سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ عالمی افواج ايسے تمام اقدامات اور ضروری تدابير اختيار کرتی ہيں جن سے بے گناہ افراد کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے برعکس دہشت گرد دانستہ عام شہريوں کو نشانہ بناتے ہيں اور اپنے اقدامات سے براہراست ان کی زندگيوں کو خطرے ميں ڈالتے ہيں۔ امريکی حکومت اور فوج ميدان جنگ اور حساس علاقوں ميں عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم معاملے سميت تمام چيلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ۔ جب آپ امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ کے نتيجے ميں نادانستہ طور پر ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کے حوالے سے بحث کرتے ہیں تو اس ضمن ميں آپ کو يہ حقيقت تسليم کرنا پڑے گی کہ کسی بھی فوجی تنازعے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ ان فوجی کاروائيوں کے دوران خود امريکی اور نيٹو کے کئ فوجی "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے نتيجے ميں بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔ کسی بھی واقعے کے ميرٹ اور اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ان واقعات اور حالات کا غير جانب دارانہ تجزيہ کرنا چاہيے جو بالاخر ايک فوجی کاروائ کی صورت اختيار کر جاتا ہے۔ اس ويڈيو میں جس فوجی حملے کی تفصيل موجود ہے وہ بغير منصوبہ بندی کے کيا جانا والا کوئ بلااشتعال حملہ نہيں تھا۔ اسی علاقے کے نزديک اس واقعے سے کچھ دير قبل امريکی فوجيوں پر حملہ کيا جا چکا تھا۔
امريکی فوج نے اس واقعے کے بعد مکمل تفتيش کی تھی اور تحقيق سے يہ بات ثابت ہوئ تھی کہ امريکی فوجيوں کی جانب سے دانستہ مجرمانہ کاروائ نہيں کی گئ تھی۔ يہ بات بہت اہم ہے کہ يہ فوجی کاروائ اسی علاقے ميں امريکی اور عراقی حکومتوں کی فورسز اور مزاحمت کاروں کے مابين پہلے سے جاری جنگ کا حصہ تھی۔ جيسا کہ اس ويڈيو ميں واضح ہے کہ بہت سے افراد ہتھيار اٹھائے ہوئے تھے جن ميں اے – کے 47 اور آر – پی – جی بھی شامل تھيں۔ يہ حقیقت بھی ويڈيو سے عياں ہے کہ فوجيوں کو متعدد بار اس بات کی تاکيد کی گئ تھی کہ وہ حملے سے قبل اس بات کا يقين کر ليں کہ ہتھيار واضح طور پر ديکھے جا سکتے ہيں کہ نہيں۔
امريکی فوجی اس بات سے بھی آگاہ نہيں تھے کہ اس حملے کے موقع پر صحافی يا بچے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ صحافی نہ ہی اپنی پريس کی جيکٹ پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی کوئ ايسا نشان موجود تھا جس سے يہ واضح ہوتا کہ ان کا تعلق صحافت سے ہے۔ اسی طرح کم سن بچے وين کے اندر امريکی فوجيوں کی نظر سے اوجھل تھے۔
جب امريکی فوجی حملے کے بعد اس جگہ پر پہنچے تو ان کم سن بچوں کو فوری طوری پر اس علاقے سے نکال کر امريکی فوجی ہسپتال ميں منتقل کر ديا گيا۔
ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ عراق ميں جنگ کے آغاز سے اب تک 139 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں زيادہ تر کی اموات دہشت گردوں کی کاروائيوں اور اور ان کے طے شدہ حملوں کے نتيجے ميں ہوئ ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
نومبر 2005 امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں سمیت چوبیس شہری ہلاک ۔
29 جنوری 2008 شمالی وزیرستان میں ایک میزائل حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
11 اگست 2008 باجوڑ میں گھر پر بمباری سات افراد ہلاک،مرنے والوں میں دو عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
03 ستمبر 2008 افغانستان کے قریب ایک پاکستانی سرحدی گاؤں انگور اڈاہ میں امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے باقاعدہ اتر کر ایک گھر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک ہوگئے۔ان میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔
اس کے دو دن بعد ہی شمالی وزیرستان میں امریکی میزائل حملوں میں تین بچے اور دو خواتین ہلاک۔
12 ستمبر 2008 وزیرستان میں امریکی میزائل حملہ، بارہ ہلاک ہلاک شدگان میں تین بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔
03 اکتوبر 2008 کو امریکی میزائل حملے میں پندرہ ہلاک، ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں
اور اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت یہ نام نہاد حقوق کے علمبرادر، یہ آزادی نسواں کے حامی، یہ عورتوں کے حقوق کے چیمپئین سوات کے واقعے پر شور مچا ہے تھے،ایک عورت کی بے حرمتی پر آنسو بہا بہا کر ذمہ داران کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عین اسی دن شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ایک مکان تباہ ہوگیا،جس میں تیرہ اور بعض اطلاعات کے مطابق نو افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں تین خواتین اور چار بچے بھی شامل تھے۔
16 مئی 2009 کو شمالی وزیرستان میں ایک مدرسے پر ڈراون حملہ کیا گیا جس میں 29 بے گناہ شہید کر دیئے گئے،
اور ان شہداء میں اکثریت وہاں زیرِ تعلیم معصوم بچوں کی تھی جنہیں دہشت گردوں کے شبہ میں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،
اس واقعہ پر پوری دنیا سے امریکہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کی ڈھٹائی میں کوئی کمی نہیں آئی۔
07 ستمبر 2009، شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں امریکی جاسوس طیارے کا میزائل حملہ ،5 افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ۔ڈرون حملہ میر علی کے علاقے مچھی خیل میں کیا گیا ۔ امریکی جاسوس طیارے کے ذریعے مچھی خیل میں ایک مدرسے کو میزائل سے نشانہ بنا یا گیا ۔
21 اگست 2009 شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں امریکی ڈرون حملے میں 5 بچوں اور 2 خواتین سمیت15 افراد ہلاک اور 5 گھر تباہ ہو گئے۔
15 اکتوبر 2009 شمالی وزیرستان کی تحصیل میرام شاہ کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں امریکی ڈرون طیارے کے حملے میں دس افراد جاں بحق اور نو زخمی ہوگئے ۔ ڈرون حملہ ڈانڈے درپہ خیل میں ایک مکان پر کیا گیا جس پرڈرون طیاروں سے تین میزائل داغے گئے ۔ حملے میں چار بچوں سمیت دس افراد جاں بحق اور نو زخمی ہوئے۔
02 جنوری 2010 30 عراقی بچوں‘ خواتین کا قتل‘ بیک واٹر کے 5 اہلکاروں کیخلاف مقدمہ خارج۔
03 مارچ 2011 امريکہ کي قيادت والي فوج کےہاتھوں نو کم سن بچوں کے قتل کے بعد سيکڑوں افغان شہريوں نے آج صوبہ کنڑ ميں امريکہ کے خلاف مظاہرے کئے ہيں۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھي کنٹرہي کے رہائشي علاقے پر امريکي جنگي طياروں کي بمباري ميں پچاس عورتوں اور بچوں سميت پينسٹھ عام شہري مارے گئے تھے۔
عراق کے مغربی شہر حدیثہ میں امریکی فوج نے جان بوجھ کر چوبیس شہریوں کو ہلاک کر دیا ۔
عراق میں نہتے عراقی عوام کے قتلِ عام کی ایک
ویڈیو
[
http://news.bbc.co.uk/media/avdb/news_web/video/9012da680044e68/bb/09012da680045183_16x9_bb.ram]
یہ ہے تم امریکیوں کا اصلی اور گھناؤنا چہرہ اب یہ ویڈیو لگا کر تم لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تم انسانیت کے سب سے بڑے علم بردار ہو، نہیں ایسا بالکل نہیں ہے اگر دنیا میں شیطان کا کوئی انسانی روپ ہے تو وہ تم امریکی ہو،لاکھوں معصوم بچوں، نہتی عورتوں اور نہتے مردوں کو بے دردی سے موٹ کے گھاٹ اتارنے والے شیطان اب بچوں سے محبت کا راگ الاپ رہے ہیں اور دنیا گواہ ہے پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ کاروائیاں خود امریکہ کروا رہا ہے تاکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔