چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
اردو کس کی زبان ہے
لوگ کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔
میں کہتا ہوں کہ لوگ نادان ہیں۔
میں بتاتا ہوں کہ اردو کس کی زبان ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے، مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ میرے ایک دوست بھی تھے۔ گاؤں میں پہنچے۔ گاؤں والے، گاؤں والے نہ تھے، محبت والے تھے۔پہلے تو انہوں نے ہماری راہ میں آنکھیں بچھائیں، پھر رات کو سونے کیلئے گاؤں سے ذرا باہر اپنے مہمان خانے میں ، جسے وہاں اوطاق کہا جاتا ہے، انہوں نے ہمارے لیے بستر بچھائے۔ رات دیر تک وہ ہمیں حلقہ کیے بیٹھے رہے۔رات دیر تک ہم اور وہ باتیں کرتے رہے۔ اس طرح کی بیٹھک کو وہاں کی زبان میں کچہری کہا جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں ایک بزرگ بولے ۔ "بادِ سحر کو جانتے ہو؟" ہم نے کہا کہ ایک ہمارے علامہ تھے، وہ کہہ گئے ہیں کہ "جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا"۔ وہ بزرگ بولے ۔"صبح ہونے سے ذرا پہلے آنکھ کھل جائے تو بادِ سحر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، اپنے کانوں سے سن لینااور ہو سکے تو اپنی روح میں اتار لینا۔"
یہ کہہ کر گاؤں والےاپنے کچے پکے مکانوں میں چلے گئےاور ہمیں کھلے آسمان کے نیچے سفید سفید، ٹھنڈی ٹھنڈی چادروں والے بستروں پر چھوڑ گئے، جہاں ٹھنڈے ٹھنڈے تکیوں پر سر ٹکایا ہی تھا کہ پھر ہمیں اپنی خبر نہ رہی۔ میں بھی غافل سویا اور برابر والے بستر پر میرے دوست مجھ سے بھی زیادہ غافل سوئے، مجھ سے زیادہ یوں کہ صبح پو پھٹنے سے پہلے ان پر تو کچھ اثر نہ ہوا لیکن میرے بالوں میں کسی نے آہستہ سے انگلیاں پھیریں ۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ بادِ سحر تھی جو زمین سے لگی لگی تیر رہی تھی، گنے کے کھیتوں میں سرسرا رہی تھی، مہمان خانے کے پچھواڑے میں جو چھوٹی سی نہر تھیاس میں ننگے پاؤں اتر رہی تھی اور نہر کے پانی کی دھیمی دھیمی سی لہریں خود اپنے ہی کناروں کو یوں تھپتھپا رہی تھیں جیسے وہ کنارے نہ ہوں ، کسی دودھ پیتے ، رال ٹپکاتے بچے کےرخسار ہوں
میں نے گہری گہری سانسیں لے کر اس ساری کی ساری ہوا کو اپنے وجود میں اتار لینا چاہا تو ناک کے نتھنے چھوٹے پڑ گئے۔ میں منہ کے راستے بھی سانسیں لینے لگا ۔ آپ نے ہوا کے سارے گن سنے ہونگے۔ آج مجھ سے سنیے کہ اس صبح کی ہوا میٹھی بھی تھی۔ جب وہ گنے سے بھرے کھیتوں کے پتوں میں سرسرائی تو یوں لگا جیسے کوئی کانوں میں کچھ کہہ رہا ہو۔ میں نے قریب سوئے ہوئےاپنے دوست کو جگایا اور کہا "سنو! قدرت اردو بول رہی ہے۔"
تو اردو مسلمانوں کی نہیں قدرت کی زبان ہے
یہ بحث بہت عرصے سے چلی آ رہی ہےکہ اردو زبان کہاں سے چلی تھی۔ یہ پہلے پہل کہاں گھٹنیوں چلی ، پھر کہاں سنبھل سنبھل کر کھڑی ہوئی اور کہاں اس نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا؟
تحقیق کرنے والے اب کہتے ہیں کہ میرٹھ اور دلیّ کے درمیان جو علاقہ ہےنو عمر اردو نے سب سے پہلے وہیں فارسی اور عربی کی انگلی چھوڑ کر ہندی کی پگڈنڈی پر قدم بڑھائے۔ تو یہ میرٹھ سے دلیّ کا راستہ ہےجو سنہ اٹھارہ سو ستاون میں فرنگیوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے والےجاں بازوں نے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے طے کیا تھا۔ ان کے قدم سے قدم ملا کر کوئی اور زبان نہیں اردو چلی تھی۔
اردو مسلمانوں کی نہیں جوانمردوں کی زبان ہے۔
اس س کوئی یہ نہیں سمجھ بیٹھے کہ یہ صرف مردوں کی زبان ہے۔ جب کسی پنگھٹ پہ پانی بھرنے والی ناریوں سے خسرو نے پینے کو پانی مانگا تھااور جب ناریوں نے فرمائش کی تھی کہ پہلے کوئی ایسا گیت سناؤجس میں، ایک ناری نے کہا کہ کھیر کانام آئے ، دوسری بولی کہ اس میں چرخے کی بات بھی ہو، تیسری نے اٹھلا کر کہا، نہیں اس میں کتا ضرور ہو، چوتھی نے اترا کر کہا ۔"اس میں ڈھول کی بات بھی ہو۔"
چاروں نے یہ فرمائش فارسی میں نہیں کی تھی۔ عربی میں بھی نہیں کی تھی، اردو میں کی تھی
اردو مسلمانوں کی نہیں ، ہماری بہو بیٹیوں کی زبان ہے۔
کہتے ہیں اردو میں جاہ و جلال عربی کا ہے۔ ہوگا۔
کہتے ہیں اردو میں شان و شوکت فارسی کی ہے۔ ہوگی۔
مگر اردو میں سارے کے سارے فعل ہندی کے ہیں ۔ تمام کی تمام حرکت ہندی کی ہے۔ اس کا چلنا ہے، اس کا پھرنا، اس کا اٹھنا ،اس کا بیٹھنا ، اس کا اترانا،اس کا اٹھلانا، سارا کا سارا ہندی کا ہے۔ یہ نہ ہو تو عربی ساکت ہو جائے، اور فارسی جامد ہوجائے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، یہ ہاتھ پیر چلانے والوں کی، مزدوروں کی، یہ محنت کشوں کی زبان ہے، محض زبان چلانےوالوں زبان نہیں ہے۔
اور یہ بات ہنسنے کی نہیں سوچنے کی ہے کہ اردو زبان میں کوئی گالی نہیں۔ یہ جتنی گالیاں ہمیں سننی پڑتی ہیں ، یہ سب مقامی بولیوں کی ہیں ۔ اب رہ گئیں عربی فارسی گالیاں تو وہ اتنی مہذب اور شائستہ ہیں کہ گالی دینے سے اچھا ہے آدمی دل مسوس کر رہ جائے۔ آندھرا پردیش کے ایک وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ اردو زبان میں لڑائی نہیں ہو سکتی، جھگڑا نہیں ہو سکتا۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، تہذیب یافتہ شریفوں کی زبان ہے۔
ایک بار ہم نے اپنے ایک ہندی نواز ہندوستانی دوست سے کہا کہ آپ کی ساری فلمیں، ڈرامے، اور گانے اردو میں ہوتے ہیں ۔ اردو کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے:۔ "جی ہاں تفریح کی زبان ہے، دل بہلانے کی زبان ہے۔"
ہم نے کہا :۔"دل کون بہلاتا ہے، خوشیاں ہی تو دل بہلاتی ہیں۔"
اردو مسلمانوں کی نہیں ، خوشیوں، سرشاریوں اور شادمانیوں کی زبان ہے۔
مگر سارا کا سارا معاملہ یوں بھی نہیں۔ کبھی اردو شاعری اٹھا کر دیکھئے ۔ ہر شعر میں درد بھرا ہے، ہر ہر مصرع غم کا ہے۔ قدم قدم پر دکھ ہیںاور زمانہ ہے کہ محبت کرنے والوں کو مارے ڈالتا ہے۔ وصل کی گھڑیاں خواب بن کر نیندوں میں رُل گئی ہیں اور ہجر کا خنجر سینے میں پیوست ہوا جاتا ہے۔ دل کا یہ عالم کہ ڈھہا جائے ہے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، آنکھوں کے راستے آکر پلکوں پر ٹھہر جانے والے اس ایک اکیلے آنسو کی زبان ہے۔
تو پھر اردو پر ستم کیوں ؟ غالبؔ اپنی فارسی شاعری پر کیوں ناز کرتے رہے؟ اقبال نے بیاضیں کی بیاضیں فارسی اشعار سے کس کیلئے سیاہ کر دیں ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اردو دربارکی زبان تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ بہ حالتِ مجبوری تھی۔ جب دلیّ کے گلی کوچوں میں بولی جانے لگی تب کہیں بادشاہ ِ وقت نے اردو کی دہلیز پر پیشانی دھری۔ انگریزوں نے ہندوستان پہنچ کر پہلے پہلے خود اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ ہم کیوں سیکھیں ، کیوں نہ انہی گلی کوچے والوں کو انگریزی سکھائیں، چنانچہ اردو اٹھا کر دربارِ انگلشیہ کے سب سے اونچے طاق پر دھر دی گئی ۔ ملکہ وکٹوریہ نے سیکھی تو یہی دربار ان کا دشمن ہو گیا۔
پھر وقت نےوہ کروٹ بدلی جس میں اردو بری طرح کچلی گئی۔اس زبان پر تاریخ کا سب سے بڑا ستم ٹوٹا۔ جو اس کا دیس تھا وہاں سے اسے دیس نکالا مل گیا۔ جس دیس میں اس نے پیر ٹکانے کی کوشش کیوہاں کے حکامِ بالاآج پچاس ساٹھ سال بعد بھی اپنی فائلیں اردو میں نہیں لکھ سکتے۔
ایک اخبار نے سرخی لگائی:۔"پاک فضائیہ کے سربراہ پلین کریش میں ہلاک۔"
ٹیلی ویژن والوں نے ناظرین کو ویورز کہنا شروع کر دیااور ویورز بھی اس لہجے میں جس کے معنی ہوتے ہیں، جولاہا
تو پھر اردو پر یہ ستم کیوں ؟
اور اس سوال کا جو جواب ہےاسی میں اردو کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے، جب تک اس سوال کا جواب رہے گا ، اردو رہے گی
میں اپنا سوال دہراتا ہوں ۔ اردو پر یہ ستم کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی نہیں غریبوں کی زبان ہے
رضا علی عابدی
(یہ مقالہ 15 اگست 2003 ء کو ماریشس میں ہونے والی اردو کی دوسری عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا)
مقالہ نگار کو غالبؔ کا فارسی پر ناز تو نظر آیا مگر وہ یہ شعر کیوں نظر انداز کر گئے؟
جو یہ کہے کہ "ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟"
گفتہ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ "یوں"
لوگ کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔
میں کہتا ہوں کہ لوگ نادان ہیں۔
میں بتاتا ہوں کہ اردو کس کی زبان ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے، مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ میرے ایک دوست بھی تھے۔ گاؤں میں پہنچے۔ گاؤں والے، گاؤں والے نہ تھے، محبت والے تھے۔پہلے تو انہوں نے ہماری راہ میں آنکھیں بچھائیں، پھر رات کو سونے کیلئے گاؤں سے ذرا باہر اپنے مہمان خانے میں ، جسے وہاں اوطاق کہا جاتا ہے، انہوں نے ہمارے لیے بستر بچھائے۔ رات دیر تک وہ ہمیں حلقہ کیے بیٹھے رہے۔رات دیر تک ہم اور وہ باتیں کرتے رہے۔ اس طرح کی بیٹھک کو وہاں کی زبان میں کچہری کہا جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں ایک بزرگ بولے ۔ "بادِ سحر کو جانتے ہو؟" ہم نے کہا کہ ایک ہمارے علامہ تھے، وہ کہہ گئے ہیں کہ "جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا"۔ وہ بزرگ بولے ۔"صبح ہونے سے ذرا پہلے آنکھ کھل جائے تو بادِ سحر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، اپنے کانوں سے سن لینااور ہو سکے تو اپنی روح میں اتار لینا۔"
یہ کہہ کر گاؤں والےاپنے کچے پکے مکانوں میں چلے گئےاور ہمیں کھلے آسمان کے نیچے سفید سفید، ٹھنڈی ٹھنڈی چادروں والے بستروں پر چھوڑ گئے، جہاں ٹھنڈے ٹھنڈے تکیوں پر سر ٹکایا ہی تھا کہ پھر ہمیں اپنی خبر نہ رہی۔ میں بھی غافل سویا اور برابر والے بستر پر میرے دوست مجھ سے بھی زیادہ غافل سوئے، مجھ سے زیادہ یوں کہ صبح پو پھٹنے سے پہلے ان پر تو کچھ اثر نہ ہوا لیکن میرے بالوں میں کسی نے آہستہ سے انگلیاں پھیریں ۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ بادِ سحر تھی جو زمین سے لگی لگی تیر رہی تھی، گنے کے کھیتوں میں سرسرا رہی تھی، مہمان خانے کے پچھواڑے میں جو چھوٹی سی نہر تھیاس میں ننگے پاؤں اتر رہی تھی اور نہر کے پانی کی دھیمی دھیمی سی لہریں خود اپنے ہی کناروں کو یوں تھپتھپا رہی تھیں جیسے وہ کنارے نہ ہوں ، کسی دودھ پیتے ، رال ٹپکاتے بچے کےرخسار ہوں
میں نے گہری گہری سانسیں لے کر اس ساری کی ساری ہوا کو اپنے وجود میں اتار لینا چاہا تو ناک کے نتھنے چھوٹے پڑ گئے۔ میں منہ کے راستے بھی سانسیں لینے لگا ۔ آپ نے ہوا کے سارے گن سنے ہونگے۔ آج مجھ سے سنیے کہ اس صبح کی ہوا میٹھی بھی تھی۔ جب وہ گنے سے بھرے کھیتوں کے پتوں میں سرسرائی تو یوں لگا جیسے کوئی کانوں میں کچھ کہہ رہا ہو۔ میں نے قریب سوئے ہوئےاپنے دوست کو جگایا اور کہا "سنو! قدرت اردو بول رہی ہے۔"
تو اردو مسلمانوں کی نہیں قدرت کی زبان ہے
یہ بحث بہت عرصے سے چلی آ رہی ہےکہ اردو زبان کہاں سے چلی تھی۔ یہ پہلے پہل کہاں گھٹنیوں چلی ، پھر کہاں سنبھل سنبھل کر کھڑی ہوئی اور کہاں اس نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا؟
تحقیق کرنے والے اب کہتے ہیں کہ میرٹھ اور دلیّ کے درمیان جو علاقہ ہےنو عمر اردو نے سب سے پہلے وہیں فارسی اور عربی کی انگلی چھوڑ کر ہندی کی پگڈنڈی پر قدم بڑھائے۔ تو یہ میرٹھ سے دلیّ کا راستہ ہےجو سنہ اٹھارہ سو ستاون میں فرنگیوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے والےجاں بازوں نے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے طے کیا تھا۔ ان کے قدم سے قدم ملا کر کوئی اور زبان نہیں اردو چلی تھی۔
اردو مسلمانوں کی نہیں جوانمردوں کی زبان ہے۔
اس س کوئی یہ نہیں سمجھ بیٹھے کہ یہ صرف مردوں کی زبان ہے۔ جب کسی پنگھٹ پہ پانی بھرنے والی ناریوں سے خسرو نے پینے کو پانی مانگا تھااور جب ناریوں نے فرمائش کی تھی کہ پہلے کوئی ایسا گیت سناؤجس میں، ایک ناری نے کہا کہ کھیر کانام آئے ، دوسری بولی کہ اس میں چرخے کی بات بھی ہو، تیسری نے اٹھلا کر کہا، نہیں اس میں کتا ضرور ہو، چوتھی نے اترا کر کہا ۔"اس میں ڈھول کی بات بھی ہو۔"
چاروں نے یہ فرمائش فارسی میں نہیں کی تھی۔ عربی میں بھی نہیں کی تھی، اردو میں کی تھی
اردو مسلمانوں کی نہیں ، ہماری بہو بیٹیوں کی زبان ہے۔
کہتے ہیں اردو میں جاہ و جلال عربی کا ہے۔ ہوگا۔
کہتے ہیں اردو میں شان و شوکت فارسی کی ہے۔ ہوگی۔
مگر اردو میں سارے کے سارے فعل ہندی کے ہیں ۔ تمام کی تمام حرکت ہندی کی ہے۔ اس کا چلنا ہے، اس کا پھرنا، اس کا اٹھنا ،اس کا بیٹھنا ، اس کا اترانا،اس کا اٹھلانا، سارا کا سارا ہندی کا ہے۔ یہ نہ ہو تو عربی ساکت ہو جائے، اور فارسی جامد ہوجائے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، یہ ہاتھ پیر چلانے والوں کی، مزدوروں کی، یہ محنت کشوں کی زبان ہے، محض زبان چلانےوالوں زبان نہیں ہے۔
اور یہ بات ہنسنے کی نہیں سوچنے کی ہے کہ اردو زبان میں کوئی گالی نہیں۔ یہ جتنی گالیاں ہمیں سننی پڑتی ہیں ، یہ سب مقامی بولیوں کی ہیں ۔ اب رہ گئیں عربی فارسی گالیاں تو وہ اتنی مہذب اور شائستہ ہیں کہ گالی دینے سے اچھا ہے آدمی دل مسوس کر رہ جائے۔ آندھرا پردیش کے ایک وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ اردو زبان میں لڑائی نہیں ہو سکتی، جھگڑا نہیں ہو سکتا۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، تہذیب یافتہ شریفوں کی زبان ہے۔
ایک بار ہم نے اپنے ایک ہندی نواز ہندوستانی دوست سے کہا کہ آپ کی ساری فلمیں، ڈرامے، اور گانے اردو میں ہوتے ہیں ۔ اردو کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے:۔ "جی ہاں تفریح کی زبان ہے، دل بہلانے کی زبان ہے۔"
ہم نے کہا :۔"دل کون بہلاتا ہے، خوشیاں ہی تو دل بہلاتی ہیں۔"
اردو مسلمانوں کی نہیں ، خوشیوں، سرشاریوں اور شادمانیوں کی زبان ہے۔
مگر سارا کا سارا معاملہ یوں بھی نہیں۔ کبھی اردو شاعری اٹھا کر دیکھئے ۔ ہر شعر میں درد بھرا ہے، ہر ہر مصرع غم کا ہے۔ قدم قدم پر دکھ ہیںاور زمانہ ہے کہ محبت کرنے والوں کو مارے ڈالتا ہے۔ وصل کی گھڑیاں خواب بن کر نیندوں میں رُل گئی ہیں اور ہجر کا خنجر سینے میں پیوست ہوا جاتا ہے۔ دل کا یہ عالم کہ ڈھہا جائے ہے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، آنکھوں کے راستے آکر پلکوں پر ٹھہر جانے والے اس ایک اکیلے آنسو کی زبان ہے۔
تو پھر اردو پر ستم کیوں ؟ غالبؔ اپنی فارسی شاعری پر کیوں ناز کرتے رہے؟ اقبال نے بیاضیں کی بیاضیں فارسی اشعار سے کس کیلئے سیاہ کر دیں ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اردو دربارکی زبان تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ بہ حالتِ مجبوری تھی۔ جب دلیّ کے گلی کوچوں میں بولی جانے لگی تب کہیں بادشاہ ِ وقت نے اردو کی دہلیز پر پیشانی دھری۔ انگریزوں نے ہندوستان پہنچ کر پہلے پہلے خود اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ ہم کیوں سیکھیں ، کیوں نہ انہی گلی کوچے والوں کو انگریزی سکھائیں، چنانچہ اردو اٹھا کر دربارِ انگلشیہ کے سب سے اونچے طاق پر دھر دی گئی ۔ ملکہ وکٹوریہ نے سیکھی تو یہی دربار ان کا دشمن ہو گیا۔
پھر وقت نےوہ کروٹ بدلی جس میں اردو بری طرح کچلی گئی۔اس زبان پر تاریخ کا سب سے بڑا ستم ٹوٹا۔ جو اس کا دیس تھا وہاں سے اسے دیس نکالا مل گیا۔ جس دیس میں اس نے پیر ٹکانے کی کوشش کیوہاں کے حکامِ بالاآج پچاس ساٹھ سال بعد بھی اپنی فائلیں اردو میں نہیں لکھ سکتے۔
ایک اخبار نے سرخی لگائی:۔"پاک فضائیہ کے سربراہ پلین کریش میں ہلاک۔"
ٹیلی ویژن والوں نے ناظرین کو ویورز کہنا شروع کر دیااور ویورز بھی اس لہجے میں جس کے معنی ہوتے ہیں، جولاہا
تو پھر اردو پر یہ ستم کیوں ؟
اور اس سوال کا جو جواب ہےاسی میں اردو کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے، جب تک اس سوال کا جواب رہے گا ، اردو رہے گی
میں اپنا سوال دہراتا ہوں ۔ اردو پر یہ ستم کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی نہیں غریبوں کی زبان ہے
رضا علی عابدی
(یہ مقالہ 15 اگست 2003 ء کو ماریشس میں ہونے والی اردو کی دوسری عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا)
مقالہ نگار کو غالبؔ کا فارسی پر ناز تو نظر آیا مگر وہ یہ شعر کیوں نظر انداز کر گئے؟
جو یہ کہے کہ "ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟"
گفتہ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ "یوں"