ایچ اے خان
معطل
اج ہی ایک کالم شائع ہوا ہے جس میں انتظار حسین نے یہ رپورٹ کیا ہے کہ اردو کے بارہ میں کئی مغالطے ہیں
http://www.express.pk/story/403756/
مثلا
پہلا مغالطہ۔ اردو مسلمانوں کی، یعنی صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ تقسیم سے پہلے اردو کے حمایتی زور دے کر یہ بات کہتے تھے کہ اردو ہندو مسلمانوں کی مشترکہ زبان ہے اور برصغیر کی لنگوافرینکا ہے۔ تقسیم کے بعد کیا ہوا۔ ادھر ہندی کے حامیوں نے کہا کہ اردو تو بس مسلمانوں کی زبان ہے تو اٹھا لو پاندان اپنا اور لے جاؤ اسے پاکستان میں۔ ادھر پاکستان میں اردو کے حامیوں نے یہی مناسب جانا کہ اردو کو تخصیص کے ساتھ مسلمانوں کی زبان بلا شرکت غیرے قرار دیا جائے۔
غلط، غلط، غلط۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کہتے ہیں کہ ’’مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تھے تو کیا اردو بولتے ہوئے آئے تھے۔‘‘ وہ تو عربی، فارسی، ترکی، حتیٰ کہ پشتو بولتے ہوئے آئے تھے۔ مقامی بولیاں پہلے سے موجود تھیں، مقامی لوگ ہندو تھے۔ ان کی بولیوں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد فارسی، عربی ترکی کے الفاظ شامل ہوتے گئے۔ یعنی مقامی لوگ اپنی بولیوں میں عربی فارسی کے الفاظ کا اختلاط کرتے چلے گئے۔ ’’یہ جدید اردو کی ایک شکل تھی جس کا آغاز مقامی غیر مسلموں نے کیا۔ تو اردو کے بنانے والے غیر مسلم ہوئے یا مسلمان۔‘‘
یہ کہ اردو درباروں میں پلی بڑھی غلط ہے۔ ڈاکٹر پاریکھ کا استدلال یہ ہے کہ مغلوں کی سرکاری، درباری (اور بعض صورتوں میں مادری) زبان بھی فارسی ہی تھی۔
’’اردو کی سرپرستی ابتدا میں بادشاہوں نے نہیں اہل تصوف نے کی کیونکہ ان بزرگوں کو اپنی بات عوام تک اور عوامی زبانوں میں پہنچانی تھی۔‘‘
اردو کی سرپرستی درحقیقت انگریزوں نے کی تھی تاکہ فارسی زبان کا خاتمہ کردیا جاوے۔ ویسے کوئی پاریکھ سے یہ پوچھے کہ اردو اور فارسی و عربی میں کتنا فرق ہے؟
ایک اور مغالطہ۔ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ اس کی تردید میں ڈاکٹر پاریکھ کہتے ہیں کہ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و تالیف کا آغاز سولہویں صدی میں ہو گیا تھا… اس وقت سے لے کر بیسویں صدی تک اردو میں برابر فنی تکنیکی موضوعات پر کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں آج سے سو سال پہلے بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کی تمام تعلیم اردو میں ہوتی تھی۔‘‘ اور یہ کہ اردو والے انگریزی والوں سے بہتر ثابت ہوتے تھے کیونکہ غیر زبان میں پڑھنے والوں کا خاصا وقت زبان پر عبور حاصل کرنے میں صرف ہو جاتا تھا۔ پھر یہ بھی کہ یہ انگریزی کے طلباً تحقیق و تفکر کے بجائے تقلید کے عادی ہو جاتے تھے۔‘‘
اس بات سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ پاریکھ کو سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں یا کم از کم سائنسی مبطوعات کے بارے میں علم نہیں
http://www.express.pk/story/403756/
مثلا
پہلا مغالطہ۔ اردو مسلمانوں کی، یعنی صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ تقسیم سے پہلے اردو کے حمایتی زور دے کر یہ بات کہتے تھے کہ اردو ہندو مسلمانوں کی مشترکہ زبان ہے اور برصغیر کی لنگوافرینکا ہے۔ تقسیم کے بعد کیا ہوا۔ ادھر ہندی کے حامیوں نے کہا کہ اردو تو بس مسلمانوں کی زبان ہے تو اٹھا لو پاندان اپنا اور لے جاؤ اسے پاکستان میں۔ ادھر پاکستان میں اردو کے حامیوں نے یہی مناسب جانا کہ اردو کو تخصیص کے ساتھ مسلمانوں کی زبان بلا شرکت غیرے قرار دیا جائے۔
غلط، غلط، غلط۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کہتے ہیں کہ ’’مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تھے تو کیا اردو بولتے ہوئے آئے تھے۔‘‘ وہ تو عربی، فارسی، ترکی، حتیٰ کہ پشتو بولتے ہوئے آئے تھے۔ مقامی بولیاں پہلے سے موجود تھیں، مقامی لوگ ہندو تھے۔ ان کی بولیوں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد فارسی، عربی ترکی کے الفاظ شامل ہوتے گئے۔ یعنی مقامی لوگ اپنی بولیوں میں عربی فارسی کے الفاظ کا اختلاط کرتے چلے گئے۔ ’’یہ جدید اردو کی ایک شکل تھی جس کا آغاز مقامی غیر مسلموں نے کیا۔ تو اردو کے بنانے والے غیر مسلم ہوئے یا مسلمان۔‘‘
یہ کہ اردو درباروں میں پلی بڑھی غلط ہے۔ ڈاکٹر پاریکھ کا استدلال یہ ہے کہ مغلوں کی سرکاری، درباری (اور بعض صورتوں میں مادری) زبان بھی فارسی ہی تھی۔
’’اردو کی سرپرستی ابتدا میں بادشاہوں نے نہیں اہل تصوف نے کی کیونکہ ان بزرگوں کو اپنی بات عوام تک اور عوامی زبانوں میں پہنچانی تھی۔‘‘
اردو کی سرپرستی درحقیقت انگریزوں نے کی تھی تاکہ فارسی زبان کا خاتمہ کردیا جاوے۔ ویسے کوئی پاریکھ سے یہ پوچھے کہ اردو اور فارسی و عربی میں کتنا فرق ہے؟
ایک اور مغالطہ۔ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ اس کی تردید میں ڈاکٹر پاریکھ کہتے ہیں کہ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و تالیف کا آغاز سولہویں صدی میں ہو گیا تھا… اس وقت سے لے کر بیسویں صدی تک اردو میں برابر فنی تکنیکی موضوعات پر کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں آج سے سو سال پہلے بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کی تمام تعلیم اردو میں ہوتی تھی۔‘‘ اور یہ کہ اردو والے انگریزی والوں سے بہتر ثابت ہوتے تھے کیونکہ غیر زبان میں پڑھنے والوں کا خاصا وقت زبان پر عبور حاصل کرنے میں صرف ہو جاتا تھا۔ پھر یہ بھی کہ یہ انگریزی کے طلباً تحقیق و تفکر کے بجائے تقلید کے عادی ہو جاتے تھے۔‘‘
اس بات سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ پاریکھ کو سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں یا کم از کم سائنسی مبطوعات کے بارے میں علم نہیں