میر انیس
لائبریرین
روشنی کا استعارہ ایک شخص
ذات میں اپنے ادارہ ایک شخص
زندگی چلتی رہے گی حشر تک
پر نہ آئے گا دوبارہ ایک شخص
اے جہانِ خود غرض اب رو سدا
کر گیا تجھ سے کنارہ ایک شخص
ہم گذارے جارہے ہیں زندگی
زندگی نے خود گذارا ایک شخص
ڈھل گیا ہے چھوڑ کر اپنی اک کرن
جگمگاتا اک ستارہ ایک شخص
چھاگئی آواز بن کر روشنی
یوںسرِ مقتل پکارا ایک شخص
نور اسکا سبط جعفر نام ہے
پیش رو ہے جو ہمارا ایک شخص
( نور علی نور)