مقالہ : اجتماعی عدالت ا مام علی علیہ السلام کی نگاہ میں

صرف علی

محفلین
بسم ا للہ الرحمن الرحیم​
امام علی کی نگاہ میں اجتماعی عدالت سے متعلق حکومت کی زمہ داری:روایات اوربالخصوص نہج البلاغہ کی روشنی میں عدالت کامعاشرے کے اندربرقرارکرنے کوحکومت اسلامی کاسب سے بڑامقصدسمجھاجاتاہے اورقرآن کریم کی نگاہ میں بھی انبیاء علیہم السلام کاہدف بعثت اورآسمانی ادیان کی آمدکوانسانی نظام حیات میں وسیع سطح پرعدالت کومحقق کرناہے۔اساسی طورپرکوئی قوم یامکتب فکرمعاشرے کے اندرعدالت کونظراندازنہیںکرسکتااور یہ بات یقینی ہے کہ اجتماعی عدالت براہ راست اقوام اورحکومتوں کی بقاء سے جڑا ہواہے یہاں تک کہ پیغمبراکرم (ص)سے نقل شدہ روایت کے مطابق ملک کفر کیساتھ تو باقی رہ سکتاہے لیکن ظلم کیساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔ (الملک یبقی مع الکفرولایبقی مع الظلم )
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کائنات نظام عدل کی اساس پرقائم ہے حدیث مشہورکے مطابق عدل کی بنیادپرزمین وآسمان برقرارہیں۔(بالعدل قامت السموات والارض)اورقرآنی آیات کی روشنی میں میزان جسے دوسرے لفظوں میںعدل کہتے ہیں ایک طرف توپورے نظام ہستی پرحاکم ہے۔اوردوسری طرف اسے انسانی حیات کے نظام پربھی حکمران ہوناچاہئے تاکہ وہ عدالت کے دائرے سے خارج نہ ہو۔مذکورہ مطالب کے پیش نظراس اہم مسئلے میں انسانوںکی فکرو عمل کے حقیقی میزان حضرت علی ابن ابی طالب علیہماالسلام کانقطہ نظرعدالت کانمایاں ترین نمونہ اور قوم و حکومت کے عادلانہ رابطہ کا عنوان بن سکتا ہے ان لوگوں کیلئے بھی جوحضرت علی(ع)کو امام معصوم اورانسانوںمیں رسول خداکے بعدسب سے زیادہ عادل اور صاحب علم جانتے ہیں۔اوران لوگون کیلے بھی جوامام عالی مقام کوایک انسان کامل اورعادل خلیفہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورمولای کائنات کی دورحکومت کو تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کی سب سے زیادہ عادل حکومت کے عنوان سے قبول کرتے ہیں۔اس منزل پرحتی غیرمسلم اہل نظراوراہل قلم چاہے وہ عیسائی ہوںیادہرئیے ؛ان کے کمالات کو صرف نظرنہیں کر پائے ہیںاوراس سلسلے میں انہوں نے کتابیں بھی لکھیںجسکابارزترین نمونہ جارج جرداق عیسائی کی وہ کتاب ہے کہ جس میں امام علی کوانسانی عدالت کی آوازکے عنوان سے یادکیاہے۔(الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ)بہر حال اب ہم یہاں اجتماعی مسائل کے سلسلے میں اس رہبربرحق وعدالت کے چنداقوال؛ نظریات اورہدایات قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں جس میں یہ تباناچاہتے ہیں کہ اجتماعی عدالت سے متعلق حکومت کی کیازمہ داری ہے ؟
اور اس مسئلے کی وضاحت کیلئے ذیل میں چندمطالب کی مختصرتوضیح دی جاتی ہے۔

الف؛امام کے کلام میںعدالت کامفہوم : امام نے عدالت کے سلسلے میں جوکچھ فرمایاہے اسے اس لفظ کی کامل اورجامع تعریف کہاجاسکتاہے اوراسی سلسلے میں امام عالی مقام سے سؤال کیاگیاکہ عدل اورجودوسخامیں سے کون ساافضل ہے؟توامام نے فرمایا؛عدل امورکو انکی اپنی جگہ پربرقرارکرتاہے لیکن سخاوت امور کو انکی اپنی جہت سے خارج کر دیتی ہے عدل ایک عام اور وسیع سیاستگر ہے لیکن سخاوت کا کااثرمحدودہے اس لئے عدل جودوسخاوت سے افضل ہے۔ امام کے کلام میں عدل کی یہ تعریف دوسرے لفظوں میں وہی مشہورتعریف ہے جسے علما ی کلام نے عدل کے مفہوم کی وضاحت میں بیان کی ہے (وضع کل شئفیما وضع لہ ) انسانی معاشرے میں مختلف نوعیت کے افرادہیں ان کی صلاحیتیں ،لیاقتیں،استعداد،علمی حیثیت ، فضیلت ،ایمان ، اخلاق ،کرداروغیرہ میں باہم فرق ہے مختلف میدانوں میں انسانی حقوق ان کے اقدارکے مطابق معین کیے جاتے ہیں ۔اگریہ قدریں صحیح ہوئیں اورہر شخص کواس کی اپنی صلاحیت کے مطابق وہ حقوق مل گئے جن کاوہ مستحق ہے توگویامعاشرے کے اندرعدالت برقرارہے لیکن اگراجتماعی مراتب اوربنیادوں کومعاشرے کے حقیقی معیارکے مطابق معین نہ کرلیاتویہ وہی ظلم ہے جومعاشرے کے نظام کودرہم برہم کردیتاہے۔
امام عالی مقام نے عدل اورسخاوت کے تقابل میں عدل کوترجیح دیتے ہوے یہ استدلال فرمایاہے کہ جودوسخااگرچہ اپنی جگہ پرایک قابل تعریف عمل ہے لیکن ہر جگہ یہ سخاوت مؤثرنہیںہوتی اورنہ ہی ہمیشہ بخشش کی صفت سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے کبھی ایسابھی ہوتاہے کی بخشش وسخاوت معاشرے میں نظام عدالت کے درہم برہم ہونے کا سبب بنتی ہے بعض افرادکے حق میں سخاوت سے کام لینا بعض دوسرے افرادکے حق کے غصب ہونے کاباعث بنتاہے لیکن عدل ایسانہیں ہے اگر ہر انسان کواس کاواقعی اورحقیقی حق دے دیاجائے توکسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوتااورنہ ہی کسی کاحق ضایع ہوتاہے لھذاعدل سیاست کے میدان میں ،معاشرے میں ، حکم اورقانون میں اورفیصلے اورمالی حقوق وغیرہ میں ایک ایساعمومی محورہے کہ جس کے سایے میں سب لوگ امان محسوس کرتے ہیں اوراپنی حق تلفی سے متعلق خوف اواضطراب میں مبتلانہیں ہوتے ۔
ایک اورجگہ امام آیہ کریمۃ (ان اللہ یامربالعدل والا حسان )کی تفسیر میں عدل کامفہوم بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں( العدل الانصاف والاحسان التفضل) یعنی عدل کامطلب ہے انصاف کرنااوراحسان کامطلب ہے بخشش کرنا۔(کلمات قصار۔٢٣١)
یہ بات واضح ہے کہ جامعہ کے اندرانصاف کی اسی وقت توقع کی جاسکتی ہے جب ہرفردکومکمل طور پراسکاحق حاصل ہوجائے
 

صرف علی

محفلین
ب:امام کی نگاہ میں عدل کی اساسی بنیاد:
ا س میں شک نہیں کہ ہرشخص خاص طورسے اگروہ اقتدارکی کرسی پربیٹھاہوعدل کامدعی ہے لیکن ان میں سے سچاکون ہے اسکامعیارکیاہے ؟کون عدالت پسندی کادعوی کرسکتاہے کہ جس کی بات حجت ہو؟عدل کاسرچشمہ کہاں سے حاصل ہوتاہے اس کی نمودانسان کے باطن سے ہے یااس کے وجودکے باہرسے؟
ان تمام سؤالات کاصرف ایک جواب ہے وہ یہ ہے کہ؛عدل انسان کے باطن سے نمودحاصل کرتاہے اوراسکاسرچشمہ صرف ایمان ہے اوردوسری شاخیں یافرعیں ا سی اصل سے نکلتی ہیں امام ؑاس سلسلے میں اپنی خلافت کے اوائل میں اپنے خطبے کے دوران ایک مختصراورجامع جملہ ارشادفرماتے ہیں۔(وشدّبالاخلاص والتوحیدحقوق المسلمین فی معاقدھا)(خطبہ نمبر۔١٦٧)
یعنی خداوندعالم نے مسلمانوں کے مقررہ حقوق کواخلاص وتوحیدکی بنیادپراستوارکیاہے
اورایک خطبے میں آپ متقیوں کی مدح کرتے ہوے فرماتے ہیں (قدالذم نفسہ العدل فکان اوّل عدلہ نفی الھوی عن نفسہ )یعنی انسان نے تقوی کے ذریعے اپنے نفس پرعدل کولازم قراردیااوراسکی عدالت کاپہلاقدم یہ ہے کہ اس نے ہوای نفس کو اپنے آپ سے دور کیا(خطبہ۔٦٧)
ایک موقع پرجب آپ سے ایمان کی تعریف بیان کرنے کی درخواست کی گی توآپ نے ایک قیمتی اورجامع ارشادمیں ایمان کے چاراصول شمارکیے۔صبر،یقین،عدل، جہاد،اورعدل کی وضاحت کرتے ہوے فرمایاکہ عدل کے چارشعبے ہیں بات کی تہوںتک پہنچنے والی فکر؛ علم کی گہرائی،بہترین اوراچھافیصلہ اورحکم کی پائیداری۔پس جس نے غوروفکر کی وہ علم گہرائی تک پہنچ گیااورجوعلم کی گہرائی میںاتراوہ فیصلوں کے سرچشمے سے سیراب ہوااورجس نے حلم اوربردباری اختیار کی اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اورلوگوں میں نیک نامی کی زندگی بسرکی ۔
اگرہم عدالت کودوشاخوں عدالت فردی اورعدالت اجتماعی میں تقسیم کریں توبلاشبہ عدالت فردی عدالت اجتماعی کیلئے بنیاد اوراساس قرارپائیگی،کیونکہ اگرافرادعدالت کی صفت سے آراستہ نہ ہوں گے تومعاشرے میں عدالت کیسے پأی جائیگی۔کیامعاشرہ افرادکامجموعہ نہیں ہے؟اس بناپرجبکہ افرادمیں ایمان ، اخلاق اورتقوی نہ ہوتوایسی صورت میں اجتماعی عدالت کی توقع ایک خیال خام ہے انسانی معاشرے کی مشکلیں ظالموں اور جابروںکاتسلط طبقہ بندیاں اورنا انصافیاں یہیں سے ظہورکرتی ہیں ۔سب سے پہلے انسان کوانسان بناناچاہئے اورانسان کوانسان بنانااسی وقت ممکن ہے جب انسان عدالت کے لباس میں ملبوس ہو۔اورعادل انسان کے معاشرے میں وجودآنے کے بعدمعاشرے کی بھاگ دوڑان کے ہاتھوں میں سونپنی چاہئے تاکہ عدالت کی حاکمیت اورمعاشرے میں انصاف کی توقع کی جاسکے یہ وہی چیز ہے جوامام (ع) کے کلام میں جلوہ گراور منعکس نظرآتی ہے۔
آپ ظلم اوربے عدالتی کے بارے میںجومعاشرے کی سبب سے بڑی بلاہے فرماتے ہیں (بئس الزادالی المعادالعدوان علی العباد) آخرت کابدترین توشہ اللہ کے بندوں پرظلم وستم ہے (باب حکمت۔٢٢١) اوردوسری جگہ فرماتے ہیں؛اگرظالم کومہلت دی جائے تب بھی وہ انتقام کے پنجے سے بچ نہیں سکتاخدااس کی کمین اورگذرگاہ پرہے اورظلم کی سزاہڈی کے مانندظالم کے گلے میں پھنس جائیگی ۔
امیرالمؤمینین علیہ السلام (جس کاعدل وتقوی اس اندازمیں زبان زدعام وخاص ہے کہ جب بھی عدل اوتقوی کاتذکرہ ہوتاہے توبے ساختہ مولای کائنات کاتصورذہن میں آتاہے گویاعدل اورعلی(ع) ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم بن گئے ہیں)نے عدالت پسندی اورعدل گستری کی روح کواسی سرچشمے سے حاصل کی ہے جس کی آپ نے خودتوصیف فرمائی ہے۔آپ اپنی عدالت پسندی کی مدح کی عکاسی کرتے ہوے فرماتے ہیں۔خداکی قسم اگرمجھے بیابان کے کانٹوں پرجاگتے ہوے رات بسرکرناپڑے اورمجھے طوق اورزنجیر میں کھینچاجائے تویہ میرے لئے اس سے بہترہے کہ میں خدااوراس کے پیغمبرسے اس حالت میں ملاقات کروںکہ میں نے خداکے بندوں کے اوپرظلم کیاہویامال دنیامیں سے کوئی چیزغصب کی ہواورمیں اس نفس کی آسودگی کیلئے کسی پرکیوں ظلم کرسکتاہوں جوفناکی طرف پلٹنے والاہے اورمدتوں مٹی کی تہوں میں پڑارہیگا۔ اورپھرآگے بڑہتے ہوے فرماتے ہیں؛(واللہ لواعطیت الاقالیم السبعۃ بماتحت افلاکھا علی ان اعصی اللہ فی نملۃفاسلبھاجلب شعیرۃمافعلتہ وان دنیاکم۔۔۔۔۔۔)(٥)اگرمجھے ان تمام چیزوں کیساتھ جوکچھ آسمانوںکے نیچے ہے ہفت اقلیم بھی دے دیاجایے کہ میں صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ ایک چونٹی کے منہ سے جوکاچھلکا چھین لوںتومیں کبھی ایسانہیں کروں گا بلاشبہ تمھاری یہ دنیامیری نظرمیں اس پتی سے بھی زیادہ حقیراوربے قیمت ہے کہ جسے ٹڈی اپنے منہ میں رکھے ہوے ہیں ۔علی(ع)کودنیاکی فانی نعمت اوراس کے بے ثبات یا مٹ جانے والی لذت سے کیا واسطہ؟(خطبہ۔٢٢١)
یہ صرف ادعانہیں ہے انہوں نے عملی طورسے یہ ثابت کردیاکہ جوکچھ فرماتے ہیںمنزل عمل میں اس سے زیادہ پائبندہیں اوراس کامنہ بو لتا ثبوت حضرت عقیل کیساتھ بیت المال کے حوالے سے امام کا وہ اقدام ہے جوعدالت خواہی کی راہ پرامام نے اٹھایامولای کائنات کی یہ عدالت خواہی اورعدالت پسندی جو ان کے اپنے خاندان کے نزدیک ترین افرادکیساتھ بھی پوری قاطعیت کیساتھ عمل میں آتی ہے ان کے بے مثال زہدوتقوی کانتیجہ ہے۔ ظالم ا ورستم کاردنیاکے علاوہ کیاچاہتے ہیں؟نا م و نمود،لذت مال وشہرت ،امارت وریاست و۔۔۔۔۔۔ یہ اوران جیسی تمام چیزیں مظالم کاسرچشمہ ہیں لیکن جب انسان اس منزل پرپہنچ گیاکہ اس نے پوری دنیاپرخط بطلان کھنیچ دیااورجوکے چھلکے یادرخت کی پتی سے بھی زیادہ اسے بے حقیقت سمجھا اوراپنی توجہ صرف مبداء ومعاد،خداکی خوشنودی اوررضا،اس کے عذاب سے نجات قیدوبندمیں گرفتاربندوں کی خدمت ہی کواپنی زندگی کافلسفہ جاناایسی عظیم ہستی کیلئے ظلم کوئی معنی نہیںرکھتاکیوں کہ وہ ظلم کواپناکوئی مقصدنہیں سمجھتا اس بات کووہی سمجھ سکتاہے جس کی عقل کاچراغ خاموش نہ ہواہواورجس کادامن لغزشوںسے پاک ہواوروہ خداپر بھروسارکھتاہو۔
کلام امام کے آخری جملے لوگوں کوظلم سے پرہیزکاطریقہ بتاتے ہیںکہ آزادی کیساتھ غورو فکرکریں اورخداسے مددطلب کریں اس کے سواکوئی راہ نہیں ہے۔
 

صرف علی

محفلین
ج) اما م علی معلم عدالت:
امام کے خطبوں، خطوط ا وراپنے عمال نیزمددگاروں کودئے گئے فرامین میں ہمیشہ رعایاکی ایک ایک فردکیساتھ عدل سے پیش آنے کی تاکیدکی گئی ہے ۔ مالک اشترکے عہدنامے میں آیاہے ۔(تمہاری نظرمیں سب سے پسندیدہ کام وہ ہوناچاہئے جوزیادہ ترحق کی شاہراہ پرہواس کاعدل عمومی ہواوراس میں رعایاکی خوشنودی زیادہ سے زیادہ شامل ہو۔اسی عہدنامہ کے ایک دوسرے حصے میں امام فرماتے ہیں۔بلاشبہ حکام اوروالیوں کی آنکھوں کابہتریں نورملکی سطح پرعدالت کاقیام اورقوم کے دلوں کواپنی طرف جذب کرناہے اوررعایاکے دلوں کی سلامتی کے بغیران کی محبت ظاہرنہیںہوسکتی اوران کی خیرخواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گردحفاظت کیلے گھیراڈالے رہیں اوران کے اقتدارکو اپنے سرپربوجھ نہ سمجھے اوران کی حکومت کے خاتمے کیلئے گھڑیانہ گنےں لہذا(آپ )ان کی امیدوں میں وسعت رکھناانہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنااوران میں سے اچھی کارکردگی رکھنے والوں کے کارناموں کاتذکرہ کرتے رہنا۔کیوں کہ ان کے اچھے کا رناموں کاذکربہادروں کوجوش میں لاتاہے اورپست ہمتوں کوابھارتاہے انشا۔۔۔۔
اگرملک کے زمہ دارافراد قوم کے سلسلے میں عدل کی روش اختیارکریں تودل ان کی طرف راغب ہوں گے اوردلوں میں پڑنے والی گرہیں کھل جائیں گی یہ بات حکومت اورنظام اسلامی کے سربراہوںکے استحکام
اورپائیداری اورقوم سے ان کے محکم اوراستوارروابط کی ضامن ہے ،اوردوسری طرف اجتماعی عدالت کوبنیادی محوربناناافرادقوم کی صلاحیتوں میں اضافہ اورقوم میں امیدکی کرن کواجاگرکرنے کاعامل ہے جب لوگ مطمئن ہوں گے کہ حق وعدالت کے علاوہ کسی اورچیزکومحورقرارنہیں دیاگیاہے تواپنی تمناؤں اورآرزؤں تک پہنچنے کیلئے منطقی را ہ اختیارکریں گے جب کہ عدالت سے مایوسی انسان کوبدسلوکی ، رشوت خوری ،اورخلاف کاری پرمائل کردیگی نتیجہ میں حکومت کے کام بگڑنے لگیں گے اومعاشرے میں اخلاق اورجذبہ تحرک کوضرب لگے گی۔امام عالی مقام (ع)نے اسلامی نظام کیلئے اس سرنوشت کوایک پیش گوئی شد ہ دردناک حادثہ کے عنوان سے یادکیاہے آپ مدینے میں بیعت کے بعداپنے ایک خطبے میںاس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:(اس ذات کی قسم جس نے رسول کوحق وصداقت کے ساتھ بیجاتم اسطرح تہ وبالاکیے جاوگے کہ تمھارے ادنی اعلی ہوجائیں گے اورجوپیچھے رہتے تھے آگے بڑھ جائیں گے اورجوہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔
امام کا نورانی کلام اس ظالمانہ دگر گونیوں کی عکاسی کررہا ہے جو قاعدوں؛ صلا حیتوں اورعدالت کی بنیاد پر نہیں بلکہ جوڑ تو ڑ اورتعلقات کی بنیادپر معاشرہ پرتسلط ہو جاتی ہیںجولوگ اسلام کالیبل لگاےے پھرتے ہیںوہ اسلام کے سچے سپو توں سے بھی آگے بڑھ تے جاتے ہیں اور جواسلام کے حقیقی فرزندہیں میدان سے باہر ہوجا تے ہیں اور یہ بہت بڑاالمیہ ہے جو ایک اجتماعی انقلاب اورالہی تحریک کیلئے خطرناک ثابت ہوتاہے،اسلامی تاریخ میں حکومتوں اورسلطنتوں کی روش اسی نہج اور اندار پر رہی کہ جس کے آثاراورنتایج کو ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
میدان تاریخ میں امیرالمومنین علیہ السلام واحد سیاستداں ہے کہ جسکی حکومت کی بنیاد عدالت پرقایم تھی یہ حکومت اگرچہ مختصرتھی لیکن رہتی دنیاتک کیلیے نمونہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کادا ئیرہ فقط انسانوں کی حد تک محدودنہیںتھابلکہ اسکی شعاع انسانی زندگی کے دایرے سے نکلکر تمام حیوانات ؛جمادات تک کو گھیرے ہوے ہے؛امام عالی مقام (ع)کے چہار سالہ دور حکومت میںعدل کی کرنیں اسقدر پھیلی ہوی ہیںکہ تمام مخلوقات کو احاطہ کیے ہوے ہے۔
ہاںامیرالمومنین وہ واحد ہستی ہے کہ جسنے عدالت کی راہ میںاپنی جان تک کی قربانی دیتے ہوے جام شہادت نوش فر مایااور ا ۤپکے سرسخت دشمن تک کو یہ کہنا پڑا( قُتِلَ عَلِیٌ لِشِدَّۃِعَدْلِہِ) یعنی علی(ع) شدت عدالت کی وجہ سے شہید ہوے۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ ہمیں بھی اس امام عادل کی راہ پر گامز ن ہوتے ہوے
اپنی ز ند گی میں عدالت کو اپنانے کی توفیق عطافر ما ئے۔ آمین ثم آ مین

محمد علی جوہری
 

صرف علی

محفلین
سلام علیکم
میں امید کرتا ہوں کے میرے اس دوست کے مقالہ پڑھنے کے بعد یہ کوئی نہیں کہیے گا کہ اسلام میں عدالت اجتماعی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
والسلام
 
Top