اہم نوٹ :
مطالعہ کے لئے وقت کچھ زیادہ تو لگے گا مگر درخواست ہے کہ مکمل مضمون ضرور پڑھئے !! شکریہ !!!
دورِ حاضر اور مغربی تربیت
مضون نگار : محمد طارق غازی
مطالعہ کے لئے وقت کچھ زیادہ تو لگے گا مگر درخواست ہے کہ مکمل مضمون ضرور پڑھئے !! شکریہ !!!
دورِ حاضر اور مغربی تربیت
مضون نگار : محمد طارق غازی
سر ایلن سٹئرSir Alan Steer، ایک سابق ہیڈ ٹیچر، نے تنبیہ کی ہے کہ (انگلستان میں) جو سکول اکثر طلبہ کو دو یا تین ہفتہ کے لئے کلاس سے معطل کر دیتے ہیں انہیں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیئے، کیونکہ وہ بچوں کی شرارتوں کا مسئلہ طے نہیں کرسکے۔۔ ۔۔
سر ایلن نے یہ بھی کہا کہ استادوں کوتادیبی اقدامات، مثلاً شریر بچوں کوچھٹی کے بعد کچھ د یر سکول میں رو کے رکھنے اور ان کے موبائل فون ضبط کرنے کا حق دینے کے لئے قوانین بنائے جائیں۔ ان کے خیال میں اساتذہ کو نئے اختیارات دینے لازم ہیں کیونکہ بہت سے والدین سکولوں میں تادیبی اقدامات کی حمایت کے بجائے ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کچھ سکول قدیم روائتی طرز کے تادیبی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔
- رچرڈ گارنر ، مدیر تعلیم ، بچوں کو شاہی تفریح مہیا کرو، دی انڈ پنڈ نٹ، لندن،انٹرنیٹ اڈیشن، (آزاد اردو ترجمہ: طارق غازی ) منگل 5 مئی 2009
Richard Garner , Education Editor , Give kids a right to royal rollicking , The Independent, LondonTuesday 5 May 2009
آن لائن حوالہ
مجھے لندن کے سکولوں کو پیش آنے والے ڈسپلن کے مسائل پر کچھ نہیں کہنا۔
کہنا یہ ہے کہ یہ مسئلے برطانیہ، امریکہ، کینڈا، ہندستان، پاکستان وغیرہ میں پیدا کیوں ہو رہے ہیں۔
قصور کس کا ہے؟ طلبہ و طالبات کا،ان کے استادوں کا، یا نظام تعلیم اور معاشرہ کی پیداکردہ حماقتوں کا؟
اکثربچے شریر اور بد تمیز ہیں۔ اس میں شک نہیں۔ مگر قصور ان کا نہیں ہے۔استاد تادیبی کارروائی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ذرا کوئی بات ہوئی اور والدین چڑھ دوڑے۔ پھرکتنے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کو اپنے بچوں کی طرح، بلکہ ان سے بھی زیادہ، عزیز رکھتے ہوں۔ طلبہ اور طالبات پر استادوں کا رعب بالکل نہیں رہا۔ ماں باپ یہ رعب قائم نہیں ہونے دیتے۔ ماں باپ کا بھی بچوں پر کوئی رعب دبدبہ نہیں ہے۔ استاد یہ رعب دبدبہ قائم نہیں ہونے دیتے۔
مغربی ملکوں میں والدین بچوں کو چھوڑ کر ہر سال اپنی تفریحوں پر نکل جاتے ہیں، تو بچوں میں ان کی محبت یوم مادر، یوم پدر، یا بہت ہوا تو کرسمس کے موقعہ پر ذرا دیر کو جاگتی ہے۔ اس ہنگامی اظہار تعلق کے بعد وہ معاشرہ میں پھربے مقصد زندگی گزارتے رہتے ہیں۔
امریکہ کی ریاست کولوریڈو کے قصبہ کولمبائن میں 20۔اپریل1999 کو اسی سکول کے دو بچوں ،ایرک ہیرس اور ڈائلان کلیبولڈ، نے جو قتل عام کیا تھا اس کا سبب، واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق،معاشرہ سے ان دونوں بچوں کی نفرت اور شکایات تھیں۔ہیرس کو اپنے والدین سے بھی شکایت تھی ان کے پاس اس کی بات سننے اور اس کے مسائل کے حل سے دلچسپی لینے کا وقت نہ تھا۔یہ بچے استادوں سے بھی مطمئن نہیں تھے۔ ظاہر ہے یہ عام نوعیت کا واقعہ نہیں تھا۔ ایسے بڑے سانحے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔یہ حادثہ امریکہ کی تاریخ میں بھی اتنا بڑا تھا کہ اس کے اسباب و عوامل پر علاقائی سے وفاقی حکومتوں، ابلاغیہ، درسگاہوں تک نے تفتیشی دلچسپی لی۔
مگر کیا ان تمام تمرینوں اور تفتیش و تحقیق کی مشقوں کے بعد کوئی انقلاب آیا، کوئی تبدیلی کی گئی؟
نہیں !!
معاشرہ بھی وہی رہا اور نظام تعلیم بھی۔ذہن بھی وہی اورصورت حال بھی۔
نہ ماں باپ کا رویہ بدلا۔ نہ اساتذہ کے طرز عمل میں فرق پڑا۔نہ نصاب تعلیم کی اصلاح ہوئی۔نہ فلسفہٴ تعلیم پر نظر ثانی کی گئی۔ ہاں جو ہوا وہ یہ کہ کولمبائن حادثہ کی تحقیق و تفتیش کے بعد اس نوعیت کے کئی اور اندوہناک واقعات امریکہ اور کنیڈا کی تعلیم گاہوں میں ہوئے۔ ہر تکلیف دہ اور افسوسناک واقعہ کے بعداخباروں اور ٹیلیوژن اور ریڈیو پر چند روز پھر خبروں کی گرماگرمی رہی اور ذرا کی ذرا میں دوسرے حوادث کی لپٹوں میں اس موضوع کو بار بار موت کی نیند سلایا جاتا رہا۔عمل کی دنیا میں وہی سناٹا لوٹ لوٹ کر آتا رہا۔
کئی سال پہلے کی بات ہے، جدہ، سعودی مملکت، میں ایک دوست کے ہاں افطار پر میں مدعو تھا۔ انہوں ایک اور صاحب کو بھی بلایا تھا جو پیشہ سے ڈاکٹر تھے۔ ان کا ایک بچہ مقامی انڈین ایمبسی سکول میں آ ٹھویں یا نویں کا طالبعلم تھا۔ وہ بھی ہمارے پاس ہی بیٹھا تھا۔ موضوع گفتگو انڈین سکول ہی تھا۔ جدہ کے ہندستانی (خاص طور سے مسلمان) باشندوں کا یہ پسندیدہ موضوع تھا۔ شائد اب بھی ہو۔ اس سکول میں کو ئی بھلائی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اساتذہ میں کوئی صلاحیت نہیں تھی۔
ڈاکٹر باپ مستقل اپنے بچے کے سکول کی مذمت میں زبان آوری کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ اسی دوران انہوں اپنے بچے کے کسی استاد پر تنقید شروع کی۔ بچہ کو شہ ملی اور اس نے کہا:
جی، پاپا،وہ سر توبالکل بے وقوف ہیں!
باپ نے بچے پر ایک تائیدی نظر ڈال کر سلسلۂ کلام جاری رکھا۔
اس وقت مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ میں یہی آٹھویں نویں میں پڑھ رہا تھا۔ چھوٹے بھائی خالد اس وقت پانچویں میں تھے۔ ایک روز ہم دونوں اپنے سکول، ہاشمیہ، کے بارے میں کچھ باتیں کرہے تھے۔ والدہ قریب ہی بیٹھی کسی کام میں مشغول تھیں۔ اسی اثنا میں ایک استاد ، عبداللطیف عارف زادہ صاحب ، کا ذکر نکلا۔ پورے سکول پرلطیف سر کا بڑا رعب تھا۔ وہ ڈسپلن کے بڑے پکے تھے۔بس میرے منہ سے یہ نکلا کہ لطیف سر بہت سخت ہیں۔
یہ سنتے ہی والدہ کی ڈانٹ پڑی ۔ کہا:
شرم نہیں آتی اپنے استادوں کی برائی کرتے ہو۔ یہی سیکھتے ہو سکول میں۔ تم سے اچھے تو وہ جاہل ہیں جو اپنے بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔ ڈوب مرو ایسی باتیں کرتے ہوئے۔
اس دن اتنی شرمندگی ہوئی کہ ہم دونوں پسینہ پسینہ ہوگئے ۔
یہ دو واقعے خود ہندستان میں ایک نسل کی مدت میں پڑ جانے والے فرق کی نشان دہی کرنے کو کافی ہیں !!
یہاں مغرب میں جہاں بعض ممالک میں ہائی سکول تک کی تعلیم مفت اور جبری ہے، اس فرق کو اساتذہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ فطری طور پر اپنے طلبہ طالبات سے عزت و احترام کی توقع رکھتے ہیں مگر، پھر نظام تعلیم اور نظم معاشرہ کی افتاد ان پر بھی ہے۔ جب بچے ان کا احترام نہیں کرتے توظاہر ہے انہیں رنج ہوتا ہے، مگر وہ اس کا سبب نہ جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔اورجان بھی لیں تو معاشرہ کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا۔
ایک ماں اپنی بچیوں کے سکول میں گئی اور ایک بچی کی ٹیچر سے ملی۔ ٹیچر نے بچی کے سامنے ہی کہا کہ اسے ذاتی نام سے مخاطب کیا جاسکتا ہے، مگر ساتھ ہی بچی کی طرف دیکھ کر واضح کیا کہ اسے مسز فلاں ہی کہنا پڑے گا۔ وہ نام لے کر مخاطب نہیں کر سکتی۔
ٹھیک ہے۔ لیکن پھر وہی ٹیچر یا اس کی عمر کی کوئی اور عورت یا مرد اگر کسی سکول جانے والے بچے یا بچی کے ساتھ کسی سٹور میں ساتھ کام کر رہے ہوں تو دونوں ایک دوسرے کو ذاتی نام ہی سے مخاطب کرتے ہیں، مسز فلاں کے طور پر نہیں۔ایک سٹور میں ایک 55 سالہ خاتون فرانس اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی 21 سالہ طالبہ لورینا ساتھ ہی کام کرتی تھیں اور عمر کے اتنے تفاوت کے باوجود ایک دوسرے کو فرا نس اور لورینا ہی پکارتی تھیں۔ دونوں کا درجہ اور کام برابر کا تھا۔ تو بڑائی اور عزت کس بات کی؟
ایک سکول ٹیچر نے کپڑوں کی سٹور میں سیلزکا کام شروع کردیا۔ اب اگر اس ٹیچر کی کوئی طالبہ وہاں آئے گی تو اس کو مسز ہیو کہے گی یا کرسٹین؟ ظاہر ہے دکان پر وہ مسز ہیو نہیں، سب کے لئے صرف کرسٹین ہے۔
یہ سب اس آزادی کا کرشمہ ہے جس کی حدود نئی تہذیب میں متعین نہیں ہیں۔
یہ ان معاشروں کی کہانی ہے جہاں فرق مراتب انتہا پسندانہ مساوات کے سیلاب میں بہہ گیا !
سارے متضاد فلسفے ایک ہی کان سے نکلے ہیں جن پر باقی دنیا میں اس طرح عمل ہوتا ہے جیسے وہ سب کے اعتقادات کا لازمی جزو ہوں، بلکہ ان سے بھی زیادہ۔
یعنی ایک شخص نماز پڑھے بغیر تو مسلمان رہ سکتا ہے، اس مساوات کا اقرار کئے بغیرمہذب دنیا میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔
بندروں کی سی یہ نقالی کبھی کبھی بڑی مضحکہ خیز صورت پیدا کردیتی ہے !!
مغرب میں معاشی نظام ایسا بنایا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کو عموماً ملازمت پر مجبور کرتا ہے۔
اسی لئے یہاں اول تو شادیاں ہی 30-40 سال کی عمر میں ہوتی ہیں، اور شادی کے بعد بھی بچوں کی پیدائش سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ پھر جن کے بچے ہوجاتے ہیں تو ان کے لئے مسئلہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی دونوں کام پر جائیں گے تو بچوں کی نگہداشت کون کرے گا؟
یہ پورے معاشرہ کا مسئلہ تھا تو خود معاشرہ نے اس کا حل ڈھونڈا۔ اس مقصد کے لئے سکول کی باقاعدہ پہلی جماعت سے پہلے دو یا تین سال سکولوں میں شروع کئے گئے جن کو بچوں کا باغ ، یعنی کنڈر گارٹن کہا جاتا ہے۔
کنڈر گارٹن جرمن زبان کا مرکب لفظ ہے۔ پہلے یہ ایک سال کا ہوتا تھا، اب دوسال کی مدت کا ہے۔ اس میں بچوں کو پڑھایا کچھ نہیں جاتا، سوائے اس کے کہ الفابیٹ یاد کروادی، تھوڑی سی گنتی سکھا دی، باقی گانے گوائے جاتے ہیں یا دستکاری کی فضول مشقیں، بچوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے کروائی جاتی ہیں۔
ان کے علاوہ ڈے کیر سینٹر ہوتے ہیں جہاں سند یافتہ عورتیں چھوٹے بچوں کی نگہداشت کرتی ہیں۔ بعض بچے تین گھنٹہ سکول میں گزارنے کے بعد کسی ایسی خاتون کے پاس چلے جاتے ہیں جو ڈے کیر کی ذمہ داری لیتی ہے۔یہ یہاں کی مجبوری ہے۔کیونکہ باپ تو درکنار، ماں کے پاس بھی تین چار سال کے بچے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اب چونکہ مغربی ممالک میں کنڈر گارٹن ہوتا ہے توثابت ہوا کہ ہم نے بھی ایسا نہ کیا توہمارے بچے جاہل رہ جائیں گے اور ہمیں بے تہذیب اور پسماندہ سمجھا جائے گا۔
چنانچہ جدہ کے انڈین اور پاکستانی سکولوں میں بھی کے۔جی۔ جونئر اور سینئر کی کلاسیں شروع کرنا لازم ہوا۔ اس کا سب سے زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کلاسوں میں اُن عورتوں کے بچے جاتے ہیں جو سارا دن گھر میں اکیلی پڑی اینڈتی اور سوتی رہتی ہیں۔ انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا، کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ظاہر میں پڑھی لکھی ہوتی ہیں مگر نہ انہیں کچھ پڑھنے سے دلچسپی ہوتی ہے، نہ سینے پرونے سے۔ کپڑے درزی کے پاس سلواتی ہیں۔ کڑھائی بنائی دقیانوسی اور جاہل عورتوں کے کام تھے۔ ان عورتوں کا واحد مشغلہ یہ ہے کہ شام کو مرد گھر پر آئے تو اس کے ساتھ روزانہ بلاناغہ بازاروں کے چکر لگائیں۔ بس !!
جدہ کے یہ غیر ملکی سکول بھی بچوں کو کنڈر گارٹن میں بھیجنے کی شرط لگاتے ہیں، کیونکہ یہ ان سکولوں کی اضافی آمدنی کا ذریعہ ہے۔
تو بات ان بے شعور ایشیائیوں کی نہیں۔
ان کے ہاں ابھی وہ سب نہیں ہو رہا ہے جو مغربی ملکوں میں اکثر اخباری سرخیوں میں چیختا رہتا ہے۔
مگر وہ سب بھی ہوگا اور چند ہی برس میں ہوگا۔
ترقی تو اسی طرح ہوتی ہے !!
مغربی ممالک میں بہر حال مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر گفتگو ضرور ہو رہی ہے۔ کینڈا میں ایجوکیشن بورڈ میں یہ نکتہ زیر غور آیا کہ بچوں میں اپنے بڑوں کے لئے احترام مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ ئی کہ طلبہ و طالبات میں احترام پیدا کیسے کیا جائے۔
ان کا اصل مسئلہ احترام کا فقدان نہیں بلکہ یہ ہے کہ مروجہ نظام میں کوئی تبدیلی لائے بغیر احترام پیدا ہوجائے۔
وہ نظام کیا ہے ؟؟
ایک سکول سے خبر ملی کہ کے۔ جی۔ جونئر کے ایک لڑکے نے اپنی ایک ہم جماعت سے اظہار عشق کیا :
"مجھے تم اچھی لگتی ہو۔"
بچی کی ایشیائی ماں نے جاکر ٹیچر سے بات کی۔
ٹیچر نے اتفاق کیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔
" یہ بہت قبل از وقت ہے۔ یہ دونوں ابھی کے۔جی۔ جونئرمیں ہیں۔ ہاں پہلی جماعت میں آنے کے بعد ٹھیک ہے۔"
چار سال کا وہ بچہ تو معصوم تھا۔ اسے خبر بھی نہیں تھی وہ کیا کہہ رہا تھا۔ اس نے تو وہی دہرایا تھا جو اس کے گھراور محلہ کے سارے بڑے اس کے سامنے صنف مقابل سے کہتے رہتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ کچھ برملا کرتے رہتے ہیں۔
اس عمر کے بچوں کو خاندان سازی کے عملی پہلو کے بارے میں وہ سب کچھ بتا دیا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہے جس کے سمجھنے کی ان میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
یہاں ایک سکول میں دوسری جماعت کی ٹیچر سے میں نے ایک بارپوچھا کہ:
کیا خیال ہے اگر اس سال کے۔جی۔ کے سارے بچوں کوآٹوا یونیورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگریاں دے دی جائیں۔
وہ اس تجویز کو ایک لطیفہ سمجھ کر ہنسنے لگی۔ مگر مجھے سنجیدہ دیکھ کر وہ بھی سنجیدہ ہوگئی۔
ویل، اس کے لئے بچوں کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔
میں نے کہا :
بالکل درست۔ لیکن اس اصول پر ہر معاملہ میں تو عمل نہیں ہورہا ہے۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ کے۔ جی۔ کی ایک بچی کو ماں اور ایک بچے کو باپ بننے کے لئے بھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ اور جب وہ وقت آئے گا تو ضروری معلومات یا وہ خود حاصل کر لیں گے یا معاشرہ اس وقت کوئی انتظام کر لے گا۔
آپ ہائی سکول کا نصاب پہلی جماعت میں نہیں پڑھاتے کہ ابھی نہ بچوں میں اتنی سمجھ ہے اور نہ اس کا وقت آیا ہے۔
لیکن اسی عمر کے بچوں کو دوسری کچھ باتیں بتا دیتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بھی بالکل اسی طرح قبل از وقت بلکہ احمقانہ ہے جیسے کے۔ جی۔ کے کسی بچہ کو پی ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری دینے پر غور کرنا !!
یہ سادہ باتیں بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔
یہاں ہاتھی کے جسم کے ہر حصہ کو الگ الگ دیکھ کر اس پر رائے قائم کی جاتی ہے۔
اسی لئے اسے مجموعی طور پر ہاتھی ماننا دشوارہوتا ہے۔
بعض معاملات میں منطقی بات پر اصرار کو ایشیائی افریقی کلچر قرار دے کر رد کردیا جاتا ہے جو زیادہ ترقی یافتہ مغربی کلچر کے مقابلہ میں دقیانوسی اور پسماندہ گردانے جاتے ہیں۔
مگر بات پسماندگی اور دقیانوسیت یا ترقی اور آزاد خیالی کی نہیں۔
داخلی تضاد کی ہے۔
اس سے کسے انکار ہے کہ مغربی ممالک میں مغربی کلچر ہی موثر ہے، بلکہ ایشیائی اور افریقی واردان نو کی بڑی تعداد بھی اس کلچر سے متاثر ہے، خصوصاً سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے والی نئی پود۔
بحث اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان بچوں کا طرز عمل ان کے بڑوں اور معاشرہ کے رہنماؤں کے لئے تشویش کا باعث بنتا ہے۔
میں بھی جو بات اس ٹیچر سے کہنا چاہتا تھا وہ یہی تھی کہ:
یا تو نوجوانوں اور بچوں میں پائے جانے والی احترام کی کمی کی شکایت مت کرو یا مسئلہ کو اس کے درست پس منظر میں دیکھو۔
سکولوں میں بچوں کو یہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ تم کسی بھی بات کو ویسے قبول نہ کرو جیسے تمہارے بڑے تمہیں بتا رہے ہیں، بلکہ سوال کرو۔
ہر بات کا ثبوت مانگو، دلیل پوچھو،بحث کرو۔
اور اگر والدین جبراً کوئی بات منوانا چاہیں تو سکول میں آکر بتاؤ۔
یہاں سے بچہ پہلے تو چغل خوری سیکھتا ہے ، پھر اس کے دل سے سب سے پہلے والدین کا احترام ختم ہوتا ہے۔ گھر میں اگر کسی بات پرہلکا سا چپت بھی لگا دیا تو بچہ فوراً سکول میں اس کی خبر کرتا ہے۔ سکول فوراً اس کی اطلاع پولس کو کرتا ہے۔ پولس بلا تاخیر اس گھر پر پہنچ جاتی ہے۔ ماں باپ کو خاموش کردیا جاتا ہے اور تنہائی میں بچوں سے مختلف قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں۔ پھرذرا بھی شبہ ہو توبچوں کو والدین کے پاس نہیں رہنے دیا جاتا۔ پولس والے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ بعد میں والدین پر بچوں سے ملنے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے سخت قوانین اس معاشرہ کی اشد ضرورت ہیں!!
ماں باپ دونوں ہی کام کرتے ہیں۔ شام کو تھکے ہارے آتے ہیں تو اپنی اپنی تفریحوں کے لئے کچھ وقت چاہتے ہیں۔ یا کہیں دوستوں سے ملنے نکل جاتے ہیں، مال چلے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کم سن بچوں بچیوں کے ساتھ بالغ بلکہ بعض اوقات معمر رشتہ داروں کی بے شرمانہ حرکتیں بہت ہیں۔ کبھی کبھی ایسی نازیبا حرکتوں کی خبر ابلاغیہ اور معاشرہ کو اس وقت ہوتی ہے جب وہ بچہ یا بچی خود 30-35 سال کی ہوجائے۔
اس قسم کی صورت حال سے بچنے کے لئے اور ناسمجھ بچوں کے تحفظ کی خاطر یہ نہایت سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔
مگر پھر مسئلہ اپنی جگہ پر ہے۔
اول تو بچوں کے ان بزرگوں کو دس، بیس، تیس سال پہلے یہی سبق تو دیا گیا تھا کہ مرد اور عورت باہمی تفریح کی بس دو مشینیں ہیں۔ زیادہ بے حس لوگ اپنے بچوں کو بھی وہی مشینیں سمجھ بیٹھتے ہیں۔
دوسری طرف کوئی ایسا بچہ جس کاجسمانی استحصال ہوا ہو کسی ایسے بڑے کی عزت کر ہی نہیں سکتا ۔
اور یہ نہ بھی ہوا ہو تو قوانین اور معاشرہ کے طرز کی وجہ سے بچہ کے دل سے ہر بڑے کی عزت ختم ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد جب دفتروں اور دکانوں پر کام کرنے والے عمر کے فرق کا لحاظ کئے بغیر، ساتھی کارکنوں کا نام لے کر پکارتے ہوں تو احترام کہاں رہے گا؟
سب برابر ہیں !!
ظاہر ہے کم سن بچوں کے استحصال کے پیچھے بھی یہی برابری اور مساوات کی نفسیات کام کرتی ہے۔
لوگ اس صورت حال کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔
تجزیہ کاری ان کی تربیت اور تعلیم کا حصہ نہیں ہے !
ایک باپ یا چچا کے لئے بیٹی بھتیجی یا کسی دیگر عورت میں کوئی فرق نہیں۔
ایک خاتون ٹیچر اپنے شاگرد میں معاشرہ کے ہر مرد کا عکس دیکھ سکتی ہے۔ یہی نظریہ جب گمبھیر ہوجائے تو بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
درست ہے کہ یہ عام بات نہیں ہے۔ ایسے واقعات بہت کم ہیں۔ لیکن اگر ہندستان، پاکستان، چین،افغانستان، مصر، عراق، ملیشیا اور سینیگال سے موازنہ کیا جائے تو وہاں کے پیمانوں پر یہ معاشرتی گناہ سنگینی کی حد کو پہنچ چکا ہے !!
ان بڑی باتوں کے علاوہ کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہیں۔
میرے ایک عزیز کا امریکی بیٹا ایک بار مجھ سے ملنے کے لئے آیا۔
عمر میں وہ میرے بیٹے ہی کی سی عمر کا تھا۔ گھر پر آیا تو میں نے مارے شفقت کے اسے سینے سے لگا لیا۔ معانقہ کرتے ہوئے وہ بچہ میری پیٹھ تھپتھپا رہا تھا، جیسے ہمارے معاشروں میں بزرگ اپنے خوردوں کی کمر تھپتھپاتے ہیں۔
وہ بچہ یہیں پیدا ہوا تھا۔ یہیں پلا بڑھا۔ یہیں اس نے تعلیم حاصل کی۔
یہ طرز یہاں کے بچوں کا ہے۔
یعنی ۔۔۔
اگر ان کا کوئی بزرگ محبت شفقت سے ان کی کمر تھپتھپا ئے تو قانون مساوات کی رو سے ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی کمر تھپتھپائیں۔
اور یہ بچے بے تکلف اپنا یہ حق استعمال کرتے ہیں۔
میرے بیٹے کے ایک دوست ایک بار اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ملنے کے لئے آئے۔ اپنے آٹھ سالہ بچے سے انہوں نے کہا، بیٹا انکل کو سلام کرو۔
اب یہ انکل میرا بیٹا بھی تھا اور میں بھی تھا۔ یعنی بچے کے لئے برابر کے درجے کے دو فرد۔
فرماں بردار بچے نے نہ صرف سلام کیا بلکہ مصافحہ بھی کیا۔ جب بچہ اپنے کھیل میں لگ گیا تو میں نے اس کے والد سے کہا کہ جو بچے آج اپنے بڑوں سے مصافحہ کر رہے ہیں وہ اپنے بڑو ں کو اپنے برابر کا تسلیم کر چکے ہیں اور ان سے کوئی بات سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔
کیونکہ اگر میں کسی بچہ کو کچھ سکھا سکتا ہوں تو اس بچہ کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہے کہ وہ بھی مجھے کچھ سکھا سکتا ہے !!
ان میں سے بہت سی باتیں میں نے یہیں آکر جانی ہیں اور کچھ یہاں کے بچوں نے بھی سکھائی ہیں۔
سیلا ب تیزی سے ایشا اور افریقہ کے نشیبوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ابھی پشتے بنانے کا وقت ہے۔
ورنہ وہ تو ہونا ہے جو یہاں ہو رہا ہے۔
اور اس قسم کا جوکچھ یہاں ہورہا ہے وہ نہ یہاں کی ترقی ہے اور نہ یہاں کی ترقی کا سبب۔
اصل بات یہی ہے سمجھنے کی !!!!!!
- محمد طارق غازی ، کینڈا میں مقیم معروف ہندوستانی صحافی/دانشور ہیں ، کئی سال سعودی عرب کے انگریزی روزنامہ "عرب نیوز" کی ادارت سنبھال چکے ہیں۔
یونیکوڈ تحریر کی فراہمی بشکریہ : حیدرآبادی