہیں بھی پتا ہے ۔۔۔

ویسے یہ بات فلک شیر سے چلی تھی ، احمد بھائی نے فرمایا کہ وجہ تسمیہ بیان کی جائے ، یقین کیجیے ، میں خود حیران ہوں کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے ، آسمان سے انسان کا رابطہ رشتہ تو پرانا ہے ، ستارہ پرستوں کے طفیل ستارہ شناس اور ستارہ فروش تو ہم جانتے ہیں ۔ شمس کے بندوں اور قمر کے غلاموں وغیرہ کو ہم جانتے ہیں ، پہچانتے ہیں ، سنتے ہیں ، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔۔ گو ان سب کو ہم مانتے نہیں ، ہمارے شاعر نے کہا تھا :

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

آسمان سے ویسے ہماری روایت کے شعراء کو گلے رہے ہیں ، اسے فطرت کی طرح کارگاہِ ہستی کے منتظم کے مترادف کے طور استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔ شاید اسلامی روایت سے انہیں اس لونڈی کی انگلی سے اشارہ ملا تھا، جسے سید ولد آدمﷺ نے آزاد فرمانے کے لیے امتحان کو پوچھا تھا:

اللہ کہاں ہے ؟

جواب میں اس نے عرض کیا:

فی السماء (آسمان میں)

اس لونڈی کے مالک نے اسے تھپڑ مارا تھا اور اب پیغمبرﷺ کی تشجیع پہ اسے آزاد کر کے دل کی تسکین اور اللہ کی رحمت پانا چاہتا تھا۔

خیر ہمارے شعراء تو کہتے چلے آئے ہیں :

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

یعنی فلک پھرتا ہے ، انتظام کرتا ہے ، قدر و قضا کا سلسلہ اسی کے دم سے ہے

یا

قبول تھا کہ فلک مجھ پہ سو جفا کرتا
پر ایک یہ کہ نہ تجھ سے مجھے جدا کرتا

فلک یہاں ظالم سماج کے مابعد الطبیعاتی مترادف کے طور پہ آیا ہے ، جو محکم و متحکم بھی ہے


اور بہتر نشتروں والے میر صاحب بھی لکھنوء والوں کے سامنے اپنی اور اپنی دلی کی بربادی کا الزام اسی پہ دھر چکے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


شاید پہلی دفعہ یہ نام رکھنے والوں نے شجاعت، استقامت، تیقن، تحکم، تسلط اور بے نیازی کے استعارے کے ساتھ الوہی تقدیس لف کرنے کا ارادہ کیا ہو گا۔ تسلیم کہ نام کا شخصیت پہ اثر تو ہوتا ہے ۔مگر خدا لگتی کہنی چاہیے ، ادھر تو ایسا کچھ ہمیں نظر نہیں آیا، آئینہ دیکھا، گریباں میں جھانکا، کتاب کی ورق گردانی کی ، بچپن کے قصے ماں سے سنے، نوجوانی کی حماقتوں سے تو واقف ہی ہیں، دیا جلایا، رات کے اندھیرے میں ڈبکی لگائی، دوستوں سے قسمیں دے دلا کر سچ اگلوایا، معاندین کو طیش دلا کر حقیقت کانوں میں انڈیلی ۔۔۔ قسم لے لیجیے جو نام کے دوسرے حصے والی کوئی بات پتہ چلی ہو۔ ہاں فلک تو فلک ہے بھائی، ہمارے شاعر اسے کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں ، تو کیا ہوا۔۔۔ فلک تو فلک ہے ، استاذ مصحفی کے قول پہ کلام ختم کرتے ہیں :

فلک کی خبر کب ہے نا شاعروں کو
یوں ہی گھر میں بیٹھے ہوا باندھتے ہیں


پس نوشت: احمد بھائی، اس کی اصل جگہ بے پر کی والا دھاگہ تھا، آپ کا دھاگہ خراب کرنے پہ معذرت :)
اور یہ بھی کہ اس مراسلے میں مخاطب یعنی ۔۔آپ۔۔ سے مراد احمد بھائی نہیں ہیں :)
اور یہ بھی کہ جسے اس نام کے معروف ہونے کے دعوا پہ ہماری بصیرت وغیرہ پہ شبہ پیدا ہوا ہے، یقین کیجیے اسے یہ یقینی شائبہ بالکل درست پیدا ہوا ہے :۔۔)
 
آخری تدوین:
پاکستان کا نام چودھری رحمت علی نے گھڑا تھا ۔ اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ مختلف علاقوں یا صوبوں کے ناموں سے پہلا حرف لے کر ایک acronym بنایاتھا ۔ رحمت علی صاحب نے واقعی ایسا کیا تھا یا بعد میں یار لوگوں نے کہانی گھڑلی ۔ مجھے علم نہیں ۔ کوئی صاحبِ علم اس پر موم بتی گھمائے تو اچھا رہے گا۔
یہ تو کافی معروف واقعہ ہے، یہ کیونکر متنازع ہو گیا؟
بعد میں غالبا بنگال اور آسام کو ملا کر بانگ اسلام بھی انہوں نے ہی تجویز کیا تھا.
 
جہاں ہمارا مسکن ہے اسے فی زمانہ خَرطوم کہتے ہیں.
اس کی وجہ تسمیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.
کچھ کا خیال ہے کہ یہ عربی کے لفظ خُرطوم سے ماخوذ ہے جس کے معنی سونڈ، یا پائپ کے ہیں. کہا جاتاہے کہ نیلین کے سنگم کے بعد دریا ایک لمبی پتلی پٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس کی وجہ سے اس مقام کو خُرطوم کہا گیا، جو بعد میں بگڑ کر خَرطوم ہوگیا.
دیگر کا خیال یہ ہے کہ یہ مقامی ڈِنکا زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دو دریاؤں کے سنگم کے ہیں. واللہ اعلم
 
کراچی کے تقریباً تیس قدیم ناموں میں کروکالا[Krokola](زمانہ ماقبل مسیح علیہ السلام، بشمول عہد اسکندراعظم یونانی)،ککرولا،ککرالو، بَاربَری کون(Barbarikon)،بَربَرِیس(Barbarice)، رأ س الکرازی، راس کراشی،کوراشی[Kaurashi]، خراچی، کلاچی، کلاچی جو کَن،(کلاچی نامی میر بحر یعنی ماہی گیر/ملاح کا ذخیرہ آب کے لیے کھودا ہوا گڑھا)، کلاچی جو گوٹھ، Nawa Nar،Rambagh،Kurruck،Karak Bander،Auranga Bandar،Minnagara،کریچی،کراچے ٹاؤن،کھوراجی،کُوراچی(Kurrachee) اورکرانچی شامل ہیں۔عربی میں مذکورناموں رأ س الکرازی، راس کراشی اور ترکی میں کوراشی کے ساتھ ساتھ، موجودہ عربی نام ’کراتشی‘ پر غور کریں تو بہت مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ اس شہر کو، ایرانی سیاحوں نے قدیم دورمیں، گدھا گاڑی کی نسبت سے ’خراچی‘ کہا تھا۔البتہ یہ سینہ گزٹ صریحاً غلط ہے کہ کراچی کسی بلوچ مائی کولاچی یا کلاچی کے نام سے موسوم یا منسوب ہے۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اس مشہور عام پرچارکی واضح طور پر تردید کی تھی کہ یہ نام کسی بلوچ خاتون کاہے یا اس کی اصل بلوچی ہے۔یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں:ا)۔ اس بستی اور شہر کے قدیم ترین باشندوں میں شامل، موہانے یا ماہی گیر /ملاح، سندھ سے آئے تھے اور انھیں میر بحر بھی کہتے ہیں۔ب)۔ انھی کا ایک قبیلہ آج بھی کراچو۔یا۔قلاچو/کلاچو کہلاتا ہے۔جب ہم بلوچ نژاد سندھی، اردو محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تردید پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کی جڑیں کہیں اور ہیں۔کروکالا اوربَاربَری کون دونوں ہی کراچی کے قریب واقع قدیم بندرگاہیں تھیں، جبکہ منوڑا کو “Morontobara” (Woman’s Harbour) اور عربی تواریخ میں مناہرہ کہاجاتاتھا۔بعض پرانی کتب میں کراچی کو سہواً دیبل اور بھنبھور بھی قراردیا گیا کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق، فاتح سندھ محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) کے جہاز،پانی کے راستے یہاں، کراچی کے قریب، بھنبھور پہنچ کر لنگر اَنداز ہوئے، جسے دیبل کا اصل مقام کہاجاتا ہے، خود سپہ سالار، ایران سے خشکی کے راستے، لسبیلہ (بلوچستان) ہوتے ہوئے پہنچے تھے۔اُن کے عہد میں کراچی بستی کا وجود، کہیں آس پاس ہونا بعید اَ ز قیاس نہیں کہ اُن کی آمد کے بھی کوئی آٹھ سو سال بعد کے عرب مؤرخ نے ”رأ س الکرازی“ کا ذکر کیا ہے۔کھارادَرکو فارسی میں خارادر۔اور۔خرادَر کہاجاتا ہے، کچھ بعید نہیں کہ قدیم دورمیں بھی یہی نام ہو اوراسے کچھی،گجراتی یا قدیم سندھی میں بگاڑ کر کھارادرکیا گیا ہو۔اس کی وجہ تسمیہ تو ظاہر ہے کہ نمکین پانی سے ہے، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب 1792ء میں اسی علاقے،بلکہ پورے کراچی میں، اولین آغاخانی داعی (مبلغ) غلام علی شاہ کا انتقال ہوا تو اُنھیں تدفین کے لیے،کِرا۔ یا۔ کِڑا(Kera)، لے جایا گیا۔یہ قدیم گاؤں کَچھ، گجرات (بھارت) کے تعلقہ بھوج[Bhuj Taluka of Kutch district of Gujarat] میں واقع ہے۔غور کریں تو صوتی اعتبار سے یہ نام بھی کراچی سے قریب ہے۔کراچی کے گردونواح میں زمانہ قدیم سے چُونے کے ذخائر موجودہیں اور اِسے سفید چونے کے پتھر کی نسبت سے ’کراشہر‘ بھی کہاجاتا تھا۔یہ ابھی تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ ”کرا“ کس زبان کا لفظ ہے۔اس سے ایک قدم آگے کی بات خاکسار نے دریافت کی۔ترکی زبان میں چُونے کو”کِریچ“(Kireç) اور کلے[Kalay] کہتے ہیں، بِشناق یعنی بوسنیائی زبان میں بھی ہجے کے فرق سے یہی نام(krec)ہے، جبکہ باسک زبان میں یہ لفظ Karea(کری) ہے۔یہاں رُک کرمیرا لسانی قیاس بھی ملاحظہ فرمائیں۔ممکن ہے کہ ”کرا“ بمعنی چُونے کا پتھر اور ”چی“ بمعنی حامل، والا(ترکی) ملاکریہ نام، کراچی معرض وجودمیں آیا ہویعنی چُونے کے پتھر والا شہریا علاقہ۔ایک طویل مدت تک مختلف ناموں اور مختلف ہجوں کے ساتھ پکارے جانے والے اس شہر کو، 1860ء میں کراچی ایوان صنعت وتجارتکے قیام کے بعد، اُسی کے ایماء پر کراچی [Karachi]کہا اور لکھا جانے لگا۔اس سے قبل، اس بستی کے بطور شہر ترقی کا آغاز، انگریز کے قبضے کے بعد ہوا۔پہلے یہاں بلوچ حکمراں تھے جنھیں سیٹھ ناؤں مَل ہوت چند (1804ء تا1878ء) کی غداری کے طفیل، ایسٹ انڈیا کمپنی نے شکست دی۔سیٹھ کی یادداشتوں کا مجموعہ اُس کے پوتے، رائے بہادر اَلُو مَل ٹریکم داس کے انگریزی ترجمے کے طفیل 1915ء میں شایع ہوا، 1968ء میں اس کا ترجمہ سندھی میں اور ایک طویل مدت کے بعد، اردومیں ہوا۔بندہ”کراچی کی ماں“ لیاری کے متعلق بھی بہت دل چسپ ومتنوع علمی وادبی مواد فراہم ہوسکتا ہے، مگر بوجوہ اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس علاقے کی وجہ تسمیہ پر بحث ابھی طے نہیں ہوسکی، البتہ دیگر آراء سے قطع نظر، ’وادی لیاری‘ کے محقق، مدیر ومؤلف، محترم حمید ناضر صاحب کی یہ تحقیق،قرینِ قیاس ہے کہ یہ نام ایک جھاڑی ’لئی‘ سے منسوب ہے جسے اردو میں جھاؤ اور عربی میں غابہ کہاجاتا ہے۔قدیم دریائے لیاری(اور موجودہ لیاری ندی) کے ساتھ ساتھ اور شہر کے بعض دیگر مقامات پر بھی یہ جھاڑی پائی جاتی ہے۔(غابہ کا ذکر ہماری اسلامی تاریخ میں یوں بھی اہم ہے کہ ایک اہم غزوہ بھی اسی سے موسوم ہے۔سن سات ہجری میں غزوہ خیبر سے فقط تین دن پہلے پیش آنے والے اس غزوہ کو غزوہ ذی قرد بھی کہتے ہیں)۔
میرا خیال ہے کہ کراچی کی وجہ تسمیہ کے بارے یہ کنفیوژن مہاجروں کی پھیلائی ہوئی ہے ... خواہ مخواہ اپنے شہر کی تاریخی اہمیت جتانے کے لیے... ورنہ انگریزوں سے پہلے مقامی حکمرانوں نے اس جگہ کو کبھی لفٹ نہیں کروائی... جبکہ کسی مستقل دریا کے کنارے نہ ہونے اور زیر زمین میٹھے پانی کی شدید کمی کی وجہ سے یہ علاقہ کبھی بھی بڑی آبادی کے لیے موزوں نہیں رہا.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کراچی والے انڈا موڑ کو ضرور جانتے ہوں گے ۔
کراچی میں اگر ناگن چورنگی سے نارتھ ناظم آباد جایا جائے تو انڈا موڑ کا علاقہ آتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ شروع میں یہ موڑ اس نوعیت کا تھا کہ اس میں سامنے سے آنے والی ٹریفک نظر نہ آنے کے سبب حادثات کافی ہوتے تھے اور یہ موڑ اندھا موڑ کہلاتا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اندھا انڈے میں بدل گیا اور اب یہ روڈ انڈا موڑ روڈ اور علاقہ انڈا موڑ کہلانے لگا۔
یہ معمہ شاید حل نہ ہوا کہ یہ ناگن اس انڈے کو کھا کیوں نہیں جاتی ۔ :)
 
محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی نے ایک بار تذکرہ کیا تھا کہ وہ نارتھ کراچی میں رہائش پذیر ہیں، تو ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ از راہ کرم "ڈسکو موڑ" کی اصل وجہ تسمیہ ارشاد فرمائیں :)
یقینا یہ خبر ہمارے دشمنوں نے اڑائی ہو گئی۔
بھیا ہم نارتھ کے بجائے ویسٹ کے علاقے اورنگی ٹاون میں رہائش پذیر ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کہتے ہیں کہ لفظ قلفی اصل میں قفلی تھا۔ اور اسے قفلی اس وجہ سے کہتے تھے کہ اس کے سانچے میں اجزاء ڈالنے کے بعد اس کا دہانہ اچھی طرح بند کر دیا جاتا تھا یعنی قفل لگا دیا جاتا تھا تاکہ اجزاء سانچے سے باہر نہ آ سکیں۔ یوں اس کا نام قفلی پڑا جو رفتہ رفتہ ہوتے ہوتے قلفی ہو گیا۔ واللہ اعلم!
احمد بھائی ، آپ کے اسی قلفی والے مراسلے کو دیکھ کر صبح اس دھاگے میں آیا تھا کہ لفظ آئینہ کے بارے میں اسی قسم کا ایک لسانی پس منظر بیان کروں گا لیکن بیچ میں کراچی آگیا ۔ :)
لغات کے مطابق لفظ آئینہ دراصل آئنہ کی محرف یعنی تحریف شدہ شکل ہے ۔ اور آئنہ کا لفظ آہنہ سے نکلا تھا ۔ شروع میں لوہے کی تختیوں کو خوب صیقل کرکے ان کی سطح کو شیشے کی طرح ایسا بنادیا جاتا تھا کہ اس میں اپنا عکس دیکھا جاسکتا تھا ۔ اسے آہنہ کہتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے بدلتے آئینہ ہوگیا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فلک شیر
یہ نام مغلوں، ایرانیوں ، ، پنجابیوں اور دیگر نسبتاً کم معروف اقوام میں مذکر انسانوں کے لیے معروف ہے۔ عجیب بات ہے ویسے، انسان کا نام جانور پہ رکھ دیتے ہیں ، اس کے برعکس کسی انسان کو یہ شرف ابھی تک حاصل نہیں ہوا کہ جانور کا نام پائے ۔ ویسے سنتے ہیں کہ عرب مختلف جانوروں کی انسانی کنیتیں رکھ چھوڑتے ہیں؛ جیسے کیکڑے کو ابو بحر ،شیر کو ابو حارث اور بھیڑیے کو ابوجعادہ کہتے ہیں ، ہاں گھوڑے کو بھی کچھ کہتے ہیں ، بھولتا ہوں ، خیر کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہیں ۔ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ کہے جانے سے کس کو مفر ہے ، وہ علی البر ہے یا فی البحر ہے ، انگلیاں اس کی گھی میں تر بہ تر ہیں یا وہ بے چارہ خود ابتر و بدتر ہے، اس کے خصائل مثلِ صر صر بر وزن و فعلِ ہوائے خطہ بربر ہیں یا پیغام برِ لطافت یعنی روزگارِکاشمیر او کاشغر ہیں۔۔۔ المختصر یہ کہ کچھ کہے جانے سے کسی کو نجات نہیں ، یہ بس بات نہیں ، آپ خود ہی کو دیکھ لیجیے ، آپ کے اپنے پرائے چھوٹے بڑے ننھیالی ددھیالی سسرالی ابالی و لاابالی ، ہمہ قسم کے اعزہ و اقارب، وہ جن کے بارے میں عربی میں غلط یا صحیح ، کسی نے کچھ کہا ہے ، کیا ہے ، وہ بھلا سا محاورہ، ہاں ۔۔۔ الاقارب کالعقارب۔۔۔ ترجمہ چھوڑیے ، پھر آپ میرے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہیں گے ۔۔۔۔تو یہ ہمہ قسم عقارب، معذرت خواہ ہوں۔۔اقارب۔۔ آپ کے بارے میں کیاکیا کچھ نہ کچھ نہیں کہتے ۔۔۔حالانکہ آپ جیسا شریف النفس، وسیع الظرف ، عالی حوصلہ ،فراخ جبیں ، حلیم الطبع ، قتیلِ شرافت، اصیلِ دودمان خاندانوں کےچھان ماریے ، نہیں ملتا ، اور آپ نے ان کے بارے میں کبھی کچھ نہ کچھ نہیں کہا، آپ کو تو پتا ہی ہے اس سب کا۔۔۔ خیر انہیں بھی پتا ہے ۔۔۔

ویسے یہ بات فلک شیر سے چلی تھی ، احمد بھائی نے فرمایا کہ وجہ تسمیہ بیان کی جائے ، یقین کیجیے ، میں خود حیران ہوں کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے ، آسمان سے انسان کا رابطہ رشتہ تو پرانا ہے ، ستارہ پرستوں کے طفیل ستارہ شناس اور ستارہ فروش تو ہم جانتے ہیں ۔ شمس کے بندوں اور قمر کے غلاموں وغیرہ کو ہم جانتے ہیں ، پہچانتے ہیں ، سنتے ہیں ، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔۔ گو ان سب کو ہم مانتے نہیں ، ہمارے شاعر نے کہا تھا :

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

آسمان سے ویسے ہماری روایت کے شعراء کو گلے رہے ہیں ، اسے فطرت کی طرح کارگاہِ ہستی کے منتظم کے مترادف کے طور استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔ شاید اسلامی روایت سے انہیں اس لونڈی کی انگلی سے اشارہ ملا تھا، جسے سید ولد آدمﷺ نے آزاد فرمانے کے لیے امتحان کو پوچھا تھا:

اللہ کہاں ہے ؟

جواب میں اس نے عرض کیا:

فی السماء (آسمان میں)

اس لونڈی کے مالک نے اسے تھپڑ مارا تھا اور اب پیغمبرﷺ کی تشجیع پہ اسے آزاد کر کے دل کی تسکین اور اللہ کی رحمت پانا چاہتا تھا۔

خیر ہمارے شعراء تو کہتے چلے آئے ہیں :

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

یعنی فلک پھرتا ہے ، انتظام کرتا ہے ، قدر و قضا کا سلسلہ اسی کے دم سے ہے

یا

قبول تھا کہ فلک مجھ پہ سو جفا کرتا
پر ایک یہ کہ نہ تجھ سے مجھے جدا کرتا

فلک یہاں ظالم سماج کے مابعد الطبیعاتی مترادف کے طور پہ آیا ہے ، جو محکم و متحکم بھی ہے


اور بہتر نشتروں والے میر صاحب بھی لکھنوء والوں کے سامنے اپنی اور اپنی دلی کی بربادی کا الزام اسی پہ دھر چکے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


شاید پہلی دفعہ یہ نام رکھنے والوں نے شجاعت، استقامت، تیقن، تحکم، تسلط اور بے نیازی کے استعارے کے ساتھ الوہی تقدیس لف کرنے کا ارادہ کیا ہو گا۔ تسلیم کہ نام کا شخصیت پہ اثر تو ہوتا ہے ۔مگر خدا لگتی کہنی چاہیے ، ادھر تو ایسا کچھ ہمیں نظر نہیں آیا، آئینہ دیکھا، گریباں میں جھانکا، کتاب کی ورق گردانی کی ، بچپن کے قصے ماں سے سنے، نوجوانی کی حماقتوں سے تو واقف ہی ہیں، دیا جلایا، رات کے اندھیرے میں ڈبکی لگائی، دوستوں سے قسمیں دے دلا کر سچ اگلوایا، معاندین کو طیش دلا کر حقیقت کانوں میں انڈیلی ۔۔۔ قسم لے لیجیے جو نام کے دوسرے حصے والی کوئی بات پتہ چلی ہو۔ ہاں فلک تو فلک ہے بھائی، ہمارے شاعر اسے کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں ، تو کیا ہوا۔۔۔ فلک تو فلک ہے ، استاذ مصحفی کے قول پہ کلام ختم کرتے ہیں :

فلک کی خبر کب ہے نا شاعروں کو
یوں ہی گھر میں بیٹھے ہوا باندھتے ہیں


پس نوشت: احمد بھائی، اس کی اصل جگہ بے پر کی والا دھاگہ تھا، آپ کا دھاگہ خراب کرنے پہ معذرت :)
اور یہ بھی کہ اس مراسلے میں مخاطب یعنی ۔۔آپ۔۔ سے مراد احمد بھائی نہیں ہیں :)
اور یہ بھی کہ جسے اس نام کے معروف ہونے کے دعوا پہ ہماری بصیرت وغیرہ پہ شبہ پیدا ہوا ہے، یقین کیجیے اسے یہ یقینی شائبہ بالکل درست پیدا ہوا ہے :۔۔)
بہت خوب ، فلک شیر بھائی! بہت اچھا لکھا ہے ۔ کیا بات سے بات نکالی ہے !
میرے خیال میں تو آپ کے اسمِ گرامی کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں سوال یہ اٹھنا چاہیے کہ شیر فلک کی ترکیب کب اور کیسے فلک شیر میں بدل گئی ۔ جیسا کہ آپ نے اشارتاً کہا کہ برجِ اسد کے لیے شیر فلک کی ترکیب تو فارسی میں بہت قدیم چلی آرہی ہے اور اسے شیر گردوں ، شیر آسمان ، شیر آفتاب وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ تو کافی معروف واقعہ ہے، یہ کیونکر متنازع ہو گیا؟
بعد میں غالبا بنگال اور آسام کو ملا کر بانگ اسلام بھی انہوں نے ہی تجویز کیا تھا.
راحل بھائی ، یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم تھی ۔ لیکن آج کل تاریخِ پاکستان سے متعلق ہر بات کو متنازع بنانے کی کوششیں نظر آتی ہیں بعض حلقوں میں ۔ یا شاید چودھری رحمت علی کے مذہب کی وجہ سے ان سے یہ کریڈٹ چھیننے کی کوشش کی جارہی ہو۔ سو میں نے مناسب سمجھا کہ اس بات کی وضاحت میں کچھ حوالہ جات یہاں لگادیئے جائیں تو بہتر ہوگا۔
 
Top