مغرب کی عورت۔۔۔ غزالی فاروق

ktVuEFK.jpg

مغرب میں صدیوں تک عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جاتا رہا ۔ عورت کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ روح تک نہیں رکھتی ۔معاشرے کی ترقی میں ان کے کردار کا تسلسل کے ساتھ انکار کیا جاتا رہا ۔ عورتوں کو تعلیم کی خواہش رکھنے پر گرفتار کیا جاتا تھا ۔ مغرب کی عورت کو اپنے بنیادی ترین حقوق کے حصول کے لیے بھی بہت قربانیاں دینی پڑیں اور بہت سی معاشرتی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ اس کی ایک مثال انتخابات میں ووٹ دینے جیسے ایک بنیادی حق کی ہے جس کے لیے عورتوں نے سفراگیٹ (Suffragette) نام کی ایک تحریک کا آغاز کیا گیا ۔یہ تحریک صرف عورتوں پر مشتمل تھی جسے برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون "ایمیلین پینک ہرسٹ" (Emmeline Pankhurst) کو 1903 ء میں اس برطانیہ میں برپا کرنا پڑا جس کو سیاسی انقلاب کے ذریعے بادشاہت و پاپائیت سے چھٹکارہ حاصل کیے اور جمہوریت کو اپنائے ہوئے کم و بیش 250 سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ اسی طرح برطانیہ میں 1882ء میں اپنی طرز کا پہلا قانون " میریڈ ویمین پراپرٹی ایکٹ " (Married Women Property Act) کے نام سے پاس کیا گیا جس کے بعد سے ایک شادی شدہ عورت کو جائداد اور وراثت کا مالک بننے کا حق حاصل ہوا جبکہ اس سے پہلے یہ حق صرف اس کے شوہر کو حاصل تھا۔ لیکن شروع میں اس نئے قانون کا اطلاق بھی ایک نہایت محدود پیمانے پر تھا یہاں تک کہ اس وقت خود پوری برٹش ریاست پر اس کا اطلاق نہ تھا مثلا۱ً موجودہ اسکاٹ لینڈ کی عورتیں اس حق سے محروم تھیں ۔اور برٹش ایمپائر کی نوآبادیات (colonies) میں بسنے والی عورتوں کو تو ویسے ہی ایسے کسی حق کے قابل نہ سمجھا گیا تھا۔

جبکہ مسلم دنیا میں معاملہ اس کے بالکل بر عکس تھا جہاں عورتیں علم ، تحقیق اور عمل کی دنیا میں مردوں کے شانہ بشانہ تھیں اور ریاستی مشینری کا حصہ بھی تھیں ۔ ام درداء ؓ ایک صحابیہ تھیں جو علم حدیث اور علم فقہ میں نمایاں مقام رکھتی تھیں اور ان علوم میں باقاعدہ دروس منعقد کیا کرتی تھیں۔ وہ اسلامی ریاست کی جانب سے دمشق میں بطور قاضی مامور رہیں۔ ان کے شاگردوں میں عبد الملک بن مروان بن الحکم بھی شامل تھے جو بنو امیہ کے پانچویں خلیفہ بنے۔ اسی طرح تابعین کی جماعت میں حفصہ بنت سیرین ؒ نے فقہ کے علم میں بہت شہرت پائی۔ وہ مشہور تابعی محمد ابن سیرین کی بڑی بہن تھیں جو علم الرویاء میں ایک مستند ترین حوالہ گردانے جاتے ہیں۔ جہاں تک دنیاوی علوم کی بات ہے تو فاطمہ الفہری وہ خاتون تھیں جنہوں نے 244ھ میں مراکش میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی قائم کی ۔جامعۃ القرویین (University of Qarawiyyin) نامی اس یونیورسٹی میں قرآنی علوم ، عربی لغت، ریاضی (mathematics) ، طب (medicine) اور فلکیات (astronomy) جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ یہ یونیورسٹی آج بھی قائم و دائم ہے۔ اسی طرح مریم الاسطرلابی کی تحقیق نے سمت کا پتہ لگانے والے آلات مثلاً ستارہ یاب (astrolabe) وغیرہ کی ترقی میں خاطر خواہ مدد فراہم کی۔ وہ 350 ھ میں شام میں قائم امارت حلب کے امیر سیف الدولہ کے دور حکومت میں باقاعدہ ملازمت پیشہ اور تنخواہ دار تھیں یعنی ایک ورکنگ ویمین (working woman) تھیں ۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی خواتین کے ان گنت حوالے موجود ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب مغرب میں مرد و زن سب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے جبکہ مسلم خواتین علم و عمل کی دنیا میں معرکے سر انجام دے رہی تھیں۔

آج سے صرف 150 سال قبل جو مغرب کی عورت اپنے لیے جائداد اور وراثت کے حقوق کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج تھی تو اسلام نے عورت کو 1400 سال پہلے ہی وراثت اور جائداد کا حق دے دیا تھا۔اسی طرح آج سے صرف 100سال قبل جب مغرب کی عورت ریاست میں اپنی قبولیت کی جنگ لڑ رہی تھی، مسلمانوں میں عورت 1000 سال قبل ریاست کی حفاظت کی جنگ تلوار سے لڑ رہی تھی۔ ایک طرف مغرب کی عورت کو کام کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے بھرپور جدو جہد کرنا پڑی ،تو دوسری جانب اسلام نے اسے پہلے سے ہی کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیا۔

مغرب کے اس گھٹن زدہ اور عورتوں کے ساتھ ظلم پر مبنی ماحول میں مغرب کی عورت نے جب اپنے حقوق کی جنگیں لڑیں تو اس نے ان زیادتیوں کے رد عمل کے طور پر " آزادی" (freedom) اور "جنسی مساوات" (gender equality)جیسے نعروں کو بلند کیا۔ لیکن ان نعروں نے اس کی مشکلات کا خاتمہ کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافہ کیا۔ آزادیٔ نسواں کے نعرےنے عورت کو آزاد کرنے کی بجائے الٹا مرد کو اس معاملہ میں آزاد کر دیا کہ وہ عورت اور اس کے پیدا کردہ بچوں کی مستقل ذمہ داری کو اٹھائے بغیر اسے اپنی جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتا رہے۔ جبکہ اسلام میں شادی کے بندھن میں جڑے بغیر اور پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری اٹھائے بغیر ایک مرد کو کسی عورت سے جنسی تسکین پوری کرنے کی کوئی اجازت نہیں ۔ لہٰذا اسلام نے عورت کے حقوق کے تحفظ کی خاطر مرد پر چند پابندیاں عائد کیں ہیں۔ پھر جنسی مساوات کے نعرے نے عورت پر خود کمانے کی ایک اضافی ذمہ داری عائد کی جبکہ بچے پالنے کی ذمہ داری اس پر پہلے سے ہی موجود تھی۔ لہٰذا اس نعرے نے عورت کی ذمہ داریوں کو مرد کی ذمہ داریوں کے برابر لانے کی بجائے عورت پر مرد کے مقابلے میں دوہری ذمہ داری عائد کی ۔ اس کے برعکس اسلام کی رو سے عورت بنیادی طور پر گھر کے امور کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی ذمہ دار ہے جبکہ ذریعۂ معاش کے لیے کام کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ اور مرد کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کی معاشی ضروریات کو پورا کرے۔ یوں دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور اسلامی نظام کے تحت ایک منفرد معاشرہ تخلیق پاتا ہے۔ کردار کی یہ تقسیم کسی ایک کو دوسرے سے اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں بناتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو برتر صرف وہ ہے جو زیادہ متقی و پرہیز گار ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

مغرب کی عورت نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے "آزادی" اور " جنسی مساوات" کے جن باطل تصورات کو اختیار کیا اس نے عورت کا مزید استحصال کیا اور اسے مغرب کے موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں میں بھی #MeToo سے بڑھ کر کچھ حاصل نہ ہو پا یا ۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ انسان کی عقل معاشرے میں مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کا درست اعتبار سے تعین اور احاطہ کرنے کے معاملہ میں محدود ہے ۔ معاشرے میں مرد و عورت کے کردار کے درست توازن کا علم صرف اس ہستی کو ہو سکتا ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو محض تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ ان کے لئے مخصوص کردار کا تعین بھی کر دیا ہے اور اس معاملہ کو انسان کی ناقص عقل پر نہیں چھوڑا کہ وہ بھٹکتا پھرے اور صرف اسی عدم تعین کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتا رہے ۔

موجودہ نظام " عورت مارچ " جیسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر پاکستان کے مسلمانوں کو بھی مغرب کی ڈگر پر چلانا چاہتا ہے ، جس نے انسان کی فطرت کو مسخ کر کے معاشرے کو " آزادیوں" پر استوار کرنے کی کوشش کی اور معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔جبکہ انسان کی فطری حیثیت یہ نہیں کہ وہ آزاد ہے جیسا کہ مغرب پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر انسان کو اس جبلت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ رشتوں کی ذمہ داریوں کا احساس کرتا ہے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

آج مسلم معاشروں میں عورتوں کو درپیش مسائل کی وجہ اسلام کے احکامات نہیں بلکہ مغرب کا عطا کردہ "آزادیوں " پر مبنی بوسیدہ اور غیر فعال سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اور اس کا حل مغرب کی نقالی کرنا نہیں کہ جہاں معاشرہ اور خاندان اطمینان اور حقیقی خوشی کی دولت سے محروم ہیں، جہاں خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، چرس، کوکین اور دیگر منشیات سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ڈرگز ہیں اور ڈپریشن کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ بلکہ اسلام کے معاشرتی احکامات کا نفاذ ہی ایک پاکیزہ اور مہذب معاشرے کو جنم دے سکتا ہے جہاں عورت کی شناخت ایک عفت و آبرو اور فعال شہری کی ہو تی ہے ، اسے کاروباری شے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اور مرد و عورت دونوں اپنی تمام جسمانی اور جبلی ضروریات کو شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے پورا کر پاتے ہیں۔

بلاگ: غزالی بلاگ
ای میل: ghazalifarooq.columnist@gmail.com
ٹوئیٹر: https://twitter.com/GhazaliFarooq8
 

حسرت جاوید

محفلین
جب دو ایک جیسی جنس میں تقابل کیا جاتا ہے تو پیمانہ ہمیشہ غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے درج ذیل گذارشات پیش ہیں۔
1. جب آپ مغرب کی عورت پہ بات کرتے ہیں تو محض عورت پہ بات کرتے ہیں، مذہب پہ نہیں لیکن جیسے ہی آپ مغرب سے ہٹ کر اپنے معاشرے پہ بات کرتے ہیں تو پھر بات مذہب (اسلام) کے گرد گھومتی ہے، عورت پہ نہیں۔ یہ دونوں الگ چیزیں ہیں کہ مذہب نے کیا حقوق دیے اور معاشرے نہ کیا حقوق دیے۔ جہاں تک بات مذہب کی ہے تو عیسائیت بھی الہامی مذہب ہے اور اس نے بھی عورت وہی حقوق دیے ہیں جو اسلام نے دیے ہیں۔ جہاں تک بات عورت کی ہے کہ آیا معاشرے نے حقوق دیے ہیں یا نہیں تو اس کا رجحان ہر معاشرے میں بلا تفریق مذہب مختلف ہے۔
2. جب آپ عورت کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں تو پیش کرتے وقت زمانہ ایک ہونا چاہیے نہ کہ جب آپ مغرب کی بات کریں تو وہ دور کوئی اور ہو اور جب آپ اپنے معاشرے پہ بات کریں تو دور مختلف ہو۔ اس طرح جائزہ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے منطقی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ہر دور میں ہر معاشرے میں رجحانات مختلف ہیں اس لیے یورپ کی دو تین صدی پہلے والے معاشرے میں عورت کو دیے گئے حقوق اور مسلم معاشروں میں ہزار سال پہلے دیے گئے حقوق کا اصولی طور پر تقابل درست نہیں۔ پیمانہ ایک ہونا چاہیے یعنی دونوں کا موازنہ ایک ہی دور میں ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ماضی کے ادوار کے تقابلی جائزہ سے بھی یہ نتائج اخذ کرنا درست نہیں کہ موجودہ زمانے میں کون سا معاشرہ بہتر حقوق دے رہا ہے یا کون سا مذہب منطقی لحاظ سے حقیقت کے قریب تر ہے۔
 

ہانیہ

محفلین
۔ جہاں تک بات مذہب کی ہے تو عیسائیت بھی الہامی مذہب ہے اور اس نے بھی عورت وہی حقوق دیے ہیں جو اسلام نے دیے ہیں۔

عیسائیت کے بارے میں تو علم نہیں۔۔۔آپ سے ہی یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ وہی حقوق ہیں جو اسلام نے دئیے۔۔۔تو یہ حقوق تو پھر خدا کی طرف سے ہی ہوئے۔۔۔۔ ساری الہامی کتابیں اللہ کی ہی طرف سے ہیں۔۔۔قرآن تو سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔۔۔ سارے انبیاء علیہم السلام ایک ہی جیسا پیغام لے کر آئے۔۔۔ہر قوم کی حالت مختلف رہی ہے۔۔۔ چناچہ اس کے مطابق الگ شریعت دی گئی۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
2. جب آپ عورت کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں تو پیش کرتے وقت زمانہ ایک ہونا چاہیے نہ کہ جب آپ مغرب کی بات کریں تو وہ دور کوئی اور ہو اور جب آپ اپنے معاشرے پہ بات کریں تو دور مختلف ہو۔ اس طرح جائزہ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے منطقی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ہر دور میں ہر معاشرے میں رجحانات مختلف ہیں اس لیے یورپ کی دو تین صدی پہلے والے معاشرے میں عورت کو دیے گئے حقوق اور مسلم معاشروں میں ہزار سال پہلے دیے گئے حقوق کا اصولی طور پر تقابل درست نہیں۔ پیمانہ ایک ہونا چاہیے یعنی دونوں کا موازنہ ایک ہی دور میں ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ماضی کے ادوار کے تقابلی جائزہ سے بھی یہ نتائج اخذ کرنا درست نہیں کہ موجودہ زمانے میں کون سا معاشرہ بہتر حقوق دے رہا ہے یا کون سا مذہب منطقی لحاظ سے حقیقت کے قریب تر ہے۔

مسلمانوں کے لئے دور کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔۔۔۔مسلمان چودہ سو سال پہلے کی بات اس لئے کرتے ہیں کیونکہ اسلام کے حساب سے چلتے ہیں۔۔۔۔ہاں شریعت کے اصول سمجھنے میں فرق ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن بنیادی باتیں وہی رہتی ہیں ۔۔۔ہاں بہت جگہ پر حقوق دبا دئیے جائیں۔۔۔ وہ الگ بات ہے۔۔۔۔لیکن مسلمان آخر میں مذہب کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔۔۔
 
جب دو ایک جیسی جنس میں تقابل کیا جاتا ہے تو پیمانہ ہمیشہ غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے درج ذیل گذارشات پیش ہیں۔
1. جب آپ مغرب کی عورت پہ بات کرتے ہیں تو محض عورت پہ بات کرتے ہیں، مذہب پہ نہیں لیکن جیسے ہی آپ مغرب سے ہٹ کر اپنے معاشرے پہ بات کرتے ہیں تو پھر بات مذہب (اسلام) کے گرد گھومتی ہے، عورت پہ نہیں۔ یہ دونوں الگ چیزیں ہیں کہ مذہب نے کیا حقوق دیے اور معاشرے نہ کیا حقوق دیے۔ جہاں تک بات مذہب کی ہے تو عیسائیت بھی الہامی مذہب ہے اور اس نے بھی عورت وہی حقوق دیے ہیں جو اسلام نے دیے ہیں۔ جہاں تک بات عورت کی ہے کہ آیا معاشرے نے حقوق دیے ہیں یا نہیں تو اس کا رجحان ہر معاشرے میں بلا تفریق مذہب مختلف ہے۔
2. جب آپ عورت کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں تو پیش کرتے وقت زمانہ ایک ہونا چاہیے نہ کہ جب آپ مغرب کی بات کریں تو وہ دور کوئی اور ہو اور جب آپ اپنے معاشرے پہ بات کریں تو دور مختلف ہو۔ اس طرح جائزہ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے منطقی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ہر دور میں ہر معاشرے میں رجحانات مختلف ہیں اس لیے یورپ کی دو تین صدی پہلے والے معاشرے میں عورت کو دیے گئے حقوق اور مسلم معاشروں میں ہزار سال پہلے دیے گئے حقوق کا اصولی طور پر تقابل درست نہیں۔ پیمانہ ایک ہونا چاہیے یعنی دونوں کا موازنہ ایک ہی دور میں ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ماضی کے ادوار کے تقابلی جائزہ سے بھی یہ نتائج اخذ کرنا درست نہیں کہ موجودہ زمانے میں کون سا معاشرہ بہتر حقوق دے رہا ہے یا کون سا مذہب منطقی لحاظ سے حقیقت کے قریب تر ہے۔

آپ کی جانب سے اپنی آراء پیش کرنے کے لیے نہایت مشکور ہوں۔ اس آرٹیکل سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ عورت کے جو حقوق ہونے چاہئیں وہ اسلام نے ہزار سال پہلے ہی متعین کر دیے تھے اور ہر دور کے لیے یہ حقوق ایسے ہی ہونے چاہئیں کیونکہ عورت کی جنس اور وہ فطرت کہ جس پر اسلام کے شارع نے اسے پیدا کیا وہ تبدیل نہیں ہوئی۔

جبکہ مغرب میں اس میں تغیر و تبدل ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا کیونکہ اس کا پیمانہ محض انسانی خواہشات کی تکمیل ہے۔ انسانی تعلقات کو منظم کرنے کے لیے مغرب کے ان تجربوں نے مغربی معاشرے کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے نتائج انسانیت کے لیے بھیانک ہیں۔ اور اب مسلمانوں کے ممالک کے معاشرے بھی انہی تجربوں کی زد میں ہیں۔

لہٰذا اس معاملے میں حل مغرب کی اندھی تقلید نہیں بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کی جانب رجوع میں مضمر ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
عیسائیت کے بارے میں تو علم نہیں۔۔۔آپ سے ہی یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ وہی حقوق ہیں جو اسلام نے دئیے۔۔۔تو یہ حقوق تو پھر خدا کی طرف سے ہی ہوئے۔۔۔۔ ساری الہامی کتابیں اللہ کی ہی طرف سے ہیں۔۔۔قرآن تو سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔۔۔ سارے انبیاء علیہم السلام ایک ہی جیسا پیغام لے کر آئے۔۔۔ہر قوم کی حالت مختلف رہی ہے۔۔۔ چناچہ اس کے مطابق الگ شریعت دی گئی۔۔۔
نقطہ یہ ہے مس ہانیہ کہ مذہب نے تو حقوق و فرائض کا تعین کر دیا وہ چاہے عیسائیت ہو یا اسلام لیکن کیا معاشرتی سطح پہ عورت کو وہ حقوق مل رہے ہیں یا نہیں۔
 

حسرت جاوید

محفلین
مسلمانوں کے لئے دور کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔۔۔۔مسلمان چودہ سو سال پہلے کی بات اس لئے کرتے ہیں کیونکہ اسلام کے حساب سے چلتے ہیں۔۔۔۔ہاں شریعت کے اصول سمجھنے میں فرق ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن بنیادی باتیں وہی رہتی ہیں ۔۔۔ہاں بہت جگہ پر حقوق دبا دئیے جائیں۔۔۔ وہ الگ بات ہے۔۔۔۔لیکن مسلمان آخر میں مذہب کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔۔۔
مسلمان ہوں یا عیسائی، دونوں ہی اپنے اپنے مذہب کے پابند ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عورت کے حقوق کے معاملے میں یہ کس قدر پابند رہے ہیں۔ جو حقوق مذہب نے عورت کو دینے کی بات کی ہے، کیا حقیقی معنوں میں اس کے ماننے والے معاشرے میں وہ حقوق دے بھی رہے ہیں یا نہیں۔ یہ رجحان ہر دور میں دونوں مذاہب کے معاشروں میں مختلف رہا ہے لیکن جب ہم دوں ہم جنس چیزوں کا موازنہ کرتے ہیں تو لازم ہے کہ ادوار ایک ہوں وگرنہ موازنہ غیر جانبدار نہیں ہو گا۔
 

حسرت جاوید

محفلین
آپ کی جانب سے اپنی آراء پیش کرنے کے لیے نہایت مشکور ہوں۔ اس آرٹیکل سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ عورت کے جو حقوق ہونے چاہئیں وہ اسلام نے ہزار سال پہلے ہی متعین کر دیے تھے اور ہر دور کے لیے یہ حقوق ایسے ہی ہونے چاہئیں کیونکہ عورت کی جنس اور وہ فطرت کہ جس پر اسلام کے شارع نے اسے پیدا کیا وہ تبدیل نہیں ہوئی۔

جبکہ مغرب میں اس میں تغیر و تبدل ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا کیونکہ اس کا پیمانہ محض انسانی خواہشات کی تکمیل ہے۔ انسانی تعلقات کو منظم کرنے کے لیے مغرب کے ان تجربوں نے مغربی معاشرے کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے نتائج انسانیت کے لیے بھیانک ہیں۔ اور اب مسلمانوں کے ممالک کے معاشرے بھی انہی تجربوں کی زد میں ہیں۔

لہٰذا اس معاملے میں حل مغرب کی اندھی تقلید نہیں بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کی جانب رجوع میں مضمر ہے۔
محترم غزالی صاحب عورت کو جو حقوق ملنے چاہئیں وہ اسلام سے کئی عرصہ پہلے عیسائیت میں بھی موجود رہے ہیں۔ آپ اگر مغرب کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہوں تو یہ بات آپ کے لیے نئی نہیں ہونی چاہیے کہ مغرب میں سترہویں صدی تک عیسائیت کا کنٹرول رہا ہے اور اب بھی معاشرتی سطح پر وہاں عیسائیت موجود ہے۔ 1618 سے 1648 تک تیس سال کی مذہبی خانہ جنگی کے بعد حکومتی سطح پر مذہب کو حکومتی نظم و نسق سے الگ کیا گیا۔ یہ تاثر کہ مغرب ہمیشہ سے لا دین رہا ہے یا خواہشات کی تکمیل کے پیچھے رہا ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔ اب سوال یہاں یہ ابھرتا ہے کہ پھر مغرب میں عورت اپنے حقوق کے لیے کیوں کھڑی ہوئی جبکہ مذہب نے تو حقوق دینے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی؟ اس سوال کا جواب معاشرتی ثقافت میں موجود ہے۔ معاشرہ ہمیشہ مکمل طور پر مذہب کے مطابق نہیں چلتا، وہ زیادہ تر اپنے مفادات کے پیشِ نظر چلتا ہے۔ اگر مغرب کی عورت کو ان کے متعین کردہ حقوق شروع سے مل رہے ہوتے تو انہیں اتنی جد و جہد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بالکل یہی صورتحال اسلامی معاشروں میں بھی ہے کہ جو حقوق مذہب نے متعین کیے ہیں وہ مکمل تو دور کی بات ان کا دس فیصد بھی عورت کو نہیں مل رہا۔ جائیداد میں حصہ نہ دینا، تعلیم سے دور رکھنا، ماں باپ کا شادی کے لیے زبردستی اور بلیک میل کرنا، شوہر کا گھریلو جبر کرنا، کیا یہ سب ہمارے معاشرے میں نہیں ہے یا نہیں رہا ہے؟ کیا اسلام ان سب کی اجازت دیتا ہے؟ معاشرہ چاہے مغرب ہو یا مشرق، مذہبی ہو یا غیر مذہبی ہر ذی روح کو اس کے بنیادی انسانی حقوق ملنے چاہئیں۔ میری ذاتی رائے میں آپ کا مغرب کو لادینی کے تصور کے تحت عورت کے حقوق کا مقابلہ اسلامی معاشروں سے کرنا انتہائی جانبدار ہے جو اس حقیقت کا بھی مظہر ہے کہ آپ اسلامی اور عیسائی معاشروں اور بالخصوص مغرب کی تاریخ اور معاشرتی رجحانات سے شاید اس قدر واقف نہیں ہیں اور اسی پرسیپشن پہ چل رہے ہیں جو معاشرے میں عمومی طور پر کسی قوم کے متعلق قائم ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

ہانیہ

محفلین
نقطہ یہ ہے مس ہانیہ کہ مذہب نے تو حقوق و فرائض کا تعین کر دیا وہ چاہے عیسائیت ہو یا اسلام لیکن کیا معاشرتی سطح پہ عورت کو وہ حقوق مل رہے ہیں یا نہیں۔

مسلمان ہوں یا عیسائی، دونوں ہی اپنے اپنے مذہب کے پابند ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عورت کے حقوق کے معاملے میں یہ کس قدر پابند رہے ہیں۔ جو حقوق مذہب نے عورت کو دینے کی بات کی ہے، کیا حقیقی معنوں میں اس کے ماننے والے معاشرے میں وہ حقوق دے بھی رہے ہیں یا نہیں۔ یہ رجحان ہر دور میں دونوں مذاہب کے معاشروں میں مختلف رہا ہے لیکن جب ہم دوں ہم جنس چیزوں کا موازنہ کرتے ہیں تو لازم ہے کہ ادوار ایک ہوں وگرنہ موازنہ غیر جانبدار نہیں ہو گا۔

جی میں آپکا پوائنٹ پہلے نہیں صحیح طرح سمجھی تھی۔۔۔۔ آپکا کہنا صحیح ہے کہ معاشرے نے حقوق صحیح طرح نہیں دئیے۔۔۔حقوق دینا ہمیشہ مختلف رہا ہے۔۔۔
 
محترم غزالی صاحب عورت کو جو حقوق ملنے چاہئیں وہ اسلام سے کئی عرصہ پہلے عیسائیت میں بھی موجود رہے ہیں۔ آپ اگر مغرب کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہوں تو یہ بات آپ کے لیے نئی نہیں ہونی چاہیے کہ مغرب میں سترہویں صدی تک عیسائیت کا کنٹرول رہا ہے اور اب بھی معاشرتی سطح پر وہاں عیسائیت موجود ہے۔ 1618 سے 1648 تک تیس سال کی مذہبی خانہ جنگی کے بعد حکومتی سطح پر مذہب کو حکومتی نظم و نسق سے الگ کیا گیا۔ یہ تاثر کہ مغرب ہمیشہ سے لا دین رہا ہے یا خواہشات کی تکمیل کے پیچھے رہا ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔ اب سوال یہاں یہ ابھرتا ہے کہ پھر مغرب میں عورت اپنے حقوق کے لیے کیوں کھڑی ہوئی جبکہ مذہب نے تو حقوق دینے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی؟ اس سوال کا جواب معاشرتی ثقافت میں موجود ہے۔ معاشرہ ہمیشہ مکمل طور پر مذہب کے مطابق نہیں چلتا، وہ زیادہ تر اپنے مفادات کے پیشِ نظر چلتا ہے۔ اگر مغرب کی عورت کو ان کے متعین کردہ حقوق شروع سے مل رہے ہوتے تو انہیں اتنی جد و جہد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بالکل یہی صورتحال اسلامی معاشروں میں بھی ہے کہ جو حقوق مذہب نے متعین کیے ہیں وہ مکمل تو دور کی بات ان کا دس فیصد بھی عورت کو نہیں مل رہا۔ جائیداد میں حصہ نہ دینا، تعلیم سے دور رکھنا، ماں باپ کا شادی کے لیے زبردستی اور بلیک میل کرنا، شوہر کا گھریلو جبر کرنا، کیا یہ سب ہمارے معاشرے میں نہیں ہے یا نہیں رہا ہے؟ کیا اسلام ان سب کی اجازت دیتا ہے؟ معاشرہ چاہے مغرب ہو یا مشرق، مذہبی ہو یا غیر مذہبی ہر ذی روح کو اس کے بنیادی انسانی حقوق ملنے چاہئیں۔ میری ذاتی رائے میں آپ کا مغرب کو لادینی کے تصور کے تحت عورت کے حقوق کا مقابلہ اسلامی معاشروں سے کرنا انتہائی جانبدار ہے جو اس حقیقت کا بھی مظہر ہے کہ آپ اسلامی اور عیسائی معاشروں اور بالخصوص مغرب کی تاریخ اور معاشرتی رجحانات سے شاید اس قدر واقف نہیں ہیں اور اسی پرسیپشن پہ چل رہے ہیں جو معاشرے میں عمومی طور پر کسی قوم کے متعلق قائم ہوتی ہے۔

محترم حسرت صاحب، آپ کے تجزیے کے لیے نہایت مشکور۔ لیکن آپ شائد بھول رہے ہیں کہ مغرب میں عورت کو حقوق نہ تحریف شدہ عیسائی مذہب میں ملے نہ ریاست کے مذہب سے علیحدگی (سیکولرزم) میں۔ تحریف شدہ عیسائیت میں جو "اوریجنل سن" کا تصور ہے اس کے تحت عورت کو اس بات کا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس کے آدم کو بہکانے کی وجہ سے ہی انسان کو سزا کے طور پر جنت سے زمین پر اتارا گیا۔ لہٰذا تحریف شدہ عیسائیت میں ہمیشہ عورت کو مرد کے مقابلہ میں تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا اور یہ مغربی معاشرے میں سرایت کر گیا۔ پھر جب مغرب نے مذہب سے بیزار ہو کر "آزادیوں" کی فکر کو اپنایا تو مغرب کی عورت کو معاشرے میں تحریکیں برپا کرنی پڑیں ان حقوق کے حصول کے لیے جو اسے ابھی تک اپنے معاشرے میں حاصل نہ تھے۔ لیکن مطلق شخصی آزادی کی اس فکر نے عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے الٹا اس کا مزید استحصال کیا جس کی بعض مثالیں اس مضمون میں پیش کی گئی ہیں۔

ایسا اس لیے ہوا چونکہ عورت کے معاشرے میں کردار پر مبنی تحریف شدہ عیسائیت اور پھر سیکولرزم میں کوئی ہدایت موجود نہ تھی۔ معاشرے میں مرد اور عورت کے درست کردار اور توازن کو اس سے بہتر کون جان سکتا ہے جو ان دونوں کا خالق بھی ہے۔ لہٰذا اسلام نے ان دونوں کے کردار کا صحیح صحیح تعین کر دیا ہے۔ اور مسلمانوں کی تاریخ میں عورتوں کا بھرپور کردار اسلام میں ان کے بہترین حقوق ہونے کا شاہد بھی ہے۔ لیکن آج مسلمانوں کے معاشروں میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام نے دیئے ہیں۔ اس کی وجہ اسلام کا عدم نفاذ، نظاموں میں انگریز کے باقیات کا بدستور نفاذ اور مغرب کی باطل افکار کا مسلم معاشروں میں عام ہونا ہے۔

مسلم معاشروں میں عورت کے حقوق کا تحفظ مغرب کی تقلید میں "شخصی آزادی" اور "میرا جسم میری مرضی" جیسے نعروں میں نہیں بلکہ اسلامی نظام کی جانب رجوع کرنے میں پنہاں ہے۔ اور یہی اس مضمون کا نچوڑ بھی ہے۔ امید ہے میں اپنی بات کو واضح طور پر بیان کر پایا ہوں۔ جزاک اللہ خیراً
 
Top