آداب، فیضان بھائی۔
ناچیز کی معروضات حسبِ حکم پیش ہیں۔ ممکنہ کوتاہیوں پر پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
مگر حضور غالب کی یہ غزل آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے۔۔۔طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے اسی بحر میں ہے۔
فیضان بھائی، منطقی غلطی تو آپ کے استدلال میں یہ ہے کہ کسی بحر میں چند ایک غزلیں مل جانے سے اسے مستعمل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بحر واقعی قدما کے استعمال میں رہی ہے مگر غالبؔ کے بعد شاید ہی کسی نے اردو میں اسے برتا ہو۔ غالبؔ کے ہاں بھی شاید یہی ایک غزل ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔
میرا مشورہ بھی استادِ گرامی کے اشارے کی طرح یہی ہو گا کہ آپ دیگر معروف بحور میں طبع آزمائی کریں۔
موڈ پہ موقوف ہے ارادہ نہیں ہے
وعدہ ملاقات کا لِہٰذ ا نہیں ہے
لہٰذا عربی کلمہ ہے۔ اس کا الف تقطیع میں گر رہا ہے جو روا نہیں۔ معانی پسند آئے۔
آپ کی سب لغزشوں کو بخش دوں گا میں
اتنا بھی محترمہ دل کشادہ نہیں ہے
مصرعِ اولیٰ میں "دوں گا" کو دُگا باندھا گیا ہے جو بالکل جائز نہیں۔ کچھ اور لائیے یہاں۔
مصرعِ ثانی میں "محترمہ" کا تلفظ غلط کرنے کی وجہ سے وزن ٹوٹ رہا ہے۔ اصل لفظ مُحتَرَمَہ ہے جس میں رائے قرشت مکسور ہے۔
حسرتوں کے جال میں پھنسی ہے ہمہ دم
زندگی کا کوئی لمحہ سادہ نہیں ہے
"حسرتوں کے" اور "زندگی کا" کے ٹکڑوں کو مفتعلن باندھنا معیاری لہجے سے انتہائی بعید ہے جس کی وجہ سے اسے جائز نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی اگر حروفِ اضافت یا جار وغیرہ کسی لفظ کے فوراً بعد آ رہے ہوں تو اس لفظ کے آخری حرف یا حروف کو ساقط کرنا ناروا ہے۔
اشکوں کو پینے میں اعتراض کیا ہے
اشک ہی تو ہیں جناب بادہ نہیں ہے
اچھا۔
وہ یہ مگر۔چھوڑو، صاف کیوں نہیں کہتے
تم سے ملاقات کا ارادہ نہیں ہے
عمدہ۔
برسوں سے محفوظ تھی یہ سینے میں میرے
آج غزل لکھی ہے، پہ تازہ نہیں ہے
اچھا۔
کوئی نیا مشورہ دے مجھکو اے ناصح
اسکو بھلانے کا تو ارادہ نہیں ہے
مصرعِ اولیٰ میں "اے" کی یے ساقط ہو رہی ہے۔ یہ لفظ فارسی الاصل ہے اور اس کی یائے لین کا اسقاط فاش غلطی ہے۔
خیال اچھا ہے۔
ان سے ابھی تک نبھائے جارہا ہوں میں
جن سے توقع مجھے زیادہ نہیں ہے
"جا رہا ہوں" میں تقریباً وہی غلطی ہے جو اوپر کسی شعر میں "بخش دوں گا" میں ہے۔ اکثر نئے شعرا اس میں عار نہیں جانتے مگر اس سے شعر کی روانی سخت متاثر ہوتی ہے۔ خیال اچھا ہے۔
حیراں فقط ہاتھ ملتے رہ گیا میں تو
مجھ سے بچھڑ کے بھی وہ تو آدھا نہیں ہے
"حیراں" عربی لفظ ہے۔ اس کی الف گرانا سخت معیوب ہے۔ "رہ گیا میں" میں بھی اوپر مذکور غلطی مکرر کی گئی ہے۔
ان سے تو فیضان اجتناب بھلا ہے
جنکے بدن کا حیا لبادہ نہیں ہے
بہت خوب۔ اس بحر میں کہیے تو ایسے کسے ہوئے اشعار کہیے ورنہ اجتناب بھلا ہے۔
ایک بڑا عیب اس غزل میں قوافی کا ہے۔ آدھا، لبادہ، ارادہ، تازہ، لہٰذا وغیرہ اس صورت میں کہ آخری حرف بحر کی مجبوری سے ضرور ساقط ہو، ہرگز اچھے قوافی نہیں ہیں۔
امید ہے کہ معروف بحروں میں اشعار کہیں گے تو ہمیں زیادہ روانی دیکھنے کو ملے گی۔
پس نوشت: معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی ہمارے اکثر نومشق شعرا کی طرح 2، 1 یا =، - والے فارمولوں سے عروض سیکھ رہے ہیں۔ اس صورت میں شاعری شاعری کی بجائے حساب کتاب زیادہ بن جاتی ہے۔ اگر بحور کے درست ارکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے روایتی طریقے پر چلیں گے تو آہنگ کا اندازہ بھی بہتر ہو گا اور شعر کہنے میں بھی بہت آسانی رہے گی۔ نیز بحروں کے انتخاب کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہو جائے گا۔