ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
مفتی اعظم ہند کی نعتیہ شاعری‘‘ ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کی ایک تاریخی تحقیق’’
ازقلم: مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی ، نوی ممبئی۔
’’یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ امام احمد رضا بریلوی کا خانوادہ اکناف عالم میں عدیم المثال حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے کیف پرور، روح افزا، نوربار اور ایمان افروز ماحول میں پروان چڑھنے والے مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی کے قلب وروح میں عشق وادب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جذبۂ خیر کا پیدا ہوجانا لازمی امر تھا۔ حضرت نوریؔ بریلوی کو اپنے والدِ ماجد سے ورثے میں جہاں علم وفضل، زہد و ورع، صبر ورضا اور علوم شریعت وطریقت کے نایاب گوہر حاصل ہوئے وہیں عشقِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دولتِ عظمیٰ بھی حاصل ہوئی۔ آپ نے علم وفضل اور جذبے کی صداقت وسچائی اور عشق ومحبت کی والہیت کی حسین وجمیل آمیزش سے میدانِ نعت میں قدم رنجہ کیا اور اپنے عشق کے اظہا واشتہار کے لیے نعتیہ شاعری کا سہارا لیا۔ اپنے مرشد باوقار سید المشایخ سید شاہ ابو الحسین نوریؔ میاں مارہروی کی نسبت سے آپ نے ’’نوری‘‘ تخلص اختیار فرمایا۔
حضرت نوریؔبریلوی کی زندگی انتہائی مصروف ترین تھی۔ تدریسی ذمہ داری، افتا (فتویٰ) نویسی، تصنیفی سرگرمیاں، وعظ ونصیحت کے لیے تبلیغی اسفار، مریدین ومتوسلین کے تزکیۂ نفس اور طہارت قلبی کی مجالس کی آراستگی جیسی گوناگوں اورمتنوع مصروفیات کے باجود آپ نے اتنا وقت نکال ہی لیا کہ دنیا ے شعر وادب کو ’’سامان بخشش‘‘ کے نام سے ایک عظیم مجموعۂ کلام دے ہی دیا۔‘‘ (ص:۲۸۶)
مندرجہ بالا سطریں غیر معمولی زورِ قلم کے مالک، محقق وناقد، شاعر وادیب ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی مالیگانوی کی تاریخی، تنقیدی اور تحقیقی کاوش ’’مفتی اعظم ہند کی نعتیہ شاعری‘‘ (مطبوعہ: والضحیٰ پبلی کیشنز داتا دربار مارکیٹ لاہور پاکستان)سے ماخوذ ہیں۔ لاہور پاکستا ن کے مشہور ومعروف ناشر نے اس اہم کتاب کو بڑے مہتم بالشان انداز میں ۳۳۳صفحات پرمشتمل مجلد (جولائی ۲۰۱۳ء میں) شائع کیا ہے۔ راقم نے جس کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے تجزیے کے لیے منتخب کیا ہے۔ ’’مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ دراصل ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیںپی ایچ ڈی کی سند تفویض کی گئی ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ انہوں نے ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا وومن کالج، اورنگ آباد (مہاراشٹرا) کی نگرانی میں مکمل کیا اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی(اورنگ آباد) میں جمع کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
میری معلومات کی حد تک خانوادہ رضویہ بریلی شریف میں امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ پر ہونے والی پی ایچ ڈی کے علاوہ یہ پہلی پی ایچ ڈی ہے جو مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کے تحقیقی مطالعے کو موضوع بنا کر کی گئی ہے اور اس خصوص میں محترم ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی بجا طور پر خصوصی پذیرائی اور تحسین کے مستحق ہیں۔ بہ قول سید محمد اشرف مارہروی( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) :
’’میرے محدود مطالعے کے مطابق حضور مفتی اعظم کی نعتیہ شاعری پر اتنا مبسوط، منظم اور منصوبہ بند کام پہلے نہیں ہواتھا‘‘ (مذکورہ کتاب:ص۶)
بلکہ انتہائی تعجب اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ مشاہدؔ رضوی مالیگاؤں کے پہلے سنی پی ایچ ڈی سند یافتہ اسکالر ہیں اور نعتیہ ادب پر یہ پہلا تحقیقی مقالہ ہے جو سرزمین مالیگاؤں کے کسی فرد کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ مصنف کا یہ تحقیقی مقالہ کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے:
(۱) نعت کے لغوی اور اصطلاحی معنی (۲)نعت گوئی کا فن (۳)نعت گوئی کی تاریخ کا اجمالی جائزہ (۴) ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری۱۴۱۲ء سے حضرت نوری بریلوی تک۔ (۶) مفتی اعظم: حیات اور علمی وادبی خدمات (۷)کلام نوری کا بالتفصیل تحقیقی وتنقیدی جائزہ (۸)ماحصل: بہ حیثیت نعت گو نوری بریلوی کا مقام ومرتبہ۔
البتہ اس کتاب میں صرف چھ ابواب کی شمولیت ہے۔ مقالہ نگار رقم طراز ہیں:
پیش نظرکتاب ’’مفتی اعظم مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ میرے مقالہ براے پی ایچ ڈی کے ابواب اول، دوم، پنجم، ششم، ہفتم اورہشتم پر مشتمل ہے۔ بقیہ ابواب ان شاء اللہ ’’نعتیہ روایت اور ہندوستان میں اردو نعت گوئی‘‘ کے نام سے علاحدہ کتاب کی شکل میں پیش کیے جائیں گے۔ ‘‘ (ص:۲۰)
باب اول’’ نعت کے لغوی اور اصطلاحی معنی‘‘ اور باب دوم’’ نعت گوئی کا فن’’ کو ضم کرکے کتاب کا باب اول بنایاگیا ہے۔ اس طرح یہ پوری کتاب کل پانچ ابواب کو محیط ایک تاریخی دستاویز کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ معروف فکشن نگار اور قادر الکلام شاعر وادیب سید محمد اشرف مارہروی ( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) نے تین صفحات میں اس کتاب پر ایک جامع تقریظ رقم فرمائی ہے۔ ابتدا ہی میں برکاتی قلم کار نے انتہائی درد وکرب کے انداز میں بڑے فکر انگیز جملے ابھارے ہیں، لکھتے ہیں:
’’مفتی اعظم قدس سرہ کے نام لیوا اور اس نام سے فائدہ اٹھانے والے تو بے شمار ہیں لیکن ان کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر سنجیدہ علمی کام کرنے والو ںکی بہت کمی ہے۔‘‘ (ص:۵)
آگے یہ بھی تحریر کرتے ہیںکہ:
’’ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے ان کی نعتیہ شاعری پر کام کرنے کا حوصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں چار (تین) سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے جو تحقیق اور تنقید دونوں کا حق ادا کرتی ہے۔‘‘ (۵،۶)
اور اخیر میں رقم طراز ہیں:
’’مفتی اعظم جیسے حسین وجمیل، صبیح وشکیل تھے اور ان میں جو سادگی اور سادگی میں جو تہ داری تھی وہی ان کی نعت کا بھی رنگ ہے اور اس رنگ کے ہر شیڈ کو ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے خوب پہچانا ہے، خوب جانچا پرکھا ہے اور پھر آپ کے سامنے صاف ستھری علمی زبان میں پیش کردیاہے۔ مصنف کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں جن نتائج تک پہنچتے ہیں، اپنے قاری کو ان نتائج سے قائل ہی نہیں، مطمئن بھی کرتے ہیں۔ ‘‘ (ص:۷)
ڈاکٹر محمدحسین مشاہدؔرضوی پارچہ بافی کے لیے مشہور اور شاعری کے جِنّاتوں سے متعارف ادب خیر اور زرخیز شہر مالیگاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی خاص خاندانی علمی پس منظر نہ رکھتے ہوئے بھی مالیگاؤں کے مذہبی اور شعری وادبی ماحول نے ان کے فکر وفن کو اولاً تو نعت خوانی اور ثانیاً نعت نگاری اور پھر تحقیق ومطالعے کا گرویدہ بنا ڈالا، عصری تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم رہے اور مذہبی ادبیات کا گہرا مطالعہ جاری رکھا، قرطاس وقلم سے ہم رشتگی باقی رکھی، تاریخ ادب سے آگاہی حاصل کی اور تنقید وتحقیق کی راہِ پر خار پر اپنا اشہبِ قلم دوڑاتے رہے یہاں تک کہ اتنا مبسوط، منضبط اور جامع مقالہ لکھنے میں کامیاب ہوگئے اور قانونی ڈگڑی سے سرفراز کیے گئے۔اس دوران مختلف موضوعات پر ان کی درجنوں کتابوں نے طباعت واشاعت کا مرحلہ پارکیا اور اب یہ تاریخی کتاب تحقیق وتنقید کا حق ادا کرتی ہوئی ہمارے مطالعے کی زینت ہے۔
مقالہ نگار نے کتاب کو کل پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔باب اول:نعت، آداب اور لوازمات نعت سے متعلق ہے جس میں نعت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اور شواہد کی ر وشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ’’ہر وہ ادب پارہ جو قاری یا سامع کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کردے وہ نعت ہے چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں۔‘‘ اس مناسبت سے نثری نعت پر بھی تفصیلی لوازمہ پیش کیا گیا ہے اور قرآن واحادیث کے ساتھ ساتھ مختلف مصنفین اورنعت نگاروں کے نثری نعتیہ شہ پاروں کے اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔ مقالہ نگار نے نعت گوئی کا آغاز میثاق النبین سے ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ دیگر آسمانی کتب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متعلق بشارتوں اور پیش گوئیوں کو نثری نعت کے ذیل میں رکھا جاسکتاہے بلکہ کتب احادیث کے ابواب فضائل بہ طور خاص شمائل ترمذی کو نثری نعت کا اعلیٰ شاہ کار مانا جاسکتا ہے۔کتب تفاسیر میں بھی جا بہ جا نثری نعت کے خوب صورت نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں اور سب سے اہم بات مصنف کے الفاظ میں:
’’یہاں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قرآن کریم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بھی ہے اور کامل واکمل ترین اولین درس گاہ نعت بھی۔‘‘ (ص:۳۳)
باب اول ہی میں نعت گوئی کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف قد آور علماے ادب اور ناقدین سخن کی آرا درج کی گئی ہیں اور ضمنی عنوانات میں ’’حزم واحتیاط اور موضوع روایتیں‘‘،’’ ہیئت: اصناف سخن اور ضمائز کا استعمال‘‘ پر محققانہ انداز میں حقائق پیش کیے گئے ہیں ۔بہ طور خاص ’’ہیئت: اصناف سخن‘‘ کے تحت ادب کی مختلف اصناف میں لکھے گئے نعتیہ کلام کی مثالیں انتہائی شرح وبسط کے ساتھ دی گئی ہیں اور آغاز بحث میں ایک حقیقی مسئلہ کہ ’’نعت ایک مستقل صنف سخن ہے ‘‘ پراربابِ علم وفن کی آراپیش کی گئی ہیںجن میں ظہیر غازی پوری، ڈاکٹرسیدوحیداشرف،ڈاکٹرسیدطلحہ رضوی برقؔ دانا پوری ، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،ساجدلکھنوی،ڈاکٹرمحبوب راہی اور ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کے گراں قدرخیالات کی شمولیت ہے ۔ اس کے بعد صنف غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، مرثیہ، مستزاد، مثنوی، دوہا، ماہیا، سانیٹ، ہائیکو، ثلاثی، ترائیلے، کہہ مکرنی اور آزاد نظم میں کہی گئی نعتیں موضوع کی مناسبت سے درج کی گئی ہیں اور ان اصناف کی شناخت کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اصناف سخن کی تعریفیں اور ان پر نعتیہ کلام کی مثالوں کا انطباق انتہائی متاثر کن اور عالمانہ لب ولہجہ سمیٹے ہوئے ہے۔چوں کہ ’’نعت‘‘ یک موضوعی صنف سخن ہے اس لیے شاعری کی مختلف مروج ہیئتوں میں لکھی جارہی ہے۔بہ قول صاحبِ فرہنگِ ادبیات سلیم شہزاد: ’’نعت ایک موضوعی صنف سخن ہے جس میں قصائد، منظوم واقعات سیرت، غزلیں،رباعیاں اور مثنویاںسبھی ہئیتیں شامل ہیں۔‘‘ (فرہنگ ادبیات: مالیگاؤں، ص۷۰۹)
باب دوم، مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات کی مختلف جہات کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کے ضمنی عنوانات میں حیات مفتی اعظم، علمی، ادبی اور تدریسی خدمات پر بحث کی گئی ہے۔یہ باب مختصر سہی لیکن جامعیت اور شیریں تشنگی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ بہ قول مصنف: ’’مقالے کا اصل موضوع مفتی اعظم حضرت نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری ہونے کے سبب آپ کی حیات وخدمات کے بعض اہم گوشوں کو اجاگر نہ کیا جاسکا۔ بہ ہر کیف! یہ اہل ذوق کو دعوت تحقیق دیتے ہیں کہ وہ ان پر مستقبل میں کام کریں۔ ‘‘ (ص۱۶
پھر بھی اس باب کے لیے چونتیس (۳۴) صفحات مختص کیے گئے ہیں جو موضوع کے لحاظ سے بھرپور ہیں۔
یہاں مصنف نے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے اور یہ اعتراف بہتوں کے لیے فکر انگیز اور چشم کشا ہے۔
باب سوم، حاصل کتاب ہے جو ص۱۲۱سے ۲۸۴تک پھیلا ہوا ہے جس میں مقالہ نگار نے موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے مفتی اعظم کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی وادبی مطالعہ پیش کیا ہے اور انہیں مختلف ضمنی عنوانات دے کر افہام وتفہیم کے دروا کیے ہیں جس کے متعلق تقریظ نگار سید محمد اشرف مارہروی ( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں ایک ایسی مجمل تفصیل ملتی ہے جس میں ایک نظم وسلیقہ تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ کڑھے ہوئے تحقیقی اور تنقیدی ذہن کی کار فرمائی صاف نظر آتی ہے۔ شاعرانہ کمالات کے بعد مصنف نے نعتیہ شاعری میں شاعر کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس علمی اور تحقیق کام پر ذاتی عقیدت حاوی نہ ہو۔‘‘ (ص:۶)
باب سوم کے ذیلی عنوانات یہ ہیں:
نوری بریلوی کے عہد میں نعت گوئی کا معیار اور عام روش، نوری بریلوی: نعتیہ شاعری کا آغاز، شاعری سے لگاؤ اور تخیلی رویے، نوری بریلوی کا تصور عشق وفن، کلام نوری میں عقیدۂ توحید، کلام نوری میں خصائص رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کلام نوری میں حزم واحتیاط، نوری بریلوی کی منقبت نگاری، کلام نوری اور علم بیان، کلام نوری میں صنائع وبدائع، کلام نوری میں عروضی چاشنی، کلام نوری میں ترکیب سازی، کلام نوری میں شاعرانہ پیکر تراشی، کلام نوری میں خیال آفرینی، نوری بریلوی کا پیرایۂ زبان وبیان، کلام نوری میں محاورات کا استعمال، نوری بریلوی کا تغزل، نوری بریلوی کی مشکل پسندی، نوری بریلوی کی اصلاحی شاعری، کلام نوری میں عربی کی آمیزش اور فارسیت کا رچاؤ، کلام نوری میں ہندی وہندوستانی عناصر اور علاقائی بولیوں کا استعمال، اورنوری بریلوی کی حمد اور رباعی میں نعتیہ کلام کا جائزہ۔
درج بالا عنوانات پر غور وفکر کرنے سے ہی مقالہ نگار کے ذوق تحقیق وتنقید اور شوق شعر وادب کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ کس قدر محنت وتفحص ، عرق ریزی اور علمیت واخاذ ذہنیت کے ساتھ انہوں نے یہ باب سپرد قرطاس کیا ہے کہ کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ اس باب کی قراء ت کے دوران جہاں مفتی اعظم مصطفی رضا نوری بریلوی کی اصناف ادب بالخصوص صنف نعت میں مہارت تامہ اور قادر الکلامی کا احساس جاگتا ہے وہیں خود مقالہ نگار کی ذہنی اور فکری اٹھان اور شعر وادب کے رموزو ونکات پر عالمانہ دسترس کا اندازہ ہوتا ہے ساتھ ہی سیرت، قرآنیات، احادیث اور مذہبی ادبیات کے مطالعے کا رنگ مزید چوکھا نظر آتا ہے، کیوں کہ کلام نوری بریلوی کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے جہاں مختلف شعری وفنی محاسن کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی قرآن وحدیث، فقہ وتفسیر جیسے علوم وفنون کی رنگا رنگی بھی نمایاں ہوکر سامنے آگئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف صرف عصری تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ عالِم اقدار وتعلیماتِ مذہب بھی ہیں اور یہ خوبی انہوں نے اپنے ذاتی مطالعہ، علما ومشایخ سے ربط وضبط اوران کی بافیض صحبتوں سے حاصل کی ہے۔
باب چہارم میں نوری بریلوی کے نعتیہ رجحانات، خیالات اور افکار وفنی محاسن پر اہل علم ودانش، ادبا اور محققین وناقدین کی آرا پیش کی گئی ہیں جن میں ان حضرات نے نوری بریلوی کی شاعرانہ عظمت کا کھلے دل سے اعتراف واظہار کیا ہے، ساتھ ہی اس باب کے ضمنی عنوان ’’نوری بریلوی کی طرز کااتباع‘‘ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ بے شمار شعرا نے آپ کے اسلوب اور طرز نگارش کی پیروی کرتے ہوئے نعتیہ کلام قلم بند کیا ہے۔ بہ طور مثال چند معاصرین اورمتاخرین شعرا کی نعتیں جمع کردی گئی ہیں۔
باب پنجم میں ماحصل کے طور پر بہ حیثیت نعت گو نوری بریلوی کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ آپ کی شاعرانہ حیثیت اور فنی رفعت ومنزلت اور عالم گیر مقبولیت کا راز کیا ہے، اخیر میں لکھتے ہیں:
’’جذبہ وفن کی وسعت، خیالات ومحسوسات کی بلندی، مضامین وموضوعات کے تنوع اور مختلف علمی وادبی اور شعری محاسن کے اعتبار سے اردو نعت گوئی کی تاریخ میں نوری بریلوی کا مقام ومرتبہ بہت بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ ہے۔‘‘ (ص۔:۳۲۱)
پھر بھی یہ اعترافِ عجز وانکسار نوری بریلوی علیہ الرحمہ کے تاج فضیلت ومقبولیت کا جھومر ہے، اپنی ایک رباعی میں فرماتے ہیں:
دنیا تو یہ کہتی ہے سخن ور ہوں میں
ارے شعرا کا سرور ہوں میں
میں یہ کہتا ہوں یہ غلط ہے سو بار غلط
سچ تو یہ ہے کہ سب سے احقر ہوں میں
مصنف نے اخیر کے آٹھ صفحات میں ’’عصر حاضر میں اردو نعت گوئی کا اجمالی منظر نامہ‘‘ بیان کیا ہے اور سب سے اخیر میں مطالعے کی کتابیات کی فہرست دی گئی ہے جس میں پچاس کتب ومقالات، اٹھائیس رسائل وجرائد اور بارہ کتب لغات کا نام درج ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیقی کتاب ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی کی جانب سے نعتیہ ادب کے شیدائیوں کے لیے بالعموم اور مفتی اعظم نوری بریلوی علیہ الرحمہ کے عقیدت مندوں کے لیے بالخصوص کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں بلکہ سید محمد اشرف مارہروی ( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) کے الفاظ میں:
’’خانوادۂ برکات کے ایک فرد کی حیثیت سے سوچتا ہوںتو محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کی شکل میں برکاتی سلسلہ داروں کی صف میں ایک شمع اور روشن ہوگئی ہے۔ شمع جو روشنی کی علامت بھی ہے اور حرارت کا استعارہ بھی۔‘‘ (ص:۷)
لیکن افسوس اور نم آنکھوں کے ساتھ راقم اس حقیقت کے اعتراف پر خود کو مجبور پاتا ہے کہ ملک ہندوستان میں مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی علیہ الرحمہ اور خانوادۂ امام احمد رضا کے کئی لاکھ عقیدت مندوں کی جمعیت کے بعد بھی اتنی عمدہ تحقیقی کتاب ابھی تک یہاں سے طبع نہ ہوسکی ہے۔ والضحیٰ پبلی کیشنز لاہور پاکستان نے ہندوستانی مصنف کی اتنی اہم تحقیقی وتنقیدی کتاب شائع کرکے ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی وثالث کرنے پر مجبور کردیا ہے۔میں مصنف وناشر دونوں کو بھرپور مبارک باد پیش کرتا ہوں اور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی روح سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنی روحانی توانائیوں اور باطنی توجہات سے ہندوستان میں اس کتاب کی طباعت واشاعت کا انتظام کردے۔
مصنف سے رابطہ:09420230235
ناشرسے رابطہ:0300-7259263
٭٭٭
ازقلم: مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی ، نوی ممبئی۔
’’یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ امام احمد رضا بریلوی کا خانوادہ اکناف عالم میں عدیم المثال حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے کیف پرور، روح افزا، نوربار اور ایمان افروز ماحول میں پروان چڑھنے والے مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی کے قلب وروح میں عشق وادب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جذبۂ خیر کا پیدا ہوجانا لازمی امر تھا۔ حضرت نوریؔ بریلوی کو اپنے والدِ ماجد سے ورثے میں جہاں علم وفضل، زہد و ورع، صبر ورضا اور علوم شریعت وطریقت کے نایاب گوہر حاصل ہوئے وہیں عشقِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دولتِ عظمیٰ بھی حاصل ہوئی۔ آپ نے علم وفضل اور جذبے کی صداقت وسچائی اور عشق ومحبت کی والہیت کی حسین وجمیل آمیزش سے میدانِ نعت میں قدم رنجہ کیا اور اپنے عشق کے اظہا واشتہار کے لیے نعتیہ شاعری کا سہارا لیا۔ اپنے مرشد باوقار سید المشایخ سید شاہ ابو الحسین نوریؔ میاں مارہروی کی نسبت سے آپ نے ’’نوری‘‘ تخلص اختیار فرمایا۔
حضرت نوریؔبریلوی کی زندگی انتہائی مصروف ترین تھی۔ تدریسی ذمہ داری، افتا (فتویٰ) نویسی، تصنیفی سرگرمیاں، وعظ ونصیحت کے لیے تبلیغی اسفار، مریدین ومتوسلین کے تزکیۂ نفس اور طہارت قلبی کی مجالس کی آراستگی جیسی گوناگوں اورمتنوع مصروفیات کے باجود آپ نے اتنا وقت نکال ہی لیا کہ دنیا ے شعر وادب کو ’’سامان بخشش‘‘ کے نام سے ایک عظیم مجموعۂ کلام دے ہی دیا۔‘‘ (ص:۲۸۶)
مندرجہ بالا سطریں غیر معمولی زورِ قلم کے مالک، محقق وناقد، شاعر وادیب ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی مالیگانوی کی تاریخی، تنقیدی اور تحقیقی کاوش ’’مفتی اعظم ہند کی نعتیہ شاعری‘‘ (مطبوعہ: والضحیٰ پبلی کیشنز داتا دربار مارکیٹ لاہور پاکستان)سے ماخوذ ہیں۔ لاہور پاکستا ن کے مشہور ومعروف ناشر نے اس اہم کتاب کو بڑے مہتم بالشان انداز میں ۳۳۳صفحات پرمشتمل مجلد (جولائی ۲۰۱۳ء میں) شائع کیا ہے۔ راقم نے جس کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے تجزیے کے لیے منتخب کیا ہے۔ ’’مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ دراصل ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیںپی ایچ ڈی کی سند تفویض کی گئی ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ انہوں نے ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا وومن کالج، اورنگ آباد (مہاراشٹرا) کی نگرانی میں مکمل کیا اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی(اورنگ آباد) میں جمع کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
میری معلومات کی حد تک خانوادہ رضویہ بریلی شریف میں امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ پر ہونے والی پی ایچ ڈی کے علاوہ یہ پہلی پی ایچ ڈی ہے جو مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کے تحقیقی مطالعے کو موضوع بنا کر کی گئی ہے اور اس خصوص میں محترم ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی بجا طور پر خصوصی پذیرائی اور تحسین کے مستحق ہیں۔ بہ قول سید محمد اشرف مارہروی( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) :
’’میرے محدود مطالعے کے مطابق حضور مفتی اعظم کی نعتیہ شاعری پر اتنا مبسوط، منظم اور منصوبہ بند کام پہلے نہیں ہواتھا‘‘ (مذکورہ کتاب:ص۶)
بلکہ انتہائی تعجب اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ مشاہدؔ رضوی مالیگاؤں کے پہلے سنی پی ایچ ڈی سند یافتہ اسکالر ہیں اور نعتیہ ادب پر یہ پہلا تحقیقی مقالہ ہے جو سرزمین مالیگاؤں کے کسی فرد کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ مصنف کا یہ تحقیقی مقالہ کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے:
(۱) نعت کے لغوی اور اصطلاحی معنی (۲)نعت گوئی کا فن (۳)نعت گوئی کی تاریخ کا اجمالی جائزہ (۴) ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری۱۴۱۲ء سے حضرت نوری بریلوی تک۔ (۶) مفتی اعظم: حیات اور علمی وادبی خدمات (۷)کلام نوری کا بالتفصیل تحقیقی وتنقیدی جائزہ (۸)ماحصل: بہ حیثیت نعت گو نوری بریلوی کا مقام ومرتبہ۔
البتہ اس کتاب میں صرف چھ ابواب کی شمولیت ہے۔ مقالہ نگار رقم طراز ہیں:
پیش نظرکتاب ’’مفتی اعظم مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ میرے مقالہ براے پی ایچ ڈی کے ابواب اول، دوم، پنجم، ششم، ہفتم اورہشتم پر مشتمل ہے۔ بقیہ ابواب ان شاء اللہ ’’نعتیہ روایت اور ہندوستان میں اردو نعت گوئی‘‘ کے نام سے علاحدہ کتاب کی شکل میں پیش کیے جائیں گے۔ ‘‘ (ص:۲۰)
باب اول’’ نعت کے لغوی اور اصطلاحی معنی‘‘ اور باب دوم’’ نعت گوئی کا فن’’ کو ضم کرکے کتاب کا باب اول بنایاگیا ہے۔ اس طرح یہ پوری کتاب کل پانچ ابواب کو محیط ایک تاریخی دستاویز کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ معروف فکشن نگار اور قادر الکلام شاعر وادیب سید محمد اشرف مارہروی ( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) نے تین صفحات میں اس کتاب پر ایک جامع تقریظ رقم فرمائی ہے۔ ابتدا ہی میں برکاتی قلم کار نے انتہائی درد وکرب کے انداز میں بڑے فکر انگیز جملے ابھارے ہیں، لکھتے ہیں:
’’مفتی اعظم قدس سرہ کے نام لیوا اور اس نام سے فائدہ اٹھانے والے تو بے شمار ہیں لیکن ان کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر سنجیدہ علمی کام کرنے والو ںکی بہت کمی ہے۔‘‘ (ص:۵)
آگے یہ بھی تحریر کرتے ہیںکہ:
’’ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے ان کی نعتیہ شاعری پر کام کرنے کا حوصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں چار (تین) سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے جو تحقیق اور تنقید دونوں کا حق ادا کرتی ہے۔‘‘ (۵،۶)
اور اخیر میں رقم طراز ہیں:
’’مفتی اعظم جیسے حسین وجمیل، صبیح وشکیل تھے اور ان میں جو سادگی اور سادگی میں جو تہ داری تھی وہی ان کی نعت کا بھی رنگ ہے اور اس رنگ کے ہر شیڈ کو ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے خوب پہچانا ہے، خوب جانچا پرکھا ہے اور پھر آپ کے سامنے صاف ستھری علمی زبان میں پیش کردیاہے۔ مصنف کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں جن نتائج تک پہنچتے ہیں، اپنے قاری کو ان نتائج سے قائل ہی نہیں، مطمئن بھی کرتے ہیں۔ ‘‘ (ص:۷)
ڈاکٹر محمدحسین مشاہدؔرضوی پارچہ بافی کے لیے مشہور اور شاعری کے جِنّاتوں سے متعارف ادب خیر اور زرخیز شہر مالیگاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی خاص خاندانی علمی پس منظر نہ رکھتے ہوئے بھی مالیگاؤں کے مذہبی اور شعری وادبی ماحول نے ان کے فکر وفن کو اولاً تو نعت خوانی اور ثانیاً نعت نگاری اور پھر تحقیق ومطالعے کا گرویدہ بنا ڈالا، عصری تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم رہے اور مذہبی ادبیات کا گہرا مطالعہ جاری رکھا، قرطاس وقلم سے ہم رشتگی باقی رکھی، تاریخ ادب سے آگاہی حاصل کی اور تنقید وتحقیق کی راہِ پر خار پر اپنا اشہبِ قلم دوڑاتے رہے یہاں تک کہ اتنا مبسوط، منضبط اور جامع مقالہ لکھنے میں کامیاب ہوگئے اور قانونی ڈگڑی سے سرفراز کیے گئے۔اس دوران مختلف موضوعات پر ان کی درجنوں کتابوں نے طباعت واشاعت کا مرحلہ پارکیا اور اب یہ تاریخی کتاب تحقیق وتنقید کا حق ادا کرتی ہوئی ہمارے مطالعے کی زینت ہے۔
مقالہ نگار نے کتاب کو کل پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔باب اول:نعت، آداب اور لوازمات نعت سے متعلق ہے جس میں نعت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اور شواہد کی ر وشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ’’ہر وہ ادب پارہ جو قاری یا سامع کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کردے وہ نعت ہے چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں۔‘‘ اس مناسبت سے نثری نعت پر بھی تفصیلی لوازمہ پیش کیا گیا ہے اور قرآن واحادیث کے ساتھ ساتھ مختلف مصنفین اورنعت نگاروں کے نثری نعتیہ شہ پاروں کے اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔ مقالہ نگار نے نعت گوئی کا آغاز میثاق النبین سے ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ دیگر آسمانی کتب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متعلق بشارتوں اور پیش گوئیوں کو نثری نعت کے ذیل میں رکھا جاسکتاہے بلکہ کتب احادیث کے ابواب فضائل بہ طور خاص شمائل ترمذی کو نثری نعت کا اعلیٰ شاہ کار مانا جاسکتا ہے۔کتب تفاسیر میں بھی جا بہ جا نثری نعت کے خوب صورت نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں اور سب سے اہم بات مصنف کے الفاظ میں:
’’یہاں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قرآن کریم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بھی ہے اور کامل واکمل ترین اولین درس گاہ نعت بھی۔‘‘ (ص:۳۳)
باب اول ہی میں نعت گوئی کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف قد آور علماے ادب اور ناقدین سخن کی آرا درج کی گئی ہیں اور ضمنی عنوانات میں ’’حزم واحتیاط اور موضوع روایتیں‘‘،’’ ہیئت: اصناف سخن اور ضمائز کا استعمال‘‘ پر محققانہ انداز میں حقائق پیش کیے گئے ہیں ۔بہ طور خاص ’’ہیئت: اصناف سخن‘‘ کے تحت ادب کی مختلف اصناف میں لکھے گئے نعتیہ کلام کی مثالیں انتہائی شرح وبسط کے ساتھ دی گئی ہیں اور آغاز بحث میں ایک حقیقی مسئلہ کہ ’’نعت ایک مستقل صنف سخن ہے ‘‘ پراربابِ علم وفن کی آراپیش کی گئی ہیںجن میں ظہیر غازی پوری، ڈاکٹرسیدوحیداشرف،ڈاکٹرسیدطلحہ رضوی برقؔ دانا پوری ، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،ساجدلکھنوی،ڈاکٹرمحبوب راہی اور ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کے گراں قدرخیالات کی شمولیت ہے ۔ اس کے بعد صنف غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، مرثیہ، مستزاد، مثنوی، دوہا، ماہیا، سانیٹ، ہائیکو، ثلاثی، ترائیلے، کہہ مکرنی اور آزاد نظم میں کہی گئی نعتیں موضوع کی مناسبت سے درج کی گئی ہیں اور ان اصناف کی شناخت کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اصناف سخن کی تعریفیں اور ان پر نعتیہ کلام کی مثالوں کا انطباق انتہائی متاثر کن اور عالمانہ لب ولہجہ سمیٹے ہوئے ہے۔چوں کہ ’’نعت‘‘ یک موضوعی صنف سخن ہے اس لیے شاعری کی مختلف مروج ہیئتوں میں لکھی جارہی ہے۔بہ قول صاحبِ فرہنگِ ادبیات سلیم شہزاد: ’’نعت ایک موضوعی صنف سخن ہے جس میں قصائد، منظوم واقعات سیرت، غزلیں،رباعیاں اور مثنویاںسبھی ہئیتیں شامل ہیں۔‘‘ (فرہنگ ادبیات: مالیگاؤں، ص۷۰۹)
باب دوم، مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات کی مختلف جہات کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کے ضمنی عنوانات میں حیات مفتی اعظم، علمی، ادبی اور تدریسی خدمات پر بحث کی گئی ہے۔یہ باب مختصر سہی لیکن جامعیت اور شیریں تشنگی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ بہ قول مصنف: ’’مقالے کا اصل موضوع مفتی اعظم حضرت نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری ہونے کے سبب آپ کی حیات وخدمات کے بعض اہم گوشوں کو اجاگر نہ کیا جاسکا۔ بہ ہر کیف! یہ اہل ذوق کو دعوت تحقیق دیتے ہیں کہ وہ ان پر مستقبل میں کام کریں۔ ‘‘ (ص۱۶
پھر بھی اس باب کے لیے چونتیس (۳۴) صفحات مختص کیے گئے ہیں جو موضوع کے لحاظ سے بھرپور ہیں۔
یہاں مصنف نے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے اور یہ اعتراف بہتوں کے لیے فکر انگیز اور چشم کشا ہے۔
باب سوم، حاصل کتاب ہے جو ص۱۲۱سے ۲۸۴تک پھیلا ہوا ہے جس میں مقالہ نگار نے موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے مفتی اعظم کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی وادبی مطالعہ پیش کیا ہے اور انہیں مختلف ضمنی عنوانات دے کر افہام وتفہیم کے دروا کیے ہیں جس کے متعلق تقریظ نگار سید محمد اشرف مارہروی ( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں ایک ایسی مجمل تفصیل ملتی ہے جس میں ایک نظم وسلیقہ تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ کڑھے ہوئے تحقیقی اور تنقیدی ذہن کی کار فرمائی صاف نظر آتی ہے۔ شاعرانہ کمالات کے بعد مصنف نے نعتیہ شاعری میں شاعر کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس علمی اور تحقیق کام پر ذاتی عقیدت حاوی نہ ہو۔‘‘ (ص:۶)
باب سوم کے ذیلی عنوانات یہ ہیں:
نوری بریلوی کے عہد میں نعت گوئی کا معیار اور عام روش، نوری بریلوی: نعتیہ شاعری کا آغاز، شاعری سے لگاؤ اور تخیلی رویے، نوری بریلوی کا تصور عشق وفن، کلام نوری میں عقیدۂ توحید، کلام نوری میں خصائص رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کلام نوری میں حزم واحتیاط، نوری بریلوی کی منقبت نگاری، کلام نوری اور علم بیان، کلام نوری میں صنائع وبدائع، کلام نوری میں عروضی چاشنی، کلام نوری میں ترکیب سازی، کلام نوری میں شاعرانہ پیکر تراشی، کلام نوری میں خیال آفرینی، نوری بریلوی کا پیرایۂ زبان وبیان، کلام نوری میں محاورات کا استعمال، نوری بریلوی کا تغزل، نوری بریلوی کی مشکل پسندی، نوری بریلوی کی اصلاحی شاعری، کلام نوری میں عربی کی آمیزش اور فارسیت کا رچاؤ، کلام نوری میں ہندی وہندوستانی عناصر اور علاقائی بولیوں کا استعمال، اورنوری بریلوی کی حمد اور رباعی میں نعتیہ کلام کا جائزہ۔
درج بالا عنوانات پر غور وفکر کرنے سے ہی مقالہ نگار کے ذوق تحقیق وتنقید اور شوق شعر وادب کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ کس قدر محنت وتفحص ، عرق ریزی اور علمیت واخاذ ذہنیت کے ساتھ انہوں نے یہ باب سپرد قرطاس کیا ہے کہ کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ اس باب کی قراء ت کے دوران جہاں مفتی اعظم مصطفی رضا نوری بریلوی کی اصناف ادب بالخصوص صنف نعت میں مہارت تامہ اور قادر الکلامی کا احساس جاگتا ہے وہیں خود مقالہ نگار کی ذہنی اور فکری اٹھان اور شعر وادب کے رموزو ونکات پر عالمانہ دسترس کا اندازہ ہوتا ہے ساتھ ہی سیرت، قرآنیات، احادیث اور مذہبی ادبیات کے مطالعے کا رنگ مزید چوکھا نظر آتا ہے، کیوں کہ کلام نوری بریلوی کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے جہاں مختلف شعری وفنی محاسن کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی قرآن وحدیث، فقہ وتفسیر جیسے علوم وفنون کی رنگا رنگی بھی نمایاں ہوکر سامنے آگئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف صرف عصری تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ عالِم اقدار وتعلیماتِ مذہب بھی ہیں اور یہ خوبی انہوں نے اپنے ذاتی مطالعہ، علما ومشایخ سے ربط وضبط اوران کی بافیض صحبتوں سے حاصل کی ہے۔
باب چہارم میں نوری بریلوی کے نعتیہ رجحانات، خیالات اور افکار وفنی محاسن پر اہل علم ودانش، ادبا اور محققین وناقدین کی آرا پیش کی گئی ہیں جن میں ان حضرات نے نوری بریلوی کی شاعرانہ عظمت کا کھلے دل سے اعتراف واظہار کیا ہے، ساتھ ہی اس باب کے ضمنی عنوان ’’نوری بریلوی کی طرز کااتباع‘‘ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ بے شمار شعرا نے آپ کے اسلوب اور طرز نگارش کی پیروی کرتے ہوئے نعتیہ کلام قلم بند کیا ہے۔ بہ طور مثال چند معاصرین اورمتاخرین شعرا کی نعتیں جمع کردی گئی ہیں۔
باب پنجم میں ماحصل کے طور پر بہ حیثیت نعت گو نوری بریلوی کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ آپ کی شاعرانہ حیثیت اور فنی رفعت ومنزلت اور عالم گیر مقبولیت کا راز کیا ہے، اخیر میں لکھتے ہیں:
’’جذبہ وفن کی وسعت، خیالات ومحسوسات کی بلندی، مضامین وموضوعات کے تنوع اور مختلف علمی وادبی اور شعری محاسن کے اعتبار سے اردو نعت گوئی کی تاریخ میں نوری بریلوی کا مقام ومرتبہ بہت بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ ہے۔‘‘ (ص۔:۳۲۱)
پھر بھی یہ اعترافِ عجز وانکسار نوری بریلوی علیہ الرحمہ کے تاج فضیلت ومقبولیت کا جھومر ہے، اپنی ایک رباعی میں فرماتے ہیں:
دنیا تو یہ کہتی ہے سخن ور ہوں میں
ارے شعرا کا سرور ہوں میں
میں یہ کہتا ہوں یہ غلط ہے سو بار غلط
سچ تو یہ ہے کہ سب سے احقر ہوں میں
مصنف نے اخیر کے آٹھ صفحات میں ’’عصر حاضر میں اردو نعت گوئی کا اجمالی منظر نامہ‘‘ بیان کیا ہے اور سب سے اخیر میں مطالعے کی کتابیات کی فہرست دی گئی ہے جس میں پچاس کتب ومقالات، اٹھائیس رسائل وجرائد اور بارہ کتب لغات کا نام درج ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیقی کتاب ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی کی جانب سے نعتیہ ادب کے شیدائیوں کے لیے بالعموم اور مفتی اعظم نوری بریلوی علیہ الرحمہ کے عقیدت مندوں کے لیے بالخصوص کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں بلکہ سید محمد اشرف مارہروی ( چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا) کے الفاظ میں:
’’خانوادۂ برکات کے ایک فرد کی حیثیت سے سوچتا ہوںتو محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کی شکل میں برکاتی سلسلہ داروں کی صف میں ایک شمع اور روشن ہوگئی ہے۔ شمع جو روشنی کی علامت بھی ہے اور حرارت کا استعارہ بھی۔‘‘ (ص:۷)
لیکن افسوس اور نم آنکھوں کے ساتھ راقم اس حقیقت کے اعتراف پر خود کو مجبور پاتا ہے کہ ملک ہندوستان میں مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی علیہ الرحمہ اور خانوادۂ امام احمد رضا کے کئی لاکھ عقیدت مندوں کی جمعیت کے بعد بھی اتنی عمدہ تحقیقی کتاب ابھی تک یہاں سے طبع نہ ہوسکی ہے۔ والضحیٰ پبلی کیشنز لاہور پاکستان نے ہندوستانی مصنف کی اتنی اہم تحقیقی وتنقیدی کتاب شائع کرکے ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی وثالث کرنے پر مجبور کردیا ہے۔میں مصنف وناشر دونوں کو بھرپور مبارک باد پیش کرتا ہوں اور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی روح سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنی روحانی توانائیوں اور باطنی توجہات سے ہندوستان میں اس کتاب کی طباعت واشاعت کا انتظام کردے۔
مصنف سے رابطہ:09420230235
ناشرسے رابطہ:0300-7259263
٭٭٭