باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مغربی مساوات اور مساواتِ مرد و زن
مغربی مساوات اور مساواتِ مرد و زن
مغرب نے جو مرد و عورت کے درمیان مساوات کا ڈھنڈورا پیٹا ہے ، وہ بے انتہا غلط تصور ہے۔
مردوں کے درمیان مساوات ایک تسلیم شدہ نظریہ ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن اگر ایک مرد اور دوسرے مرد کے درمیان مساوات کا مطلب یہ ہو کہ ہر میدان میں ہر مرد دوسرے مرد کا مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ نظریہ سراسر بے معنی ہو جائے گا۔
انسانی مساوات کا مطلب اگر کچھ لوگ یہ سمجھ لیں کہ ہر آدمی کو ہر شعبہ میں کام کرنا چاہئے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
اس قسم کی غیر فطری مساوات کا کوئی علم بردار آئن اسٹائن کو ایک ایسی آبادی میں لے جائے گا جہاں صرف باکسرز (boxers ) بستے ہوں اور وہاں وہ آئن اسٹائن کو باکسروں کے ساتھ '' عمل '' میں لگا دے گا۔
ظاہر ہے اس قسم کی مساوات کا نتیجہ صرف غیرمساوات کی صورت میں برآمد ہوگا۔ یونیورسٹی یا سائنس کانفرنس میں جو آئن اسٹائن ٹاپ پر نظر آرہا تھا وہ باکسروں کی مقابلہ گاہ میں کم تر درجے کا انسان بن کر رہ جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مساوات کا مطلب عمل میں مساوات نہیں بلکہ حیثیت میں مساوات ہے۔
مساواتِ انسانی یہ نہیں ہے کہ ہر آدمی وہی کام کرے جو کام دوسرا آدمی کر رہا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہر آدمی کو یکساں عزت ملے ، ہر ایک کو یکساں احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ ہر ایک کے ساتھ یکساں اخلاقی سلوک کیا جائے۔
مرد اور عورت کے معاملے میں مغرب کی غلطی یہی ہے کہ اس نے دو جنسوں کے درمیان مذکورہ بالا قسم کی غیر فطری مساوات قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔
مرد اور عورت کے درمیان تاریخ کی سب سے بڑی عدم مساوات قائم ہو گئی۔
مرد اور عورت دو الگ الگ جنسیں ہیں۔ اور دونوں کی تخلیق الگ الگ مقاصد کے تحت ہوئی ہے۔ دونوں کو اگر ان کی تخلیق کے اعتبار سے ان کے اپنے میدان میں رکھا جائے تو دونوں اپنے اپنے میدان میں مساوی طور پر کامیاب رہیں گے۔
اور اگر مرد اور عورت دونوں کو ایک ہی میدان میں ڈال دیا جائے تو عورت وہ کام نہ کر سکے گی جو مرد اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے زیادہ بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت مرد کے مقابلے میں کم تر درجے کی جنس بن کر رہ جائے گی۔
یہی حال بڑے پیمانے پر مغربی عورت کا ہوا ہے۔ مغرب نے اپنی عورتوں میں یہ مزاج بنایا کہ وہ باہر آکر مردوں کی طرح کمائیں۔ مگر عورت جب گھر سے نکل کر باہر آئی تو اس کو معلوم ہوا کہ موجودہ شعبوں میں وہ مرد کی طرح کام کر کے اپنی قیمت حاصل نہیں کر سکتی ۔ اب کمائی اور آزاد زندگی حاصل کرنے کی خاطر اس کے پاس دوسرا بدل صرف ایک تھا :
یعنی ، اس کا اپنا نسوانی بدن !
اپنے جسم کو بازار کا سودا بنانے کے غیر فطری اور غیر اخلاقی عمل سے عورت کو نام نہاد برابری کا درجہ تو نہیں ملا البتہ اس کے نتیجے میں بیشمار نئے نئے مسائل پیدا ہو گئے۔ ایک مسئلہ وہ ہے جسے عریانیت (pornography) کہا جاتا ہے۔
عریانیت کوئی علحٰدہ مسئلہ نہیں ، بلکہ یہ بے قید آزادی کا وہ لازمی نتیجہ ہے جس کو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا !!
( تحریر : مولانا وحید الدین خاں )