محمد علم اللہ
محفلین
نئی دہلی۔ ۱۰؍مارچ ۲۰۱۴ء (انیس امروہوی)
اُردو کے معروف افسانہ نگار علی امام نقوی کا آج دوپہر تقریباً ساڑھے بارہ بجے ممبئی میں انتقال ہو گیا (انا للہ و انا الہ راجعون)۔ مرحوم گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ علی امام نقوی کے انتقال کی خبر پروفیسر شمس الحق عثمانی نے شمیم عباس صاحب کے حوالے سے دی۔ مرحوم کے پسمانداگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
علی امام نقوی سے میرا پہلا تعارف مشہور شاعر حفیظ آتشؔ کے ذریعہ ۱۹۷۴ء میں ہوا تھا۔ اس درمیان اُن سے کافی خط و کتابت بھی رہی اور جب میں ۱۹۸۰ء میں ممبئی میں قیام پذیر تھا، تب تقریباً ہر روز شام کو حفیظ آتش کی رہائش گاہ پر انور خان، انور قمر، مشتاق مومن، سلام بن رزاق، ساجد رشید، نور منیری، سریندر پرکاش، پرویز یداللہ مہدی، عبدالاحد ساز، اسلم خان و دیگر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ علی امام نقوی سے بھی میری ملاقات رہتی تھی۔ حفیظ آتش امروہوی سے اُن کا بچپن سے دوستانہ تھا، اس لیے حفیظ آتش کے امروہہ منتقل ہونے کے بعد علی امام نقوی کئی بار امروہہ تشریف لائے۔ سنہ ۲۰۰۰ء میں میری بیٹی شبانہ انیس کی شادی کے موقع پر بھی علی امام نقوی امروہہ تشریف لائے تھے۔ اُن کے انتقال کی خبر سے مجھے اور میرے دوستوں کو انتہائی غم اور دُکھ کا احساس ہوا ہے، اور نقوی کے انتقال کو میں اپنا ذاتی نقصان محسوس کررہا ہوں۔
علی امام نقوی کا آبائی وطن اُتر پریش کے ضلع میرٹھ کا قصبہ عبداللہ پور تھا۔ اُن کے والد نوجوانی میں ہی ممبئی چلے گئے تھے، لہٰذا علی امام نقوی کی تعلیم ممبئی میں ہی ہوئی۔ علی امام نقوی نے ستّر کی دہائی میں افسانہ نگاری شروع کی اور اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’نئے مکان کی دیمک‘‘ ۱۹۸۰ء میں قلم پبلی کیشن، ممبئی سے شائع ہوا تھا۔ ۱۹۸۵ء میں نئے اُردو افسانے کی شناخت کے سلسلے میں جب پروفیسر گوپی چند نارنگ نے دہلی میں ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا تھا، اُس میں بھی علی امام نقوی نے اپنے ممبئی کے کئی افسانہ نگار ساتھیوں کے ساتھ شرکت کی تھی۔ علی امام نقوی کا دُوسرا افسانوی مجموعہ ’’مباہلہ‘‘ ۱۹۸۸ء میں دہلی کے سیمانت پرکاشن سے شائع ہوا ۔ علی امام نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں کئی بہترین کہانیاں اُردو ادب کو دیں، جن میں اُن کی ایک کہانی ’’بتیس دانتوں میں گھری زبان‘‘ اور ایک دوسری کہانی ’’گدھ‘‘ کافی مقبول ہوئیں۔ ۱۹۹۱ء میں علی امام نقوی کا پہلا ناول ’’تین بتی کے راما‘‘ منظرعام پر آیا۔ اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’گھٹتے بڑھتے سائے‘‘ ۱۹۹۳ء میں تخلیق کار پبلشرز، دہلی سے شائع ہوا، اور اس کے بعد اُن کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’موسم عذابوں کا‘‘ ۱۹۹۸ء میں اِسی ادارے سے شائع ہوا۔ علی امام نقوی کا دوسرا ایک اہم ناول ’’بساط‘‘ ۲۰۰۰ء میں اور پانچواں افسانوی مجموعہ ’’کہی اَن کہی‘‘ بھی تخلیق کار پبلشرز، دہلی سے شائع ہوئے۔
۷۰؍ اور ۸۰؍ کی دہائی میں نوجوان افسانہ نگاروں میں علی امام نقوی نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی تھی۔ اُن کے انتقال سے نہ صرف اُردو افسانے میں ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے بلکہ پورے اُردو ادب میں اُن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہے گا۔
موصول بذریعہ ای میل۔
اُردو کے معروف افسانہ نگار علی امام نقوی کا آج دوپہر تقریباً ساڑھے بارہ بجے ممبئی میں انتقال ہو گیا (انا للہ و انا الہ راجعون)۔ مرحوم گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ علی امام نقوی کے انتقال کی خبر پروفیسر شمس الحق عثمانی نے شمیم عباس صاحب کے حوالے سے دی۔ مرحوم کے پسمانداگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
علی امام نقوی سے میرا پہلا تعارف مشہور شاعر حفیظ آتشؔ کے ذریعہ ۱۹۷۴ء میں ہوا تھا۔ اس درمیان اُن سے کافی خط و کتابت بھی رہی اور جب میں ۱۹۸۰ء میں ممبئی میں قیام پذیر تھا، تب تقریباً ہر روز شام کو حفیظ آتش کی رہائش گاہ پر انور خان، انور قمر، مشتاق مومن، سلام بن رزاق، ساجد رشید، نور منیری، سریندر پرکاش، پرویز یداللہ مہدی، عبدالاحد ساز، اسلم خان و دیگر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ علی امام نقوی سے بھی میری ملاقات رہتی تھی۔ حفیظ آتش امروہوی سے اُن کا بچپن سے دوستانہ تھا، اس لیے حفیظ آتش کے امروہہ منتقل ہونے کے بعد علی امام نقوی کئی بار امروہہ تشریف لائے۔ سنہ ۲۰۰۰ء میں میری بیٹی شبانہ انیس کی شادی کے موقع پر بھی علی امام نقوی امروہہ تشریف لائے تھے۔ اُن کے انتقال کی خبر سے مجھے اور میرے دوستوں کو انتہائی غم اور دُکھ کا احساس ہوا ہے، اور نقوی کے انتقال کو میں اپنا ذاتی نقصان محسوس کررہا ہوں۔
علی امام نقوی کا آبائی وطن اُتر پریش کے ضلع میرٹھ کا قصبہ عبداللہ پور تھا۔ اُن کے والد نوجوانی میں ہی ممبئی چلے گئے تھے، لہٰذا علی امام نقوی کی تعلیم ممبئی میں ہی ہوئی۔ علی امام نقوی نے ستّر کی دہائی میں افسانہ نگاری شروع کی اور اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’نئے مکان کی دیمک‘‘ ۱۹۸۰ء میں قلم پبلی کیشن، ممبئی سے شائع ہوا تھا۔ ۱۹۸۵ء میں نئے اُردو افسانے کی شناخت کے سلسلے میں جب پروفیسر گوپی چند نارنگ نے دہلی میں ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا تھا، اُس میں بھی علی امام نقوی نے اپنے ممبئی کے کئی افسانہ نگار ساتھیوں کے ساتھ شرکت کی تھی۔ علی امام نقوی کا دُوسرا افسانوی مجموعہ ’’مباہلہ‘‘ ۱۹۸۸ء میں دہلی کے سیمانت پرکاشن سے شائع ہوا ۔ علی امام نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں کئی بہترین کہانیاں اُردو ادب کو دیں، جن میں اُن کی ایک کہانی ’’بتیس دانتوں میں گھری زبان‘‘ اور ایک دوسری کہانی ’’گدھ‘‘ کافی مقبول ہوئیں۔ ۱۹۹۱ء میں علی امام نقوی کا پہلا ناول ’’تین بتی کے راما‘‘ منظرعام پر آیا۔ اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’گھٹتے بڑھتے سائے‘‘ ۱۹۹۳ء میں تخلیق کار پبلشرز، دہلی سے شائع ہوا، اور اس کے بعد اُن کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’موسم عذابوں کا‘‘ ۱۹۹۸ء میں اِسی ادارے سے شائع ہوا۔ علی امام نقوی کا دوسرا ایک اہم ناول ’’بساط‘‘ ۲۰۰۰ء میں اور پانچواں افسانوی مجموعہ ’’کہی اَن کہی‘‘ بھی تخلیق کار پبلشرز، دہلی سے شائع ہوئے۔
۷۰؍ اور ۸۰؍ کی دہائی میں نوجوان افسانہ نگاروں میں علی امام نقوی نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی تھی۔ اُن کے انتقال سے نہ صرف اُردو افسانے میں ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے بلکہ پورے اُردو ادب میں اُن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہے گا۔
موصول بذریعہ ای میل۔
آخری تدوین: