مقالہ: اردو کس کی زبان ہے؟ - رضا علی عابدی

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
اردو کس کی زبان ہے

لوگ کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔
میں کہتا ہوں کہ لوگ نادان ہیں۔
میں بتاتا ہوں کہ اردو کس کی زبان ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے، مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ میرے ایک دوست بھی تھے۔ گاؤں میں پہنچے۔ گاؤں والے، گاؤں والے نہ تھے، محبت والے تھے۔پہلے تو انہوں نے ہماری راہ میں آنکھیں بچھائیں، پھر رات کو سونے کیلئے گاؤں سے ذرا باہر اپنے مہمان خانے میں ، جسے وہاں اوطاق کہا جاتا ہے، انہوں نے ہمارے لیے بستر بچھائے۔ رات دیر تک وہ ہمیں حلقہ کیے بیٹھے رہے۔رات دیر تک ہم اور وہ باتیں کرتے رہے۔ اس طرح کی بیٹھک کو وہاں کی زبان میں کچہری کہا جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں ایک بزرگ بولے ۔ "بادِ سحر کو جانتے ہو؟" ہم نے کہا کہ ایک ہمارے علامہ تھے، وہ کہہ گئے ہیں کہ "جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا"۔ وہ بزرگ بولے ۔"صبح ہونے سے ذرا پہلے آنکھ کھل جائے تو بادِ سحر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، اپنے کانوں سے سن لینااور ہو سکے تو اپنی روح میں اتار لینا۔"
یہ کہہ کر گاؤں والےاپنے کچے پکے مکانوں میں چلے گئےاور ہمیں کھلے آسمان کے نیچے سفید سفید، ٹھنڈی ٹھنڈی چادروں والے بستروں پر چھوڑ گئے، جہاں ٹھنڈے ٹھنڈے تکیوں پر سر ٹکایا ہی تھا کہ پھر ہمیں اپنی خبر نہ رہی۔ میں بھی غافل سویا اور برابر والے بستر پر میرے دوست مجھ سے بھی زیادہ غافل سوئے، مجھ سے زیادہ یوں کہ صبح پو پھٹنے سے پہلے ان پر تو کچھ اثر نہ ہوا لیکن میرے بالوں میں کسی نے آہستہ سے انگلیاں پھیریں ۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ بادِ سحر تھی جو زمین سے لگی لگی تیر رہی تھی، گنے کے کھیتوں میں سرسرا رہی تھی، مہمان خانے کے پچھواڑے میں جو چھوٹی سی نہر تھیاس میں ننگے پاؤں اتر رہی تھی اور نہر کے پانی کی دھیمی دھیمی سی لہریں خود اپنے ہی کناروں کو یوں تھپتھپا رہی تھیں جیسے وہ کنارے نہ ہوں ، کسی دودھ پیتے ، رال ٹپکاتے بچے کےرخسار ہوں
میں نے گہری گہری سانسیں لے کر اس ساری کی ساری ہوا کو اپنے وجود میں اتار لینا چاہا تو ناک کے نتھنے چھوٹے پڑ گئے۔ میں منہ کے راستے بھی سانسیں لینے لگا ۔ آپ نے ہوا کے سارے گن سنے ہونگے۔ آج مجھ سے سنیے کہ اس صبح کی ہوا میٹھی بھی تھی۔ جب وہ گنے سے بھرے کھیتوں کے پتوں میں سرسرائی تو یوں لگا جیسے کوئی کانوں میں کچھ کہہ رہا ہو۔ میں نے قریب سوئے ہوئےاپنے دوست کو جگایا اور کہا "سنو! قدرت اردو بول رہی ہے۔"
تو اردو مسلمانوں کی نہیں قدرت کی زبان ہے

یہ بحث بہت عرصے سے چلی آ رہی ہےکہ اردو زبان کہاں سے چلی تھی۔ یہ پہلے پہل کہاں گھٹنیوں چلی ، پھر کہاں سنبھل سنبھل کر کھڑی ہوئی اور کہاں اس نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا؟
تحقیق کرنے والے اب کہتے ہیں کہ میرٹھ اور دلیّ کے درمیان جو علاقہ ہےنو عمر اردو نے سب سے پہلے وہیں فارسی اور عربی کی انگلی چھوڑ کر ہندی کی پگڈنڈی پر قدم بڑھائے۔ تو یہ میرٹھ سے دلیّ کا راستہ ہےجو سنہ اٹھارہ سو ستاون میں فرنگیوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے والےجاں بازوں نے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے طے کیا تھا۔ ان کے قدم سے قدم ملا کر کوئی اور زبان نہیں اردو چلی تھی۔
اردو مسلمانوں کی نہیں جوانمردوں کی زبان ہے۔

اس س کوئی یہ نہیں سمجھ بیٹھے کہ یہ صرف مردوں کی زبان ہے۔ جب کسی پنگھٹ پہ پانی بھرنے والی ناریوں سے خسرو نے پینے کو پانی مانگا تھااور جب ناریوں نے فرمائش کی تھی کہ پہلے کوئی ایسا گیت سناؤجس میں، ایک ناری نے کہا کہ کھیر کانام آئے ، دوسری بولی کہ اس میں چرخے کی بات بھی ہو، تیسری نے اٹھلا کر کہا، نہیں اس میں کتا ضرور ہو، چوتھی نے اترا کر کہا ۔"اس میں ڈھول کی بات بھی ہو۔"
چاروں نے یہ فرمائش فارسی میں نہیں کی تھی۔ عربی میں بھی نہیں کی تھی، اردو میں کی تھی
اردو مسلمانوں کی نہیں ، ہماری بہو بیٹیوں کی زبان ہے۔


کہتے ہیں اردو میں جاہ و جلال عربی کا ہے۔ ہوگا۔
کہتے ہیں اردو میں شان و شوکت فارسی کی ہے۔ ہوگی۔
مگر اردو میں سارے کے سارے فعل ہندی کے ہیں ۔ تمام کی تمام حرکت ہندی کی ہے۔ اس کا چلنا ہے، اس کا پھرنا، اس کا اٹھنا ،اس کا بیٹھنا ، اس کا اترانا،اس کا اٹھلانا، سارا کا سارا ہندی کا ہے۔ یہ نہ ہو تو عربی ساکت ہو جائے، اور فارسی جامد ہوجائے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، یہ ہاتھ پیر چلانے والوں کی، مزدوروں کی، یہ محنت کشوں کی زبان ہے، محض زبان چلانےوالوں زبان نہیں ہے۔

اور یہ بات ہنسنے کی نہیں سوچنے کی ہے کہ اردو زبان میں کوئی گالی نہیں۔ یہ جتنی گالیاں ہمیں سننی پڑتی ہیں ، یہ سب مقامی بولیوں کی ہیں ۔ اب رہ گئیں عربی فارسی گالیاں تو وہ اتنی مہذب اور شائستہ ہیں کہ گالی دینے سے اچھا ہے آدمی دل مسوس کر رہ جائے۔ آندھرا پردیش کے ایک وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ اردو زبان میں لڑائی نہیں ہو سکتی، جھگڑا نہیں ہو سکتا۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، تہذیب یافتہ شریفوں کی زبان ہے۔

ایک بار ہم نے اپنے ایک ہندی نواز ہندوستانی دوست سے کہا کہ آپ کی ساری فلمیں، ڈرامے، اور گانے اردو میں ہوتے ہیں ۔ اردو کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے:۔ "جی ہاں تفریح کی زبان ہے، دل بہلانے کی زبان ہے۔"
ہم نے کہا :۔"دل کون بہلاتا ہے، خوشیاں ہی تو دل بہلاتی ہیں۔"
اردو مسلمانوں کی نہیں ، خوشیوں، سرشاریوں اور شادمانیوں کی زبان ہے۔

مگر سارا کا سارا معاملہ یوں بھی نہیں۔ کبھی اردو شاعری اٹھا کر دیکھئے ۔ ہر شعر میں درد بھرا ہے، ہر ہر مصرع غم کا ہے۔ قدم قدم پر دکھ ہیںاور زمانہ ہے کہ محبت کرنے والوں کو مارے ڈالتا ہے۔ وصل کی گھڑیاں خواب بن کر نیندوں میں رُل گئی ہیں اور ہجر کا خنجر سینے میں پیوست ہوا جاتا ہے۔ دل کا یہ عالم کہ ڈھہا جائے ہے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، آنکھوں کے راستے آکر پلکوں پر ٹھہر جانے والے اس ایک اکیلے آنسو کی زبان ہے۔

تو پھر اردو پر ستم کیوں ؟ غالبؔ اپنی فارسی شاعری پر کیوں ناز کرتے رہے؟ اقبال نے بیاضیں کی بیاضیں فارسی اشعار سے کس کیلئے سیاہ کر دیں ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اردو دربارکی زبان تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ بہ حالتِ مجبوری تھی۔ جب دلیّ کے گلی کوچوں میں بولی جانے لگی تب کہیں بادشاہ ِ وقت نے اردو کی دہلیز پر پیشانی دھری۔ انگریزوں نے ہندوستان پہنچ کر پہلے پہلے خود اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ ہم کیوں سیکھیں ، کیوں نہ انہی گلی کوچے والوں کو انگریزی سکھائیں، چنانچہ اردو اٹھا کر دربارِ انگلشیہ کے سب سے اونچے طاق پر دھر دی گئی ۔ ملکہ وکٹوریہ نے سیکھی تو یہی دربار ان کا دشمن ہو گیا۔
پھر وقت نےوہ کروٹ بدلی جس میں اردو بری طرح کچلی گئی۔اس زبان پر تاریخ کا سب سے بڑا ستم ٹوٹا۔ جو اس کا دیس تھا وہاں سے اسے دیس نکالا مل گیا۔ جس دیس میں اس نے پیر ٹکانے کی کوشش کیوہاں کے حکامِ بالاآج پچاس ساٹھ سال بعد بھی اپنی فائلیں اردو میں نہیں لکھ سکتے۔
ایک اخبار نے سرخی لگائی:۔"پاک فضائیہ کے سربراہ پلین کریش میں ہلاک۔"
ٹیلی ویژن والوں نے ناظرین کو ویورز کہنا شروع کر دیااور ویورز بھی اس لہجے میں جس کے معنی ہوتے ہیں، جولاہا
تو پھر اردو پر یہ ستم کیوں ؟
اور اس سوال کا جو جواب ہےاسی میں اردو کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے، جب تک اس سوال کا جواب رہے گا ، اردو رہے گی
میں اپنا سوال دہراتا ہوں ۔ اردو پر یہ ستم کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی نہیں غریبوں کی زبان ہے

رضا علی عابدی
(یہ مقالہ 15 اگست 2003 ء کو ماریشس میں ہونے والی اردو کی دوسری عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا)


مقالہ نگار کو غالبؔ کا فارسی پر ناز تو نظر آیا مگر وہ یہ شعر کیوں نظر انداز کر گئے؟
جو یہ کہے کہ "ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟"
گفتہ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ "یوں"
 

سید زبیر

محفلین
اردو کس کی زبان ہے

لوگ کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔
میں کہتا ہوں کہ لوگ نادان ہیں۔
میں بتاتا ہوں کہ اردو کس کی زبان ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے، مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ میرے ایک دوست بھی تھے۔ گاؤں میں پہنچے۔ گاؤں والے، گاؤں والے نہ تھے، محبت والے تھے۔پہلے تو انہوں نے ہماری راہ میں آنکھیں بچھائیں، پھر رات کو سونے کیلئے گاؤں سے ذرا باہر اپنے مہمان خانے میں ، جسے وہاں اوطاق کہا جاتا ہے، انہوں نے ہمارے لیے بستر بچھائے۔ رات دیر تک وہ ہمیں حلقہ کیے بیٹھے رہے۔رات دیر تک ہم اور وہ باتیں کرتے رہے۔ اس طرح کی بیٹھک کو وہاں کی زبان میں کچہری کہا جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں ایک بزرگ بولے ۔ "بادِ سحر کو جانتے ہو؟" ہم نے کہا کہ ایک ہمارے علامہ تھے، وہ کہہ گئے ہیں کہ "جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا"۔ وہ بزرگ بولے ۔"صبح ہونے سے ذرا پہلے آنکھ کھل جائے تو بادِ سحر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، اپنے کانوں سے سن لینااور ہو سکے تو اپنی روح میں اتار لینا۔"
یہ کہہ کر گاؤں والےاپنے کچے پکے مکانوں میں چلے گئےاور ہمیں کھلے آسمان کے نیچے سفید سفید، ٹھنڈی ٹھنڈی چادروں والے بستروں پر چھوڑ گئے، جہاں ٹھنڈے ٹھنڈے تکیوں پر سر ٹکایا ہی تھا کہ پھر ہمیں اپنی خبر نہ رہی۔ میں بھی غافل سویا اور برابر والے بستر پر میرے دوست مجھ سے بھی زیادہ غافل سوئے، مجھ سے زیادہ یوں کہ صبح پو پھٹنے سے پہلے ان پر تو کچھ اثر نہ ہوا لیکن میرے بالوں میں کسی نے آہستہ سے انگلیاں پھیریں ۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ بادِ سحر تھی جو زمین سے لگی لگی تیر رہی تھی، گنے کے کھیتوں میں سرسرا رہی تھی، مہمان خانے کے پچھواڑے میں جو چھوٹی سی نہر تھیاس میں ننگے پاؤں اتر رہی تھی اور نہر کے پانی کی دھیمی دھیمی سی لہریں خود اپنے ہی کناروں کو یوں تھپتھپا رہی تھیں جیسے وہ کنارے نہ ہوں ، کسی دودھ پیتے ، رال ٹپکاتے بچے کےرخسار ہوں
میں نے گہری گہری سانسیں لے کر اس ساری کی ساری ہوا کو اپنے وجود میں اتار لینا چاہا تو ناک کے نتھنے چھوٹے پڑ گئے۔ میں منہ کے راستے بھی سانسیں لینے لگا ۔ آپ نے ہوا کے سارے گن سنے ہونگے۔ آج مجھ سے سنیے کہ اس صبح کی ہوا میٹھی بھی تھی۔ جب وہ گنے سے بھرے کھیتوں کے پتوں میں سرسرائی تو یوں لگا جیسے کوئی کانوں میں کچھ کہہ رہا ہو۔ میں نے قریب سوئے ہوئےاپنے دوست کو جگایا اور کہا "سنو! قدرت اردو بول رہی ہے۔"
تو اردو مسلمانوں کی نہیں قدرت کی زبان ہے

یہ بحث بہت عرصے سے چلی آ رہی ہےکہ اردو زبان کہاں سے چلی تھی۔ یہ پہلے پہل کہاں گھٹنیوں چلی ، پھر کہاں سنبھل سنبھل کر کھڑی ہوئی اور کہاں اس نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا؟
تحقیق کرنے والے اب کہتے ہیں کہ میرٹھ اور دلیّ کے درمیان جو علاقہ ہےنو عمر اردو نے سب سے پہلے وہیں فارسی اور عربی کی انگلی چھوڑ کر ہندی کی پگڈنڈی پر قدم بڑھائے۔ تو یہ میرٹھ سے دلیّ کا راستہ ہےجو سنہ اٹھارہ سو ستاون میں فرنگیوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے والےجاں بازوں نے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے طے کیا تھا۔ ان کے قدم سے قدم ملا کر کوئی اور زبان نہیں اردو چلی تھی۔
اردو مسلمانوں کی نہیں جوانمردوں کی زبان ہے۔

اس س کوئی یہ نہیں سمجھ بیٹھے کہ یہ صرف مردوں کی زبان ہے۔ جب کسی پنگھٹ پہ پانی بھرنے والی ناریوں سے خسرو نے پینے کو پانی مانگا تھااور جب ناریوں نے فرمائش کی تھی کہ پہلے کوئی ایسا گیت سناؤجس میں، ایک ناری نے کہا کہ کھیر کانام آئے ، دوسری بولی کہ اس میں چرخے کی بات بھی ہو، تیسری نے اٹھلا کر کہا، نہیں اس میں کتا ضرور ہو، چوتھی نے اترا کر کہا ۔"اس میں ڈھول کی بات بھی ہو۔"
چاروں نے یہ فرمائش فارسی میں نہیں کی تھی۔ عربی میں بھی نہیں کی تھی، اردو میں کی تھی
اردو مسلمانوں کی نہیں ، ہماری بہو بیٹیوں کی زبان ہے۔


کہتے ہیں اردو میں جاہ و جلال عربی کا ہے۔ ہوگا۔
کہتے ہیں اردو میں شان و شوکت فارسی کی ہے۔ ہوگی۔
مگر اردو میں سارے کے سارے فعل ہندی کے ہیں ۔ تمام کی تمام حرکت ہندی کی ہے۔ اس کا چلنا ہے، اس کا پھرنا، اس کا اٹھنا ،اس کا بیٹھنا ، اس کا اترانا،اس کا اٹھلانا، سارا کا سارا ہندی کا ہے۔ یہ نہ ہو تو عربی ساکت ہو جائے، اور فارسی جامد ہوجائے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، یہ ہاتھ پیر چلانے والوں کی، مزدوروں کی، یہ محنت کشوں کی زبان ہے، محض زبان چلانےوالوں زبان نہیں ہے۔

اور یہ بات ہنسنے کی نہیں سوچنے کی ہے کہ اردو زبان میں کوئی گالی نہیں۔ یہ جتنی گالیاں ہمیں سننی پڑتی ہیں ، یہ سب مقامی بولیوں کی ہیں ۔ اب رہ گئیں عربی فارسی گالیاں تو وہ اتنی مہذب اور شائستہ ہیں کہ گالی دینے سے اچھا ہے آدمی دل مسوس کر رہ جائے۔ آندھرا پردیش کے ایک وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ اردو زبان میں لڑائی نہیں ہو سکتی، جھگڑا نہیں ہو سکتا۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، تہذیب یافتہ شریفوں کی زبان ہے۔

ایک بار ہم نے اپنے ایک ہندی نواز ہندوستانی دوست سے کہا کہ آپ کی ساری فلمیں، ڈرامے، اور گانے اردو میں ہوتے ہیں ۔ اردو کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے:۔ "جی ہاں تفریح کی زبان ہے، دل بہلانے کی زبان ہے۔"
ہم نے کہا :۔"دل کون بہلاتا ہے، خوشیاں ہی تو دل بہلاتی ہیں۔"
اردو مسلمانوں کی نہیں ، خوشیوں، سرشاریوں اور شادمانیوں کی زبان ہے۔

مگر سارا کا سارا معاملہ یوں بھی نہیں۔ کبھی اردو شاعری اٹھا کر دیکھئے ۔ ہر شعر میں درد بھرا ہے، ہر ہر مصرع غم کا ہے۔ قدم قدم پر دکھ ہیںاور زمانہ ہے کہ محبت کرنے والوں کو مارے ڈالتا ہے۔ وصل کی گھڑیاں خواب بن کر نیندوں میں رُل گئی ہیں اور ہجر کا خنجر سینے میں پیوست ہوا جاتا ہے۔ دل کا یہ عالم کہ ڈھہا جائے ہے۔
اردو مسلمانوں کی نہیں ، آنکھوں کے راستے آکر پلکوں پر ٹھہر جانے والے اس ایک اکیلے آنسو کی زبان ہے۔

تو پھر اردو پر ستم کیوں ؟ غالبؔ اپنی فارسی شاعری پر کیوں ناز کرتے رہے؟ اقبال نے بیاضیں کی بیاضیں فارسی اشعار سے کس کیلئے سیاہ کر دیں ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اردو دربارکی زبان تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ بہ حالتِ مجبوری تھی۔ جب دلیّ کے گلی کوچوں میں بولی جانے لگی تب کہیں بادشاہ ِ وقت نے اردو کی دہلیز پر پیشانی دھری۔ انگریزوں نے ہندوستان پہنچ کر پہلے پہلے خود اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پھر کسی کو خیال آیا کہ ہم کیوں سیکھیں ، کیوں نہ انہی گلی کوچے والوں کو انگریزی سکھائیں، چنانچہ اردو اٹھا کر دربارِ انگلشیہ کے سب سے اونچے طاق پر دھر دی گئی ۔ ملکہ وکٹوریہ نے سیکھی تو یہی دربار ان کا دشمن ہو گیا۔
پھر وقت نےوہ کروٹ بدلی جس میں اردو بری طرح کچلی گئی۔اس زبان پر تاریخ کا سب سے بڑا ستم ٹوٹا۔ جو اس کا دیس تھا وہاں سے اسے دیس نکالا مل گیا۔ جس دیس میں اس نے پیر ٹکانے کی کوشش کیوہاں کے حکامِ بالاآج پچاس ساٹھ سال بعد بھی اپنی فائلیں اردو میں نہیں لکھ سکتے۔
ایک اخبار نے سرخی لگائی:۔"پاک فضائیہ کے سربراہ پلین کریش میں ہلاک۔"
ٹیلی ویژن والوں نے ناظرین کو ویورز کہنا شروع کر دیااور ویورز بھی اس لہجے میں جس کے معنی ہوتے ہیں، جولاہا
تو پھر اردو پر یہ ستم کیوں ؟
اور اس سوال کا جو جواب ہےاسی میں اردو کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے، جب تک اس سوال کا جواب رہے گا ، اردو رہے گی
میں اپنا سوال دہراتا ہوں ۔ اردو پر یہ ستم کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی نہیں غریبوں کی زبان ہے

رضا علی عابدی
(یہ مقالہ 15 اگست 2003 ء کو ماریشس میں ہونے والی اردو کی دوسری عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا)


مقالہ نگار کو غالبؔ کا فارسی پر ناز تو نظر آیا مگر وہ یہ شعر کیوں نظر انداز کر گئے؟
جو یہ کہے کہ "ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟"
گفتہ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ "یوں"

پیارے بھائ محفل میں نو وارد ہوں آداب سے آگاہی نہیں ہے کچھ سیکھنے کے لیے شرکت کی ہے آپ کا مقالہ " اردو کس کی زبان ہے " پڑھا ،بہت لطف آیا​
خدا کرے زور قلم اور زیادہ​
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر کچھ عرض کروں تو گستاخی نہیں بلکہ کم علمی اور کم فہمی سمجھ کر در گذر فرمادیجیے گا یہی میری محفل کے تمام شرکا سے ہاتھ باندھ کر گزارش ہے​
محترم آپ نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ اردو قدرت کی زبان ہے مگر آپ نے جو فرمایا کہ اردو محنت کشوں کی زبان ہے تو میرے بھائ محنت کشوں میں سے تو مجھے چند نام نظر آئے احسان دانش ، تنویر سپرا اور سورج نرائن ۔۔۔خوشیوں ،شادمانیوں اور سرشاریوں کی زبان ہے تو ہم دیکھتے ہیں اسمیں تو نوحہ ، مرثیہ بھی بہت ہیں ۔دلی کے گلی کوچوں کی زبان ہے ؟ تو ہم اسے شہنشاہ معلیٰ اور دربار انگلشیہ میں بھی پاتے ہیں اور کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہذیب یافتہ شریفوں کی زبان ہے مگر اس میں تو ایسی نستعلیق قسم کی گالیاں موجود ہیں کہ سننے والا لغت ڈھوندھتا پھرے ۔ زبان کا چٹخار بھی تو حسن کا ایک حصہ ہوتا ہےآنکھیں شربتی یا بلوریں، گال گلابی ،لب گلاب کی ایک پنکھڑی مگر پلکوں کی سیاہ چلمن ہی حسن کو چار چاند لگاتی ہے ۔اردو قدرت کی زبان ہے اور قدرت تو مکاں کی مقید نہیں ہوتی اردو اسی لیےرابطے کی زبان ہے کابلی والا رابندر ناتھ ٹیگور سے پہلے کلکتہ میں اردو ہی بولا کرتا تھا ۔سوات کے اخونزادہ رام پور میں ،وسطی ایشیا کے مرزا​
حیدراآباد دکن میں اردو ہی بولتے تھے ۔ یہ تو ہمیشہ سے قوموں کے مابین رابطے کی زبان رہی ہے​
آپ نے فرمایا اردو کو دیس بدیس کیا گیا ۔کونسا دیس کیسا دیس ؟ دیس تو اس کا ہوتا ہے جو مقیم ہو کر جامد ہو جائے اردو دیگر زبانوں کی مانند جغرافیائ سرحدوں میں مقید نہیں ہے ۔ جس کو سیکھنے کے لیے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنی پڑے یہ تو محبت کی بان ہے کیونکہ قدرت محبت ہی سکھاتی ہے اردو شائد واحد ایسی زبان ہے جس کے لیے صرف محبت کی ضرورت ہے تعلیم کی نہیں بحیرہ بنگال سے ہمالہ تک کروڑ ہا ایسے افرادملیں گے جن کی مادری زبان بنگالی،آسامی،ہندی، پنجابی،سرائیکی ، سندھی ، براہوی، بلوچی، پشتو ، چترالی فارسی ہوگی بلکہ بغیر کسی رسمی تعلیم کے اردو کو محبت اور رابطے کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔​
اردو تو باد نسیم ہے اس میںعرب کی وسعت ، فارس کا خمار ،اودھ کی خوشبو ،دلی کی رنگینی ، سیالکوٹ کی صناعی ،پنجاب کے دیہات کی منظر ناگاری،خیبر پختون خواہ کا عزم سب ہی کچھ تو اس میں ملے گا​
کون کہتا ہے لشکرکی زبان ہے اردو​
اس کو قوموں کے تمدن نے کیا ہے پیدا​
عزیزم آپ نے افسوس کا اطۃار کیا ہے کہ اس میں انگریزی کے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں اس زبان کو تو نکھار ہی مختلف تہذیبوں سے ملا ہے یہ جھرناہے جو بہتا ہی چلا جارہا ہے مختلف لو لو ومرجان اس میں شامل ہونگے​
اس چمن میں ہونگے پیدا بلبل شیراز بھی​
سینکڑوں ساحر بھی ہونگے صاحب اعجاز بھی​
اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بتخانے سے​
مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے​
اب آخری مگر انتہائ اہم نکتہ ، کہ غالب اور اقبال نے فارسی میں زیادہ کلام کیوں کہا ؛​
پہلے ہم مرزا غالب کی طرف آتے ہیں ۔۔ غلاب مرحوم کی عادات و خصائل سےتو آپ آگاہ ہی ہیں موصوف تمام عمر اپنے کلام کی کمائ کھاتے رہے یا سرکاری وظیفہ تھا یا قدردانوں کے نذرانے۔تو جس حلقہ سے انہیں تحسین کا خراج ملتا تھا وہ اسی کے لیے لکھتے تھے اور وہ طبقہ فارسی کا دلدادہ تھا۔رہی بات اقبال کی تو اقبال کے پندرہ ہزاراشعارميں سے نو ہزار فارسي ميں ہيں اور ان کا اردوکلام فارسي سے بہت کم ہے ۔ان کے بہترین اشعار اور کم از کم معني کے لحاظ سے ان کا اہم ترين کلام وہي ہے جو انہوں نے فارسي ميں کہا ہے اقبال کا فارسی کلام بھی شعری معجزات میں سے ہے اقبال فارسی بات چیت اور محاورے سے ناواقف تھے اور اپنے گھر میں اور اپنے دوستوں سے اردو یا انگریزی میں بات کرتے تھے ۔اقبا ل کو فارسی مضمون نگاری اور فارسی نثر سے واقفیت نہیں تھی اور اقبال کی فارسی نثر وہی تعبیرات ہیں جو انہوں نے ،اسرا رخودی ،اور رموز بے خودی کی ابتدائ میں تحریر کی ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ ان کا سمجھنا فارسی زبان والوں کے لئے بھی مشکل ہے۔ انہوں نے سعدی اور حافظ کے دیوان پڑھ کر فارسی سیکھی اقبال کے بعض مضامین جن کو انہوں ایک شعر میں بیان کردیا ایسے ہیں کہ اگراہل فارس چاہیں کہ نثر میں بیان کریں تو مشکل ہے ا​
اقبال ایک عظیم مصلح اور حریت پسند شخص تھےاقبال کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اسلامی دنیا اور مشرق کا مسئلہ تھا۔وہ اپنی مثنوی (پس چہ باید کرد اے اقوام شرق )اس بات کی نشان دہی کرتے انہیں اھساس ہوا کہ مسلمانان ہند میں خودی کے جوہر کی نمود سے قبل ایران کے نوجوانوں میں خودی کے آثار ابھریں گے​
۔اقبال ایرانی عوام سے اپنے لگاو کو بیان کرتے ہیں اور کہتے چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شمااے جوانان عجم جان من و جان شماایران اس وقت ایک ایسے قید خانے کی طرح تھا جہاں نئے افکار جنم لے رہے تھے اقبال فرماتے ہیں می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکنددیدہ ام از روزن دیوار زندان شمااقبال کے دیوان میں بہت سی مثالیں ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ وہ ہندوستان سے نا امید ہوچکے تھےاور ایران کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ مشعل جس کو انہوں نے جلارکھا ہے ایران میں مزید روشن ہو اور انہیں اس بات کی امید ہے کہ ایران میں کوئی معجزہ رونما ہو اقبال نے ایک فلسفہ کی بنیاد رکھی ،خودی کا فلسفہ اقبال کے مد نظر مفاہیم سو فیصد انسانی اور اجتماعی مفاہیم ہیں اور یہ بالکل وہی چیز ہے جو اس زمانے کی اسلامی دنیا میں نہیں تھی یعنی مسلمانوں کو کسی چیز کا دعوی نہیں تھا ،ان کی کوئی بڑی آرزو نہیں تھی اور ان کی آرزو زندگی کی معمولی اور حقیر آرزوئیں تھیں جب وہ اسلامی نظرئیے کی آفاقیت کو بیان کرتے ہیں تو بلا شبہ ان کے کلام میں شاید سو بار سے زیادہ اسلام اور مسلمان کی آفا قیت اور اس کے عالمی وطن کا ذکر آیا ہے​
آجاقبال کے ’’خودي ‘‘کے پيغام کو ایرانی قوم نے ميدان عمل ميں اور حقيقت کي دنيا ميں عملي جامہ پہنايا۔ ايراني عوام آج مکمل طور اپنے پيروں پر کھڑے ہيں ،اپني ثقافت اور اپني چيزوں پر بھروسہ کرتے ہيں اور اس تمدن پر جس کو آئيڈيالوجي اور فکر کي بنياد پر استوار کرسکتے ہيں ۔اگرچہ ماضي ميں مادي زندگي اور زندگي گزارنے کے لحاظ سےایرانی قوم کی تربيت دوسروں کے سہارے پر کی گئي۔آپ اگر دیکھیں تو انقلاب ایران ،اقبال کے افکار کا پرتو ہے مسلم دنیا میں کئ ایسے ممالک ہیں جن کے پاس لا محدود وسائل ہیں مگر خودی کا جو عکس آپ کو ایرانی قوم میں نظر آئے گا وہ دوسرے اسلامی ممالک میں ابھی نہیں پیدا ہواآپ یقیناً اس سے آگاہ ہونگے کہ ایران کے مذہبی پیشوا جناب خامنہ ای نے اقبالیات میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور اقبال کو اپنا رہنما سمجھتے ہیں آپ کا شمار عاشقان اقبال میں ہوتا ہے شاید اسی خواب کو علام اقبال نے کہا ہو​
تہران ہو اگر عالم مشرق کا جینیوا​
شائد کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے​
یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر سر دست یہ بتاے کی جسارت کی ہے کہ غالب اور اقبال نے فارسی میں زیادہ کلام کیوں کہا۔​
رہی بات اردو کی تو اردو محبتوں کی زباں ہے ،رابطوں کی زبان ہے زندہ اور متحرک زبانہے​

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے​
شمع یہ سودائ دل سوزٰپروانہ ہے​
والسلام سید زبیر اشرف
 

محمد وارث

لائبریرین
syed Zubair صاحب آپ کا یہ مراسلہ پہلے ہی سے یہاں موجود تھا لہذا یہاں کی پالیسی کے مطابق نئے تھریڈ کو اس پرانے میں ضم کر دیا ہے۔
 
Top