مغرور محاورے
حشم رمضان کے قلم سے
محاورے زبان کی قدروقیمت متعین کرتے ہیں ۔ جو زبان جس قدر وسیع ہوگی اس میں محاوروں کی اسی قدر بہتات ہوگی ۔ محاروے کیا ہیں ، گویا دریا بند کوزے ہیں ۔ ان میں ایک جہانِ معنی آباد ہوتا ہے ۔ محاوروں نے اظہارِ بیان کو جامعیت بخشی ہے ۔ اگر یہ جز و بیان نہ ہوں تو بیانِ حال میں زبان کو سخت دشواری پیش آئے ۔ کسی حال کی سچائی اور پرتاثر ترجمانی جو محض ایک محاورہ سے ممکن ہے لفظوں ، استعاروں اور تشبیہوں کی قطار سے ممکن نہیں ۔ گویا محاروے پھیلتی ہوئی زبان کی تلخیص ہیں جو زبان ان تلخیصات سے مالا مال ہو اس کی قدرتِ بیان کا کیا کہنا ۔حشم رمضان کے قلم سے
اردو زبان السنہء مختلفہ کے الفاظ محاورات ، ضرب الامثال تواردو میں بعینہ اپنی شکل میں ہی مستعمل ہیں ۔ کچھ معمولی تبدل و تغیر کے ساتھ اور کچھ یکسر ترجمہ ہوکر ۔ ایک موضوع پر بیسیوں محاورے اردو میں رائج ہیں اور سب کا محلِ صرف بھی ایک ہی ہے ۔ اس سے اس زبان کی ہمہ گیری اور وسعت کا پتہ چلتا ہے ۔
لیکن اردو محاوروں کی یہ رنگارنگی اس قدر رنگ لائی کہ کچھ لوگوں نے بزعم خود ، خود ساختہ محاوروں کو بھی عنصر زبان بنانے کی کوشش کرڈالی اور کچھ لوگوں نے نادانستہ اپنی کم علمی کے سبب محاوروں کو توڑ مروڑ کر استعمال کرنا شروع کردیا جس سے محاروں کا استناد مشتبہ ہوگیا ۔ یوں تو محاوروں کے استعمال میں خود یوپی اور دہلی کے لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ایک ہی محاورہ کہیں کچھ بولا جاتا ہے اور کہیں کچھ ۔ لیکن مفہوم میں فرق نہیں ہوتا ۔ لہذا ہم انھیں محاروں کو مستند خیال کرتے ہیں جنہیں اہل زبان نے وضع کئے ہیں اور ہم انہیں استعمال کردہ فقرے ، جملے یا اشعار سے محاروں کا استناد کرتے ہیں ۔
محاورے چونکہ جزو بیان ہیں اس لیے اردو کے تقریباً تمام شعراء نے اردو کے رائج محاورے اپنے اشعار میں کہیں نہ کہیں ضرور باندھے ہیں ۔لیکن ہم یہاں صرف ان متقدین اور متوسطین شعراء اردو کے کلام پیش کریں گے جو سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ زیر نظر مضمون جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ہم صرف وہی اشعار پیش کریں گے جن میں غرور کا مفہوم ادا کرنے والے محاورے استعمال کئے گئے ہیں ۔ غرور سے متعلق محاورے تو بے شمار ہیں ۔ اگر سب کا احاطہ کیا گیا تو مضمون طوالت اختیار کر جائے گا ۔ سردست ہم کچھ مخصوص محاروں پر ہی اکتفا کرتے ہیں جنہیں شعراء نے اپنے زور بیان سے لافانی بنادیا ہے ۔
ان اشعار کو پیش کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہی نہیں کہ محاروں کی صحیح محلِ استعمال سمجھا جائے بلکہ یہ بھی دکھانا مقصود ہے کہ شعراء نے رعایت لفظی سے کام لے کر مفہوم کو کتنا دلکش اور محاوروں کو کتنا جاذبِ نظر بنا دیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آج کا قاری ان اشعار کی افادیت سے یکسر انکار کردے اور انہیں قطعی قابل اعتنا نہ سمجھے کیونکہ یہ اشعار محض تفریح طبع کے لیے کہے گئے ہیں ۔ پھر بھی ہمیں کامل یقین ہے کہ ان اشعار کی پذیرائی فی زمانہ ہوتی رہے گی ۔ اور یہ محض اس لیے کہ ان محاوروں میں وہ جادو بھرا ہے جو سر چڑھ کر بولے گا ملاحظہ فرمائیں ۔
آسمان پر دماغ ہونا:
فقیری میں بھی اے دل آسماں پر ہے دماغ اپنا
گدائی بھی کریں تو لے کے کاسہ ماہِ کامل (وزیر)
بل کی لینا:
زلف کے پیچ سے نہیں آگاہ
بل کی لیتے ہیں آپ گھر بیٹھے (عاشق)
زمین پر پاؤں نہ رکھنا :
اترا رہا ہے عطر سے عیش و نشاط کے
سچ ہے زمیں پہ پاؤں رکھے کیونکر آسماں (ذوق)
آسمان پر کھینچنا:
کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میر آپ کو
جانا جہاں سے سب کو مسلم ہے زیر خاک
(میر)
آسماں پر ہونا:
کچھ بھی مناسبت ہے ، یاں عجز واں تکبر
وہ آسمان پر ہے میں ناتواں زمیں پر (میر)
بل ہونا:
کیوں نہ پلکیں ہوں جفا کار جو آفت ہوں بھویں
بل ہے تیروں کو کمانوں کی تونائی کا (آتش)
اَپھر جانا:
گل تنگ حوصلہ تھا نہ دولت بچا سکا
سونے کا ایک کھا کے نوالہ اَپھر گیا (بحر)
آنکھوں میں چربی چھا جانا:
روبرو اس شمعرو کے بزم میں کیوں آگئی
شمع کافوری کی آنکھوں میں یہ چربی چھا گئی (رند)
سر اٹھا کر چلنا:
سر اٹھا کر جو چلا اس دشتِ وحشت خیز میں
پار تلوے سے وہیں خارِ مغیلاں ہوگیا (ناسخ)
پنجوںکے بھل چلنا ، جامے سے باہر نکلنا:
جوتا نیا پہن کے وہ پنجوں کے بھل چلے
کپڑے پہن کے جامے سے باہر نکل پڑے
(بحر)
دماغ فلک پر پھونچنا:
دل اپنا ہوا بھی دریا جو وہ گہر مل جائے
دماغ پہونچے فلک پر جو وہ قمر مل جائے