چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
شیخ سعدی ؒ گلستان سعدی میں فرماتے ہیں کہ "میں نے سنا کہ ہندوستان میں سومناتھ شہر میں ایک بت ہے ، جو حرکت کرتا ہے اور اپنے پجاریوں کے سامنے دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔" سعدیؒ جیسی طبیعت اور مزاج رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اس بات سے مہم جوئی اور سیاحت کی حس کیسے جاگ اٹھتی ہے اور پھر سلیپنگ پلز کھا کے بھی نہیں سوتی ، جیسے غالبؔ کا رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہیں ہوتا۔ شیخ سعدیؒ کے مطابق، انہوں نے رخت سفر باندھ لیا، اور جا پہنچے ہندوستان میں سومناتھ ۔ (تفصیل گلستان سعدیؒ میں ملاحظہ ہو) مگر ہندوؤں کا متبرک ترین مقام ہو اور ایک مسلمان کو وہاں گھسنے دیا جائے، یہ ناممکن تھا ۔ مگریہ کوئی اور نہ تھا شیخ سعدیؒ تھے، جنہوں نے ایک سنی سنائی بات پر یقین کرنے کی بجائے تحقیق کیلئے خود اتنا مشکلوں بھرا سفر کیا ۔ اب بھلا وہ کیسے لب ِ بام سے واپس جا سکتے تھے ۔شیخ سعدیؒ اگر پاکستان میں پیدا ہوئے ہوتے تو یقیناً حاجیوں کی طرح گھر سے حج کا کہہ کے نکلتے اور کراچی تک جا کر کسی نلکے سے آبِ زم زم بھر تے ، 5 ، 7 کلو کھجوریں خریدتے ، دس ، بارہ تسبیح ، ایک ادھ درجن مصلے خریدتے اور کچھ عرصے بعد لال رومال کندھے پہ ڈالے حاجی صاحبوں والی میسنی شکل بنائے واپس آ جاتے ۔ اور پھر ساری زندگی اپنا نام حاجی شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کہلوانا اور سننا پسند کرتے ۔ مگر آفرین ہے اس عظیم درویش کی شانِ استغنا پر کہ 14 حج پیدل کیے ہوئے ہیں ، مگر حاجی شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کبھی نہیں لکھا ، خیر۔۔۔۔۔ بات ہو رہی تھی سعدیؒ کے سومناتھ میں ہونے کی ۔ مختصر یہ کہ سعدی ؒ نے ٹنڈ کرائی اور گیروے رنگ کا لباس پہنا اور پنڈت کا بہروپ دھار کے مندر میں گھس گئے ، اور اپنی آنکھوں سے بت کو حرکت کرتے دیکھا، مگر نیا مشن اس وقت شروع ہو گیا جب شیخ سعدیؒ نے اس کا راز جاننے کی ٹھان لی، اور پھر وہ راز جان کر ہی دم لیا ۔اور میں مسکین چھوٹا غالبؔ شیخ سعدیؒ کی ان درویشانہ اداؤں پر مر مٹا ہوں۔اور اب یہی میرا سٹینڈرڈ ہے تحقیق میں۔
جب میں نے سنا کہ
مغل بچے عجیب ہوتے ہیں
جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں
میں سنتے ہی آمنا صدقنا نہیں کہہ دیا۔ اندھے کا دکھ ایک اندھا ہی سمجھ سکتا ہے ، میں نے سوچا کہ جس طرح میرے بارے میں بے بنیاد پراپیگنڈے اور افواہیں اتنی کثرت سے کی گئیں کہ اب یونیورسل ٹروتھ درجہ پا چکی ہیں ، کہیں یہ بھی کسی نے مغلوں سے مار کھاکے جلے دل کے پھپھولے نہ پھوڑے ہوں اس شعر میں ۔ بھلا میں کیونکر مانوں ۔ لیکن اپنا سٹینڈرڈ یاد آیا کہ جب تک اس کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق نہ کر لوں چین سے کیسے بیٹھ سکتا ہوں ۔
بس پھر دماغ کے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور تاریخ کے بحر ظلمات میں گھوڑا دوڑا دیا ، ( اسی بہانے اقبال ؒ کی روح کو خوش ہو گئی ہوگی۔) دن رات منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا آخر میں میسو پوٹیمیا کے میدانوں میں جا پہنچا۔ سوچا کہ پہلے ایشیائے کوچک سے کُھرا اٹھاتے ہیں ۔یہ وہ وقت تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کو وفات پائے کئی سو سال گزر چکے تھے ، ان کی اولاد میں جیسا کہ زمانے کا دستور ہے پھوٹ پڑ چکی تھی ، اور وہ اکٹھے آباد رہنے پر مزید آمادہ نہ تھے ۔ ان گنہگار آنکھوں نے (تصور میں) یافث (نوح علیہ السلام کا بیٹا)کی آل اولاد میں سے ایک قبیلے کو شمال کی جانب ہجرت کرتے دیکھا۔پھر میں نے اس قبیلے کی اولاد کو روس ، کاکیشیا ، منگولیا میں پھیلتے دیکھا ۔ اور جوں جوں آبادی بڑھتی گئی ، قبیلے بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے رہے اور دنیا میں پھیلتے رہے ۔ علمائے تاریخ اس بات پر متفق ہیں ، کہ اقوام و قبائل کی اس کثرت میں صرف دو علاقے ایسے ہیں جن سے انسانی سیلاب نکلے اور پھر پوری دنیا میں پھیلتے گئے اور فتح کرتے گئے ۔ (1) سرزمین حجاز (2) منگولیا کا شمال مشرقی علاقہ ۔مسلمان عرب سے نکلے اور پوری دنیا پر چھا گئے ، اور تاریخ میں روم و ایران کی عظیم فتوحات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد یہ منگولیا سے نکلنے والا سیلاب ، کہ اپنے سامنے آنے والی ہر سلطنت کو خس و خاشاک کی طرح روند کے رکھ دیا۔
منگولیا کے صحرائے گوبی میں بسنے والے یہ قبائل تاتار کہلاتے تھے، خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے ، اور آپس میں قتل و غارت بھی عام تھی، جنگل کا قانون تھا ، طاقتور قبیلہ ، کمزور قبیلوں کے جانور اور عورتیں ہانک کے لے جاتا ، پھر ان میں تموجن کی پیدائش ہوئی ، بچپن میں ہی اس کے قبیلے کو کسی طاقتور قبیلے کی طالع آزمائی کا سامنا کرنا پڑا ، تموجن بھی غلام بنا لیا گیا ۔ بالاخر اس نے نہ صرف آزادی پائی بلکہ اجڈ اور غیر مہذب ، قانون اور سلطنت سے ناواقف قبائل کو یکجا کر کے ایک سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ اور چنگیز خان لقب اختیار کیا۔ تموجن نے چین کی عظیم سلطنت اور اس کے بادشاہوں کی شان و شوکت ، اور عوام کی خوشحالی دیکھی تھی ۔ اس نے اپنی جانوروں کے سوکھے گوشت اور دودھ پر گزارہ کرتی قوم کو بھی یہ سب میسر کرنے کی ٹھان لی ۔ اور یوں دنیا میں تاتاریوں کی لوٹ مار اور فتوحات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آسائش پسند مہذب دنیا بھلا کب تک ان جفاکشوں کے سیلاب کے آگے بند باندھتی، جو کہ میدان جنگ میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے ، پیاس لگنے پر خنجر گھوڑے کی پیٹھ میں چبھو کر خون پی کر پیاس بجھا لیتے تھے۔ چنگیز خان نے فتوحات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کی موت کے بعد اس کے پوتے ہلاکو خان نے عروج پر پہنچا دیا۔ عباسی سلطنت اور بغداد کا انجام اسی کے ہاتھوں ہوا۔ جب مسلمانوں کے ساتھ رہ کر ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی ہوئی تو اسلام پھیلنے لگا ۔شاہی خاندان بھی پھیلتا گیا اور سلطنت کے بھی حصے بخرے ہوتے گئے ، جس کو جو ہاتھ آیا، وہ اس پہ قابض ہوتا گیا، کئی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں تو وہیں ، ایلخانی سلطنت ، اور سلجوقی سلطنت جیسی عظیم حکومتیں بھی ان میں موجود رہیں ، تقسیم در تقسیم سےالگ الگ نام ہوتے گئے ، کچھ نے صحرائے گوبی میں ہی طریقہ قدیم پر زندگی گزاری ، اور شہر آباد کرنے والے ، منگول ، اور پھر مغل ہوتے چلے گئے ۔
ایسی ہی ایک چھوٹی سی ریاست وادی فرغانہ بھی تھی ، حکمران صاحب ایک دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرتے چھت سے گرے اور دوزخ کو پیارے ہو گئے ۔ ریاست کا واحد وارث ظہیر الدین، ابھی بمشکل 14 سال کا تھا جب حکمرانی کا بارِ گراں اس کے کندھوں پر آن پڑا ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ ہمسایہ ریاستوں کے حکمران حملہ آور ہو گئے ، ایک سگا ماموں تھا ، ایک سگا چچا ، دونوں نے ریاست کی آدھی آدھی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق کر کے فرغانہ پر حملہ کر دیا ۔ 14 سالہ ظہیر الدین کے سر پر صرف نانی کا ہاتھ تھا ۔ مقابلہ بھی کیا مگر دو اتحادیوں کی بڑی فوج کے سامنے بھلا اس چھوٹی سی ریاست کی چھوٹی سی فوج کی کیا چلتی ۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ظہیر الدین کو نانی نے فرار کرادیا ، وہ پہاڑوں میں جا چھپا ، زندگی کے انتہائی مشکل دن گزارے اور کچھ قبائلیوں کی مدد سے اپنی باقی ماندہ فوج اکٹھی کی ، چچا اور ماموں کو 15 سال کی عمر میں عبرت ناک شکست دی، اور اپنی سلطنت واپس پائی ۔نانی نے نواسے کا لقب بابر رکھا ، جس کا مطلب ہے نر ببر شیر۔ مہم جو بابر کو چھوٹی سی ریاست میں چین نہ آیا تو اس نے ہندوستان پر حملے شروع کر دئیے ۔ اور آخر ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر 21 سال کے اس باہمت جوان نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
جتنا باہمت اور لائق باپ تھا بیٹا اتنا ہی نکما ثابت ہوا ۔ نتیجے میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔ شکست کھا کر ہمایوں ایران میں پناہ گزین ہوا ، اور شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کے بیٹے سلیم شاہ سوری کو ایران کے بادشاہ طہماسپ کی مدد سے شکست دے کر اپنی سلطنت واپس پائی ۔البتہ ہمایوں کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر نے خوب پر پرزے نکالے اور مغلیہ سلطنت کو بام عروج پر پہنچادیا ، اور مغل اعظم کہلایا۔ اکبر کے بعد اس کا بیٹا نور الدین جہانگیر تخت آرا ہوا ، اور اسی کے دور میں پہلی بار انگریزوں نے انڈونیشیا میں ولندیزیوں سے شکست کھا کر ہندوستان میں اپنے قدم رکھے ۔اور مغل شہزادی کا کامیاب علاج کرنے انعام میں انگریز ڈاکٹر نے اپنی قوم کی تجارت کیلئے مراعات اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت پائی ۔ اور پھر اورنگ زیب کے مرتے ہی مغلوں کا ہندوستان میں زوال شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ مغل بادشاہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی کے لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ بادشاہ کی حیثیت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پنشن خوار کی ہوگئی ۔ 1857 ء کی جنگ آزادی اور پھر شکست کے بعد ہمایوں کے مقبرےمیں پناہ گزین بادشاہ گرفتار ہوا ، مقدمہ چلا ، غداری کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور جو بعد میں رعایت کر کے جلا وطنی میں تبدیل کر دی گئی ۔ مغلیہ سلطنت کا یہ آخری چراغ رنگون میں کسمپرسی کے دن گزار کے راہی عدم ہوا۔ہندوستان پر مغلیہ خاندان نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی ۔ دلی کی تباہی سے جہاں سلطنت کے والی وارث اور شہزادے شہزادیاں در بدر ہو گئے اور غربت کے دن دیکھے ، وہیں کچھ ننگِ وطن غداران بد نسل لوگ انگریزوں کی مدد کے صلے میں جاگیریں پا کر نواب اور خان بن بیٹھے۔ پھر پاکستان بن گیا اورتاریخ کے بحر ظلمات سے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔
افففف بہت خوفناک اور تھکا دینے والا سفر تھا ، لگتا ہے آپ بھی بور ہو رہے ہیں ، چلیے آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں ۔۔۔۔۔
جب میں نے سنا کہ
مغل بچے عجیب ہوتے ہیں
جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں
میں سنتے ہی آمنا صدقنا نہیں کہہ دیا۔ اندھے کا دکھ ایک اندھا ہی سمجھ سکتا ہے ، میں نے سوچا کہ جس طرح میرے بارے میں بے بنیاد پراپیگنڈے اور افواہیں اتنی کثرت سے کی گئیں کہ اب یونیورسل ٹروتھ درجہ پا چکی ہیں ، کہیں یہ بھی کسی نے مغلوں سے مار کھاکے جلے دل کے پھپھولے نہ پھوڑے ہوں اس شعر میں ۔ بھلا میں کیونکر مانوں ۔ لیکن اپنا سٹینڈرڈ یاد آیا کہ جب تک اس کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق نہ کر لوں چین سے کیسے بیٹھ سکتا ہوں ۔
بس پھر دماغ کے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور تاریخ کے بحر ظلمات میں گھوڑا دوڑا دیا ، ( اسی بہانے اقبال ؒ کی روح کو خوش ہو گئی ہوگی۔) دن رات منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا آخر میں میسو پوٹیمیا کے میدانوں میں جا پہنچا۔ سوچا کہ پہلے ایشیائے کوچک سے کُھرا اٹھاتے ہیں ۔یہ وہ وقت تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کو وفات پائے کئی سو سال گزر چکے تھے ، ان کی اولاد میں جیسا کہ زمانے کا دستور ہے پھوٹ پڑ چکی تھی ، اور وہ اکٹھے آباد رہنے پر مزید آمادہ نہ تھے ۔ ان گنہگار آنکھوں نے (تصور میں) یافث (نوح علیہ السلام کا بیٹا)کی آل اولاد میں سے ایک قبیلے کو شمال کی جانب ہجرت کرتے دیکھا۔پھر میں نے اس قبیلے کی اولاد کو روس ، کاکیشیا ، منگولیا میں پھیلتے دیکھا ۔ اور جوں جوں آبادی بڑھتی گئی ، قبیلے بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے رہے اور دنیا میں پھیلتے رہے ۔ علمائے تاریخ اس بات پر متفق ہیں ، کہ اقوام و قبائل کی اس کثرت میں صرف دو علاقے ایسے ہیں جن سے انسانی سیلاب نکلے اور پھر پوری دنیا میں پھیلتے گئے اور فتح کرتے گئے ۔ (1) سرزمین حجاز (2) منگولیا کا شمال مشرقی علاقہ ۔مسلمان عرب سے نکلے اور پوری دنیا پر چھا گئے ، اور تاریخ میں روم و ایران کی عظیم فتوحات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد یہ منگولیا سے نکلنے والا سیلاب ، کہ اپنے سامنے آنے والی ہر سلطنت کو خس و خاشاک کی طرح روند کے رکھ دیا۔
منگولیا کے صحرائے گوبی میں بسنے والے یہ قبائل تاتار کہلاتے تھے، خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے ، اور آپس میں قتل و غارت بھی عام تھی، جنگل کا قانون تھا ، طاقتور قبیلہ ، کمزور قبیلوں کے جانور اور عورتیں ہانک کے لے جاتا ، پھر ان میں تموجن کی پیدائش ہوئی ، بچپن میں ہی اس کے قبیلے کو کسی طاقتور قبیلے کی طالع آزمائی کا سامنا کرنا پڑا ، تموجن بھی غلام بنا لیا گیا ۔ بالاخر اس نے نہ صرف آزادی پائی بلکہ اجڈ اور غیر مہذب ، قانون اور سلطنت سے ناواقف قبائل کو یکجا کر کے ایک سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ اور چنگیز خان لقب اختیار کیا۔ تموجن نے چین کی عظیم سلطنت اور اس کے بادشاہوں کی شان و شوکت ، اور عوام کی خوشحالی دیکھی تھی ۔ اس نے اپنی جانوروں کے سوکھے گوشت اور دودھ پر گزارہ کرتی قوم کو بھی یہ سب میسر کرنے کی ٹھان لی ۔ اور یوں دنیا میں تاتاریوں کی لوٹ مار اور فتوحات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آسائش پسند مہذب دنیا بھلا کب تک ان جفاکشوں کے سیلاب کے آگے بند باندھتی، جو کہ میدان جنگ میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے ، پیاس لگنے پر خنجر گھوڑے کی پیٹھ میں چبھو کر خون پی کر پیاس بجھا لیتے تھے۔ چنگیز خان نے فتوحات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کی موت کے بعد اس کے پوتے ہلاکو خان نے عروج پر پہنچا دیا۔ عباسی سلطنت اور بغداد کا انجام اسی کے ہاتھوں ہوا۔ جب مسلمانوں کے ساتھ رہ کر ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی ہوئی تو اسلام پھیلنے لگا ۔شاہی خاندان بھی پھیلتا گیا اور سلطنت کے بھی حصے بخرے ہوتے گئے ، جس کو جو ہاتھ آیا، وہ اس پہ قابض ہوتا گیا، کئی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں تو وہیں ، ایلخانی سلطنت ، اور سلجوقی سلطنت جیسی عظیم حکومتیں بھی ان میں موجود رہیں ، تقسیم در تقسیم سےالگ الگ نام ہوتے گئے ، کچھ نے صحرائے گوبی میں ہی طریقہ قدیم پر زندگی گزاری ، اور شہر آباد کرنے والے ، منگول ، اور پھر مغل ہوتے چلے گئے ۔
ایسی ہی ایک چھوٹی سی ریاست وادی فرغانہ بھی تھی ، حکمران صاحب ایک دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرتے چھت سے گرے اور دوزخ کو پیارے ہو گئے ۔ ریاست کا واحد وارث ظہیر الدین، ابھی بمشکل 14 سال کا تھا جب حکمرانی کا بارِ گراں اس کے کندھوں پر آن پڑا ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ ہمسایہ ریاستوں کے حکمران حملہ آور ہو گئے ، ایک سگا ماموں تھا ، ایک سگا چچا ، دونوں نے ریاست کی آدھی آدھی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق کر کے فرغانہ پر حملہ کر دیا ۔ 14 سالہ ظہیر الدین کے سر پر صرف نانی کا ہاتھ تھا ۔ مقابلہ بھی کیا مگر دو اتحادیوں کی بڑی فوج کے سامنے بھلا اس چھوٹی سی ریاست کی چھوٹی سی فوج کی کیا چلتی ۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ظہیر الدین کو نانی نے فرار کرادیا ، وہ پہاڑوں میں جا چھپا ، زندگی کے انتہائی مشکل دن گزارے اور کچھ قبائلیوں کی مدد سے اپنی باقی ماندہ فوج اکٹھی کی ، چچا اور ماموں کو 15 سال کی عمر میں عبرت ناک شکست دی، اور اپنی سلطنت واپس پائی ۔نانی نے نواسے کا لقب بابر رکھا ، جس کا مطلب ہے نر ببر شیر۔ مہم جو بابر کو چھوٹی سی ریاست میں چین نہ آیا تو اس نے ہندوستان پر حملے شروع کر دئیے ۔ اور آخر ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر 21 سال کے اس باہمت جوان نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
جتنا باہمت اور لائق باپ تھا بیٹا اتنا ہی نکما ثابت ہوا ۔ نتیجے میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔ شکست کھا کر ہمایوں ایران میں پناہ گزین ہوا ، اور شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کے بیٹے سلیم شاہ سوری کو ایران کے بادشاہ طہماسپ کی مدد سے شکست دے کر اپنی سلطنت واپس پائی ۔البتہ ہمایوں کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر نے خوب پر پرزے نکالے اور مغلیہ سلطنت کو بام عروج پر پہنچادیا ، اور مغل اعظم کہلایا۔ اکبر کے بعد اس کا بیٹا نور الدین جہانگیر تخت آرا ہوا ، اور اسی کے دور میں پہلی بار انگریزوں نے انڈونیشیا میں ولندیزیوں سے شکست کھا کر ہندوستان میں اپنے قدم رکھے ۔اور مغل شہزادی کا کامیاب علاج کرنے انعام میں انگریز ڈاکٹر نے اپنی قوم کی تجارت کیلئے مراعات اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت پائی ۔ اور پھر اورنگ زیب کے مرتے ہی مغلوں کا ہندوستان میں زوال شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ مغل بادشاہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی کے لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ بادشاہ کی حیثیت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پنشن خوار کی ہوگئی ۔ 1857 ء کی جنگ آزادی اور پھر شکست کے بعد ہمایوں کے مقبرےمیں پناہ گزین بادشاہ گرفتار ہوا ، مقدمہ چلا ، غداری کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور جو بعد میں رعایت کر کے جلا وطنی میں تبدیل کر دی گئی ۔ مغلیہ سلطنت کا یہ آخری چراغ رنگون میں کسمپرسی کے دن گزار کے راہی عدم ہوا۔ہندوستان پر مغلیہ خاندان نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی ۔ دلی کی تباہی سے جہاں سلطنت کے والی وارث اور شہزادے شہزادیاں در بدر ہو گئے اور غربت کے دن دیکھے ، وہیں کچھ ننگِ وطن غداران بد نسل لوگ انگریزوں کی مدد کے صلے میں جاگیریں پا کر نواب اور خان بن بیٹھے۔ پھر پاکستان بن گیا اورتاریخ کے بحر ظلمات سے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔
افففف بہت خوفناک اور تھکا دینے والا سفر تھا ، لگتا ہے آپ بھی بور ہو رہے ہیں ، چلیے آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں ۔۔۔۔۔