مفاعلاتن یا فعول فعلن ------------ صحیح کیا ہے ۔

مغزل

محفلین
مفاعلاتن یا فعول فعلن ------------ آخرصحیح کیا ہے ۔؟

رات ایک جرید ہ دستیاب ہوا جس میں ایک غزل (صنعتِ‌تلمیح میں) تنقید کیلئیے رکھی گئی ہے۔
شعر پڑھتے ہوئے میں اسے بحر کے حساب سے پڑ رھا تھا۔
مصرع تھا ۔
"" قدیم شہروں کی کالی گلیوں میں پہلے سورج کی روشنی تھی ""
مفاعلاتن ، مفاعلاتن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں میرے ایک دوست جو عروض پر دسترس رکھتے ہیں کئی ایک سینئر شعراء کے سامنے کہا
یہ کوئی اوزان نہیں بحر کے ۔۔۔۔۔ یہاں ’’ فعول فعلن فعول فعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سے اس کا وزن ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو فرمایا کہ آپ وزن اس طرح کرسکتے ہیں
مگر مروجہ بحور میں ایسا (مفاعلاتن ) کوئی رکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعول فعلن ہی ہے۔
خیر 5 افراد ایک جناب اور جناب ایک جانب ۔۔ مجھے اپنے کچھ بزرگوں سے بھی مفاعلاتن کی سننے
کو ملا ۔۔۔۔۔۔۔ اب اس مد میں میرا علم ناقص اور محدود ہے ۔ سوچا آپ سے پوچھا جائے !
کیوں کہ ابھی ابھی ایک جگہ میں ۔۔۔۔ ایک مصرعے کی تقطیع ’’ مفاعلاتن مفاعلاتن ‘‘ دیکھی ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ یہ مساوی الاوزان موجود ہے ۔
مظفَّرٌ أينما تمشَّتْ ××× خطاي ماضٍّ بهنَّ نصري
\\0\\0\0 - \\0\\0\0 ۔۔۔۔۔۔۔ \\0\\0\0 - \\0\\0\0
مفاعلاتن - مفاعلاتن ۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلاتن - مفاعلاتن
معلوم یہ ہوا کہ درج بالا بحر موجود ہے گو کہ عربی ہے
آپ کیا کہتے ہیں ’’ مفاعلاتن یا فعول فعلن ‘‘ ------؟؟
 

مغزل

محفلین
مظفَّرٌ أينما تمشَّتْ ------------ خطاي ماضٍّ بهنَّ نصري
"" قدیم شہروں کی کالی گلیوں------------------ میں پہلے سورج کی روشنی تھی ""
یعنی ۔۔۔۔۔۔۔ فعول فعلن فعول فعلن------------ فعول فعلن فعول فعلن
یا پھر -------- مفاعلاتن مفاعلاتن --------------- مفاعلاتن مفاعلاتن

دونوں بحور کا نام بھی بتادیجئے ۔ مزید یہ کہ بحور کا نام جاننے کا کوئی کلیہ ؟؟
 

مغزل

محفلین
دیکھیئے اقبال کے ہاں بھی یہ بحر ملتی ہے ۔
:: ع :: نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں
نئے زمانے--- میں آپ ہم کو ---- پرانی باتیں ---- سنا رہے ہیں
--مفاعلاتن ، ----مفاعلاتن،-------- مفاعلاتن، ------مفاعلاتن

ایک اور مثال مشہور کلام:
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے ۔
یا
فضول شکوہ ہے بے رخی کا -------------------
ذرا محبت سے تم پکارو ، ادھر پکارو ادھر میں حاضر
اور کیا میرا یہ شعر بھی :؟
خزاں رسیدہ ہوں ایک جھونکا بھی اب تو سہنا ہوا ہے مشکل
نہیں ہے جائے مفر ، کہ اذنِ سفر ملے بھی-- تو کیا کروں گا ؟

کئی ایک سینئر بھی ’’ فعول فعلن ’’ سے اتفاق کرتے ہیں۔
کہیں یہاں معاملہ ذوالبحرین کا تو نہیں کہ ایک ہی بحر کے دو اوزان ہوں ؟؟

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
مغل صاحب!

مفاعلاتن، اول تو کوئی رکن ہے ہی نہیں سو اس سے کوئی بحر بھی نہیں بنتی۔

اراکین یہ ہیں

فعولن
فاعلن
مفاعیلن
فاعلاتن
مستفعلن
مفعولات
متفاعلن
مفاعلتن

اور مذکورہ مصرعے کا وزن 'فعول فعلن' پر ہی ہے۔

اس بحر کو 'بحر متقارب مثمن مضاف مقبوض اثلم' کہتے ہیں اور ایک مصرعے کا وزن ہے:

فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن

آپ کا ذہن درست سمت گیا کہ 'فعول فعلن' اور 'مفاعلاتن' میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عروض میں غیر حقیقی تقطیع ممنوع ہے، اور 'فعول فعلن' کو 'مفاعلاتن' سمجھنا غیر حقیقی ہے کیونکہ نہ یہ خود کوئی رکن ہے اور نہ یہ کسی رکن کا زحاف ہے۔

دوسری طرف 'فعول فعلن' دراصل رکن 'فعولن' سے حاصل ہوئے ہیں:

بحر کے نام میں سب کچھ پوشیدہ ہے:

'بحر متقارب مثمن مضاف مقبوض اثلم'

متقارب یعنی اصل رکن 'فعولن' ہے

مثمن یعنی ایک شعر میں آٹھ (مصرعے میں چار) رکن ہیں۔ یعنی

فعولن فعولن فعولن فعولن

مضاف مطلب دو چند یعنی اس بحر میں ایک شعر میں سولہ اور ایک مصرعے میں آٹھ رکن ہیں، یعنی

فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن

قبض (مقبوض) یعنی پانچواں حرف ساقط کرنا یعنی فعولن میں پانچواں حرف ن ہے تو ن ساقط کر کے فعولن سے 'فعول' رہ گیا۔

ثلم (اثلم) یعنی فعولن کا پہلا رکن ساقط کرنا، یعنی فعولن سے عولن رہا تو اس کو فعلن سے بدل دیا۔

یعنی متقارب مثمن کو دوچند کرکے اسکے رکن کو مقبوض اور اثلم کیا تو اسکا وزن رہ گیا

فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن

اور اس بحر میں جو سب سے زیادہ مشہور غزل ہے وہ امیر خسرو کی:

ز حال مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں

دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں اس بحر کو مضاف یعنی دو چند کر کے ہی استعمال کیا جائے، سنگل یعنی

بحر متقارب مثمن مقبوض اثلم بھی استعمال ہو سکتی ہے جس کا وزن ہوگا۔

فعول فعلن فعول فعلن

اس وزن میں فیض کی مشہور غزل:

تجھے پکارا ہے بے ارادہ
جو دل دکھا ہے بہت زیادہ

وہ آئے پرسش کو پھر سجائے
ادائے رنگیں، قبائے سادہ

اور اس خاکسار کی یہ غزل :)

عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے

شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصہ اس خاکسار کا ہے

امید ہے بات واضح ہو گئی ہوگی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سمجھنے سے قاصر ہوں گو 'مفاعلاتن' واضح لکھا ہوا مل گیا، گو وزن سے اس میں فرق نہیں پڑتا جیسا کہ لکھا، لیکن غیر حقیقی تقطیع ہی کہا جا سکتا ہے اسے!
 

مغزل

محفلین
میں بھی دیکھتا ہوں ، آپ بھی دیکھیئے کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی ، کہ مفاعلاتن سے تقطیع کی گئی ہے ۔ بہر حال اوزان تو ہمیں عربی سے ہی ملے ہیں۔
ایک بات اور کہ میں‌اس ( عربی )فورم پر رکن ہوں‌۔۔ میں معلوم کرتا ہوں۔۔ دیکھیے کوئی بات بن جائے۔
 

مغزل

محفلین
فاتح الدین بشیر صاحب ۔۔ آپ بھی تو کچھ کہیے ۔۔ عجیب مخمصے میں ہوں۔ مذکورہ فورم کوئی عام لوگوں کا نہیں عربی ادب کے بڑے نام وہاں موجود ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
واقعی یہ تو عجیب بحث ہے۔ میں تو یادداشت کے سہارے اپنی گاڑی چلاتا ہوں۔ اور اس میں ’مفاعلاتن‘ سے ہی تقطیع کرتا آیا ہوں۔ فعول فعلن بھی یقینا ممکن ہے اور اس بحر کا نام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فعول فعلن سے اس کی تقطیع کیا جانا نیچرل ہے۔ پھر مفاعلاتن سے بھی اس بحر کی تقطیع کیوں کی جاتی ہے، اس سلسلے میں وارث یا فاتح ہی روشنی دال سکتے ہیں جب کہ یہ کوئی رکن ہوتا ہی نہیں۔ پریکٹکلی میں نے بھی اسی رکن سے تقطیع ہوتے دیکھی ہے۔
 
پہلی بات تو وارث بھائی آپ یہ بتائیے کہ یہ آپ نے اس علم میں پوسٹ ڈکٹریٹ کے بعد والی تعلیم آپ نے کہاں سے اور کب حاصل کی؟

واللہ ہر روز مجھے آپ کے خزانے سے کچھ نیا عطا ہوتا ہے اور رعب علم و فضیلت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گو کہ یہ علم میرے مطالعے کا حصہ یہاں آنے سے قبل کبھی نہیں رہا۔ بس نام سنتا رہا ہوں کہ تقطیع بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اجی برادرم، کہاں کی تعلیم اور کہاں ڈاکٹریٹ، ہاں یہ ہے کہ پچھلے دو سال سے اس علم کی کتب ہی زیادہ تر میرے مطالعہ میں ہیں :)
 

مغزل

محفلین
واقعی یہ تو عجیب بحث ہے۔ میں تو یادداشت کے سہارے اپنی گاڑی چلاتا ہوں۔ اور اس میں ’مفاعلاتن‘ سے ہی تقطیع کرتا آیا ہوں۔ فعول فعلن بھی یقینا ممکن ہے اور اس بحر کا نام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فعول فعلن سے اس کی تقطیع کیا جانا نیچرل ہے۔ پھر مفاعلاتن سے بھی اس بحر کی تقطیع کیوں کی جاتی ہے، اس سلسلے میں وارث یا فاتح ہی روشنی دال سکتے ہیں جب کہ یہ کوئی رکن ہوتا ہی نہیں۔ پریکٹکلی میں نے بھی اسی رکن سے تقطیع ہوتے دیکھی ہے۔


بہت شکریہ بابا جانی
اور مجھے بھی تو اسی بات کی حیرانی ہے
دیکھیے فاتح صاحب کچھ ارشاد کریں۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
اللہ اللہ کرکے نوید صادق صاحب بھی تشریف لے آئیں ہیں امید ہے جناب کچھ مدد فرمائیں گے ۔ !
 

فاتح

لائبریرین
قبلہ محمود مغل صاحب، "فاتح صاحب" کیا "ارشاد فرمائیں" گے کہ چھوٹا منہ بڑی بات۔
اتفاق سے اسی بحر کے متعلق حضرت حمید عظیم آبادی کی مصنفہ کتاب "میزانِ سخن" کے تعارف میں حضرت علامہ شفق رضوی یوں رقم طراز ہیں:

“وہ کون سی بحریں ہیں کہ مقررہ ارکان عروضی کے علاوہ اُن کے ارکانِ قیاسی بن جاتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں۔ تفصیل دیکھیے:
ناسخ کی ایک غزل کا مصرع لیجیے
نیام تیغِ قضائے مبرم لقب ہے قاتل کی آستیں کا​
اس کے اوزان تو یہ ہیں:
فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن​
ایک صاحب نے اس کے اوزان مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن بتا دیے اور تقطیع بھی کر کے دکھا دی۔ اب ان سے کون کہے کہ حضرت یہ وزن ایجاد بندہ کسی بحر کا نہیں۔ بات یہ ہے کہ میزان کے لیے جو باٹ یعنی سنگِ ترازو مقرر کر دیا گیا ہے اسی سے تولا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ جس پتھر کو چاہا اس کو پلّے پر رکھ دیا۔
المختصر اس تعارف کا مضمون پڑھا جاتا ہے، رات چھوٹی، کہانی بڑی؂
برائے وصفِ زلف و روئے لیلیٰ
شبے می باید و خوش روزگارے”​

تو قبلہ مغل صاحب، علامہ شفق رضوی نے اسے 'ارکان قیاسی' میں شمار کیا ہے۔ اب میں کیا اور میری بساط کیا کہ نہ تو شاعری کا کچھ علم ہے اور نہ عروض جانتا ہوں؂
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات​
نیز برادرم وارث صاحب نے تفصیل سے اس بحر کے ارکان اور ان کے زحافات کو مثالوں کے ساتھ واضح کر دیا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
کہیں یہاں معاملہ ذوالبحرین کا تو نہیں کہ ایک ہی بحر کے دو اوزان ہوں ؟؟

'ذوالبحرین' یا 'مساوی الاوزان' جیسی اصطلاحات ہم اس بحر پر عاید نہیں کر سکتے۔ یوں بھی کوئی مصرع تو'ذوالبحرین' ہو سکتا ہے لیکن کوئی بحر کیوں کر ہو گی۔ ہاں یوں کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مصرع 'ذوالبحرین' ہے اور فلاں بحر 'مساوی الاوزان'۔

ذوالبحرین مصرع کی مثال:
خوابِ غفلت کا گزر چشمِ نگہباں میں نہ تھا
اس مصرع کی تقطیع کی جائے تو اشباع کے ساتھ یہ بحر رمل مثمن محذوف یا مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا فاعلات) بھی بنتی ہے:
فاعلاتن - فاعلاتن - فاعلاتن - فاعلن یا فاعلات
خابِ غفلت ۔ کا گزر چش ۔ مے نگہبا ۔ مے نَ تا
جب کہ اشباع کی بجائے اگر تخفیف کے ساتھ پڑھیں تو یہ بحر رمل مثمن مخبون مقصور یا محذوف (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلات) بنتی ہے:
فاعلاتن - فعلاتن - فعلاتن - فعلن یا فعلات
خابِ غفلت ۔ کَ گزر چش ۔ مِ نگہبا ۔ مِ نَ تا

اب آتے ہیں 'مساوی الاوزان' بحور کی جانب۔
دائرہ مختلفہ میں 'مدید'، 'عریض' اور 'عمیق' جب کہ دائرہ موافقہ یا دائرہ موتودہ کی 'مقتضب' بلکہ 'مجتث' کو بھی دو یا تین طرح سے تقطیع کر سکتے ہیں لیکن۔۔۔ ارکان قیاسی نہیں ہونے چاہییں۔مثلاً
فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن یا فاعلن مستفعلن فاعلن مستفعلن (بحر مدید)
مفاعیلن فعولن مفاعیلن فعولن یا فعولن فاعلاتن فعولن فاعلاتن (بحر عریض)
فاعلن فاعلاتن فاعلن فاعلاتن یا فاعلاتن فعولن فاعلاتن فعولن (بحر عمیق)
فاعلات فاعلتن فاعلات فاعلتن یا فاعلن مفاعلتن فاعلن مفاعلتن (بحر مقتضب)
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلاتن یا مفاعلات مفاعیل فاعلات فعولن (بحر مجتث)
اور یہی حال 'ضروع'، 'خفیف'، 'اثلم' اور 'ترانہ' کی کچھ بحور کا بھی ہے۔
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ فاتح صاحب ،، آپ کے یاد دلانے پر یہاں آیا اور یہ مرسلات دیکھ پایا۔۔
اتنی تفصیل سے بتانے کیلیے سراپا تشکر ہوں
والسلام
 
ہم بھی حاضر ہو گئے یہاں جناب تین سال کے بعد۔
عروضی حضرات سے یہ سوال ہے کے مفاعلاتن کیوں رکن نہیں ہے؟ بڑے بزرگ حضرات کہیں نہ کہیں سے سنتے اور تقطیع کرتے ہی آرہے ہیں جس میں ایک بزرگ جو مجھے قریب ایک ماہ پہلے ایک مشاعرے میں ملے خلیل صاحب۔ مفاعلاتن سے تقطیع کرتے ہیں۔ دوسرے اپنے استاد جی بہت ہی قابل احترام الف عین صاحب کی مثال سامنے ہے۔
مغزل صاحب نے عربی فورم کا ذکر کیا جو عام لوگوں کا نہیں۔
بات در اصل یہ ہے کے ایک زحاف جسے عربی عروض ”علت“ کا نام دیتا ترفیل کے نام سے جانا جاتا ہے اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ ایسا رکن جس کے آخر میں وتد مجموع ہو اس میں ایک سبب خفیف کا اور اضافہ کر دیتا ہے۔
اور یہ رکن جس بحر سے نکلا وہ بحر رجز ہے جس کے ارکان مستفعلن چار مرتبہ ہیں۔
اب اس پر دو زحافات (یا ایک زحاف اور ایک علت) نے عمل کیا
1۔ خبن (سبب خفیف سے شروع ہونے والے رکن کے پہلے سبب خفیف کا دوسرا حرف ساکن ساقط کرنا)
2۔ ترفیل۔

مستفعلن میں سبب خفیف کا ساکن سین گیا متفعلن بوزن مفاعلن ہوا۔
آخر میں ایک سبب خفیف (تن) بڑھایا تو مفاعلنتن بوزن مفاعلاتن ہوا۔
اور بحر کا نام بحر رجز مثمن مخبون مرفل ہوا۔ یہی وجہ ہے کے بڑے لوگ اسے اکثر مفاعلاتن کہتے ہیں۔ اور نئے عروضی اسے فعول فعلن کہتے ہیں جو ارکان ہی عروضی طور پر غلط ہیں۔ کیونکہ ثلم کا زحاف حشو میں استعمال کرنا ہی غلط ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ از روئے عروض یہ فعول فعلن والی تقطیع غیر حقیقی اور غلط ہے.
اور مفاعلاتن ہی درست اور جائز ہے ہر لحاظ سے.
 

zubyre

محفلین
السلام علیکم! میں نے حال ہی میں عروض پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ مفاعلاتن کے قضیے پر ایک مفصل ریسرچ پیپر زیر تسوید ہے۔ اردو عروض ۔ارتقائی مطالعہ کے زیر عنوان میرا ریسرچ پیپر جو اس ویب سائیٹ پر موجود ہے اغلاط سے پر ہے ۔ اصل مسودہ عندالطلب ارسال کیا جا سکتا ہے۔فارسی اور اردو عروض پر تحقیقی مواد کے تبادلے کے لیے قارئین رجوع فرما سکتے ہیں۔
ڈاکٹرمحمدزبیرخالد
 
Top