ہم نے مغربی روایات کی بغیر سوچے سمجھے نقالی کی روش جو اپنائی ہے اس نے ہماری اپنی قدریں بھلادی ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے مغرب کے مقرر کردہ مخصوص دنوں کو ہمارے لئے تہوار کے طور پرمرچ مسالے کے ساتھ ایسا پیش کیا کہ ہم ذہنی اور معاشرتی قدروں کی پختگی کی بجائے جدت کے چکر میں ایسے دن بھی منانے لگے جو ہماری انا اور غیر ت کو جھٹکا دینے لگے، جیسا کہ مدرز ڈے، فادرز ڈے اورمحبتوں کا دن یعنی ویلنٹائن ڈے وغیرہ اس طرح کے دنوں کی مثالیں ہیں۔ سال میں ماں یا باپ کا ایک دن تو وہ مناتے ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو اولڈ ہاوٴس کے حوالے کردیا، ہمارے ہاں تو آج بھی والدین اولاد کیلئے کل کائنات مانے جاتے ہیں۔ ہم بھی مغربی پیروی میں اپنے رشتوں کو مخصوص دنوں تک محدود کررہے ہیں اور ان دنوں کے جائز ہونے کی طرح طرح کی تاویلات بھی پیش کرتے ہیں۔
کیا ہمارا معاشرہ مغرب کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے، صرف ایسی فضول اور واہیات چیزوں کی نقالی سے؟ کیا ہم نے ان کی طرح تعلیم، سائنس، طب، تحقیق، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ان کی نقل کرنیکی کوشش بھی کی؟ پانی کی خاصیت ہے کہ مٹی کے کچے مٹکے میں اسے ڈالنے سے مٹکا اپنا وجود کھو دیتا ہے اور پانی بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ وہی مٹی کا مٹکا جسے آگ کی بھٹی میں پختہ کیا جاتا ہے، اسی پانی کو ٹھنڈ ا کردیتا ہے جونہ صرف لوگوں کی پیاس بجھاتا ہے بلکہ اپنا وجود بھی قائم رکھتا ہے۔ ہم اپنی نسل کے ذہنوں کی پختگی کیلئے تعلیم اور تربیت کا بندوبست کر نہیں سکے جبکہ فضول اور خرافات چیزیں ان کو وافر مقدار میں میسر کردیں، کیا وہ ان سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے یا اندھی پیروی کرتے ہوئے تباہ ہوجائیں گے؟ ہماری نسل موبائل فون، سوشل میڈیا اور مغربی ایام کی نقالی سے کیا حاصل کر رہی ہے سوائے وقتی تسکین کے، کیا یہ جائز ہے؟ حالانکہ ہر چیز میں توازن ہونا چاہیے۔
اسی طرح ماہ اپریل کی شروعات اپریل فول کی خرافات کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ یکم اپریل کو اپریل فول یا جھوٹ کا تہوار، پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے غیرسرکاری طور پر منایا جاتا ہے، اس کو جھوٹوں کی عید بھی کہا جاسکتا ہے، اکثر و بیشتر اس موقع پر جو مذاق کیے گئے ان کے اثرات منفی ہی ظاہر ہوئے اور لوگوں کو نقصان کا سامنا بھی ہوا۔
آپکی تحریر ہمیشہ کی طرح والی تحریر ہے۔ انکے خرافات اپنی جگہہ پر لیکن انکے شوشل پالیسیاں بہت اچھی ہیں
مغربی شوشل پالیسی پاکستان کے پالیسی مسلم ملک کے پالیسیوں سے قدرے بہتر ہے البتہ انسانیت کی قدر جس میں لڑکا لڑکی بہن بھائی ماں باپ میاں بیوی جیسے
پاکیزہ رشتوں کو آزادی کے نام پر خراب کیا ہوا ہے۔
پاکستان نے ابھی تک بیس پچیس سال سے مقیم غیر ملکیوں کو نیشنلٹی نہیں دی، اسی طرح دیگر ملکوں میں یہی حال ہے جبکہ امریکہ، کینیڈا، یورپ یونین والے
پانچ سال ان کے ساتھ نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے رہنے والوں کو نیشنلٹی دے دیتے ہیں اور انکے شوشل سسٹم میں داخل ہوجاتے ہیں۔